مایا شہر اور ذراعت

مایا شہر

مایا تہذیب کے دوسرے کلاسیکی دور میں مایا قوم نے زبردست ترقی کی۔ اس دور میں انہوں نے شہر بسائے۔ ان میں سے بہت سے شہر بے حد گنجان آباد تھے۔ مثال کے طور پر ٹکل شہر صرف چھ اسکوائر میل پر پھیلا تھا اور اس میں دس ہزار کے لگ بھگ مندر، رہائشی یونٹ، اور اہرام تعمیر تھے۔ اس شہر کی آبادی ساٹھ ہزار کے لگ بھگ تھی۔ اس وقت پوری دنیا میں کسی شہر میں اتنی گنجان آبادی نہیں تھی۔

مایا قوم اپنے دوسرے کلاسیکی دور کے آغاز میں ایک موروثی بادشاہی نظام اپنا لیتی ہے۔ اس تہذیب کے لوگ یوٹکان کے علاقے میں کئی ریاستیں قائم کرتے ہیں۔ ہر ریاست کا ایک بادشاہ ہوتا تھا۔ اور بادشاہ کی رہائش ریاست کے مرکزی شہر میں ہوتی تھی۔ ریاست کے چہار طرف دیہی آبادی بستی تھی جو کہ ماہر کاشتکار تھے ان کی ذرعی مہارت پر آگے بات ہوگی۔ بڑے ذرعی یا دیہی علاقوں کے بیچ میں شہری آبادیاں ہوتی تھیں۔ شہر کو عموما ڈھلوانوں کی ایک سیریز میں بنایا جاتا تھا۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ یہ پورا علاقہ برساتی جنگلات پر مشتمل تھا اور اگر ایسا نہ کیا جاتا تو شہری آبادیاں سیوریج کے مسئلے سے بالکل مفلوج ہوجاتیں۔ بلند مقامات پر اہم عمارتیں مثلا مندر، اہرام، بال گیم کھیلنے کے میدان، شاہی رہائش گاہیں اور اجرام فلکی کا مطالعہ کرنے کے لئیے مشاہدہ گاہیں تعمیر کی جاتی تھیں۔ اس کے بعد رہاشی یونٹ ہوتے تھے جو شہر کے آخری سرے تک جاتے تھے جہاں سے آگے پھر ذرعی علاقہ شروع ہوتا تھا۔

شہر میں تعمیرات کے لئیے کوئی خاص منصوبہ بندی نہ ہوتی تھی۔ سوائے ڈھلوان کے باقی تعمیرات میں گرڈ سسٹم کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا تھا جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ان شہروں کی گزرگاہیں پرپیچ رہی ہوں گی خصوصا ٹکل جیسے بڑوں شہروں میں۔ شہروں کی کوئی باقاعدہ حدبندی نہ ہوتی تھی اور سوائے چند ایک آثار کے تقریبا تمام شہروں کے گرد کوئی فصیل یا قلعہ نہیں ہوتا تھا۔ یہ لوگ عمارتیں بنانے کے لئیے چونا اور چونے کے پتھروں کا استعمال کرتے تھے۔ انہوں نے چونے سے سیمنٹ جیسا ایک میٹریل تیار کیا تھا جو بڑی تعمیرات میں استعمال ہوتا تھا۔ ان تعمیرات میں حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان کی تعمیر میں کسی قسم کے دھاتی اوزار کا استعمال نہیں ہوا۔ ان تعمیرات کے لئیے بہت زیادہ افرادی قوت کی ضرورت تھی جو ان شہروں میں وافر مقدار میں پائی جاتی تھی۔ ان عمارتوں کی تعمیر ڈیکوریشن، آرائش اور آرٹ کا بہت خیال رکھا جاتا تھا۔ دیواروں پر پینٹینگز بنائی جاتی تھیں انہیں رنگ کیا جاتا تھا۔

ذراعت:

خوراک کے لئیے مایا تہذیب کا انحصار ذراعت پر تھا۔ یہ لوگ ماہر کاشتکار تھے۔ ان لوگوں نے کاشتکاری کے لئیے زیادہ تر جو تکنیک اپنائی اسے سلیش اینڈ برن کہا جاتا ہے۔ اس طریقے میں جنگل کا ایک رقبہ کاشتکاری کے لئیے درختوں سے صاف کردیا جاتا تھا۔ اس کے چند ہفتوں بعد وہاں موجود جنگی پھلوں کو جلادیا جاتا تھا جس سے زمین کی زرخیزی میں اضافہ ہوتا تھا۔ بعدازاں اس جگہ پر کاشتکاری کی جاتی تھی۔ تاہم یہ طریقہ ذراعت ہی ان کے لئیے خوراک کا اہم ذریعہ نہیں تھا۔ جہاں مناسب زمین ملی وہاں مایا قوم نے مستقل بنیادوں پر کاشتکاری بھی کی اور کئی مقامات پر بڑے رقبوں کو مستقل کاشتکاری کے لئیے تیار کیا گیا۔ اس کے علاوہ گھنے جنگلوں میں انہوں نے بڑے رقبوں پر پھلوں کے باغات تیار کئیے۔ دیگر کئی طرح کی کاشتکاری کے شواہد بھی ملے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ لوگ مکئی، سورج مکھی کے بیج، کاٹن وغیرہ کی فصلیں تیار کرتے تھے۔ کلاسیکی دور میں مایا لوگ ذراعت کے لئیے مختلف علاقوں میں وہاں کے موسم، آپ و ہوا اور اپنی آبادی کے لحاظ سے کاشتکاری کرتے تھے۔ لیکن پھر بھی ماہرین اس بارے میں سوچ رہے ہیں کہ ہوسکتا ہے خوراک کی قلت کے سبب مایا تہذیب کو اپنے عظیم الشان شہر چھوڑ کر جانا پڑا ہو؟

علم فلکیات، ریاضی اور کاسمولوجی کے بارے میں مایا قوم کی تحقیق، اور مایا کلینڈر ہماری اگلی پوسٹ کا موضوع ہوگا۔

تحریر: نعمان | موضوعات: تاریخ

تبصرے:

Comments are closed.