شہر قائد کی خبر

کل ہمارے شہر کے لوگوں کا حوصلہ خوش مزاجی اور پرامیدی دیکھنے والی تھی۔ میں نہیں سمجھتا دنیا کے کسی اور شہر میں ایسا ہوسکتا ہے کہ لوگ اپنے گھروں سے میلوں دور، خراب گاڑیاں لئیے، گھٹنوں سے اوپر پانی میں ڈوبے، ایک دوسرے کی مدد کررہے ہوں۔ کوئی کسی کی گاڑی کو دھکا لگا رہا ہے۔ کوئی خواتین کے لئیے راستہ بنا رہا ہے۔ کوئی سڑکوں پر کھلے گٹروں پر ڈنڈا تھامے کھڑا ہے کہ کوئی ان میں گر نہ جائے۔ آٹھ اکتوبر کے زلزلے کے بعد یہ دوسرا موقع ہے کہ اس شہر کی اصل روح یوں نمودار ہوئی ہے۔ ایم اے جناح روڈ پر دکان آتے ہوئے میں پانی میں ڈوبی ایک سڑک پار کررہا تھا۔ اندر گلی سے سڑک پر پانی تیزی سے بہتا ہوا آرہا تھا جس سے لگتا تھا کہ پیر پھسل جائیں گے میں فٹ پاتھ کے قریب پہنچ ہی چکا تھا کہ میرے پیر ڈگمگا گئے اور ایک انکل نے فٹ پاتھ سے میرا ہاتھ تھام لیا ورنہ شاید میں زخمی ہوجاتا۔

دیکھیں مزید پوسٹس میٹروبلاگنگ کراچی پر

کل کی طوفانی بارشوں کے بعد کراچی کی شہری حکومت نے کافی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ گرچہ اتنی بھی اچھی نہیں مگر قابل ستائش۔ میں آج دکان جانے کے لئیے نکلا تو کافی حد تک پانی ٹھکانے لگایا جا چکا تھا۔ میری دکان کے قریب نالے کی راتوں رات صفائی کی گئی ہے اور کئی جگہوں پر بڑے بڑے پمپ لگا کر پانی کی نکاسی کو تیز تر بنایا گیا۔ گرچہ پچھلے دو ہفتوں کے دوران ان کی کارکردگی پر کافی لے دے ہوچکی ہے مگر شہری حکومت کا موقف کہ کنٹونمنٹ ان کے اختیارات کے اندر نہیں آتے بھی کافی جاندار ہے۔ ٹریفک جام کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ مزید بارش کے خوف سے لاکھوں لوگ دکانیں، آفس اور کارخانے بند کر گھروں کے لئیے نکل کھڑے ہوئے۔ بسوں، ویگنوں اور کوچز اتنے لوگوں کو سوار کرنے سے قاصر تھیں اور جن لوگوں کے پاس اپنی ذاتی گاڑیاں تھیں ان کی گاڑیاں بیچ سڑکوں میں بند ہوگئیں جس سے صورتحال اور خراب ہوئی۔

ہمارے گھر کا ٹی وی کیبل سروس بھی آج بحال ہوگئی مگر میرا کیبل نیٹ والا ابھی تک سروس بحال نہیں کرسکا ہے۔ ویسے بھی میں اب سائبر ڈی ایس ایل لینے کی سوچ رہا ہوں۔ آج وہاں جانا تھا مگر فون کیا تو پتہ چلا آج وہاں چھٹی ہے۔ اب کل وہاں جانا ہے۔ آج چونکہ میں فارغ ہی تھا تو الیکٹرونکس مارکیٹ چلا گیا وہاں سے گھر کے لئیے ڈی وی ڈی پلئر لینا تھا اور میری خالہ کے لئیے موبائل فون بھی خریدنا تھا۔ موبائل مارکیٹ میں لوگوں اژدھام تھا ایسا لگتا تھا یہاں موبائل مفت بانٹے جارہے ہیں۔ آج ہماری دکانداری بھی خوب ہوئی۔ جیو ٹی وی پر یہ پیشن گوئی سننے کے بعد کہ آئندہ چھتیس گھنٹوں میں مزید بارش کا امکان ہے، لوگ جلدی ہی دودھ لے گئے اور ہم رات دس بجے ہی فارغ ہوگئے۔ ویسے کل ہم نے گھر پر اپنی دکان کے دودھ کے بجائے اولپرز استعمال کیا جو کہ انتہائی بدمزہ دودھ ہے اس سے اچھا تو گڈملک ہے۔

روز روز گڈ ملک پیا کرو! ہیلدی لائف جیا کرو

تبصرے:

  1. یار جي میں تو پہلے ہي کہتا هوں که پاکستان میں دو قومیں بستي هیں ایک حکومتي لوگ اور دوسرے پاکستاني اور یه جو پاکستاني ہیں ناں یه دنیا کي نائس ترین قوم ہیں ـ ان پاکستاني لوگوں کو جب بھي موقعه ملے آپني بهائي چارے کي روایت کو ذنده کر دیتے هیں ـ
    دو قومي نظریه
    میں نے یه پوسٹ دو ہزار چار میں لکهي تھي

  2. یار بارش کے بعد ہمیں بھی ٹاور سے ملیر(ماڈل کالونی اپنی رہائش گاہ پر) جانے کا اتفاق ہوا سات بجے سفر شروع کیا اور رات ایک بجے گھر میں داخل ہوئے!!!! ساٹھ فیصد سفر پیدل کیا تھا!!! اس بار شہر کی انتظامیہ کی کارکردگی واقعی اچھی تھی دو چار تضربہ اور ہو جائے تو ٹھیک کام ہو جائے گا!!!

  3. شعیب یعنی شہر کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک۔ شاید آپ نے مجھے دیکھا ہو ریڈیو پاکستان کے پاس ایک موٹا سا لڑکا چشمے لگائے لڑھک پڑھک کر دکان جاتا ہوا؟؟ دیکھا تھا کیا؟

Comments are closed.