بھکاریوں کے ملک میں مہدی حسن کے بچے

آجکل ہر گلی کے کونے پر آپ کو ایسے بینروں اور پوسٹروں کے ہجوم نظر آئیں گے جس میں نادار مریضوں، غریبوں، مسکینوں اور بیواؤں کے لئیے آپ سے فطرہ، زکوۃ صدقہ خیرات وغیرہ طلب کیا جاتا ہے۔ شوکت خانم میموریل ہسپتال سے لیکر سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن تک، سول ہسپتال سے لے کر انصار برنی ویلفیئر ٹرسٹ تک۔ سب بھکاریوں کی طرح ہاتھ پھیلائے کھڑے ہیں۔ سیاسی تنظیموں کے خدمت گار اہلکار جیسے خدمت خلق فاؤنڈیشن اور الخدمت ویلفئر سوسائٹی گلی گلی محلے محلے دکانداروں سے چندہ مانگتے پھر رہے ہیں۔ دعوت اسلامی، تبلیغی جماعت، الدعوہ اور پتہ نہیں کون اللہ رسول کے نام پر آپ کے مال سے غریبوں کا حصہ طلب کررہے ہیں۔ یہ وہ بھکاری ہیں جو جدید ذرائع ابلاغ کے استعمال سے لیکر اپنے تنخواہ دار رضاکاروں سے کام لے کر آپ کی زکوۃ خیرات کا زیادہ سے زیادہ حصہ سمیٹنے کے چکر میں ہیں۔

اندروں سندھ اور پنجاب سے آنے والے بھکاری ہزاروں کی تعداد میں آنے کے باوجود اس قدر منظم نہیں۔ تاہم آپ کا جو وقت پیشہ ور بھکاری تنظیموں کے اشتہارات پڑھنے سے بچ جاتا ہے وہ وقت آپ ان بھکاریوں کا جھڑکنے میں صرف کرسکتے ہیں۔ اگر اس دوران باہر سے کوئی اجنبی ہمارے ملک میں وارد ہو تو وہ یہی سمجھے گا کہ بھیک مانگنا بھی رمضان کے فیسٹیول کا ایک حصہ ہے۔ اور ایک بڑی صنعت بھی جس سے ہزاروں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔ پوسٹر چھاپنے والے، بینر بنانے والے، ایڈورٹائزنگ ایجنسی والے، ٹی وی والے، ریڈیو والے، اخبارات و رسائل والے سب اس بھیک مانگنے کے فیسٹیول میں دھڑا دھڑ نوٹ بنا رہے ہیں۔

میں بھکاریوں کی اس یلغار سے بہت تنگ اور اپنے ملک کے اس بھکاری کلچر پر فکر مند اپنی دکان پر کھڑا تھا۔ کہ مہدی حسن خان صاحب میری دکان پر تشریف لائے۔ نہیں نہیں، ہمارے نصیب میں ایسے اعزازات کہاں۔ یہ مہدی حسن خان صاحب نہ تو گائیکی سے تعلق رکھتے ہیں اور نہ ہی ان کے گلے میں بھگوان بولتا ہے۔ یہ بیچارے تو پرانے سے شلوار قمیض میں ملبوس چہرے پر حسرت و ياس لئے اللہ رسول کے نام والے طغرے اور خطاطی کے نمونے چل پھر کر فروخت کرتے ہیں۔ راقم کی ان سے شناسائی ایک طویل عرصے سے ہے۔ ان کی خود داری، شائستگی، سادگی اور عاجزی جیسی خوبیوں کی وجہ سے جب کبھی وہ میری دکان کے آگے سے گزرتے ہیں میں روک کر حال احوال پوچھ لیتا ہوں۔

کل کہنے لگے، نعمان بھائی بہت پریشان ہوں۔ میں دل میں سوچنے لگا کہ لو یہ صاحب بھی بھکاریوں کی صف میں جا کھڑے ہوئے۔
وہ گویا ہوئے، بچے ضد کررہے ہیں کہ اب کے عید پر کم از کم ایک ایک جوڑا تو نیا دلوا ہی دیں۔ اب کہاں سے دلواؤں۔

میں نے کہا بچوں کو سمجھاؤ۔ کہنے لگے کتنا سمجھاؤں؟ انسان ہوں تھک جاتا ہوں، مایوس ہوجاتا ہوں کہ کیا میں اتنا غریب ہوں کہ اپنے بچوں کو جھوٹی آس بھی نہ دلاسکوں۔

میں بولا کہ بھائی جھوٹی آس دلانے سے بعد میں ان کا دل بھی تو توڑو گے۔ تمہاری دو ڈھائی سو کی دیہاڑی سے گھر کا خرچہ مکان کا کرایہ اور بیوی کی بیماری کا ہی خرچہ پورا ہوجائے تو بہت ہے۔ کپڑے کہاں سے دلاؤ گے؟

کہنے لگا نہیں دلائیں گے مگر میرے بچے کم از کم برکتوں والا مہینہ تو اس خوشی میں گذار دیں گے کہ عید پر ہمارے نئے کپڑے بنیں گے۔

میں مسکراتے ہوئے بولا کہ مہدی حسن صاحب اب ایسا تو نہیں کہ آپ سڑکوں پر طغرے بیچتے ہوں اور کسی نے آپ کی فریاد نہ سنی ہو یا آپ نے کسی کے گوش گزار نہ کی ہو۔

کہنے لگے نعمان بھائی لوگ اپنی گاڑیوں کے شیشے اور تیوریاں چڑھائے رکھتے ہیں ایسے تیور دیکھ کر تو میں طغرے نہیں بیچ پاتا اور کہاں ان سے فرمائش کروں کہ وہ میری مدد کریں۔ جس طرح ہمارے یہاں لوگ کسی ضرورت مند کو خیرات یا زکوۃ دیتے ہیں بخدا اس ذلت آمیز روئیے سے تو بھوک ہی بھلی۔

میں نے کہا۔ تو بھائی تم مستحق ہو تمہارا حق بنتا ہے تمہیں مانگنے میں کیا شرم۔

بولے۔ بھائی کیا میری غربت کا فسانہ میرے بشرے سے عیاں نہیں؟ میں تو چلتا پھرتا پوسٹر ہوں اس قدرتی اشتہار کو لئے پھرنے کے بعد بھی مجھے کوئی روداد عرض کرنا پڑے گی۔ کیا یہاں سب ہی آنکھ کے اندھے اور دل کے پتھر ہیں۔ کیا میرے بچے میری کسمپرسی کسی کو نظر نہیں آتی؟ کیا عمران خان، انصار برنی، ادیب رضوی، عبدالستار ایدھی کی تنظیمیں مجھ سے زیادہ مستحق ہیں؟ کیا میرے بچوں کی خوشی سے بڑھ کر کسی کی ضرورت ہے؟

کاش میں مہدی حسن کو بتا پاتا کہ اس ملک میں ہر کسی کی ضرورت اس کے بچوں کی خوشی سے بڑھ کر ہے۔ کیوں کہ اس کے بچے جیو پر ایک کروڑ روپے کی اشتہاری مہم نہیں چلاسکتے، کیونکہ اس کے بچے پکک کمرشل بینک کے تعاون سے لاکھوں روپے کے اشتہارات نہیں شائع کراسکتے، کیونکہ اس کے بچے تحریک انصاف میں شامل نہیں اور نہ ہی عمران خان کی طرح وہ اپنی امداد کے لئیے بھارتی رقاصاؤں کی خدمات حاصل کرسکتے ہیں۔

مہدی حسن کی بیوی بریسٹ کینسر سے مر جائے گی۔ اس کے بچے اس کی یاد میں کوئی میموریل ہسپتال نہیں بناسکیں گے۔ وہ زندگی بھر کرائے کی جھگیوں میں چیتھڑوں میں ملبوس گزاردیں گے۔ وہ ہر رمضان رحمتوں اور برکتوں کا انتظار کرتے رہیں گے جو ساری کی ساری کروڑوں روپے کی اشتہار بازی کرنے والی تنظیمیں لوٹ کر لے جاتی ہیں۔ اور ان کے ہاتھ میں افطار کے وقت سوکھے پکوڑے اور پانی ہی رہ جاتا ہے۔

تبصرے:

  1. آپ نے پچھلے دس سال مين مہدی حسن طغرے بيچنے والے جيسے کتنے آدميوں کی خاطر خواہ مدد کی ہے ۔ اس سوال کا جواب آپ مجھے نہيں خود اپنے آپ کو ديجئے ۔ شائد پھر آپ کو سمجھ آ جائے کہ کيا کرنا چاہيئے ۔

  2. مجھے تو اس بارے میں کوئی تذبذب نہیں کہ کیا کرنا ہے۔ اور جو کرنا ہے میں اس پوسٹ کے ذریعے وہی کررہا ہوں 🙂

  3. آپ نے تو ہر ایک کو ہی لپیٹ لیا ہے ۔ بہت سی تنظیمیں اچھا کام کر رہی ہیں اور انکا کام نظر بہی آتا ہے۔ آپ نے تو طنز کے تیر برسا کر جان چھڑا لی یہ نہیں بتایا کے آپ کے خیال میں کیا کرنا چاہیے

  4. نون، میرے خیال میں جو تنظیم بھی اشتہار بازی پر خرچ کرتی ہے۔ وہ فضول اور بے کار ہے اور ان کا کام اشتہاروں میں ہی زیادہ نظر آتا ہے۔

    کیا کرنا ہے یہ سوچنا آپ کا کام ہے۔ میں کوئی مصلح نہیں۔ یہ تحریر میری فکر کا آئینہ ہے۔ آپ خود اپنی فکر کی روشنی میں سوچیں۔

  5. ہم آپ کي بات سے سو فيصد متفق ہيں اور بقول بنگلہ ديش کے محمد يونس نوبل پرائز يافتہ کے بھکاري کو مچھلي نہيں بلکہ کانٹا خريد کر دو تاکہ وہ مانگنا چھوڑ کر کام کرنا شروع کردے۔ ہم نے شائد ہي کبھي کسي بھکاري کو خيرات دي ہو بلکہ ہٹے کٹے بھکاريوں کو اکثر ڈانٹ بھي ديتے ہيں۔
    يورپ ميں آپ کو شاذونادر ہي بھکاري ملتے ہيں کيونکہ حکومت ہر ايک کے کھانے پينے کي ذمہ دار ہے اور دوسرے مانگلنے والوں کو لوگ اچھا بھي نہيں سمجھتے

  6. میری پہلی درخواست یہ ہے کہ ای میل کے لازمی ہونے کو تو ختم کیجئے۔ اس سے آپ کو کیا فائدہ ہے؟ لغو تبصرہ جات کو چھلنی کرنے کے اور بھی بہت طریقے ہیں۔

    بہت خراب صورتحال ہے۔ افضل صاحب کا پیش کردہ طریقہ کار بھی مجھے پسند نہیں۔ ان سب سے کچھ نہیں حاصل ہونے کا۔ اصل مسئلے کی طرف توجہ کریں جس کی طرف روسی ادیب چیخوف نے اپنی ایک مختصر کہانی میں بھی اشارہ کیا تھا۔ جس میں ژار کے دور کا ایک مصور گاؤں میں خیراتی ہسپتال بنانے کی مخالفت کرتا ہے۔ اس قسم کے کاموں سے صرف عوام کی بے قدری میں اضافہ ہوتا ہے۔

  7. آصف آپ کا شکریہ کہ آپ تشریف لائے اور اس بحث کو ضروری رخ دیا۔ 🙂

    میں یہی سوچتا ہوں۔ کہ آیا ہمارا دین ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ہم صدقہ خیرات کریں اور اللہ کی راہ میں مال خرچ کریں، یا یہ کہ ہر اٹھائی گیرا ہمیں دین دار سمجھ کر ٹھگتا پھرے؟ مجھے تو سخت غصہ آئے گا اگر مجھے پتہ چلے کہ میری محنت کی کمائی کسی غلط کام میں لگی۔ اور ہھر شرمندگی کی بات تو یہ ہے کہ اگر ہمارے پاس مال ہے تو ہم کیوں یہ کام اپنی گلی اپنے محلے اپنے پڑوس اپنے خاندان میں نہ کریں بلکہ اشتہار بازوں کو دے دیں جہاں یہ بھی پتہ لگانا دشوار ہے کہ وہ ہمارے پیسے کو اشتہاروں میں خرچ نہیں کریں گے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم اس رقم کو کس طرح صدقہ کریں۔ جس طرح ہمارے ملک میں اندھا دھند خیرات مانگی اور دی جارہی ہے اس کا ہمارے دین سے ہمارے رمضان سے کیا تعلق ہے۔ کیا یہ ہمارے دین سے متعلق ہے یا ہم بس عجیب لوگ ہوگئے ہیں جو کوئی کام ڈھنگ سے نہیں کرسکتے؟

    یہ سوالات ہمیں سوچنا ہیں۔ ان پر بات کرنی ہے۔ ہمیں یہ سوچنا ہے کہ ہمارا معاشرہ کس طرف جارہا ہے اور آیا ہمارے مال اور اعمال سے معاشرے میں کچھ اصلاح بھی ہورہی ہے یا بس ہم ایسے ہی اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔

  8. لازمی ای میل کی شرط ختم کردی گئی۔ ویسے اسے اس لئے رکھا ہوا تھا تاکہ بوقت ضرورت میں کسی تبصرہ نگار سے بذریعہ ای میل رابطہ کرسکوں۔ واقعی اسے نہیں ہونا چاہئے تھا بلکہ اسے تبصرہ نگار کی صوابدید پر چھوڑنا چاہئے تھا۔

  9. مہر افشاں، ان کے بچوں نے کل عید کے کپڑے بنالئیے آج جوتے، ٹوپی اور چپلیں لینے جائیں گے۔ آپ کا بہت شکریہ۔

  10. Hamara internet do din say kaam naheen karaha tha aaj bari mushkil say laga to sab say pahlay aap ka blog parha yeh jaan kar bayhad khoshi hoi kay kisi farishta sifat insan nay(jo kay galiban aap hi hain) un kay liay naay kapray banadiay Allah un ki or un jaisay dosray logon ki tamam mushkilain or paraishanian dor farmaain or naik logon ki tadad main izafa farmaain Aameen

Comments are closed.