چاند رات کو ہماری خوب سیل ہوئی۔ دوپہر دو بجے سے جو سیل ہوئی تو رات گیارہ بجے ختم ہوئی جس دوران ہم نے عام دنوں سے دوگنا دودھ بیچا۔ منافع بالکل کچھ نہیں ہوا۔ چاند رات کو رش کے درمیان کوئی ہمیں ہزار روہے کی ٹوپی پہناگیا۔ جب رات کو پیسے گننے بیٹھے تو اس میں ہزار روپے کا نوٹ ایسا نکلا جس میں کسی شر پسند شخص نے قائداعظم کی ٹوپی کو انگریزی فلیپ ہیٹ میں بدلنے کی کوشش کی تھی اور ان کے منہ میں زبردستی ایک سگار بھی گھسایا گیا تھا جس سے دھواں اٹھتا دکھائی دے رہا تھا۔ اگر وہ شخص جس نے مجھے یہ نوٹ دیا ہے کبھی یہ بلاگ پڑھے تو اس کے لئیے عرض ہے کہ بھائی اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے استعمال کے لئیے کوئی سستا کاغذ استعمال کیا کرو۔
میں سوچ رہا ہوں کہ نوٹ اپنی دکان پر نرخنامے کے نیچے چپکادوں اور اس کی سرخی یہ لکھوں:
قائداعظم ایک احسان فراموش پاکستانی آرٹسٹ کی نظر میں
(نوٹ: اگر آرٹسٹ یہ نوٹ دیکھیں تو فورا کلیم کریں کیونکہ ان کے اس نوٹ پر کئیے گئے کام کو عنقریب ہونے والی ذہنی معذور مصوروں کی نمائش کیلئیے منتخب کرلیا گیا ہے۔)
(نوٹ در نوٹ: اگر آپ اس پینٹنگ کرنے والے کو جانتے ہیں تو ہمیں مطلع کریں۔ اطلاع دینے والے کو مبلغ پانچ سو روپے نقد انعام دیا جائے گا۔ ان کی شناخت صیغہ راز رکھی جائیگی اور انہیں امریکہ کا ویزا بھی دیا جائیگا۔)
نماز سے پہلے عازب اور کامران کی سستی کی وجہ سے ہم مسجد بہت دیر سے پہنچے۔ اور جوتیاں اتارنے کی جگہ سے تھوڑا ہی آگے جگہ پاسکے۔ عازب تو اور بھی پیچھے رہ گیا تھا۔ شکر ہے یہ جگہ بھی مل گئی ورنہ باہر سڑک پر نماز پڑھنا پڑتی۔ نماز کے بعد گلے ملنے والوں نے گھیر لیا۔ لوگ یوں گھوم رہے تھے جیسے شکار کی تلاش میں ہوں ادھر کوئی شناسا چہرہ دکھا ادھر اسے دبوچ کر گلے سے لگالیا۔
عید کی نماز کے بعد مٹھائی لینے گئے تو وہاں ایسا رش لگا تھا جیسے مٹھائی مفت بنٹ رہی ہو۔ لوگ عید کی نماز کے کپڑے پہنے کارٹونوں کی طرح ہاتھ ہلا ہلا کر چلا رہے تھے۔ "دو کلو گلاب جامن! ایک کلو چم چم!” اگر صرف یہ لوگ قطار بنانا جانتے تو سب کو مٹھائی طریقے سے بھی ملتی اور وہ یوں چیخ چیخ کر ہلکان بھی نہ ہوتے۔ گھر آکر سویاں، قیمہ پراٹھا، آلو کی ترکاری اور کچوریاں کھائیں۔ مٹھائی چکھی۔ اس کے بعد میں ایک دوست کے ساتھ گیا۔ وہاں سے چار بجے آیا اور سوگیا۔ نو بجے دکان گیا اور پھر گھومتا گھماتا اب گھر پہنچا ہوں۔
بےچارے دکاندار عید پر بڑے برے پھنستے ہیں۔ میرے گاہگ جن کے میں نام بھی نہیں جانتا بلکہ صرف اسلئیے مسکراتا ہوں تاکہ وہ اچھا فیل کریں یہ سمجھ کر کہ میں انہیں اچھی طرح جانتا ہوں عید پر گلے ملنا چاہتے ہیں۔ اور یہ بہت مشکل کام ہے۔ بار بار کاؤنٹر کے پیچھے سے نکل کر گھوم کر جانا اور پھر عید مبارکباد کرنا۔ آج میں نے شاید دس ہزار لوگوں سے گلے ملے ہونگے اور گلے مل مل کر عید مبارک کہہ کہہ کر اور جھوٹ موٹ مسکرا مسکرا کر میرا تو منہ دکھ گیا ہے۔ لیکن ابھی تھوڑی ہمت باقی ہے اسلئیے آپ لوگوں کو ڈس اپائنٹ نہیں کرونگا۔
تو آرٹسٹ آپ کو دغا دے گیا ۔ مجھے تو آرٹسٹ ویسے ہی اچھے نہیں لگتے ۔ اوٹ پٹانگ رنک لگا کر کہہ دیتے ہیں یہ ابسٹریکٹ آرٹ ہے ۔ معلوم خود کو بھی نہیں ہوتا کہ کیا بنایا یا ۔
میرا تو خیال آپ کا مہمان بن کر ایک گلاس زبردست لسی پینے کا تھا مگر آپ کے نقصان کی وجہ سے ارادہ بدلنا پڑا ۔
جی ۔ 9/4 اتلمعروف پشاور موڑ میں ایک دہی کی دکان ہے جہاں بہت گاہک آتے ہیں اور اور جو شخص قطار میں کھڑا نہ ہو اس کو دکاندار دہی نہیں دیتا اور بعض اوقات اس کی بے عزتی بھی کر دیتا ہے ورنہ ہماری قوم اور تنظیم ؟ یہ متضاد چیزیں ہیں ۔
دغا؟؟ نہیں نہیں آپ غلط سمجھے وہ مجھے ٹوپی پہنا گیا ٹوپی پہنانا وہ دھوکا دینا ہوتا ہے کہ جس میں مظلوم کو اینڈ میں اپنی حماقت پر غصہ آتا ہے۔ ورنہ تو ہزار روپے کوئی ایسی بڑی رقم نہیں کہ میں اسے دغا کہوں اور پھر جو سبق وہ مجھے سکھا گیا ہے سمجھ لیں یہ ہزار روپے اس کی فیس ہوگئی۔ آپ لسی پینے کبھی بھی تشریف لائیں مجھے بہت خوشی ہوگی۔ یہ پشاور موڑ اگر اسلامآباد میں ہے تو میں کچھ کہہ نہیں سکتا ویسے کراچی میں بھی دو دکانیں ایسی ہیں جہاں قطار بنائے بغیر دودھ دہی نہیں ملتا۔