انٹرنیشنل کرائسس گروپ کی رپورٹ جس میں پاکستان کے قبائلی علاقہ جات میں طالبان اثر رسوخ بڑھنے پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ رپورٹ سے ایک اقتباس ترجمہ کررہا ہوں:
افغانستان کی جنوب مشرقی سرحد پر واقع پاکستان میں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) کے سات ڈسٹرکٹ میں طالبان اور غیرملکی جنگجوؤں، بشمول القاعدہ کے ہمدردان نے سن دوہزار ایک سے پناہ لے رکھی ہے۔ خطے کو دوبارہ مجتمع، منظم اور مسلح ہونے کے لئے استعمال کرتے ہوئے، پاکستانی جنگجوؤں کی عملی مدد اور حمایت سے وہ افغان اور بین الاقوامی ملٹری اشخاص پر شدید حملے کررہے ہیں۔ مشرف حکومت کی متضاد روش اور موثر ایکشن لینے میں ناکامی افغانستان کو غیر مستحکم کررہی ہیں۔ کابل اتحادی، بالخصوص ریاستہائے متحدہ اور نیٹو کو جو کہ اب سرحدی علاقوں کی محافظت کی ذمہ دار ہے، کو اس پر طالبان کے حامی جنگجوؤں کی سرکوبی کے لئے مزید دباؤ ڈالنا چاہئے۔ لیکن بین الاقوامی برادری پر بھی اس کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ وہ پاکستان میں جمہوری حاکمیت کی حمایت میں بالخصوص قبائلی پٹی کے شورش زدہ علاقوں میں، ناکام ہوگئے ہیں۔
رپورٹ کے مزید حصے یہ بیان کرتے ہیں کہ کس طرح پاکستان آرمی نے طالبان کے حامی عناصر سے مذاکرات کے بعد بیرکس کو واپسی کی راہ لی ہے اور جنگجو عناصر کے لئے میدان صاف چھوڑ دیا ہے۔ مکمل رپورٹ پڑھنے کے لئے اسے ورڈ یا پی ڈی ایف فارمیٹ میں ڈاؤنلوڈ کریں۔
صوبہ سرحد اور شمالی علاقہ جات میں طالبانائزیشن کے بڑھتے ہوئے اثر رسوخ پر میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں(دیکھیں یہاں اور یہاں)۔ مجھے اس بات میں اتنی دلچپسپی نہیں کہ طالبان کی سرکوبی کے نیٹو کو کیا فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ مجھے تشویش اس بات پر ہے کہ اگر ان عناصر کی سرکوبی نہیں کی گئی تو جس طرح آج ہم جنرل ضیاء کو ان کی افغان پالیسی کے ساتھ کلاشنکوف کلچر کے لئے یاد کرتے ہیں تو ایسے ہی کل ہم جنرل مشرف کو ان کی افغان پالیسی کے ساتھ طالبان کلچر کے لئے یاد کررہے ہونگے۔ جنرل مشرف کو اسلئے بھی ان عناصر کے ساتھ سختی سے نمٹنے کی ضرورت ہے کیونکہ ہماری افغان حکومت اور بین الاقوامی برادری کے ساتھ ایک کمٹمنٹ ہے کہ ہم افغانستان کے استحکام کے لئے دراندازی کو روکیں گے۔ ہمیں یہ وعدہ پورا کرنا ہوگا ورنہ ہوسکتا ہے افغانستان میں تو طالبان آجائیں مگر پاکستان کی معیشت اور معاشرے پر اس کے ہولناک اثرات مرتب ہوں۔