پہلے کبھی ہم پاکستانی اپنی گائے بھینسوں کے بارے میں فکر مند رہا کرتے تھے۔ مگر گوشت مہنگا ہونے کے سبب ہم نے دھڑا دھڑ گائے بھینسیں عربوں کو ایکسپورٹ کرنا شروع کردیا ہے۔ اسلئے بے فکری کے ان دنوں میں آجکل ہم عورتوں کے بارے میں فکر مند رہتے ہیں۔ خواتین کے تحفظ کو ہم نے کئی بل کھودے ہیں۔ پہلے حدود پھر حدود ترمیمی بل اور اب ایک اور بل جلد ہی چوہدری برادران کی زنبیل سے برآمد ہونے والا ہے۔
مجھے ان سب بلوں پر اعتراض ہے۔ میرے خیال میں ہمیں معاشرے، بالخصوص عورتوں کو تعلیم دینے کی ضرورت ہے۔ ہمارے معاشرے میں عورت کے بارے میں ایسا رویہ بنتا جارہا ہے کہ وہ کوئی غیر انسانی مخلوق ہے۔ جس کے پاس نہ عقل ہے اور نہ جسمانی طاقت۔ اسے گھر تک محدود کردیا گیا ہے، اس کی ذہنی، جسمانی، اور تخلیقی قوت کو اظہار کے لئے چار دیواری تک محدود کردیا گیا ہے۔ کوئی قانونی تحفظ عورت کو وہ وقار نہیں دے سکتا جو عورت خود اپنے لئے حاصل کرسکتی ہے۔ مگر مردوں کے اس معاشرے کو ڈر ہے کہ کہیں میدان عورتوں کے ہاتھ آیا تو ان کی نالائقی کا پول نہ کھل جائے۔
خاور کا تعلق پنجاب کے دیہات سے ہے۔ وہ دنیا بھر گھوم چکے ہیں اور تقریبا ہر ملک کی عورتوں کا قریب سے جائزہ لے چکے ہیں۔ ہر پاکستانی کی طرح انہیں بھی عورتوں کی فکر ستارہی ہے، مگر ان کا تجزیہ مختلف اور بہت مضبوط ہے۔ وہ یہ بات پیش کرتے ہیں کہ پہلے پاکستانی عورت دن بھر میں اتنا کام کیا کرتی تھی اور آجکل کی عورت کو مردوں نے اتنی آسائشیں فراہم کردی ہیں کہ وہ کچھ نہیں کرتی۔
خاور نے بہت عمدہ لکھا ہے۔ مگر میں یہ سمجھتا ہوں کہ سہولیات زندگی میں آسانی پیدا کرتی ہیں۔ اور پاکستانی مرد نے بھی ان سہولیات کا اتنا ہی فائدہ اٹھایا ہے جتنا عورتوں نے۔ ان آسانیوں کے بعد مردوں کی بہ نسبت ہماری عورتوں کو یہ آزادی نہیں کہ وہ اپنے فارغ وقت کو کسی اچھے مصرف میں لاسکیں۔ اس کی سب سے اہم وجہ تو تعلیم کا نہ ہونا ہے اور دوسری وجہ مردوں کی مداخلت ہے۔ پاکستانی مردوں نے جرنیل ضیاء کے دور سے آہستہ آہستہ عورتوں کو گھر کی دیواروں میں چننا شروع کردیا۔ حکومت نے اپنی اسلامائزیشن میں اس کی حوصلہ افزائی کی۔ اب ہماری عورتیں پیسہ کمانے کو نہیں نکل سکتیں، محنت مزدوری مرد اسلئے نہیں کرنے دیتے کہ لوگ کیا کہیں گے، پڑھا لکھا انہوں نے کچھ ہے نہیں اب لے دے کے وہ سویٹر بن سکتی ہیں، سلائی کڑھائی کرسکتی ہیں مگر یہ سب کام بھی انسان کتنا کرے گا جبکہ آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ یہ کام گھر پر کرنے کی نسبت بنا بنایا بازار سے خریدنا سستا پڑتا ہے۔
اب آپ کہیں گے کہ یار اگر عورت کو باہر نکال دیا یا اسے معاشی طور پر بااختیار بنادیا تو ہمارا حشر بھی یورپ جیسا ہوگا۔ (میں یہ لائن سن سن کر تنگ آگیا ہوں)۔ تو ہمیں اپنے مسائل کے لئے یورپ جیسے حل ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں۔ کئی ایسے طریقے ہیں جن سے ہم اس مسئلے کو بھی اپنے کلچر اور روایات کو عزیز رکھتے ہوئے حل کرسکتے ہیں۔ جیسے کئی عورتیں گھریلو دستکاریوں سے بھی پیسے کماتی ہیں۔ خواتین کے شاپنگ سینٹرز ہر بڑے شہر میں ہوتے ہیں۔ حتی کہ اگر آپ چین میں دیکھیں تو وہاں تو عورتیں وزن اٹھانے کے کام بھی کرتی ہیں۔
ایک اور چیز جس سے پاکستانی مرد سب سے زیادہ خوفزدہ ہے وہ ہے عورت کی خودمختاری۔ پاکستانی معاشرے میں مردوں کے ذہن میں ایسی سوچ پائی جاتی ہے کہ اگر عورت خودمختار ہوجائے تو وہ گھر کی عزت سڑکوں پر اچھالتی پھرے گی۔ یا یہ کہ خودمختار عورت اپنے مرد کی عزت نہیں کرے گی۔ گویا اس کا مرد نہ ہوا، آقا ہوگیا۔ عورت کے ناقص العقل ہونے پر تو پاکستانی مردوں کا ایمان کامل ہے۔ ہر پاکستانی مرد اپنی زندگی کا اہم وقت اور حصہ اس کام میں ضائع کردیتے ہے کہ گھر کی عزت بہن، بیٹی، بہو یا بیوی کے ہاتھ مجروح نہ ہو۔ اور اس احساس میں وہ عورتوں کے استحصال کو غیرت، مذہب، روایات کے نام پر جائز قرار دئيے چلا جاتا ہے۔
عورت کو اگر پاکستانی مرد اعتماد دیں گے تو مجھے کوئی شک نہیں کہ پاکستانی عورتیں اس ملک کی کایا پلٹ سکتی ہیں۔ انہیں انجینئرنگ پڑھائیں تو انہیں انجینئر بن جانے دیں۔ ڈاکٹری پڑھائیں تو پریکٹس کرنے دیں۔ انہیں بغیر کسی معاشی ضرورت کے بھی نوکری کی اجازت دی جائے انہیں میدان عمل میں اپنی صلاحیت اپنا ہنر منوانے کا موقع دیا جائے۔ اگر پاکستانی مرد عورتوں کو اعتماد دیں گے تو وہ عزت اور وقار خود حاصل کرلیں گی اور پھر مردوں کو ان چھوٹے چھوٹے بلوں میں پناہ نہ لینی پڑے گی۔
جناب فکر نھ کریں اب وقت بدل رھا ھے اور تیزی سے بدل رھا ھے۔ اب محبت کی شادیاں زیادھ ھورھی ھیں۔ اب عورتیںکرکٹ میچ مردوں کے درمیان بیٹھ کر دیکھ رہی ہیں۔ اب بازار میںعورتیں پہلے کی نسبت زیادہ نظر آتی ہیں۔ ابھی ستمبر میں واہ کینٹ جانے کا اتفاق ہوا تو گیٹ پر عورتوں کو پرچی کاٹتے پایا۔ ہمارے ٹی وی ڈرامے اور فلمیں اس بات کی گواہ ہیں کھ اب عورت آزاد ہورہی ہے۔
یہ بات ساری دنیا مانتی ہے کھ عورت کا پہلا کام اپنے بچوں کی صحیح طرح سے پرورش کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے جب یورپ میں عورت بچے پیدا کرتی ہے تو وہ گہر بیٹھ جاتی ہے اور تب تک دوبارہ کام پر نہیں جاتی جب تک اس کے بچے بڑے نہیںھوجاتے۔
اگر میڈیا کے معاشرے پر اثرات کا یہی حال رہا تو وہ وقت دور نہیں جب عورت پاکستان میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کررہی ہوگی۔
معاشرے میں سب کو برابر کے حقوق تبھی ملیں گے جب ہماری آنے والی نسل کی تربیت ٹھیک طرح سے ہوگی اور یھ تربیت ماں کی گود سے شروع ہوتی ہے۔ اسلئے اگر عورت نے اپنے حقوق کی جنگ جیتنی ہے تو اسے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر زیادہ دھیان دینا ہوگا۔
آپ بھی ہمارے حکمرانوں کی طرح بند کمرے ميں بيٹھ کر کہانياں لکھتے رہتے ہيں ۔ آپ کس عورت کی بات کر رہے ہے جو جنرل ضياء الحق کے دور سے چارديواری ميں بند کر دی گئی ہے ؟ اسلام آباد راولپنڈی تو ميرا رہائشی علاقہ ہے ۔ زيادہ پرانی بات نہيں پچھلے دو سال ميں کراچی ۔ لاہور ۔ گوجرانولہ ۔ سيالکوٹ ۔ پشاور ۔ ايبٹ آباد ۔ نتھيا گلی ۔ مری اور واہ کينٹ ميں گھوما پھرا ہوں اور بے شمار عورتوں کو بغير سر ڈھانپے اور کئی کو بغير دوپٹے کئی کو تنگ پتلونيں پہنے مردوں سے شانہ بشانہ سڑکوں پر ۔ ہوٹلوں اور دفتروں ميں گھومتے ۔ کھاتے پيتے اور کام کرتے ديکھا ہے ۔ گرد وپيش کی پرواہ کئے بغير بلند آواز ميں قہقہے لگاتے بھی سنا ہے ۔ پھر جو لڑکياں بنک والوں نے جوانوں کو کريڈٹ کارڈ دلوانے يا کار فنانسنگ کروانے کے لئے ٹيليفون کر کے پيچھے پڑ جانے کيلئے رکھی ہيں کيا ان سب کو مردوں نے گھروں ميں بند کيا ہوا ہے ؟
کراچی کی ايک مشہور مارکيٹ جہاں ہر وقت عورتوں کی بھيڑ رہتی ہے وہاں عورتيں عورتوں کے ہينڈ بيگوں ميں سے ان کے پيسے اور موبائل فون بھی نکالتی ہيں ۔ ايسی عورتيں بھی ہيں کہ رات کے وقت کسی سڑک پر کھڑی ہو جاتی ہيں اور اگر اکيلا مرد يا لڑکا کار چلاتا ہوا گذرے تو کار کے آگے کھڑے ہو کر روک ليتی ہيں اور انہيں شور مچانے کا ڈراوا دے کر يا پستول کی نوک پر لوٹ ليتی ہيں ۔
کس لحاظ سے عوتيں پاکستان ميں پردوں سے پيچھے ہيں ؟
مزيد پاکستانی عورتيں تيزی کے ساتھ مغربی عورتوں کے برابر ہونے کی کوشش ميں ہيں ۔ اس کا ايک ثبوت حال ہی ميں شائع ہونے والی ايک رپورٹ ہے جس کے مطابق پاکستان ميں اوسطاً پانچ بچے روزانہ کنواری ماؤں کے ہاں پيدا ہوتے ہيں ۔
ہر کام ہونا چاہیے لیکن حد میں۔
اب کیا عورتوں کو گھروں سے باہر پھینگ دیں؟؟؟؟
انھیں حکم دیا گیا ہے کہ بہتر کام یہ ہے کہ گھر میں رہیں۔ جہاں ضرورت ہے وہاں باہر نکل سکتی ہیں۔ اور نکلتی بھی ہیں۔
ایسی تو کوئی قیامت کی صورت حال نہیں جو آپ بیان کررہے ہیں
افسوس ہوا یہ سن کر آپ لوگوں عورتوں کی آزادی اور خودمختاری کا یہ مطلب سمجھتے ہیں۔
میرا پاکستان۔ شادیاں محبت ہی کی ہوتی ہیں۔ نفرت میں کون کسی سے شادی کرتا ہے۔ شاید اس سے مراد پسند کی شادیوں سے تھی۔ تو اس پسند کی شادی میں ایک مرد بھی انوالو ہوتا ہے۔ لیکن حیرت ہے آپ اسے مردوں کی آزادی کے بجائے عورتوں کی خودمختاری سمجھتے ہیں۔ اور شاید آپ کو پتہ ہو کہ پاکستان میں پسند کی شادی کرنے والی لڑکیوں کا کیا انجام ہوتا ہے۔ ایک عورت تمام زندگی بچوں کی پرورش نہیں کرتی، بلکہ وہ عمر کا ایک بڑا حصہ بغیر بچوں کے گذارتی ہے۔ اور تمام دنیا یہ بھی مانتی ہے کہ بچوں کی پرورش اور کردار سازی میں باپ کا رول بھی اگر برابر نہیں تو کم اہم نہیں ہوتا۔ اور ایک ایسا ملک جہاں ستر فیصد مائیں پرائمری پاس بھی نہیں وہاں نئی نسل کی تربیت کیسی ہوگی؟
اجمل آپ کی بیان کردہ رپورٹ میں کنواری کا استعمال ٹیکنیکلی غلط ہے۔ اور بچے ماؤں کے ہاں ہی پیدا ہوتے ہیں لیکن یہ بچے آسمان سے نہیں گرتے ان کے آنے میں پانچ مرد بھی شریک گناہ ہوتے ہیں۔خود یہ بات کہ عورتوں کے ہاں بغیر شادی کے بچے پیدا ہونا بھی ان کی بے اختیاری کی دلیل ہے۔
عورتوں کی خود مختاری کا مطلب میرے نزدیک یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کے فیصلے کرنے میں آزاد ہوں۔
کس لحاظ سے پاکستان میں عورتیں مردوں سے پیچھے ہیں؟
تعلیم میں۔ پاکستان میں آج بھی ستر فیصد لڑکیاں پرائمری کے بعد تعلیم حاصل نہیں کر تیں۔
صحت میں۔ پاکستان میں عورتوں کی صحت کا معیار دنیا میں پست ترین ہے۔
معاشی خود مختاری میں۔ پاکستان میں عورتوں کی ایک بڑی تعداد کھیتوں میں کام کرتی ہے، گھروں میں ماما گیری کا کام کرتی ہے، اور ہزارہا چھوٹے چھوٹے کام انتہائی پست معاوضے کے عوض اور دیہات کے کیسز میں بغیر کسی معاوضے کے کیونکہ معاوضہ گھر کے مردوں کو ملتا ہے۔ دیکھیں یہ رپورٹ
خانگی زندگی کے اہم فیصلوں میں۔ پاکستان میں عورتوں کے جن گھروں اور خاندانوںکی عزت کے قلعوں میں قید رکھا جاتا ہے وہاں ان کے پاس فیصلہ کرنے کا اختیار انتہائی محدود ہوتا ہے۔ اور پاکستان میں خواتین پر گھریلو تشدد میں ہر سال قریبا دگنا اضافہ ہورہا ہے۔ (ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹس)
اسلام آباد کے پوش علاقوں میں کھنکنے والے قہقہے پاکستان میں عورتوں کی خودمختاری کی دلیل ہیں؟ یا پتلون پہننا عورتوں کی خود مختاری کی علامت ہے؟ یا بینکوں کے مارکیٹنگ ڈیپارٹمنٹ میں مردوں سے کم تنخواہ پر صبح شام متوقع کلائنٹس کے ہاتھوںہراساں ہونا ان کی اچھی حالت کا ثبوت ہے؟ عورتوں کا ڈکیتیوں اور چوریوں میں ملوث ہونا خودمختاری کی علامت ہے؟ عورتوں کا گھومنا پھرنا کھانا پینا خودمختاری کی علامت ہے؟ تو جناب یہ خودمختاری تو پاکستان بھر میں کتے بلیوں کو بھی حاصل ہے کہ وہ گھوم پھر اور کھا پی سکیں۔
شاکر آپ کا تبصرہ میرے تبصرے سے چند منٹ پہلے شامل ہوا اسلئے اسے پڑھ نہیں سکا۔ آپ لکھتے ہیں:
کیا انہیں اٹھا کر گھر سے باہر پھینک دیں؟
ایگزیکٹلی یہی پاکستانی سوچ کہ عورتیں رعایا ہیں اس کا قلع قمع کرنا ہوگا۔ قیامت کی صورتحال ہے، کیونکہ جس کتاب کا آپ حکم سنارہے ہیں اس میں عورتوں کا جو احترام بیان ہوا ہے پاکستانی مرد نے وہ اس سے چھین لیا ہے۔ اور ملک کی سینتالیس فیصد آبادی کو مفلوج کردیا گیا ہے۔ اس سینتالیس فیصد میں کتنی ایسی ہیں جو بہترین اساتذہ، بہترین قانون دان، معالج، پائلٹ، انجینئر، بزنس وومن، سیاستدان بن سکتی تھیں۔ مگر ملک کی ایک بڑی آبادی کے لئے ان میدانوں میں ترقی کا راستہ مردوں نے روک لیا ہے۔
اب وہ کیا کریں؟ کیا بچوں کی تربیت، چولہا چکی، بننا سنورنا، شادی بیاہ اسی لئے عورت کو بنایا گیا ہے؟؟ کیا بطور انسان وہ کوئی اسفل مخلوق ہے جس پر مرد کا مکمل کنٹرول ہونا چاہئے؟
آپ کا مسلک ہميشہ يہی رہا ہے کہ جو بات آپ لکھتے ہيں وہ سو فيصد صحيح ہوتی ہے ۔ ديگر آپ دوسروں کی بات کا مطلب بھی اپنی مرضی کے مطابق نکالتے ہيں اور اسے کچھ کا کچھ بنا ديتے ہيں ۔ آپ کو کوئی بات اسلئے سمجھ نہيں آ سکتی کہ آپ اسے سمجھنا ہی نہيں چاہتے ۔ يہی وہ رويّہ ہے جس نے عورتوں کا استحصال کر رکھا ۔ نہ آپ بدل سکتے ہے اور نہ عورتوں کا استحصال کرنے والے کيونکہ وہ بھی اپنے تئيں آپ کی طرح ہر فن مولا سمجھتے ہيں ۔ آپ نے اور آپ جيسے دوسروں نے اپنا کردار چھُپانے کيلئے دين پر عمل کرنے والوں پر کيچڑ پھينکنا شروع کيا ہوا ہے ۔
دوسروں پر کيچڑ اُچھالنا بہت آسان کام ہے ۔ عورتوں کی بہتری کيلئے سوائے يہ اُوٹ پٹانگ تحارير لکھنے کے عملی طور پر آپ نے جو کچھ کيا ہے ذرا اس کی تفصيل اسی بلاگ پر لکھيئے تو پتہ چلے کہ آپ کتنے پانی ميں ہيں ۔
اگر اللہ نے مجھے زندگی اور صحت دی تو ميں انشاء اللہ آج سے دس پندرہ سال بعد خفيہ طور پر آپ کے گھرانے کا مطالع کرنے کراچی آؤں گا اور اُميد يہی ہے کہ ثابت ہو گا کہ آپ نے اپنی بيوی اور بيٹی کو اتنی آزادی بھی نہيں دی ہوئی جتنی ان پڑھ مسلمان ديتے ہيں ۔
میں نے تو کچھ نہیں لکھا جناب۔ یہ تو بین الاقوامی اداروں کی رپورٹس ہیں۔
دوسرا اس پوسٹ میں کہیں بھی دین پر عمل کرنے والوں کا مذاق نہیں اڑایا گیا۔ اور اجمل صاحب اگر آپ واقعی کسی صاحب علم اور باعمل دیندار کو جانتے تو آپ کو معلوم پڑتا کہ ان کی خواتین پردے میں رہ کر بھی بہت زیادہ خودمختار ہیں۔ مثال کے طور پر سمیعہ قاضی ہی کو دیکھ لیں کس طرح پردے میں رہتے ہوئے سیاست بھی کرتی ہیں اور خواتین کے حقوق کے بارے میں ٹی وی مذاکرات میں بھی شرکت کرتی ہیں۔
اس پوسٹ میں تنقید کا نشانہ وہ مرد، اور موضوع گفتگو وہ پاکستانی عورتیں ہیں جو دیندار گھرانوں میں نہیں رہتی، جہاں پردے کی بھی سختی نہیں، پھر بھی وہ محکوم، بے اختیار ہیں۔
باقی آپ کا تبصرہ ذاتیات پر مبنی ہے۔ میں پھر درخواست کرونگا کہ تبصرہ نگار اس پوسٹ کا مطالعہ ضرور کریں۔
آپ لوگ خوامخواہ پریشان ہوتے ہیں۔
نعمان صاحب کا انٹرنیشنل اداروں پر ایمان قابل دید ہے۔ یہی ادارے ملکوں کو توڑنے اور ان کا حلیہ بگاڑنے کے ٹھیکیدار ہوتے ہیں۔ خیر یہ ایک الگ بحث ہے۔ دوسرے انٹرنیٹ پر اعتبار مت کیا کریں کیا پتہ میں خود ایک آزاد خیال عورت ہوں اور اپنی آزادی آشکار نہ کر سکنے پر الٹی سیدھی باتیں لکھتی رہوں؟
نعمان عورت کو خود فیشن سے فرصت نہیں۔ وہ کیا تعلیمی اور دوسری سرگرمیوں میں حصہ لیں گی۔ میرے رشتہ دار۔ دوست احباب۔ جاننے والوں میں کوئی ایک بھی ایسا گھر نہیں جہاں لڑکیوں کو تعلیم نہ دی جاتی ہو۔ کسی ایک گھر میں بھی لڑکیوں کو لڑکوں کی نسبت کم خوراک دی جاتی ہو۔ کوئی ایسا گھر نہیں جہاں لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کے اخراجات ذیادہ نہ ہوں۔ ایسے لوگ جو عورتوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں۔ خود ان کے احتصال کے ذمہ دار بھی ہیں۔ ہر کوئی اپنے تئیں اپنی آکڑ رکھتا ہے۔ آپ انہیں ایسی باتوں میں لگانے کی کوشش کریں گے نتیجہ عورتوں کو بھگتناپڑتا ہے۔
کیا پتلون پہننا، اونچے قہقہے لگانا، چوریاں ڈاکے ڈالنا، پسند کی شادی کرنا، بنا آستینوں کے کپڑے پہننا اور بغیر شادی کے ماں بننا آزادی نہیں ہے؟ آپ نے لکھا بغیر شادی کے ماں بننا بے اختیاری ہے۔ کاہے کی بے اختیاری؟ کیا مانے حمل اختیار ہے؟ نعمان کیسا معاشرہ قائم کرنا چاہتے ہیں آپ؟ آخر اسلام نہ سہی۔ معاشرتی قوائد و ضوابط کا ہونا لازمی ہوتا ہے۔ ان کے بغیر معاشرہ انسانوں کا نہیں ہوتا۔ جن میں قوائد و ضوابط نہیں وہ انسان نہیں جنگلی ہے۔
حقیقت یہی ہے ہے کہ عورت بھی انسان ہے۔ اتنی ہی جتنا مرد۔ لیکن ظاہری باطنی فرق۔ زہنی (اس کا یہ مطلب نہیں کے عورت کم عقل ہے) جسمانی ساخت ہر چیز کا فیصلہ قدرت کے ہاتھ میں ہین۔ اور قدرت کے سامنے احتجاج نہیں ہو سکتا نہ ہی کوئی این جی او اس کے خلاف ریلی نکال سکتی ہے۔
بلا شبہ عورت معاشرے کی ترقی میں شامل ہونی چاہیے۔ لیکن گھریلو ذمہ داری عورت کی ہی ہے قدرتی طور پر عورت کے ہاتھ میں گھر کی ذمہ داری ہے۔ سو کوئی ایسا نظام تشکیل دینا چاہیے جس میں عورت کا دماغ، قابلیت، زہانت کو بھی استعمال کیا جائے ساتھ ساتھ عورت گھر کو بھی سنبھال سکے۔
ضروری ہے کہ عورت کو گھر میں رکھا جائے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو معاشرہ تباہ ہو جائے گا۔ یورپ کا حال آپ دیکھ لیں کتنی غربت ہے وہاں، کتنی کم عمری میں لوگ مرتے ہیں، کتنی خواتین کو مارا پیٹا جاتا ہے۔ مگر اگر عورت گھر رہ کر کچھ نہ کرے گی تو پھر اسی طرح فساد برپا ہو گا۔ اس لئے ہر نو دس ماہ کے وقفے سے بچے پیدا کریں۔ یہی اسلام کی اصل خدمت ہے کہ اس سے مسلمانوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو گا اور عورت مصروف رہے گی تو اس کی فطری بدخصلت سامنے نہیں آئے گی۔ دیکھیں عورت نے گھر سے باہر جا کر آخر کرنا کیا ہے؟ فحاشی اور بےحیائی اور بس! اسی لئے ہمیں بھی سعودیوں کی پیروی کرتے ہوئے عورتوں کو کار چلانے کی اجازت نہیں دینی چاہیئے۔
عورت نے سیاستدان یا انجینیر بن کر کیا کرنا ہے۔ اس کا اصل مقام گھر ہے۔ اسلام نے چودہ سو سال پہلے سے عورتوں کو جو حقوق دیئے تھے وہی بہترین ہیں۔ باقی یہ اینجیاوز تو ایک سازش ہیں اسلام کے خلاف۔ یہ ہمارے دلوں سے اسلام مٹا دینا چاہتے ہیں۔ ان کا مقابلہ اسی طرح کیا جا سکتا ہے کہ ہم مرد جب روز گھر سے نکلیں تو باہر سے گھر کو تالا لگا دیں تاکہ ہماری عورتیں اپنی کمعقلی کے باعث کوئی غلط قدم نہ اٹھائیں۔
مجھے یقین نہیں آتا کہ میں یہ سب پڑھ رہا ہوں۔
اپڈیٹ: چار پانچ بار یہ تبصرے پڑھے لینے کے بعد بھی میں حیران ہوں۔
گمنام نے تو بودی طنز کی لگتی ہے ۔
نعمان صاحب ۔ آپ کی بھی کچھ سمجھ نہيں آتی کہ آپ کہنا کيا چاہتے ہيں اور کہہ کيا رہے ہيں ۔ ايک سميعہ قاضی ہی نہيں اور بھی سينکڑوں بلکہ ہزاروں ہيں اور ان ميں سے اکثر کا کبھی کسی اخبار ميں ذکر نہيں آيا کيونہ وہ سياست ميں نہيں ہيں ۔ انہوں نے مکمل پردہ ميں رہتے ہوئے اپنا گھر اور بچے سنبھالنے کے ساتھ انسانيت کی خد مت کی ہے اور کر رہی ہيں اور ان کو کسی اشتہار بازی کی ضرورت نہيں کيونکہ وہ صرف اپنے اللہ کی رضا حاصل کرنا چاہتی ہيں ۔ اور واضح ہو کہ ان کو پردہ مرد٢وں نے نہيں کرايا بلکہ وہ خود پردہ کرنا چاہتی ہيں تا کہ اللہ ان سے راضی ہو ۔ ايسی ڈاکٹر ہيں ٹيچر ہيں وکيل ہيں دفتروں ميں ہيں اور اکثر مرد ان کا احترام کرتے ہيں ۔ اسی لئے ميں آپ کو کہتا ہوں کہ لکھنے سے پہلے سوچا کريں کہ آپ کی تحرير کا کوئی غلط مطلب تو نہيں نکلتا ۔ اور ملاؤں کی بات ۔ ملاؤں مين کچھ اصلی ہيں اور کچھ نام نہاد جس طرح باقی لوگ ہيں ۔ جو نام نہاد ہيں ان کی وجہ سے سب ملاؤں کو برا کہنا اچھا نہيں ۔
آپ نے مجھے کہ ہے کہ اگر آپ واقعی کسی صاحب علم اور باعمل دیندار کو جانتے تو آپ کو معلوم پڑتا کہ ان کی خواتین پردے میں رہ کر بھی بہت زیادہ خودمختار ہیں ۔ ميں اس پر آپ کے بھولپن پر ہنسے بغير نہ رہ سکا ۔ شائد آپ نے ميرے مضامين اور ميری آپ بيتی نہيں پڑھی ۔ آپ بيتی اور چند مضامين ميرے بلاگ پر موجود ہيں کبھی فرصت ملے تو پڑھ ليجئے گا ۔
پردہ کرنا نہ کرنا یہ کسی کا ذاتی مسئلہ ہے۔ میری نظر سے ایسی مثالیں بھی گزری ہیں جب کسی اچھی نیک سلیقہ شعار پڑھی لکھی لڑکی کا رشتہ صرف اسلئے رد ہوگیا کہ وہ نقاب والا برقع پہنتی ہے اور تبلیغ و اشاعت دین کا کام کرتی ہے۔ کچھ لڑکوں کے گھر والوں کو پردے دار لڑکیاں چاہئے ہوتی ہیں لیکن یہ لڑکی حالانکہ پردہ دار، نیک ہے، سلیقہ شعار ہے مگر ان کے معیار پر پوری نہیں اترتی، کیوں؟
کیونکہ وہ تعلیم یافتہ اور خودمختار ہے۔
مسئلہ یہ نہیں کہ ہمارے معاشرہ عورتوں کے اسلامی پردے کے بارے میں فکر مند ہے۔ بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ وہ صرف عورت کو خود مختار نہیں دیکھنا چاہتے اور اس کے لئے اسلام کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔ اب جس لڑکی کی مثال میں نے اوپر دی، اور جس طرح کی لڑکیوں کی مثال آپ دے رہے ہیں۔ ان لڑکیوں کو اس راہ پر چلنے میں کتنی دشوریوں کا سامنا ہے کبھی اس کا پتہ لگائیں۔ فرانس اور امریکہ میں تو حجاب اور نقاب لگانے والی خواتین کے بارے میں آپ لکھتے ہیں۔ ذرا یہ تو دیکھیں پاکستانی معاشرے میں لڑکیوں پر اس راہ میں چلنے میں کتنی پریشانیاں ہیں۔ خصوصا بڑے شہروں میں۔
آپ کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ آپ پاکستانی مسائل کو اسلامی مسائل سمجھ لیتے ہیں۔ یہ اسلامی مسئلہ نہیں، معاشرتی مسئلہ ہے۔ یہ مسلمان پاکستانی کا نہیں صرف پاکستانیوں کا مسئلہ ہے۔ اسے سدھارنا ہوگا۔ تاکہ عورتیں معاشرے کی تشکیل اور ترقی میں فعال کردار ادا کرسکیں۔ چاہے پردے میں کریں یا بغیر پردے کے۔ ضرورت اس بات کی ہے مرد انہیں اتنا اعتماد اور تعلیم دیں کہ وہ یہ فیصلے خود کرسکیں۔
اوہ بائی دا وے۔ آپ کو معلوم ہے پاکستان میں لڑکیوں کے لئے دینی مدرسوں کی کیا تعداد ہے؟؟ بہت کم بہت بہت بہت ہی کم۔ اور اکثر اتنے غیر معیاری ہیں کہ وہاں ناظرہ قرآن پڑھانے والی استانیوں کو عربی صرف و نحو اور تلفظ کا کچھ پتہ نہیں ہوتا۔ یہ مجھے اسلئے پتہ ہے کہ میری والدہ ایک مقامی درس کمیٹی کی رکن ہیں اس سلسلے میں ان کا رابطہ محلے بھر کی خواتین کے ساتھ رہتا ہے۔ ہمارے محلے میں لڑکیوں میں خواندگی کا تناسب قریبا سو فیصد ہے۔ مگر ان کی دینی تربیت اور معلومات بھی اتنی ناقص ہے کہ آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔ حالانکہ وہ سب اسکول گئی ہیں اور سب کے گھر میں ٹی وی پر اسلامی پروگرام بھی آتے ہیں۔
اس بحث کا مقصد یہ ہے، کہ پاکستان میں عورتوں کی بری حالت کا سبب ان کا مذہب نہیں۔ پاکستان میں کرسچن، ہندو اور قادیانی خواتین کو بھی کوئی خودمختاری حاصل نہیں۔
سلام
مسئلہ تو وہیں ہے بحث برائے بحث۔ ارے بھائے کوئی حل بھی تو بتاؤ۔
پہلے DEFINE کیا جائ کہ عورتوں کو کیسی خود مختاری دی جانی چاہئے؟ پھر بتایا جائے کہ کس لحاظ سے مطلب کس چیز کے ضابطہ بنایا جائے؟ اور اس بحث میں اسلام کو باہر رکھا جائے
خود مختاری دی جانی چاہئے اور میں اس کے حق میں ہوں لیکن کہاں تک؟ اور کیا عورتوں کے حقوق پر مرد ہی دست و گریبان ہوتے اچھے لگتے ہیں؟ کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ عورتوں کے مسائل مردوں کو نظر آتے ہیں خود عورتوں میں سے کوئی ایک ڈھونڈ ڈھانڈ کے بیٹھا دی جاتی ہے سمبل کے طور پر باقی سارا وقت مرد ہی دنگل لڑتے ہیں۔
پاکستانی مسائل کا تعلق اسلام سے اس لئے جوڑا جاتا ہے کہ اسلام کو ضابطہ حیات مانا جاتا ہے اور زندگی کسی قاعدے سے ہی گزاری جاتی ہے شتر بے مہار تو ہونے سے رہے چلیں ہم اسلام کو باہر کر کے بھی بات کر سکتے ہیں دوسرے میں چاہوں گا کہ شامل بحث موضوع سے نہ ہٹیں۔
لڑکیوں میں جو بچیاں اسکول نہیں جارہیں اور جو پرائمری پڑھ کر چھوڑ دیتی ہیں ان کی تعلیم پر زور دینا ہوگا۔ حکومت میڈیا کے ذریعے ایسی تشہیری مہمیں چلائے جس میں خواتین کی تعلیم اس کی ضرورت و اہمیت سے آگاہ کیا جائے۔ ملک میں ایسی کئی تنظیمیں ہیں جو لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے کام کررہی ہیں۔ ان کاموں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ اور مرد اپنا یہ خوف دل سے نکال دے کہ عورت کو اگر خود مختاری ملی تو وہ عصمت اور خاندانی عزت کو نقصان پہنچا دے گی۔ اس سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے کہ عورت صرف بچے پیدا کرنے کا ہی کام کرسکتی ہے۔ اس سوچ کو بھی بدلنے کی ضرورت ہے کہ عورت صرف گھر سنبھالنے کا ہی کام کرسکتی ہے۔ اس سوچ کو بھی بدلنے کی ضرورت ہے کہ عورت صرف فیشن ہی کی رسیا ہوتی ہیں۔ عورتوں کی صلاحیتوں کو تسلیم اور ان کے کام کی قدر اور حوصلہ افزائی کرنا ہوگی۔
ميرا خيال ہے فضول بحث بہت ہو گئی اور مطلب کی بہت بات کم ۔ اس ميں کوئی شک نہيں کہ لڑکيوں کے لئے ہمارے معاشرہ ميں بہت دشوارياں ہيں مگر اس کے ذمہ دار صرف مرد نہيں عورتيں بھی ہيں ۔ جو آپ نے رشتہ کی مثال دی ہے ميں نے کئی کيس ديکھے ہيں کہ باپ نے ہاں کہا اور ہونے والے دولہا نے بھی مگر والدہ صاحبہ کو تعليم يافتہ اور اعلٰی کردار و اطوار کی خوبصورت لڑکی بيک ورڈ نظر آئی کيونکہ وہ سر اور جسم کو اچھی طرح ڈھانپے ہوئے تھی ۔ کسی جگہ ماں بھی مان گئی ليکن بہنوں رکاوٹ بن کئيں ۔ ہونے والے دولہا کی زيادہ تر مائيں اور بہنيں مال و دولت پر نظر رکھتی ہيں اور زيادہ تر باپ اور بھائی ہونے والی دلہن کی خوبيوں پر ۔ يہ بيماری تيس چاليس سال قبل شروع ہوئی اور بڑھتی جا رہی ہے ۔
جہاں تک تعليم کا تعلق ہے اس کی تو ہمارے ملک ميں مٹی پليد ہے اور عوام کی معاشی بد حالی نے بھی تعليم پر بُرا اثر ڈالا ہے ۔
ميں نے مسلمانوں کے خلاف غيرمسلموں کے رويّہ کے متعلق تو چند ماہ سے لکھنا شروع کيا ہے ۔ اس سے بہت پہلے اپنے ملک اور معاشرہ کے مختلف پہلوؤں پر لکھ چکا ہوں ۔ انشاء اللہ جلد حقوقِ نسواں کے متعلق ايک بار پھر لکھوں گا مگر تحفظِ حقوقِ نسواں قانون کے حوالے سے ميں ابھی تک اس قانون کی نقل حاصل نہيں کر سکا اس لئے تاخير ہو رہی ہے
میں بھی یہی کہنے جا رہا تھا۔ ماحول ایسا ہونا چاہیے کے لڑکیاں خود دین دنیا دونوں کو سنبھالیں۔ نہ کے زبردستی پردہ کرا کے اسلام کو قصور وار ٹھہرایا جائے۔
نعمان معاشرتی اقدار بھی کچھ ہوتی ہیں۔ جہاں تک عیسانئی ہندو اور قادیانی عورتوں کی بات ہے تو ان کے مسلے میں نہیں بولا جا سکتا کیونکہ اس طرح بات اقلیتوں کے حقوق کی طرف نکل جائے گی۔ جو نام نہاد پاکستانی لڑکیاں پاکستان کے نام پر خود مختاری کر رہی ہیں۔ یعنی مس پاکستان کے نام سے۔ اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا ایسی اوچھی حرکتیں پاکستان کی عورت کو اختیار دیں گی؟ یا ان کی حرمت کی دھجیاں اڑا رہی ہیں اور ان کے احتصال کی ذمہ دار بن رہی ہیں؟ مسلمان تو مسلمان کچھ دن پہلے ایک پاکستانی بلاگر کے انگریزی بلاگ پر گیا تو وہاں اس نے اسی پر لکھا تھا۔ اس نے عیسائیوں کی مشہور ویب سائٹ “پاکستان کرسچن پوسٹ“ کا تذکرہ کیا کہ ایک عیسائی پاکستانی لڑکی مس پاکستان میں داخل ہونے پر پاکستانی عیسائیوں نے احتجاج کیا تھا۔ کہ عیسائی لڑکیوں کو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ اور ہم میں سے کئی مسلمان لڑکیوں کو ایسا کرنے پر ان کو سراہ رہے ہیں۔
مس پاکستان کی روشن خیالیاں دیکھ کر نہائت افسوس ہوا۔ کہ کیا اس سے عورت کو تحفظ ملے گا یا رسوائی؟ یہ خود تو پاکستان سے باہر رہ رہی ہیں، پاکستان کی ثقافت اور اسلام سے شناسائی تک نہیں ایسا ان کے انٹر ویوز کہ رہے ہیں۔ تو ایسی عورتیں یا لوگ پاکستان کو کیسےریپریزینٹ کریں گے؟
اگر آپ بضد ہیں تو ہم بھی کم نہیں۔ آپ اگر عورتوں کو اپنی مرضی کی آزادی دلوانا چاہیں گے تو ہم اس میں رکاوٹ بنیں گے۔ نتیجہ کون بھگتے گا؟ نعمان آپ کو بی بی سی نے ایک بار جگہ کیا دے دی آپ نے بی بی سی کو حدیث سمجھ لیا اس پر چھپنے والی بکواسات پر ایمان لے آتے ہیں آپ۔ آپ خود کو بہت سمارٹ سمجھتے ہیں لیکن ایسے میڈیا کی پالیسی نہیں سمجھتے؟ نیز اس طرح آپ صحافت کی خدمت نہیں کر رہے بلکہ اس کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔ صحافت کبھی زبردستی نہیں ہوا کرتی۔
عورت کو اتنی ہی آزادی دی جانی چاہیے جتنی اسلام نے قران کے ذریعے دی ہے۔ اس پر شک کرنے والا اسلام سے خارج ہے اور یہ میرا فتویٰ نہیں بلکہ قران کا فیصلہ ہے۔ نیز عورت کے کم لباس۔ بنا آستینوں کے لباس۔ چست پتلونیں یہ سب کچھ اسلام نے حرام کیا ہے اور اس کو سورہ نساء میں دیکھا جا سکتا ہے۔ مسلمان عورتوں کو ڈریس کوڈ بتایا گیا ہے جس میں جسم کے اعضاء نمایاں نہ ہوں سینوں کو اوڑہنیوں سے ڈھانپ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔۔ چلنے پھرنے سے آواز پیدا نہ ہو۔ ذیادہ کھنک کر ہنسنے سے منع کیا گیا ہے تاکہ عورت کی طرف لوگ متوجہ نہ ہوں۔۔ اب اسلام کے تو یہ فیصلے ہیں کیا پاکستان میں ان کی پابندی ہے؟ اس کے بر عکس اسلام نے جو حقوق عورت کو دیے ہیں وہ مغرب ذدہ این جی اوز اور روشن خیال لوگ چاہ کر بھی نہیں دے سکتے۔ کیا یہ حقوق عورت کو دیے گئے؟ بلکہ اسلام سے نفرت کے باعث جو مقام عورت کو ملنا چاہیے وہ بھی نہیں ملنے دیا جاتا۔
دوستو ہم جن کے بارے میں بات کر رہے ہیں انکا نقطہ نظر تو کہیں نظر آتا نہیں کیا خیال ہے میرا تو آئڈیا ہے کہ کسی خاتون سے اس مسلے پر پوچھا جائے ، جیسے کشمالہ طارق ، سمعیہ قاضی تو شاید کچھ “اسلام“ اسلام کریں ، نگہت چوہدری (ڈانسر) میرا(اداکارہ) اور اپنی حقوق نسواں والی بلکہ سارے حقوق والی بے چاری نے مردوں سے بہت مار کھائی ہے میڈیا کے سامنے بھی (نام بوجھو تو جانیں ) ارے ہاں وہ اپنی فرحت نسیم ہاشمی جو پوری باپردہ ہو کر مختلف چینل پر درس دیتی نظر آتیں ہیں ، یا پھر نادیہ جو نادان نہیں جیو پر روز صبح سر کھاتی ہے اور چلیں انکو بھی چھوڑیں میرے محلے کی رضیہ کو لے لیں ہیں آپ اسے نہیں جانتے ۔ ۔ بس یہ ہی بات ہے دوستو کہ ہم بہت “ساری“ آزاد حواتین کو تو جانتے ہیں مگر جو واقعی ہی آزاد ہیں انہیں نہیں جانتے ۔ ۔ مختاراں مائی ۔۔ ۔ کو ایک حادثہ ۔ ۔سلیبڑیٹی بنا دیتا ہے مگر اس کے کام کو کوئی نہیں دیکھتا ۔ ۔ ۔ کیا سیکھا مردوں نے عورتوں نے اس واقعہ سے ، کچھ نہیں سوائے چند چٹ پٹی خبروں کے
تو دوستو بات عورت پر جبر کی نہیں بات یہ ہے کہ ہم کس دور سے گذر رہے ہیں کیا ہمارے معاشرے میں مرد جبر کا شکار نہیں ؟ اینٹوں کے بھٹھوں پر کام کرنے والے مزدور سے لے کر کھیتوں کے ہاری و مزارع تک ۔ ۔۔ ۔ کون جبر کا شکار نہیں ؟ یہ معاشرہ ہی جبر کا شکار ہے چاہے وہ مرد ہے یا عورت ۔ ۔ ۔ عورت کے جبر کا ڈھنڈورا اسلئے پیٹا جا رہا ہے کہ ملٹی نیشنلز کی سیلز بڑھے ۔ ۔۔ کیونکہ عورت کو نمائش کی چیز مغرب نے بنایا ہے ، اسلام نے نہیں اور اسی شاندار نمائش کے لئے اب موڈل چاہیں اور خریدار چاہیے ۔ ۔ جو عورت ہے ۔ ۔ اور جو مذہب عورت کی زینت کو صرف “اپنے“ مرد تک لئے محدود کرے وہ تو ملٹی نیشنلز کے لئے سوہان روح ہے ۔ ۔اور یہ ہی ہے اصل جبر ۔ ۔
ساحر نے کہا تھا ایسی ہی سوچ کے ساتھ
ثنا خوان تقدیس مشرق کہاں ہیں
مگر اب بات کچھ بدل گئی ہے کہ
ثنا خوان تقدیس مشرق یہاں ہیں
مگر وہ حوا کی دختر کہاں ہے ؟
اجمل، یہ بات آپ کی درست ہے کہ مرد ہی نہیں خود عورت بھی عورت کی خودمختاری کی دشمن ہے۔ آپ ضرور پاکستانی خواتین خصوصا پردہ دار خواتین کو پاکستان میں درپیش مسائل کے حوالے سے لکھیں۔ یہ بھی دیکھیں کہ پردے کی وجہ سے کام کی جگہوں پر، درسگاہوں میں، راستوں میں اور گھروں میں ان کے ساتھ کیسا تعصب برتا جاتا ہے۔ یہ اس مسئلے کا ایک اہم پہلو ہے۔
یہ بات ہر کوئی جانتا ہے کہ حقوق نسواں بل جو پیش ہوا ہے اس سے عورتوں کے حقوق کا کوئی تحفظ نہیں ہوتا۔ اسلئے میں نے اپنی پوسٹ میں لکھا ہے کہ بل بنانے سے عورتوں کو حقوق اور تحفظ نہیں ملیں گے۔ انہیں تعلیم اور اعتماد دیں۔
ملاء عورتوں کی خود مختاری کا مطلب صرف یہ نہیں کہ انہیں فیشن شوز میں بھیجا جائے۔ میں اپنی پوسٹ میں لکھ چکا ہوں کہ ہمیں مغرب سے متاثر ہونے کی ضرورت نہیں اور نہ ہم ہوں گے۔ ہماری اپنی ایک تہذیب و ثقافت ہے اور ہم اتنے بیوقوف نہیں کہ جان بوجھ کر مکھی نگل لیں۔ لیکن مغربی معاشرے کے مضمرات کو دیکھتے رہیں گے تو کوئی بھی اچھا کام نہ کرپائیں گے۔ ہمیں اپنے حل خود ڈھونڈنا ہونگے۔
اظہر، عورت کی گود سے تہذیب جنم لیتی ہے۔ اگر عورت کے پاس تعلیم، اعتماد اور طاقت ہوگی تو ایک اچھی نسل جنم لے گی۔ جاہل، مجبور اور کمزور عورت ایسی ہی نسل جنم دے گی جو ڈرپوک، جاہل اور کمزور ہوگی۔ حوا کی بیٹی یہاں اسلئے نہیں کیونکہ اسے ڈر ہے کہ آدم کے بیٹے اس کے اظہار خیال کو اچھی نظر سے نہیں دیکھیں گے۔ آدم کے بیٹے کی زبان کا استعمال دیکھیں۔ اسی سے عورت خوفزدہ ہے۔
[…] مثال نمبر ا […]