قربانی کیسے کریں؟

بکرا عید (عید الاضحی) نزدیک آچکی ہے۔ ہمارے گھر میں اس بات پر بحث چل رہی ہے کہ قربانی کا جانور خرید کر لایا جائے یا اس سال بھی ایدھی کی اجتماعی قربانی میں حصہ ڈالا جائے۔ میرا ووٹ تو حصہ ڈالنے کے حق میں ہے۔ اس کے فائدے یہ ہیں:

1۔ جانور لانے، اسے باندھنے، کھلانے پلانے، ذبح کروانے اور گوشت بانٹنے کے کام سے بچت ہوجاتی ہے۔
2۔ امیر رشتے داروں کے ہاں، بدلے کے طور پر گوشت پہنچانا نہیں پڑتا ورنہ گوشت تھوڑا پڑ جاتا ہے اور رشتے دار، دوست احباب زیادہ۔ دوسرا اس گوشت بانٹنے سے مستحقین کی حق تلفی بھی ہوتی ہے۔
3۔ چونکہ ہمارے گھر میں قربانی کا گوشت زیادہ شوق سے نہیں کھایا جاتا اور نہ ہی میری والدہ کو اسے فریز کرنے کا کوئی شوق ہے۔ تو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ عید پر ہم گوشت کو ترستے رہیں گے۔ دراصل ہمارے ایسے رشتے دار جو گائے کی قربانی کرتے ہیں وہ تو ہمارے گھر گوشت بھیج دیتے ہیں اور ہمارے گھر میں گائے کا گوشت بالکل ممنوع سمجھا جاتا ہے۔ جو جاننے والے بکرے کی قربانی کرتے ہیں وہ گوشت بھیجتے ہی نہیں اور بھیجتے بھی ہیں تو بہت تھوڑا۔ یہ گوشت بھی میری والدہ مستحقین کو پہنچوادیتی ہیں کہ بکرے کا گوشت ایک ایسی جنس ہوچلی ہے جسے سفید پوش بھی مشکل ہی افورڈ کرپاتے ہیں۔ اسلئے بکرے کا گوشت غریبوں کو پہنچانا میری والدہ کے نزدیک زیادہ ثواب کا باعث ہے۔
4۔ کراچی جیسے بڑے شہر میں جانوروں کا اتنی بڑی تعداد میں شہر میں لایا جانا اور ان کو سڑکوں اور گلیوں میں ذبح کرنا ماحول، صفائی اور نظم و ضبط کے مسائل پیدا کرتا ہے۔ شہری زندگی کے بڑھتے مسائل کے ساتھ ضروری ہے کہ ہم لوگ اپنی روایات بھی بدلیں۔

گھر کے دیگر افراد جو قربانی خود کرنا چاہتے ہیں ان کا کہنا ہے:

ا۔ اس سے قربانی کی اصل خوشی حاصل ہوتی ہے۔ مجھے خوشی کی یہ دلیل بالکل سمجھ نہیں آتی۔
2۔ جاننے والے مستحقین کو زیادہ گوشت پہنچایا جاسکتا ہے۔ میرے خیال میں ایدھی سینٹرز میں مقیم بوڑھے، یتیم، بے سہارا عورتیں بھی مستحقین ہی ہیں اس لئے یہ دلیل بھی کمزور ہے۔
3۔ ہم لوگ بکرے کی ران بروسٹ کروا کر کھا سکتے ہیں اور عید کے پہلے دن گھر میں اچھی خاصی دعوت کرسکتے ہیں۔ اس کے لئے ہم عید سے پہلے ہی ران خرید کر رکھ سکتے ہیں بلکہ ہم کبھی بھی ران بروسٹ کرواکر کھا سکتے ہیں۔ تو یہ دلیل تو سب سے ہی زیادہ کمزور ہے۔
4۔ محلے میں لوگ پوچھیں گے کہ تم نے قربانی نہیں کی؟ تو ہم کیا منہ دکھلائیں گے۔ میرے خیال میں قربانی خود کرنے سے ہمارے منہ یا چہرے پر کوئی فرق نہیں پڑتا اسلئے ہم وہی منہ محلے والوں کو دکھلادیں گے۔

خیر دیکھیں، یہ فیصلہ اب میرے والدین کے ہاتھ میں ہے۔ میرا کام تو بس یہ ہوگا کہ اگر قربانی خود کرنی ہے تو بکرے منگوا دوں ورنہ ایدھی سینٹر پر پیسے جمع کراکر رسید لوں اور عید کے روز وہاں سے دو کلو گوشت لاکر گھر پر پکالیں ( میری والدہ کا کہنا ہے کہ قربانی کے گوشت سے اپنا حصہ رکھنا بھی ضروری ہے)۔

تبصرے:

  1. ميرے خيال ميں آپ فيصلہ آزادانہ طور پر اپنی محترمہ والدہ صاحبہ پر چھوڑ ديں ۔ ايک تو ان کے متعلق جو آپ نے لکھا ہے وہ صحيح عمل ہے دوسرے والدين کی اطاعت سوائے اس کے کہ وہ کُفر ہو اللہ کا حکم ہے ۔
    ہم بھی قربانی ايسے اداروں کے حوالے کرتے رہے ہيں ليکن پھر ہم نے ديکھا کہ اپنے محلہ ہی ميں ايسے لوگ رہتے ہيں جو سارا سال دال سبزی کھاتے ہيں اور کسی کے آگے ہاتھ نہيں پھيلاتے تو اب ہم کچھ قربانی گھر پر کرتے ہيں اور کچھ ادارے کے حوالہ کر ديتے ہيں ليکن ادارے بدلتے رہتے ہيں ۔ ہم ان رشتہ داروں کو قربانی کا گوشت نہيں بھيجتے جو کہ خود قربانی کرتے ہيں يا اس لائق ہيں ۔ دو سال قبل ہم کراچی ميں تھے تو سب قربانی ادارے کے حوالے کر دی تھی اور ہم نے قربانی کا گوشت ايک قريبی رشتہ دار کے ہاں کھايا تھا ۔ ہم قربانی بکرے کی کرتے ہيں کيونکہ ہم زيادہ تر بکرے کا گوشت کھاتے ہيں ۔

  2. قربانی صاحب اسطاعت پر واجب ھے اور اس کا بھت ثواب ھے۔ اب قربانی کرتے وقت موجودہ حالات میں صفائی ستھرائی کا خیال کس طرح رکھا جائے یھ قربانی کرنے والوں اور ان کے حکمرانوں کا کام ھے۔
    دلائل دونوں‌اطراف کے مضبوط ھیں۔
    اگر گہر پر قربانی کریں گے تو گہر والوں کی عملی تربیت ھوگی یعنی وھ اپنی آنکہوں سے دیکہیں‌گے کھ خدا کی راہ کس طرح جان دی جاتی ھے۔ اجمل صاحب کی بات درست ھے کھ ھمارے ارد گرد بھت سارے مستحق لوگ موجود ھیں۔
    دوسری طرف گہر پر قربانی کرنے سے شہر میں‌گندگی پھہلتی ھے اور خوب پھہلتی ھے۔ یھ ایک اجتماعی مسلہ ھے اور اس کا حل کراچی والوں‌کے پاس ھے۔ مگر چونکھ ھم بحیثیت مجموعی سست اور گندی قوم ہیں‌جو صفائی کا خیال نہیں‌رکھتے اسلئے فی الحال گندگی کا حل آسان نہہیں‌ ہے۔
    فیصلھ آپ کی ھمت پر ھے اگر آپ باھمت ہہیں اور محنت سے جی نہیں‌چراتے تو گھر پر قربانی کریں اور اگر آپ تن آسان ہیں‌ تو یھ کام ایدھی ٹرسٹ کو سونپ دیں۔

  3. دیکھیں جی سارا سال ہم جیسے بکرے کے گوشت کو دیکھتے ہیں۔۔
    عید پر قربانی کے لیے بکرا لیتے ہیں اگر اسے ایدھی والوں کو دے دیں تو خود کیا کھائیں؟؟؟
    مستحقین و عزیزوں کو تقسیم کرکے اس طرح کچھ بچ تو جائے گا اپنے لیے بھی۔۔

Comments are closed.