دودھ کی قیمت

ان دنوں اخبارات اور ٹیلیوژن پر کراچی میں دودھ کی قیمتوں میں اضافے کا بہت چرچا ہے۔ ایک دکاندار ہونے کے ناطے میں نے سوچا کہ اس بارے میں کچھ لکھوں۔

دودھ کی قیمتوں کا تعین کرنا شہری حکومت اور کراچی ڈیری فارمرز ایسوسی ایشن کا کام ہے نہ کہ دکاندار کا۔ اسلئے حکومت کو ڈیری فارمرز ہی کو پکڑنا اور جرمانہ کرنا چاہئے۔

اگر ڈیری فارمر ایسوسی ایشن نے دودھ کا نرخ اکتیس روپے نوے پیسے فی لیٹر مقرر کردیا تو اب مجھے اسی بھاؤ کے تحت انہیں ادائیگی کرنا ہوگی۔ یہ دکانداروں، بیوپاریوں اور ڈیری فارمرز کے بیچ کا ایک معاہدہ ہوتا ہے جسے نہایت قیمتی اور مقدس سمجھا جاتا ہے۔ اگر میں اپنے سپلائر کو اس نرخ پر پیسے نہ دوں تو یہ معاہدے کی خلاف ورزی تصور کیا جائے گا جس کا بہت برا اثر میری کاروباری ساکھ پر پڑے گا۔ معاہدہ توڑنے والے شخص پر ڈیری فارمر اعتماد نہیں کرتا۔

اگر میں حکومت کے نرخ پر دودھ بیچوں تو چار چھ دن میں ہی مجھے اتنا نقصان ہوجائیگا کہ دکان بند کرنا پڑے گی۔

یعنی آگے کنواں ہے اور پیچھے کھائی۔ دکانداروں کی پکڑ دھکڑ اور ان پر جرمانہ سراسر زیادتی ہے اگر دکاندار ہڑتال دھرنے پر اتر آئے تو حکومت، ڈیری فارمر اور عوام سب کو نقصان اٹھانا پڑے گا۔

تبصرے:

  1. بہت اچھا کيا ميں آپ کو پوچھنا ہی چاہتا تھا ۔ ہم يہاں تيس روپے لٹر دودھ لے رہے ہيں جو ميرے خيال کے مطابق خالص نہيں ہے ۔
    ہمارے بادشاہ بلکہ شہنشاہ بے نياز ہيں کيونکہ انہيں اپنی جيب سے کچھ خرچ نہيں کرنا پڑتا ۔ بڑے بڑے ڈيری فارم جيسے نيسلے کو کچھ نہيں کہتے جو اڑتيس روپے فی لٹر دودھ بيچ رہا ہے وہ بھی مکھن نکالنے کے بعد ۔ باقی اشياء کا بھی يہی حال ہے سپلائر اور ہول سيلر کو کچھ نہيں کہتے چھوٹے دکانداروں کے پيچھے پڑ جاتے ہيں ۔

  2. اسے ہی تو‌ڈکٹیٹرشپ کہتے ہیں کہ صرف دکھاوے کے کام کرو اور قوم کے اصل مسائل جوں کے توں رہنے دو۔ اسی لئے ھماری حکومت مہنگائی جیسے جان لیوا مسئلے پر توجہ نہیں‌دے رہی اور کبھی کراچی میں پانی کا بہت بڑا فوارہ بنا رہی ہے اور کبھی اسلام آباد میں‌یادگاریں۔

  3. ہمیں سستا دودھ بیچنے پر کوئی اعتراض نہیں مگر شرط یہ ہے کہ حکومت ڈیری فارمرز کیساتھ نرخ طے کرے۔ اگر وہ ہمیں مہنگا دودھ دیں گے تو وہ سستا کیسے بیچ سکتے ہیں؟ ہمیں بھی تو آخر کاروبار چلانا ہے۔

  4. نعمان میں آپ سے متفق ہوں ، ایسا کچھ عرصہ پہلے بھی ہو چکا ہے ، اصل میں آپ کا کہنا صحیح ہے کہ سپلائیر ہی جب نرخ بڑھائیں گے تو دکانداروں کا اس میں کیا قصور ، اور سپلائیر کو کوئی پوچھتا نہیں کیونکہ وہ وڈے ہیں ، میں ہمیشہ ایسے موقعوں پر ایک بات کہا کرتا ہوں کہ مہنگائی کے درخت کی شاخیں نہیں کاٹنی چاہیں بلکہ اسے جڑ سے اکھاڑنا چاہیے مگر جڑ ۔ ۔ ۔ تک پہنچے کون؟

Comments are closed.