[ مندرجہ ذیل پوسٹ میں مصنف یہ فرض کرلیتا ہے کہ مستقبل میں پاکستان کی طالبانائزیشن کا دائرہ وسیع ہورہا ہے اور ملک کے دیگر علاقوں سے بھی ایسی خبریں آرہی ہیں۔ ایسے موقعے پر مصنف اپنے قارئین کو کیا مشورہ دیگا یہ پوسٹ اسی بابت ہے۔ ]
طالبانائزیشن کے اس شور شرابے میں اگر آپ اپنی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کے حوالے سے پریشان ہیں تو پیش خدمت ہیں چند حفاظتی تدابیر۔ اگر پاکستان کی طالبانائزیشن کا دائرہ آپ کے علاقے تک پھیل جائے تو مندرجہ ذیل احتیاطی تدابیر اختیار کریں:
ا۔ اپنے گھر سے تمام انگریزی، بھارتی فلموں کی سی ڈیاں اور ڈی وی ڈیز سڑک پر پھینک دیں۔ کیونکہ کچھ پتہ نہیں کب آپ کا کوئی بدخواہ آپ کی چغلی کردے اور طالبان دروازہ توڑتے ہوئے آپ کے گھر میں گھس جائیں۔ تب آپ کو یہ سی ڈیز چھپانے کا موقع نہ ملے گا۔ تمام بھارتی گانے اور پاکستانی پاپ موسیقی بھی ٹھکانے لگادیں اور حفظ ماتقدم کے طور مولانا طارق جمیل کی سی ڈیز خرید کر رکھ لیں۔ ڈریں نہیں خدانخواستہ طالبانائزیشن کے بعد آپ یہ سی ڈیز دیکھنے سے محروم نہیں ہوجائیں گے، بس اتنا ہوگا کہ یہ آپ کو چوری چھپے کرائے پر دیکھنا پڑیں گی۔
3۔ گھر کے تمام مردوں کی پتلون قمیضیں چھپا دیں اور گھر سے باہر جب بھی نکلیں شلوار قمیض پہن کر نکلیں۔
4۔ داڑھی رکھ لیں۔ یا کم از کم مونچھیں تو لازمی رکھ لیں۔ فرنچیز اور داڑھیوں کے عجیب نمونوں سے پرہیز کریں۔
5۔ انٹرنیٹ پر اگر آپ اپنے اصلی نام سے طالبان دشمن، پاکستان دشمن، دہشت گرد دشمن مواد لکھتے رہے ہیں تو وہ سب مٹادیں۔ اور آئندہ جعلی ناموں سے یہ مواد شائع کیجئے گا۔
6۔ اگر آپ شیعہ، بوہری یا اسماعیلی فرقے سے تعلق رکھتے ہیں، احمدی مرزائی یا قادیانی ہیں، کسی این جی او کے لئے کام کرتے رہے ہیں، یا خواتین کے حقوق کے لئے نعرے لگا چکے ہیں، افغانستان کے ان علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں جہاں شمالی اتحاد کا اثر رسوخ رہا ہے، تو کسی کی ہدایت یا مشورے کا انتظار نہ کریں اور فورا پاکستان سے فرار ہونے کی کوشش کریں۔
7۔ اگر آپ کی بچیاں کسی اسکول یا کالج میں پڑھتی ہیں تو انہیں گھر بٹھالیں۔ گھر کی خواتین کے کسی بھی ضروری کام سے باہر نکلنے کو قطعا منع کردیں۔ خواتین اپنے حفاظت کے لئے اگر باہر نکلیں تو اپنے ساتھ کسی بھائی یا باپ کو لے کر چلیں اور اگر شوہر ساتھ ہے تو احتیاطا نکاح نامے کی فوٹو کاپی بھی رکھ لیں۔ بوائے فرینڈ یا منگیتر جیسی کسی چیز کے ساتھ گھر سے باہر نکلنا انتہائی خطرناک ہوسکتا ہے۔ اسلئے اس سے بالکل پرہیز کریں۔
8۔ آپ کے محلے میں دیوبندی فرقے کی جو مسجد ہو صرف اسی میں نماز ادا کریں۔
9۔ کبھی بھول کر بھی کسی محفل میں ایسی گفتگو نہ کیجئے گا جس سے یہ معلوم ہو کہ آپ دنیا بھر میں کسی بھی جہادی تنظیم کے نکتہ نظر یا مقصد سے اختلاف رکھتے ہیں۔
10۔ لوگوں کے درمیان مذہبی، سیاسی یا تفریحی موضوعات پر گفتگو سے پرہیز کریں اور اپنی رائے کا اظہار کسی کے سامنے تب تک نہ کریں جب تک آپ کو یقین نہ ہو کہ وہ آپ کے ہمدرد ہیں۔
ہم چند مزید احتیاطوں کا اضافہ کرنا چاہیں گے
1۔ شراب اور ہیرائین سرعام بیچنا اور پینا بند کردیں
2۔ رشوت لیتے ہوئے خیال رکھیں کہ طالبان کو پتہ نہ چلے
3۔ موبائل چھینتے ہوئے یہ مزید احتیاط برتیں کیونکہ پکڑے جانے کی صورت میں چھٹکارا مشکل ہوجائے گا
4۔ نیو ائیر اور ویلنٹائن ڈے انڈر گراؤنڈ منائیں
5۔ حدود آرڈینینس کی نرمی کے باوجود زناہ کرنے سے پہلے سوبار سوچیں
یہ بات تو آپ مانیںگے کہ طالبان کے دور میںافغانستان میں ھیروئین بننا بہت کم ہوگئی تھی جو اب اتحادیوں کی حکومت میں ریکارڈ پیدا کی جارھی ھے۔ دوسرے جرائم بہت کم ہوگئے تھے اور لوگ آزادانہ سفر کرنے لگے تھے۔
Jee Mera Pakistan sahib aap amreeca chore kay talibaan kay haan kion ja nahain rahay 11/9 say pehlay? Kia aap ko khud apnay leeay talibaan ka jaraim say paak mahool pasand nahain? Dosroon ko naseehat khud mian faseehat. Mazhabhee logon kay sath yahay masla hai. Doosroon ku kuch kehtay hain khud kuch aur kartay hain. Aaap kay murabee jamaat islami aur degar molvi bhee yahee kartay hain, amreeca ko galian bhee aur phir apnay bachay amreca hee bhejtay hain talibaan kay haan nahain.
کچھ باتوں کا مزید اضافہ
اپنے اندر سے برداشت ختم کر لیں۔ بات بے بات پر لڑنے کو تیار رہیں
اپنے سوا ھر ایک کو کفار کا ساتھی سمجھیں
دو چار دھاری دار چادریں اور ڈنڈے تیار رکھیں کسی بھی وقت منہ ڈھانپنے اور لاٹھی اٹھا کر کسی کے گھر کی چادر اور چار دیواری کو سبو تاژ کرنے کی ضرورت پیش آ سکتی ھے
میرا پاکستان، طالبان کے دور حکومت میں پوست کی کاشت ختم کرنا طالبان کی سیاسی مجبوری تھی۔ طالبان کے افغان عوام پر ڈھائے جانیوالے مظالم پر درجنوں کتابیں بازار میں موجود ہیں۔ ہوسکے تو کبھی ان کا مطالعہ کیجئے گا۔ اور جناب ارل صاحب کا کہنا بھی درست ہے اگر طالبان کی اسلامی ریاست اتنی ہی مثالی تھی تو کیا ہم امید کریں کہ آپ جلد ہی وزیرستان کی طرف ہجرت کریں گے؟
جہاں شخصی تنقید شروع ہوجائے وہاں رکنا وقت ضائع کرنے والی بات ہوتی ہے۔ آپ لوگوں کو مخلصانہ مشورہ یہی ہے کہ جس موضوع پر بات ہورہی ہو اسی پر دلائل دیں نہ کہ فتوے دینے شروع کردیں اور دوسروں کی تذلیل کرتے ہوئے خدا سے بھی نہ ڈریں۔ ویسے نعمان صاحب مجھے آپ جیسے پڑھے لکھے آدمی سے اس طرح کی توقع نہیں تھی۔ سیدھی طرح آپ کہ دیتے کہ ھم آپ کی تحریروں پر تبصرے کرنے بند کردیں کیونکہ آپ کا کڑوا سچ ہم کشادہ دلی سے سن لیتے ہیںمگر ہمارا کڑا سچ آپ سے سنا نہیںجاتا۔
ارل صاحب سے ہمیں گلہ نہیںہے کیونکہ انہیںہم جانتے نہیںہیں۔
ہم وعدہ کرتے ہیں کہ آئندہ آپ کے بلاگ پر تبصرہ کرنے سے گریزکریں گے۔
ہاہاہا
یہی حال رہا تو یہاں می لکھا کریں گے اور نعمان جواب دیا کریں گیں
آج دنیا اس کی ہے جو ڈھول دھمکا کرے ۔ شچ کی کھوج لگانے کیلئے کسی کے پاس وقت نہیں ۔ رسول اللہ صلّلی الہ علیہ و آلہِ و سلم کی ایک حدیث ہے کہ کسی شخص کے جھوٹا ہونے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ایک بات سنے اور بغیر تصدیق کئے آگے بیان کر دے ۔
انسان کو کم از کم اللہ سے ڈرنا چاہیئے ۔ اس طرح کی تحاریر کسی بھی فرقہ یا گروہ کے متعلق لکھنا مسلمان کو زیبا نہیں ۔
شچ نہیں سچ
مزید اللہ میری قلمی غلطی معاف فرمائے ۔
رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہِ و سلم
میرا پاکستان، کیا آپ بتائیں گے کہ میرے تبصرے میں کیا بات آپ کی دلآزاری کا سبب بنی ہے؟ میں نے تو ایک سیدھا سا سوال پوچھا ہے۔ کہ اگر امارات اسلامی وزیرستان کا نظام ایسا ہی مثالی ہے تو کیا ہم توقع کریں کہ آپ وہاں ہجرت کریں گے؟ تاہم اگر یہ سوال آپ کو دلآزار معلوم ہوتا ہے تو اس کا جواب نہ دیں۔ لیکن میں نہیں سمجھتا کہ یہ شخصی تنقید ہے میرے خیال میں یہ ایک موضوعی دلیل ہے۔
اجمل صاحب آپ کے بلاگ ہر تو متعدد گروہوں جیسا کہ ہندوؤں، یہودیوں، اور بنگالیوں کے خلاف آپ کی اپنی ذاتی تحقیق پر مبنی پوسٹس روزانہ شائع ہوتی ہیں۔ لیکن خیر کافروں کے خلاف نفرت انگیز لٹریچر تو ایک مسلمان کو بالکل زیبا دیتا ہے مگر کیا وجہ ہے کہ آپ سمجھتے ہیں کہ ہم اپنی پوسٹس تحقیق سے نہیں لکھتے؟
میرا پاکستان صاحب اسی قسم کا ایک سوال آپ میری اس پوسٹ میں مجھ سے پوچھ چکے ہیں۔
نعمان صاحب ہماری تسلی کیلیے اتنا ھی کافی ھے کھ آپ اسے شخصی تنقید کے زمرے میںنھیںسمجہتے باقی فیصلھ قارئین پر چہوڑ دیتے ھیں۔
ہمارے تبصرے کی جومثال آپ نے دی ہے اس میں ھم نے میںاور آپ کا صیغہ استعمال کیا ہے جس کا مطلب ھے ھم سب ۔ اس سے یھ ثابت نھیں ھوتا کہ آپ پر براہ راست تنقید کی گئ ہے۔ یہ فیصلہ بھی قارئین پر چھوڑ دیں۔
کفر سے بچاؤ کی تدابیر۔
روشن خیالوں کو جیلوں میں ڈال دیا جائے۔
عاشقی معشوقی کرنے والوں کو سرے عام ذلیل کیا جائے۔
زنا کار کو سنگسار کیا جائے
پرائویٹ پارٹیاں منانے والوں پر فحاشی کا کیس کیا جائے
عورتوں کے نام کو اچھالنے والی این جی اوز کو بین کیا جائے
عورتوں کو گھر میں ہی رکھا جائے جب ضرورت پیش آئے تو باہر جانے کی اجازت بھی دی جائے
عورتوں کو جینز اور بنا آستین کے کپڑے پہننے سے روکا جائے، یہی لباس کل کا جسم ڈھانپنے سے بھی روکیں گے۔
میڈیا پر بے حیائی روکی جائے۔
کراچی سے ایم کیو ایم کو رفع کیا جائے اور الطاف حسیں کو سر عام پھانسی دی جائے
روشن خیال کفار کے بلاگ نا پڑہے جائیں، یا ان پر تبصرہ نا کیا جائے
کوئی بھی ایسا آدمی جو پاکیستانیوں میں برداشت نہیں ہے کہتا ہے اسے اس کی اصل شکل دکھائی جائے۔
MUllah, aap baray shok say deoband ya pethankot wapis chalay jain jahan beth kay na-pakistan aur kafir-e-azam wagera kaha ka kartay thay. Hum baqee log khud he Pakistan ko chala lain gay aap kay bagair.
میرا پاکستان مجھے افسوس ہے کہ آپ میرے تبصرے کو شخصی تنقید سمجھے اور میں معذرت خواہ ہوں آپ کی دل آزاری ہرگز میرا مقصد نہیں تھا۔ ویسے امید ہے کہ آپ پھر بھی اس سوال کا جواب دیں گے کہ کیا ہم یا آپ امارات اسلامی وزیرستان میں رہائش پذیر ہونا پسند کریں گے؟ میرا جواب تو نفی میں ہے، آپ کا کیا جواب ہے؟
کسی کو پاکستان سے جانے کی ضرورت نہیں پاکستان کو ملاؤں اور روشن خیالوں سب کو ملکر چلانا ہے۔ یہ ایک بحث ہے جو جمہوری معاشروں کا ایک صحت مند پہلو ہوتا ہے۔ یہ لڑائی نہیں بلکہ گھر کے افراد کے بیچ کسی مسئلہ پر دو رائے کا ٹکراؤ ہے۔ اور میرے خیال میں ہم سب کو ہی گھر کی فکر ہے، کیونکہ گھر تو آخر اپنا ہے۔
ملاء جی! اگر ہم ملک میں جمہوریت کے نفاذ کی کوشش کریں تو بھی آپ کے بیان کردہ نکات پر عمل ہوسکتا ہے۔ کچھ قوانین پہلے سے موجود ہیں اور اگر آپ کے خیالات سے ہم آہنگی رکھنے والے زیادہ لوگ پارلیمان میں پہنچتے ہیں تو وہ پاکستان کے آئیں کی روح کے مطابق مزید قانون سازی کرسکتے ہیں۔ تو انتہاپسندی کا راستہ کیوں اپنائیں جس سے خوف پیدا ہوتا ہے۔ کیوں نہ سست رفتار مگر پائیدار اور مضبوط تبدیلیاں لائیں؟
ارل صاحب نہ میں دیوبند ہوں نہ میں وہاں جاؤں گا نہ ہی پٹھان کوٹ۔ پاکستان میرا ملک ہے اس کے خلاف ہر قوت نا منظور خواہ وہ ملائ ہی کیوں نہ ہوں۔
لیکن دیوبند۔ سنی یعنی بریلوی اور شیعہ اہلحدیث بھی ان اصولوں کو مانتے ہیں جو اسلام نے وضع کیے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کے اسلام ایک سچا مذہب ہے۔
کافر اعظم کہنے والے اپنے گریبانوں میں جھانکیں، پاکستان کی مخالفت کرنے والے بھی غلط تھے جع ہندؤں کے ساتھی تھے مگر کہلاتے مسلمان ملاء تھے۔
نعمان۔ جمہوریت کے ذریعے ہی ایسا ہونا چاہیے تشدد اور جبر اسلام کے اصولوں کئ خلاف ہے یہ صرف روشن خیالوں اور ملاؤں کی جنگ ہے۔ یہ جو ملاء کرتے ہیں وہ اسلام کی خدمت نہیں کرتے۔ آپ کی جمہوریت والی اور صحت مند پہلو والی بات سب ٹھیک۔ آپ نے اپنے گھر کو بچانے کی بات کی بہت خوشی ہوئی۔ یقینا یہ ہمارا گھر ہے ہمیں ملک کر چلنا ہے اختالف رائے ہو بھی تو ایسا کے ملک کو نقصان نہ پہنچے۔
آپ اپنا رویہ ہمیشہ ایسا رکھیں یا کسی خاص طبقے پر غصہ ظاہر کرنے کی مجائے حقائق کو دیکھا جائے۔
نعمان صاحب
نعمان صاحب ہم باعمل مسلمانوں کے علاقے میں روشن خیالوں کے مقابلے میں اپنے آپ کو زیادھ محفوظ سمجھتے ہیں۔ کیونکہ باعمل مسلمان سچا، کھرا، اور مخلص ہوتا ہے۔
پچھلے کچھ عرصے سے طالبان، القاعدہ، ملا، دہشت گرد، انتہا پسند اور بنیاد پرست کی جو اصطلاحیں مشرکوں نے متعارف کرائی ہیں یہ عام مسلمان کو دین سے متنفر کرنے کی چال ہے۔ اب آپ بتائیں یورپ کو اسلام سے اتنا ڈر کیوں ہے کہ انہوں نے نائجیریا، صومالیہ، ترکی، بوزنیہ، چیچنیا وغیرہ میں کیوں اسلامی حکومتیںقائم نہیںھونے دیں۔ مسلمان اتنے برے نہ تھے جتنے ان کو میڈیا میںدکھایا جارہا ہے۔ اگر لوگ ایران میں زندہ رہ سکتے ہیں، سعودی عرب میں زندہ رہ سکتے ہیںتو پھر افغانستان میںکیوں نہیں۔ دراصل یورپ نہیں چاہتا کہ سوویت یونین کے بعد کوئی اور طاقت اس کے مقابلے میںکھڑی ہوجائے اس لیے وہ جہاں بھی کوئی خطرہ دیکھتا ہے اسے سر اٹھانے سے پہلے ہی کچل دینے کی کوشش کرتا ہے۔
یہ بات آپ کی بالکل درست ہے ہے کہ اگر موجودہ قوانین کو ہی پوری طرح نافذ کردیا جائے تو مسائل حل ہوسکتے ہیں لیکن موجودہ روشں خیال حکومت اور اس کے حواری ایسا نہیںچاہتے اور ہمارا ایمان ہے کہ ان قوانین کا نفاذ ایک باعمل مسلمان ہی کرسکتا ہے جو کسی دنیاوی لالچ سے آزاد ہو اور وہ صرف اللہ کی رضا کیلیے لوگوں کی خدمت کرنے کا جذبہ رکھتا ہو۔
ملاء جی! اگر ایسا ہے تو اوپر آپ نے یہ کیوں لکھا:
یہ الفاظ جارحانہ ہیں اور ایسے ہی الفاظ غازی رشید جیسے لوگ استعمال کرکے لوگوں کو خوفزدہ کرتے ہیں۔
میرا پاکستان، سوال باعمل مسلمانوں کے درمیان رہنے کا نہیں۔ کیونکہ لوگوں کے اعمال جانچنے کا اختیار اور قوت اور ہمت آپ کے اور میرے پاس نہیں۔ سوال امارات اسلامی وزیرستان میں رہنے کا ہے جہاں کوئی نائی کسی کا چہرہ شیو نہیں کرسکتا، لڑکیوں کے اسکول کالج دو سال سے بند پڑے ہیں صرف لڑکوں کے اسکول کالج کھلے ہیں۔ جہاں کسی خاتون کو کسی مرد یا عورت ڈاکٹر تک بھی رسائی حاصل نہیں۔ جہاں کئی پاکستانی صحافیوں کے گھروں پر راکٹ حملے ہوئے ہیں اور کئی کے گھر مسمار، رشتہ دار زدوکوب اور نقل مکانی پر مجبور کردئے گئے ہیں۔ یا غازی رشید کے اسلام آباد میں جہاں کسی بھی مدرسے کا طالبعلم آپ کے گھر کا دروازہ توڑ کر یہ چیک کرنے اندر آسکتا ہے کہ آپ کوئی غلط کام تو نہیں کررہے۔
چلیں امریکہ جہاں اپنے لئے کوئی خطرہ دیکھتا ہے اسے کچل تو دیتا ہے۔ ہم مسلمان تو آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے پر ہی نہیں بلکہ پکانے اور چبا چبا کر کھانے کو بھی تلے بیٹھے ہیں۔
دوستانِ عزیز ، آپ سب سے ایک عرض کرنا تھی کہ ہم سب انسان ہیں فرشتے نہیں۔ اور غلطی کا امکان بہرطور رہتا ہے بھلے ہم کتنے ہی عالم فاضل بن جائیں۔ میرے خیال میں ہمارا (پاکستانی قوم) کا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے اندر برداشت نہیں ہے۔ ہم اختلاف رائے سننا ہی پسند نہیں کرتے اس پر غور کرنا تو بعد کی بات ہے۔ پاکستان کے سب سے مقتدر آئینی ادارے (پارلیمنٹ) سے لے کر مدارس اور پھر گلی محلے میں چائے کی دکان پر ہونے بحث کو ہی دیکھ لیجئے پل بھر میں میدانِ جنگ کا سا سماں ہو جاتا ہے۔ اگر آپ حضرات غور فرمائیں تو ایک بات روز روشن کی طرح سے عیاں ہو گی کہ یورپ اور امریکہ کی ترقی کا راز محنت کے ساتھ ساتھ برداشت کا بھی مرہون منت ہے۔ جی ہاں یہ وہی یورپ ہے جو صدیوں تک عدم برداشت کا شکار رہ چکا ہے اور اس عدم برداشت کے دور میں وہاں اتنا خون بہا کہ جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ آپ دیکھئے کہ خون بہانے والا بھی یورپئین اور عیسائی ہوتا تھا اور مقتول بھی۔ تشدد کا یہ عالم تھا کہ اپنے مخالفین کو سزا دینے کے لئے ایسی ایسی مشینیں بنائی جاتی تھیں کہ زندہ انسان کی کھوپڑی کا قیمہ بنا دیا جاتا تھا۔ حضراتِ محترم ، اب آتے ہیں اپنے پاکستان کی طرف اور ذرا غور سے آج کے حالات کا جائزہ غیر جانبداری سے لیجیے۔ اور انصاف کیجئیے کہ کیا ہم انہی کے راستے پر نہیں چل رہے؟ اور آگے بڑھئیے اور اس تحقیق کے دائرے میں پورے عالم اسلام کو داخل کیجئیے اور نتیجہ نکالئیے۔ دوستو ، میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ مسلمانوں کا دشمن کوئی نہیں ہے ہم مسلمان خود ہی اپنے دشمن ہیں۔ ذرا تاریخ کے اوراق پلٹیے اور امام جعفر صادق جیسے جید عالم اور اپنے وقت کے مشہور ریاضی داں سے آغاز کیجئیے اور عمر خیام اور البیرونی کے دور تک آئیے آپ پر یہ حقیقت آشکار ہوگی کہ ان تمام حضرات میں سے کوئی فقہہ جعفریہ کا پیرو کار تھا تو کوئی فقہہ حنفیہ کا۔ چونکہ اس وقت امت مسلمہ فرقہ بازی کی آلائشوں سے پاک تھی اس لئیے ان ہستیوں کی عزت نہیں اچھالی گئی اور یہ بلا شبہ ہم سب مسلمانوں کے ہیرو ہیں۔ لیکن جب ہم نے انسانوں کو ان کی بہترین معاشرتی، ادبی اور سائینسی خدمات کی بجائے مذہب اور فرقہ کی بنیاد پر پرکھنا شروع کر دیا تو ہم اس مقام پر آ گئے ہیں کہ جہالت ہمارا ٹریڈ مارک بن گیا ہے۔ ایک بات کہنا چاہوں گا کہ جب یورپ نے یہودیوں کو مار مار کر اپنے ہاں سے بھگا دیا تھا تو اس وقت ترکی نے ان کو پناہ دی تھی اور چونکہ یہودی قوم تاریخی طور پر ایک ہنر مند قوم ہے اس لئیے ان کے ہنر سے فائدہ اٹھا کر ترکی اپنے وقت کی طاقت بن گیا۔ کیا ہم بھی آج اپنے ہنر مندوں کے ساتھ وہی سلوک نہیں کر رہے جو یورپ نے کیا تھا۔ میرا مقصد کسی ایک گروپ پر تنقید کرنا نہیں۔ مدعا یہ ہے کہ جب ہم برداشت اور رواداری کو خیر باد کہہ دیتے ہیں تو ایسے عناصر کو تقویت ملتی ہے جو تنگ نظری اور تشدد کے پرچارک ہوتے ہیں۔ ان عناصر کو اپنی کامیابی کے لئیے گروہی یا مذہبی تعصب ابھارنا بہت اہم ہوتا ہے۔ پاکستان میں یہ عناصر مذہب کی بنیاد پر تعصب پیدا کرنے میں تو کامیاب ہو چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے وطن کے بہت سے لوگ دوسرے مذاہب کو گالی دینا عیب نہیں سمجھتے۔ حالانکہ یہ ہمارے پیارے رسول کی تعلیمات کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
طالبان کے دور حکومت کا ذکر کریں تو دیکھئے کہ وہ بھی پر تشدد نظریات کے حامی تھے۔ جی ہاں انہی طالبان کا ذکر ہو رہا ہے کہ جنہوں نے افغانستان کا دورہ کرنے والی پاکستانی فٹ بال ٹیم کے ساتھ ہتک آمیز سلوک صرف اس بنیاد پر کیا تھا کہ انہون نے نیکریں کیوں پہن رکھی ہیں۔ اور یہ امر دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ میچ دیکھنے والوں میں کوئی خاتون شامل نہ تھیں۔ اپنے مخالفین کو قتل کرنے میں بھی وہ ید طولیٰ رکھتے تھے۔ پشاور کا حالیہ بم دھماکہ اس کی زندہ مثال ہے۔ اور میرے محترم دوست یہ تو جانتے ہی ہوں گے کہ انسانی جان کی ہمارے مذہب میں کیا حرمت ہے۔ عورتوں کو تعلیم کا حق سب سے پہلے اسلام نے دیا اور طالبان نے ان پر تعلیم کے دروازے بند کئیے۔ پھر بھی دعوی ہے اسلامی امارت کا۔ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔ طالبان پر تنقید کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ ان سے حکومت چھن جانے کے بعد سب ٹھیک ہو گیا ہے۔ تشدد اور عدم رواداری کا مسئلہ آج بھی جوں کا توں ہے۔ امریکہ کی چھتر چھایہ میں کابل فتح کرنے کے بعد جو مناظر ٹی وی چینلز نے دکھائے ان کو بھی نہیں بھولنا چاہییے کہ کس طرح سے پاکستان کو گالیاں دی گئیں اور ہلاک ہونے والے پاکستانیوں کی دس دن پرانی سڑک کے کنارے پڑی لاشوں پرنئی حکومت کے حامیوں نے فائرنگ کرکے اپنے وحشی ہونے کا ثبوت دیا۔ کیوں نہ کرتے آخر ان کے آقا امریکہ کی موجودہ انتظامیہ بھی تو انہی خصوصیات کی حامل ہے۔
حضرات محترم ، نہ مشرق نہ مغرب، جب تک ہم انتہائی حد تک اپنے وطن سے مخلص نہ ہوں گے ، اس کی ترقی کی خاطر اپنے اختلافات نہیں بھلائیں گے ، بیرونی نظریات خواہ وہ ہمارے دوست سمجھے جانے والے ممالک اور گروہوں کی طرف سے ہی کیوں نہ مسلط کئیے جائیں،ان کو رد نہیں کریں گے تب تک ذلت کی یہ سیاہ رات کبھی ختم نہ ہوگی۔ مذہب، فرقہ، زبان، صوبہ کی بنیاد پر اٹھنے والے اختلافات تو ہمیں برباد کر ہی رہے ہیں ساتھ ہی ساتھ دوسرے ممالک سے درآمد شدہ نظریات نے بھی ہمیں شدید طور پر تقسیم کر رکھا ہے۔ ان پر قابو پانے کے لئیے جیو اور جینے دو کے اصول پر کاربند رہنا ہو گا۔ کون جنتی کون دوزخی اس کا اختیار اللہ کے پاس ہے اور ہمیں مذہب کو بنیاد بنا کر اس کا فیصلہ کرنے سے پرہیز کرنا چاہئیے۔
میری طرف سے سب کو سلام
سلام کے بعد عرض یہ ھے کہ جتنے بھاییوں نے اوپر اپنے تبصرے کیے ھیں۔۔ہر کویی اپنے موقف پر اگر دوسرے کی نظر میں نھی سہی لیکن خود اپنے اپکو صحیح کہتا ھے ۔۔۔۔اس لیے تو وہ اس بات کو مان کرڈٹارھتا ھے ۔۔۔۔انسان بذات خود بھت کمزور ھے لہذا اکثر انسان سے غلطیا ں ھوتی ھے ۔۔۔لیکن
کراچی سے ایم کیو ایم کو رفع کیا جائے اور الطاف حسیں کو سر عام پھانسی دی جائے
پتہ نہیں اس جنم میں یہ خواہش پو ری ہو گی کہ نہیں