آج کے اخبار روزنامہ جنگ میں مولانا سلیم اللہ خان، صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان کا مراسلہ شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے وفاق المدارس کا جامعہ حفصہ کی کاروائیوں کے بارے میں موقف بیان کیا ہے۔ جنگ کے اردو سرچ صفحات پر تو میں یہ مضمون نہیں تلاش سکا تاہم اس کی خبر ملاحظہ فرمائیں اور چاہیں تو جنگ ملٹی میڈیا پر اصل مضمون کا مطالعہ کریں۔
روزنامہ جنگ پر ہی معروف کالم نگار منو بھائی کا کالم، شاخیں اور جڑیں جامعہ حفصہ کے کرتا دھرتاؤں پر بڑے کاٹ دار لہجے میں طنز کرتے ہوئے منو بھائی لکھتے ہیں:
شمیم اختر کے پڑوسیوں نے حکومت سے کہا ہے کہ حکومت شمیم اختر کے رہائشی مکان کی الاٹمنٹ منسوخ کردے اور انہیں کسی اور علاقے میں بھیج دے۔ ایک پریس کانفرنس میں شمیم اختر کے پڑسیوں نے بتایا کہ حکومت نے شمیم اختر کے بیٹے کو جی6فور کی گلی87 میں گھر الاٹ کیا ہے اور وہ( شمیم اختر) وہاں بھی آنے لگی ہیں ،چنانچہ وہاں کے پڑوسیوں کو اندیشہ لاحق ہوگیا ہے کہ وہ جسم فروشی کا دھندہ وہاں بھی شروع کردیں گی اور اگر ان کے اس علاقے میں داخلے پر پابندی نہ لگائی گئی تو عام لوگوں کے لئے بہت ہی مشکل بلکہ ناممکن ہو جائے گا کہ وہ دعوت گناہ کو قبول کرنے سے انکار کردیں، چنانچہ محترمہ شمیم اختر اور ان کے بیٹے کو کسی اور علاقے میں بھیج دیا جائے جہاں کے لوگ دعوت گناہ قبول کرنے سے انکار کردیں یا جہاں کے لوگوں کے سسٹم میں مطلوبہ سہولت کی کوئی گنجائش ہی نہ ہو۔
انگریزی روزنامہ ڈیلی ٹائمز کراچی کے مختلف مدارس سے اس سلسلے میں رابطہ کرتا ہے۔ وفاق المدارس العربیہ پاکستان سے الحاق شدہ تمام مدارس کے علماء کرام نے جامعہ حفصہ کے قدم کو غیر اسلامی، غیر ضروری اور غیر قانونی قرار دیا ہے۔ وفاق المدارس العربیہ کے تحت چلنے والے سب سے بڑے ادارے کراچی کی جامعہ دارالعلوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے ترجمان قاری محمد اقبال کا کہنا ہے کہ کراچی کے لوگوں کو خوفزدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔
متحدہ قومی موومنٹ کے الطاف حسین نے گزشتہ شب ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ڈنڈا بردار شریعت کا بزور طاقت نفاذ برداشت نہیں کیا جائیگا اور اس کے خلاف پندرہ اپریل کو احتجاجی ریلی منعقد کی جائیگی۔
انگریزی روزنامہ دی نیوز پر میر جمیل الرحمن لکھتے ہیں:
انگریزی سے ترجمہ:
ایسے شخص کی جنس کا تعین کرنا تقریبا ناممکن ہے جو سر سے پیر تک کالا برقعہ اوڑھے ہو۔ وہ لمبی ہیں اور ان میں سے کوئی ہی بمشکل پانچ فٹ نو انچ سے کم قامت کی ہوگی جو کہ پاکستان میں خواتین کی اوسط قامت سے کہیں زیادہ ہے۔
انگریزی بلاگ چائے خانہ پر ایک پوسٹ "اب تیرا کیا بنے گا کالیا” میں بلاگر مشرف سے اپیل کرتے ہیں کہ جیسا کہ ملک کے چیف جسٹس کو سڑکوں پر گھسیٹا گیا ہے وہ امید کرتے ہیں کہ اس خود ساختہ عدالت کے خالق کو بھی سڑکوں پر گھسیٹا جائیگا۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے ملک میں بڑھتی ہوئی انارکی، مذہبی انتہاپسندی اور شہریوں کی پراسرار گمشدگیوں پر اپنی تشویش کا اعادہ کیا ہے۔ کمیشن نے حالیہ میٹنگ کے بعد یہ پریس ریلیز جاری کی ہے۔
لال مسجد اسلام آباد کی انتظامیہ کا اعلان قابلِ ستائش نہیں ۔ اسلام ذاتی مثالی کردار سے پھیلا ہے بزورِ طاقت نہیں ورنہ آجکل جبکہ مسلمان ملکوں میں لوگ اسلام سے بہت دور ہو چکے ہیں اور مسلمان حکومتیں کمزور ہیں امریکہ اور یورپ میں اسلام نہ پھیل رہا ہوتا ۔ عجیب بات یہ ہے کہ چوہدری شجاعت صاحب نے لال مسجد کی انتظامیہ سے مذاکرات کے بعد کوئی بیان نہیں دیا ۔ ایک بات جو کل سامنے آئی یہ ہے کہ شمیم کی غلط کاری کے خلاف محلہ والوں نے 1996 میں پولیس کو رپوٹ کیا تھا ۔ پولیس نے چھاپہ بھی مارا تھا لیکن اس کے بعد کوئی نہ ۔ جمیل الرحمٰن صاحب لگتا ہے لحاف میں دبکے بیٹھے ہیں جو بے پر کی اُڑا رہے ہیں یا وہ سمجھتے ہیں کہ اُن کے علاوہ سب اندھے ہیں ۔ ایک اور بات سامنے آئی ہے کہ دارالافتاء کو ہی قاضی کورٹ کہا گیا ہے ۔ دارالافتاء تو کئی سالوں سے اسلام آباد میں قائم ہے جس میں آٹھ دس پڑھے لکھے مولوی شامل ہیں اس لوگ اپنے معاملات لے جاتے ہیں دینی حل کیلئے ۔ اس دارالافتاء کا ایک فیصلہ جس کو غلط پبلیسٹی دی گئی وہ وزیرستان پر پاکستانی فوج کا حملہ تھا ۔ لوگ پوچھنے گئے تھے کہ کون شہید ہے فوجی یا سویلین ؟ فتوٰی یہ دیا گیا تھا کہ مسلمان سے مسلمان لڑے تو کوئی شہید نہیں ہوتا ۔
شکریہ اجمل صاحب،
بندہ کس کی بات سنے کس کی نہ سنے؟ مجھے پاکستانی میڈیا اور خاص طور پر پرائیویٹ میڈیا نے انتہائی مایوس کیا ہے۔ کیا کوئی ان کا احتساب بھی کر سکتا ہے؟ اور عوام کو دیکھیں کہ بھیڑوں کی طرح جس طرف دھکیل دیا جائے، چل پڑتی ہے۔ کبھی مولوی، کبھی جرنیل، کبھی سیاستدان! ہماری اپنی عقل نہ جانے کیوں گھاس چر گئی ہے۔ مدرسہ حفصہ کا صرف طریقہ کار اور وقت مناسب نہیں، باقی مجھے ان کی نیتوں میں اخلاص نظر آتا ہے۔ آخر کو وہی کر رہے ہیں نا جو عوام کا دیرینہ مطالبہ تھا؟ یہی اخبارات، مولوی، عوام معاشرے میں بڑھتی برائیوں پر نقطہ چیں تھے، اب کیوں پنکچر ہو گئے ہیں؟
فیصل، مین تو چایخانھ پر صرف مروج رسم کو جاری رکھنی کی صفارش کر رھا ھوِِ
We always had political dalaals (dullaay in Punjabi) like shujaat and others who always manage to get the business deals done between the religious pr0stitutes (muzhabee rund1an) and their customers (gahuk) the army and america and still these molvis have the cheek to complain of Aunti Shameem who has neither sold Pakistan nor Islam.
If someone can express this more eloquently I would appreciate that.
Jamia Hufsa is proving too extremist even for doebundis;
جامعہ حفصہ مدارس بورڈ سے خارج
دیو بند مکتبِ فکر کے مدارس کے بورڈ ’وفاق المدارس العربیہ پاکستان‘ نے اسلام آباد کے زبردستی شریعت نافذ کرنے والے دو مدارس کو اپنے بورڈ سے نکال دیا ہے۔
(http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/story/2007/04/070409_hafsa_ousted_sq.shtml)
اجمل شاید آپ کو یاد ہو کہ ایک مرتبہ آپ اور میں نے اس بلاگ کی ایک پوسٹ میں جیو ٹی وی کی عاصمہ شیرازی کا ذکر کیا تھا کہ کس طرح وہ اسکارف پہن کر ایک جرنلسٹ کا مشکل کام بخوبی انجام دے رہی ہیں۔
فیصل میڈیا کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ آپ کو صحیح اور غلط دونوں تجزئے پیش کرے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ میڈیا کا پاکستان میں اتنی پابندیوں، دھمکیوں اور حملوں کے باوجود اپنی ذمے داری نبھانے کی مسلسل کوشش کرنا لائق ستائش ہے۔ آزاد عدلیہ اور آزاد میڈیا ہی پاکستان کو جمہوریت کی پٹری پر رواں رکھ سکتے ہیں۔
گمنام صاحب اور علی خوش آمدید۔ علی میں تمہاری بات سے متفق ہوں کہ جرنیل کو اس نام نہاد منصف اور دہشت گرد کو بھی سڑکوں پر گھسیٹنا چاہئے۔
گمنام صاحب بلاگ کی تبصرہ جاتی پالیسی کے مطابق آپ کا تبصرہ ناپسندیدہ ہے کیونکہ آپ نے اپنا نام فراہم نہیں کیا۔ گرچہ میں آپ کا ای میل ایڈریس دیکھ سکتا ہوں مگر بلاگ کے دیگر قاری آپ کو کیسے شناخت کریں گے؟
میں نے ابھی حامد میر کا کالم روزنامہ جنگ میں پڑھا جس میں انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ جامعہ حفصہ اور جامعہ فریدیہ کی تعمیرات غیر قانونی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسلام آباد کی باقی مساجد کی زمینیں قانونی ہیں۔ اس سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ یہ مولانا جو اعلان جہاد اور نفاذ شریعت کا اعلان داغ رہے ہیں یہ سب کہیں مدرسہ اور اس پر قائم ان کی اجارہ داری بنائے رکھنے کے لئے تو نہیں؟
Naumaan sahib naam dala lekin gult field main chala gia. Anaaree hoon maaf kur dee jeeay.
جی نعمان آپ کی اس بات سے میں متفق ہوں کہ میڈیا کو مشکل وقت کا سامنا ہے، لیکن افسوس تو اس بات کا ہے کہ اس میں بھی صرف کچھ گروپ ہی یہ بہادری کر رہے ہیں، باقی تو حکومتی اشتہار چھاپ چھاپ کر پیسہ بنا رہے ہیں۔ ہاں اکا دکا واقعات اپنی “ٹور“ بنائے رکھنے کو چھاپ دیتے ہیں اور پھر اگر نزلہ گرتا بھی ہے تو غریب رپورٹر اور فوٹوگرافر جیسے طبقے پر۔
جہاں تک ملک میں جاری حالیہ واقعات کا تعلق ہے تو شائد میڈیا کچھ بہتر رول ادا کر سکتا تھا، مثلآ وزیرستان یا دیگر قبائیلی علاقہ جات میں جاری شورش میں کتنے مقامی لوگوں کا نقطہ نظر پیش کیا گیا؟ ہاں ایجنسیوں کی عطا کی گئی اصطلاحات مثلآ غیر ملکی جنگجو، غیر مقامی طالبان، پنجابی طالبان، و دیگر بکواس بہ کثرت سننے کو ملی جس کا مقصد عوام میں ایک خاص نقطہ نظر کا فروغ ہوتا ہے۔ یہی چیف جسٹس کے معاملے میں بھی ہوا۔ اب میڈیا غیر جانبدار تو نہ رہا نا؟
علی بھائی آپ کی سفارش یا گزارش کی زد میں تو بڑے بڑے نام آتے ہیں، بلکہ شائد خود گھسیٹنے والے بھی گھسیٹے جانے کے لئے ہر طرح سے کوالیفائی کرتے ہیں 🙂
صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ اپنی مجبوری،کمزوری یا پھر کسی سیاسی مصلحت کے پیشِ نظر اگر حکومتِ پاکستان ان قانون شکنوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتی تو اس کے نتائج پُورے ملک کو بھگتنا ہوں گے۔ تشدد، لا قانونیت، اور قتل و غارت گری کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہو گا کہ جس کا صرف تصور ہی کیا جا سکتا ہے۔ اللہ نہ کرے کہ ہمارا پیارا وطن اور اس کے معتدل مزاج عوام ان شدت پسندوں کی دہشت کا نشانہ بنیں۔ لیکن پارا چنار اور آج کی کراچی کے واقعہ کی خبر سے صرفِ نظر بھی نہیں کیا جا سکتا۔ جب ہر تنظیم اور گروہ کو معلوم ہو گا کہ حکومت ان کی غیر قانونی کارروائیوں کے باوجود بھی ان کے ساتھ انتہائی نرمی یا دوسرے لفظوں میں سودے بازی کرے گی تو وہ قانون کو ہاتھ میں لینے سے ذرا بھی نہیں چُوکیں گے۔ اور اس وقت غلط اور صحیح کا فرق ختم ہو جائے گا۔ وہ لوگ جو پر امن احتجاج پر یقین رکھتے ہیں وہ بھی اسی راستے پر چل نکلیں گے کہ یہ اپنے “مطالبے“ منوانے کا ایک شارٹ کٹ بن جائے گا۔۔۔۔۔ جان سے کون جائے گا؟۔۔۔۔ یاد رکھئیے گا کہ جس معاشرے میں سے رواداری اور برداشت ختم ہو جائے اُس کے برقرار رہنے کی کوئی وجہ باقی نہیں بچتی۔ ہمیں اپنے معاشرے کو بچانا ہے۔ معصوم لوگوں کی جانوں کو بچانا ہے تو ان شدت پسندوں کو روکنا بہت ضروری ہے۔ ورنہ ہر کسی کا اپنا اسلام ہو گا۔ اسلام کی اپنی ہی تشریح ہو گی۔ ہر مدرسے کی اپنی عدالت ہو گی اور ہر فرقہ اپنے مخالفین کو زیر کرنے کے لئیے اسلام کے نام پر ایسے ایسے شرمناک ہتھکنڈے اختیار کرے گا کہ پاکستان کی اپنی سالمیت بھی پارہ پارہ (خدانخواستہ) ہو سکتی ہے۔
ساجد میرا بھی یہی خیال ہے۔ ابھی کل ہی کسی نے جامعہ بنوری ٹاؤن کے نام سے اخبارات کو خط بھیجے ہیں کہ اگر تیسویں قومی کھیلوں میں خواتین اتھلیٹ نے حصہ لیا تو انہیں اس کی سزا دی جائیگی اور ان کے چہروں پر تیزاب پھینک دیا جائے گا۔ جامعہ بنوری ٹاؤن نے اس خط کو بالکل مسترد کردیا ہے اور اسے جامعہ کو بدنام کرنے کی سازش قرار دیا ہے۔
Some analysis here; http://www.jang.com.pk/jang/apr2007-daily/13-04-2007/col3.htm
بنے ہیں اہلِ ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں