ستائش مشق ستم
بدخواہوں اور افواہ طرازوں سے دنیا بھری پڑی ہے۔ ذرا کوئی کامیابی کی شاہراہ پر رینگنا شروع ہوا ادھر لوگ فٹ بوٹ پہن اس کی بلند ہمت کو کچلنے آموجود ہوتے ہیں۔ بیچاری کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن جسے شہر کا ہر خاص و عام پیار سے کے ای ایس سی بلاتا ہے ایسا ہی ایک مظلوم اور بے قصور ادارہ ہے۔ انہوں نے تو نیک نیتی سے کے ای ایس سی خریدی تھی، کہ چلو بھائیو خود بھی کمائیں گے اور لوگوں کے گھروں کے چراغ بھی روشن کریں گے۔ ماشاءاللہ ایسے نیک خیالات تھے ان کے۔ مگر حاسدوں نے بے پرکی اڑانا شروع کردی۔ کسی نے کہا کہ کے ای ایس سی نے وعدے کے مطابق سرمایہ کاری نہیں کی، کسی نے کہا لوڈ شیڈنگ سراسر ان کا قصور ہے۔ کسی نے کہا واپڈا اگر انہیں کم بجلی دے رہا ہے تو اس میں واپڈا کا کیا قصور ہے واپڈا نے کوئی کے ای ایس سی کا ٹھیکہ تھوڑی ہی لیا ہے۔
میرے خیال میں یہ سب لوگ کے ای ایس سی کی ملکی خدمات سے جلتے ہیں۔ کیونکہ کے ای ایس سی کی ملکی اور کراچی کے شہریوں کیلئے جو گرانقدر خدمات ہیں وہ اگر بیان کی گئیں تو پلندے سیاہ ہوجائیں گے مگر ان کی اولولعزمی، ہمت، وقار، نیک نیتی اور دیانتداری کی مثالیں کم نہ ہوں گی۔ ان حاسدوں کو منہ توڑ ناصحیح لیکن ناخن توڑ جواب دینے کے لئے، بطور ایک وفادار کے ای ایس سی صارف میں نے یہ ضروری سمجھا کہ میں کے ای ایس سی کی خدمات پر کچھ روشنی ڈالوں۔ تا کہ جھوٹ کا پردہ چاک ہوسکے اور لوگ سچائی کا اجالا (جن علاقوں میں لوڈ شیڈنگ ہورہی ہو وہ اندھیرا پڑھیں) دیکھ سکیں۔
1۔ کراچی کے شہریوں سے صبر، برداشت، ختم ہوتی جارہی تھی۔ اب کے ای ایس ایک گھنٹے کا کہہ کر چار چار گھنٹے لوڈ شیڈنگ کرکے شہریوں کو ان کے اسلاف کی صبر اور برداشت کی سی اعلی اوصاف بیدار کرنے میں مدد کررہی ہے۔
2۔ دیکھا گیا ہے کہ اکثر دکانوں میں لوگ دن میں خواہ مخواہ اپنی دکانوں، آفسوں اور مکانوں میں ایرکنڈیشن اور پنکھے چلا کر بیٹھے گپے لگارہے ہوتے ہیں۔ کمپیوٹر کھلا ہے تو براؤسنگ میں وقت صرف ہو رہا ہے یا پھر دوستو سے چیٹ ہورہی ہے۔ ملک کی پیداواری صلاحیت بڑھانے کے لئے ضروری تھا کہ ان لوگوں کو کام پر مجبور کیا جائے۔ ایسے گھروں میں جہاں خواتین اپنی صبح نادیہ خان شو کے ساتھ شروع کرتی تھیں وہاں اب بجلی کی غیر موجودگی میں وہ شوہروں کی جرابیں بنیانیں دھو کر سکھا دیتی ہیں، ہانڈی چولہے سے فارغ ہوجاتی ہیں حتی کہ اپنے میکے کے رشتہ داروں سے بھی فون پر بات چیت کرلیتی ہیں۔ دکانوں میں اے سی نہیں چلتا تو دکاندار کو ہوش آتا ہے اور وہ ملازمین کو ان فرائض یاد دلانا شروع کردیتا ہے۔
3۔ پہلے لوگ دفتروں سے جلدی گھر بھاگ آتے تھے، کہ کہیں ٹریفک جام میں نہ پھنس جائیں۔ کے ای ایس سی بجلی بند کرکے انہیں دیر تک آفس میں بیٹھے رہنے پر مجبور کرتی ہے۔ اگر وہ آفس سے پھر بھی بھاگ کر گھر پہنچ جائیں تو کے ای ایس سی ان کے گھر کی بجلی غیرمعینہ مدت کے لئے بند کردیتی ہے۔
4۔ کے ای ایس سی نے ایک ایسی پی ایم ٹی ایجاد کی ہے جو اڑ بھی سکتی ہے۔ دنیا بھر کے ملکوں میں یہ اوزار جہاں لگ گئے سو لگ گئے لیکن کے ای ایس سی کی پی ایم ٹیز پر کے ای ایس سی ایسی برقی رو چھوڑتی ہے کہ جو صارفین کی طلب پوری نہیں کرپاتی اور مجبورا اڑان بھرجاتی ہے۔ اڑنے کے بعد یہ کہاں جاتی ہیں اس کے بارے میں کوئی مصدقہ اطلاع تو نہیں مگر کے ای ایس سی انتظامیہ اس بات پر غور کررہی ہے کہ حال ہی میں امریکہ میں اڑن طشتریاں نظر آئی ہیں کہیں وہ ہماری پی ایم ٹیز ہی تو نہیں۔
5۔ کے ای ایس سی ملک کے نوجوانوں کو اکسا رہی ہے کہ کسی طرح وہ ظلم کے خلاف سڑکوں پر آنا سیکھیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے ہی کے ای ایس سی کی حفاظت کرتے ہیں۔ مگر کراچی کے نوجوانوں کو ٹائر جلانے، گاڑیوں پر پتھراؤ کرنے، نعرہ بازی کرنے اور دھرنے دینے کی مشق مفت میں حاصل ہوتی ہے اور کے ای ایس سی اس کے کچھ علیحدہ چارج بل میں نہیں لگاتی۔
6۔ کراچی میں امراض چشم بہت بڑھ رہے تھے۔ تو کے ای ایس سی نے سوچا کہ ان لوگوں نے تو ویسے ہی اندھا ہوجانا ہے تو انہیں ابھی سے اندھے پن کی مشق گھر پر ہی کرادی جایا کرے۔ اسلئے شہر کے اکثر علاقوں میں بجلی رات کو بند ہوتی ہے۔ لوگ اپنے موبائل فون اندھوں کی سفید لاٹھیوں کی طرح استعمال کرتے ہوئے سڑکوں، بلڈنگوں، گھروں، دکانوں میں اپنا راستہ تلاش کرتے ہیں۔ اس سے صحت مند آنکھ والوں کو بھی یہ فائدہ ہوتا ہے کہ وہ اندھوں کے درد کا اندازہ لگا سکتے ہیں اور ان کی اشک شوئی کرسکتے ہیں۔
7۔ اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے کی ان مشقوں کا براہ راست تعلق ملکی دفاع سے بھی ہے۔ خدانخواستہ کبھی صیہونی، ہندو، کافر افواج ہمارے ملک پر حملہ آور ہوں تو ہم پورے ملک میں اندھیرا کرکے بلڈنگوں کی چھتوں پر مورچے بنائیں گے اور وہاں سے غلیلوں کے ذریعے دشمن کی فضائی قوت کو تہس نہس کردینگے۔
8۔ ہمارے معاشرے میں پراسرار علوم کو حاصل کرلینے کی ہمیشہ سے تڑپ رہی ہے۔ بازار میں ایسی کتابیں اب بھی بکتی ہیں جن میں شمع بینی، علم نجوم، قافیہ شناسی، دست شناسی، ہپناٹزم اور ٹیلی پیتھی وغیرہ جیسے علوم سکھائے جاتے ہیں۔ کے ای ایس سی دل سے چاہتی ہے کہ ہم روزانہ کم از کم ایک ڈیڑھ گھنٹا ضرور موم بتی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر،
~ کچھ اس کی سنا کریں کچھ اپنی کہا کریں۔
اس سے جو ہمیں ٹیلی پیتھی کی صلاحیت حاصل ہوگی اس سے محبوب قدموں میں آگرے گا، دولت قدم چومے گی، کامیابی ملے گی، شوہر بس میں رہے گا اور ساس بے بس رہے گی، بیٹیوں کی شادیاں جلدی ہوں گی، اولاد نرینہ پیدا ہوگی وغیرہ جیسے فوائد قابل ذکر ہیں۔
9۔ واٹربورڈ والوں نے بھی کے ای ایس سی سے سفارش کی کہ جس طرح تم بجلی کی قلت سے لڑتے ہو ہماری بھی کچھ مدد کرو، ہم بھی تو انسان ہیں، ہم بھی تو مسلمان ہیں۔
تو اب کے ای ایس سی واٹربورڈ کو اپنا خفیہ لوڈشیڈنگ شیڈول روانہ کردیتی ہے۔ اب جس علاقے میں بجلی نہیں ہوتی واٹر بورڈ والے اسی وقت وہاں پانی فراہم کرتے ہیں۔ جس سے امید ہوچلی ہے کہ لوگ اپنی بلڈنگوں کے آگے رہٹ لگا لیں گے جس کے آگے ایک بیل گھومتا رہتا ہے اور کنویں سے پانی نکالتا رہتا ہے۔ اس سے بھی کے ای ایس سی کا ہی فائدہ ہے کہ شہر میں جو ہزاروں پانی کی موٹریں چلتی ہیں وہ نہیں چلیں گی تو کتنی بجلی بجے گی۔ ایک بیل لوگوں کو بلڈنگ کی چھت پر بھی چڑھانا پڑے گا۔ اب دو بیل اتنی مشقت کریں گے تو کیا ان کے جی بہلانے کو ایک گائے بھی نہ ہو۔ گائے ہوگی تو بچھڑا بھی آئیگا اور بلڈنگ والوں کو مفت دودھ بھی حاصل ہوگا۔ گوبر کی مہک رہٹ کی سریلی آواز اور واٹربورڈ کا آلودہ پانی۔ فردوس کا نظارہ ہے، لا پلاساقی ایک جام اور۔
پس اے میرے عزیز کراچی والوں، تم کے ای ایس سی سے خفا نہ ہو۔ بالکل ایسے ہی جیسے تم مشرف سے خفا نہیں ہوتے۔ کیونکہ تم سمجھدار ہو تمہیں پتہ ہے یہ سب تمہارے بھلے ہی کے لئے تو ہے۔ ارے کل کے مرتے آج مرجاؤگے تو اللہ کے ہاں حساب بھی کم دینا پڑے گا۔ یہ لو دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کا بھی فائدہ۔ اب اور کیا بچے کی جان لو گے؟
بہت اعلٰی!
معذرت کی ساتہ
رھا ہر دور ميں زندہ ميرکا مصرہ
کسی سے اسکی صداقت چھپی نہ رہی
جب سے ليا نظام برق وپڈاہ نے ہاتھوں ميں
پھر چرغواں ميں روشنی نہ رہی
فکر کی بالکل ضرورت نہیں جو ملے اللہ کا شکر ادا کریں کیوں ملک میں اصلی جمہوریت اور ماڈریٹ اسلام نافذ ہے اسلئے بولنا جُرم ہے ۔
ایک سب سے بڑا فائدہ تو آپ گنوانا بھول ہی گئے۔ بجلی کی موجودگی کی وجھ لوگ ٹی وی، کمپیوٹر اور اس طرح کی واہیات مصروفیات پر زیادہ توجہ دے رہے تھے جس کی وجہ سے ہمارا آپس میں ملنا ملانا ختم ہوتا جارہا تھا۔ اب کم از کم یار دوست اور رشتہ دار ایک دوسرے کیلیے وقت تو نکال پائیں گے۔ لوگ بورڈ گیمز یعنی تاش اور لڈو کھیلیںگے اور گپ شپ بھی لگائیںگے۔
اے اللہ ایسی برکتوں سے تو نے کچھ کو محروم کر رکھا ہے ان کو بھی اس کا مزہ چکھا۔
ویسے اس میں بھی مجھے امریکہ کا ہاتھ لگتا ہے کمبخت نے کچھ عرصہ پہلے کہا بھی تھا کہ پتھر کے زمانے مین واپس جانا پڑے گا۔
مشرف حکومت کا احسان ہے کہ ملک اتنی تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ مشی سندھ اور سٹی گورنمنٹ کا کمبینیشن برقرار رہا تو آپ اسی طرح رب کے شکر گزار بندے بن کر زندگی گذاریں گے۔ سو زندگی جتنی بھی ہے آئیڈیل گزرے گی۔
نعمان بہت اچھے ۔ ۔
ویسے ایک اور بھی فائدہ ہو سکتا ہے ، کہ اب نئے مکان پھر سے ویسٹ اوپن بنیں ۔ ۔ ۔
کراچی سے باہر رہنے والوں کے لئے بتا دوں کہ ویسٹ اوپن سے مراد یہ ہے کہ گھر کا رُخ ویسٹ سائڈ پر ہو تاکہ ہوادار رہے اور پھر بجلی کی بچت ہی بچت ۔ ۔
اظہر اب کراچی میں کچھ ایسے اپارٹمنٹس پروجیکٹس کی تشہیر ہوتی ہے جن میں ہر فلیٹ بیک وقت ویسٹ اور ایسٹ اوپن ہوتا ہے۔
ہوادار مکان کراچی کے شہری اس لئے افورڈ نہیں کرسکتے کیونکہ کراچی کی ایک بڑی آبادی ایستھما کا شکار ہے۔ ان کے لئے آلودہ ہوا الٹے مسائل پیدا کرے گی۔ خود میری والدہ ڈسٹ الرجک اور ایستھما سے متاثر ہیں۔ اور یہ ایک بڑی تکلیف دہ صورتحال ہوتی ہے۔
میرے خیال میں مشرف حکومت کا قصور اس میں صرف اتنا ہے کہ وہ کے ای ایس سی کو عدالت میں نہیں گھسیٹتے۔ اور شہری تنظیموں کا بھی اس بارے میں رویہ متضاد ہے۔ اگر ایک کمپنی اس شرط پر بیچی گئی تھی کہ وہ اگلے سالوں میں توانائی کے منصوبوں پر سرمایہ کاری کریں گے تو انہیں اس پر عملدرآمد کے لئے مجبور کیوں نہیں کیا جاتا؟
نعمان بہت اچھے،کافی دن بعد آپ فارم میں نظر آئے ہیں اس پوسٹ کو پڑھ کر ہنسی تو آئی مگر کافی ازیت ناک ،آپنے بھی خود ازیتی کی انتہا کردی،
ہمارے دو بچے کراچی میں ہیں اگلے ماہ انکے سمسٹر ہیں اور لائٹ کے تماشے ختم ہونے میں نہیں آرہے مجبورن انہیں یو پی ایس لگوا کر دیا،اور یہ سونچ رہے ہیں کہ جو لوگ یو پی ایس یا جنریٹر افورڈ نہیں کرسکتے ان کے بچوں کے رزلٹ کی خرابی کا زمہ دار کون ہوگا،
ویسے آپنے کراچی والا ہونے کا حق ادا کردیا ہے:)
[…] Posted by اجمل on April 16th, 2007 کچھ دن قبل نعمان صاحب نے کراچی میں بجلی کی ترسیل کے قصیدے یا نوحے لکھے تھے ۔ میں نے اُنہیں صبر کی تلقین کی تھی ۔ سوچتے ہوں گے کہ خود تو اسلام آباد کے وی آئی پی سیکٹر میں مزے لوٹ رہا ہے اور ہمیں فقط صبر کی تلقین کرتا ہے ۔ صورتِ حال یہ تھی اور ہے کہ ہمیں اس دن سے پچھلے پانچ دن سے یعنی 9 اپریل سے پانی کیلئے ترسانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ ہم نیسلے کا پانی خریدنے کا مقدور نہیں رکھتے اسلئے ایک کلو میٹر دور جا کر پینے کیلئے پانی بھر لاتے ہیں سرکاری کنویں سے ۔ یہ سلسلہ کب تک چلے گا کوئی جوتشی شائد بتا دے ۔ اسلام آباد میں تو طوطے والے بھی نہیں ہوتے ۔ اس پر ہمیں صبر کے امتحان میں پورا اترتے دیکھ کر آج صبح آٹھ بجے سے ساڑھے گیارہ بجے تک بجلی بغیر اطلاع کے بند رکھی گئ ۔ […]
[…] ستائش مشق ستم […]