میں اپنے دوست شعیب صفدر کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا کہ جنہوں نے عدالتی بحران پر مختلف مواقع پر میرے استسفارات کے جوابات دئے اور میری معلومات میں اضافہ کیا۔ تاہم اس بارے میں ابھی بھی میری رائے ڈیولپ نہیں ہوسکی اور اس پوسٹ کا مقصد بھی یہی ہے۔
جنرل مشرف کا یہ کہنا ہے کہ انہیں وزیراعظم پاکستان نے چیف جسٹس آف پاکستان کی بابت ایک ریفرنس بھیجا جو انہوں نے سپریم جیوڈیشل کونسل کو بھجوادیا۔ کیا آئین انہیں ایسا کرنے کی اجازت دیتا ہے؟
کیا سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو معطل کرا جاسکتا ہے اور انہیں فرائض کی بارآوری سے روکا جاسکتا ہے؟
کیا چیف جسٹس کا بار کونسلز سے خطاب سپریم جوڈیشل کونسل کی سماعت پر اثرانداز ہونے کا حربہ ہے؟
اس بارے میں شعیب کا تفصیلی جواب جو انہوں نے بذریعہ ای میل مجھے بھیجا درج ذیل ہے:
اسلام و علیکم
نعمان آپ کی میل ابھی میں نے پڑھی! تین سوال تھے اور دو ہی آپ کی رائے ایک سوال کا حصہ، بار ایسوسی ایشنز کیوں مدعو کر رہی ہیں؟؟ بار ایسوسی ایشنز سے خطاب کا کیا مقصد ہے؟بار ایسوسی ایشنز سال میں گاہے بگاہے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کےسینئر ججز کو مدعو کرتی رہتی ہیں! بار (وکلاء) اور بینچ (ججز) ایک دوسرے سے قریبی تعلق رکھتے ہیں!! ہم وکلاء میں اکثر کہا جاتا ہے کہ عدلیہ کی آزادی اِن دونوں کے اتحاد ہی سے ممکن ہے! وکیل عدالت کا آفیسر ہوتا ہے اور اُس کا کام اپنے کلائینٹ کی قانونی مدد کرنا ہی نہیں ہوتا بلکہ دراصل عدالت کی مدد (assist) کرنا ہوتا ہے!! ایسا باہمی تعلق کے بہتر ہونے پر ہی ممکن ہے۔ باہمی تعلق کی بہتری کا ایک اظہار تو یہ ہے کہ جب ایک پر بُرا وقت آئے تو اُس کی مدد کی جائے، مدد اُس وقت ہی کی جاسکتی ہے جن کوئی اُس کا طالب ہو، اور ہم سمجھتے ہیں کہ اِس وقت انہیں ہماری ضرورت ہے! کسی کو اِس بات کا احساس دلانے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اُسے اپنے گھر مدعو کیا جائے اور اُس کی سنی جائے اور اپنے احساسات ، جذبات اور خیالات اُس تک پنچائے جائے کہ آمنے سامنے اِس کی عکاسی جس بہتر طریقے ہوتی ہے وہ کسی اور طریقے سے ممکن نہیں! جب اِس سلسلے میں ابتداء ہو گئی تو دوسرے کا ویسا نہ کرنا یہ رنگ چھوڑے گا کہ شائد وہ ساتھ نہیں! لہذا ہر بار ایسوسی ایشن کی جانب سے الگ الگ (چونکہ وہ جدا جدا شہروں میں ہیں) دعوت دی جا رہی ہے!! بلکہ مزے کی بات بتاؤ کہ یہاں تو یہ بحث بھی ہو رہی ہے کہ چونکہ کراچی میں دعوت سندھ ہائی کورٹ بار کہ طرف سے دی جا رہی ہے تو کراچی بار کیا ایک بار پھر انفرادی سطح پر دعوت دے کسی اور دن؟ مگر ساتھ ہی مشترکہ طور پر یہ بھی فیصلہ کیا جانا ممکن ہے کہ دونوں ایک ہی پلیٹ فارم پر اپنے ساتھ کا اظہار کردیں!!
آپ نے کہا کہ اس طوفانی دور میں کوئی شخص اگر اسلام آباد سے پریس ریلیز بھیجتا ہے تو وہ خودبخود ملک بھر میں پھیل جاتی ہے، درست مگر پریس ریلیز کے اجراء اور بار سے خطاب میں زمین آسمان کا فرق ہے!! پریس ریلیز کا اجراء ٹھیک کہ بار کے منتخب اراکین کی جانب سے ہونے کی وجہ سے اہم ہے مگر اُس بار کے وکلاء کا خود اُس جگہ پر موجود ہونا کسی بھی ابہام کو پیدا ہونے ہی نہیں دیتا کیا ایسا پریس ریلیز سے ممکن ہے؟
اِس کی ایک چھوٹی سی مثال دوں کہ پیر کو حکومتی حمایت میں Marriott ہوٹل میں ایک سیمینار ہوا! جس میں حکومت کے حق میں ایک قراداد پیش کی گئی جسے وہاں موجود وکلاء (میں خود وہاں موجود تھا کہ مدعو تھا کہ مجھے خبر نہیں تھی کہ یہ حکومتی حمایت میں ہے) نے مکمل طور پر مسترد کر دیا! سیمینار کے وقت جیو! ، خاص کر پی ٹی وی اور ممکن ہے پرنٹ میڈیا کی طرف سے بھی نمائندے موجود تھے مگر قراداد کی ناکامی کے بعد کسی جگہ بھی میڈیا میں اِس کا ذکر نہیں ہوا!! اسی طرح کراچی میں ہی جب میڈیا اور وکلاء میں تصادم ہوا تو کراچی میں جاری وکلاء کے احتجاج کو الگے چند دن میڈیا میں کہیں جگہ نہیں ملی تو کیا احتجاج ہوا ہی نہیں!!! لہذا ہم اپنے باہمی تعلق ، اظہار اور جذبات کو میڈیا کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے!!!
معاملہ کا سیاسی رنگ ، وکیلوں کے مرہون منت نہیں! ہم میں سے کئی کسی نا کسی سیاسی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں مگر مختلف جرنل باڈی (بار میں وکلاء کا اجلاس) میں یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ اِس تحریک سے سیاسی پارٹیوں کو رعکا نہیں جائے گا مگر نہ تو انہیں خود میں ضم ہونے دیا جائے گا نہ ہی کوئی ایسا موقع دیا جائے گا کہ وہ اسے ہائی جیک کر کے اپنے مقصد کے لئے استعمال کر سکے!!! مگر اِس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ ایک پارٹی کی کمزوریاں دوسری پارٹی کی طاقت ہوتی ہے! لہذا حکومت کی اس نالائقی کو اگر اپوزیشن جماعت اپنے فائدے کے لئے استعمال کر لے تو اِس میں ہمارا کیا قصور؟؟ آپ تمام احتجاج کو اگر قریب سے دیکھے تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ وکیلوں نے کہیں بھی اپوزیشن کو اپنی صفوں میں آنے نہیں دیا یعنی احتجاج میں شامل ہیں مگر مکمل طور پر شانہ بشانہ نہیں!!
شعیب صفدر
مبینہ طور پر چند غیر جانبدار وکلاء کی جانب سے آج کے اخبارات میں ایک اشتہار شائع ہوا ہے جس کی تصویر نیچے دی گئی ہے:
اس سارے معاملے میں چیف جسٹس کے حامی وکلاء کا خیال یہ معلوم ہوتا ہے کہ چیف جسٹس کو جیوڈیشل کونسل سے انصاف نہیں ملے گا۔ زیادہ تر وکیل اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ جیوڈیشل کونسل غیر آئینی ہے۔ جب کہ حکومت کے حامی وکلاء کا خیال یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس معاملے کا فیصلہ سپریم جیوڈیشل کونسل پر چھوڑتے ہیں۔ دوسری طرف سیاسی جماعتیں جنہوں نے کبھی ایل ایف او پر جرنیل کا ساتھ دیا تھا اور کبھی وردی پر وہ اب اس معاملے سے سیاسی فائدے اٹھانے کے چکر میں ہیں۔ حکومتی سیاسی جماعتیں حسب معمول جرنل صاحب کی چمچہ گیری میں مشغول ہیں اور ان کی حمایت میں ریلیوں اور جلسے جلوسوں کا اہتمام کررہے ہیں۔
عوام، میں نہیں سمجھتا کہ ملک کی زیادہ تر عوام کو اس معاملے کی کچھ سمجھ پڑ رہی ہے (میں بھی ان ناسمجھوں میں شامل ہوں)۔ عوام بیشک عدالتوں اور میڈیا کی آزادی کے حق میں ہیں اور جرنیل مشرف اب عوام میں اتنے مقبول نہیں جتنے پہلے تھے مگر یہ کہنا کہ جرنیل اور فوج سے نالاں عوام عدالتی بحران پر چیف جسٹس کے ساتھ ہیں غالبا اس لئے درست نہیں کیونکہ زیادہ تر عوام اس سارے قصے کی اہمیت، بیک گراؤنڈ اور دیگر معلومات سے لاعلم ہیں۔ ان کے لئے یہ سمجھنا بہت مشکل ہے کہ ایک جج جو ایل ایف او کے تحت حلف اٹھاتا ہے وہ کس طرح عدلیہ کی آزادی کا ہیرو بن سکتا ہے؟
آنکھوں پر پٹی بندھی ہو تو کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ عوام نے 26 گھنٹے چیف جسٹس کا انتظار کرکے فقید المثال استقبال سے صاف بتا دیا کہ وہ کس کے ساتھ ہیں۔ انصاف کے منہ پر ایسا طمانچہ مہذب دنیا میں تصور نھیںکیا جا سکتا۔ لیکن اگر ضمیر مردہ ھوجا ئے تو غنڈہ گردی سے چینل بند کرادینا انصاف لگتا ہے اور غلط کاری کے سامنے چیف جسٹس کا ڈٹ جانا نا انصافی۔
میں نہیں سمجھتا کہ چیف جسٹس کا انصاف کے لئے جدوجہد کرنا ناانصافی ہے اور غنڈہ گردی سے چینل بند کروادینا یقینا ناانصافی ہے۔ امید ہے آپ تصحیح فرمالیں گے اور فضول اور لغو الزام تراشی اور مبنی بر عناد تبصرہ جات سے گریز فرمائیں گے۔
جیسا کہ میں اوپر عرض کرچکا ہوں کہ اس بارے میں میری کوئی رائے نہیں ہے۔ اور کیوں نہیں ہے اس کی وجہ اوپر بیان کرے گئے چند سوالات ہیں جن کے ہر دو جانب سے آنے والے جوابات مجھے تسلی بخش محسوس نہیں ہوتے۔
نعمان مجھے بھی عدالتیں آزاد چاہیئے ہیں ہر طرح کے انفلوئنس سے آزاد،کوئی زمین دار ہو یا سرمایادار،سیاستداں ہو یا فوجی یا عوام انصاف سب کے لیئے اور وقت پے،یہاں تک کے وکیل اور ججوں کے زاتی مفادات سے بھی آزاد کون دے گا مجھے یہ انصاف؟
جسٹس صاحب کی باتوں پر یقین کرنے کو دل چاہتا ہے مگر دماغ نہیں مانتا،پتہ نہیں کیوں ان میں اور مولوی عبدالعزیز میں مشابہت کیوں محسوس ہونے لگتی ہے،
ایک کو اسلام کا نفاز اس وقت یاد آتا ہے جب ان کی مسجد اور مدرسے کی زمین کا مسئلہ آتا ہے دوسرے کو انصاف کی بالا دستی کا خیال اس وقت آتا ہے جب ان کا عہدہ خطرے میں پڑجاتا ہے،
ایسا لگتا ہے کہ سب کی اپنی اپنی ڈفلی ہے اور اپنا اپنا راگ ہے،
دونوں کے ساتھ ہمدردی بھی محسوس ہوتی ہے کہ دونوں کو سامنے رکھ کر پیچھے کون اپنی گیم کھیل رہا ہے،
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا ،
پہلی بات کہ ڈکٹیٹر کی تابعداری کا حلف لینے والے پر کیسے اعتماد کیا جائے ۔ عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ گھر سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلّم کو معاذ اللہ قتل کرنے نکلے تھے ۔ مگر اُن پر ایمان لا کر واپس آئے اور پھر ان کی ہر بات معتبر جانی جانے لگی ۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ غزوۂ اُحد میں کفار کے ایک جتھے کے سالار تھے ان کی جنگی حکمتِ عملی کی وجہ سے مسلمانوں کی فتح شکست میں تبدیل ہو گئی ۔ بعد میں وہ ایمان لا کر مومنین کے سالارِ اعظم بنے ۔ اصل کنٹرول اللہ کے پاس ہے وہ جب چاہے جسے چاہے عزت سے نواز دے یا ذلت میں ڈبو دے ۔ آپ تاریخ کا مطالع کیجئے کہ کس طرح ایک نحیف کا مقابلہ اللہ تعالٰی نے انتہائی طاقتور سے کرایا اور اسے فتح دی ۔
آپ کا یہ خیال بھی صحیح نہیں کہ عوام کو کچھ پتہ نہیں ۔ 5 مئی کی صبح تک مجھے خیال تھا کہ پنجابی اپنے میں مگن سویا ہوا ہے اور چیف جسٹس کا قافلہ صرف وکلاء اور چند سیاسی کارکنوں پر مشتمل ہو گا ۔ لیکن باوجود اس کے کہ ڈیڑھ ہزار سے زائد کارکن گرفتار کر لئے گئے تھے اور راولپنڑی اور لاہور کے درمیان شاہراہ شیرشاہ سوری کو ملنے والی تمام سڑکیں اور راستے کے تمام شہروں کے راستے اینٹوں کی دیواریں بنا کر بلاک کر دئیے تھے اس کے باوجود ہزاروں عام لوگ سارے راستے پر شاہراہ کے کنارے پہنچے اور گھنٹوں انتظار کیا ۔ جہلم ۔ گجرات ۔ وزیرآباد گوجرانوالہ اور لاہور میں بھی ہزاروں لوگ شدید گرمی میں ہزاروں عام لوگ گھینٹوں استقبال کیلئے موجود رہے ۔ یہ سب لوگ اپنی مرضی سے آئے تھے برخلاف حکومتی جلوس کے جس کیلئے حکومت ٹرانسپورٹ اور کھانا پینا مہیا کرتی ہے ۔ سب سے بڑی بات کہ پولیس کے جبر اور تشدد کے باوجود نظم و ضبط کا بہترین مظاہرہ کیا گیا ۔
رہا اشتہار تو چیف جسٹس کو احساسِ ذمہ داری اور دلانے والے اور ان کو کمزوری کا احساس دلانے والے خود اتنے غیرذمہ دار اور کمزور ہیں کہ اپنا نام تک نہیں لکھا ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ اشتہار کس نے دیا ہو گا یا دلوایا ہو گا ۔
عبداللہ صاحب ۔ عبدالعزیز نے نفاذِ اسلام کی بات نئی شروع نہیں کی وہ آج سے پندرہ سال پہلے بھی [جب سے میں اسے جانتا ہوں] یہی باتیں کرتا تھا فرق صرف اتنا ہے کہ اب اسکے بیان اور اس سے منصوب بیان [جو اس کے نہیں ہوتے] اخباروں میں چھاپے جا رہے ہیں ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں مسجد مجددیہ پارک روڈ ۔ ایف 8 میں جمعہ کے واعظ کے دوران عبدالعزیز نے جنرل ضیاء الحق کے ایک غلط کام کی پُرزور مذمت کی ۔ میرے پہلو میں اس وقت ایک فیڈرل سیکریٹری بیٹھے تھے اور پچھلی صف میں ایک وفاقی وزیر بھی تھے ۔ اور بھی بہت سے سینیئر سرکاری ملازمین موجود تھے جن میں فوجی اور پولیس افسر بھی تھے ۔ اس وقت میں بھی وفاقی حکومت کا سینیئر افسر تھا ۔ عبدالعزیز کے والد عبداللہ صاحب بھی ایسے ہی واعظ کیا کرتے تھے ۔ وہ لال مسجد کے خطیب تھے ۔
اجمل یعنی آپ کے خیال میں ڈکٹیٹر کی تابعداری کا حلف اٹھانے والے کا ضمیر بیدار ہونے لگا تھا؟ کسی کا بھی ضمیر کبھی بھی بیدار ہوسکتا ہے اور تب ان کا سابقہ ریکارڈ نظر انداز کردیا جانا چاہئے اور ان کا ساتھ دینا چاہئے؟ یا جہاں زیادہ بھیڑ نظر آئے اپنی رائے باقی مجمعے جیسی ہی کرلینی چاہئے؟
میرے خیال میں ہمارے چیک اور بیلنس کے نظام میں ڈکٹیٹروں کی مسلسل مداخلت کے باعث کئی جھول ہیں۔ چیک اور بیلنس کے اس نظام میں خود چیف جسٹس کو اعلی عدالتی کونسل کے ججوں پر اعتماد نہیں۔ تو آپ یہ کیسے سوچ سکتے ہیں کہ ملک کی عوام چیف جسٹس پر اعتبار کریں جبکہ وہ خود عدالتی کونسل کے جج صاحبان پر اعتماد نہیں کرتے؟ وزیر اعظم چیف جسٹس پر اعتماد نہیں کرتا اور فوج پر عوام کو اعتماد نہیں رہا۔
جبکہ وکلاء کا موقف یہ ہے کہ وہ چیف جسٹس کے لئے نہیں بلکہ عدلیہ کی آزادی کے لئے جدوجہد کررہے ہیں۔ تاہم مجھے معاف کیجئے گا مگر میرے ذہن میں یہ خیال آتا ہے کہ جب یہی عدلیہ ایک عرصے سے ڈکٹیٹروں کو آئینی تحفظ فراہم کررہی تھی تب وکلاء کو عدلیہ کی آزادی اور خودمختاری کا خیال کیوں نہ آیا؟ چلیں دیر آید درست آید۔
دو بنیادی سوالات ہنوز جواب طلب ہیں:
جنرل مشرف کا یہ کہنا ہے کہ انہیں وزیراعظم پاکستان نے چیف جسٹس آف پاکستان کی بابت ایک ریفرنس بھیجا جو انہوں نے سپریم جیوڈیشل کونسل کو بھجوادیا۔ کیا آئین انہیں ایسا کرنے کی اجازت دیتا ہے؟
کیا سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو معطل کرا جاسکتا ہے اور انہیں فرائض کی بارآوری سے روکا جاسکتا ہے؟
اگر جیوڈیشل کونسل کی آئینی حیثیت متنازعہ ہے تو ریفرنس بھیجنے والے صدر کی آئینی حیثیت کے بارے میں آپ کیا کہیں گے وہ تو خود متنازعہ ہے اور ایک متنازعہ آرمی جنرل اور صدر کے ایل ایف او کے تحت حلف اٹھانے والے ججوں کی اپنی آئینی پوزیشن کیا رہ جاتی ہے؟
بلاگ کی تبصرہ جاتی پالیسی سے صرف نظر کرنے پر یہ تبصرہ مٹادیا گیا ہے۔
Abduall lugta hai upna chehra dekha leea hai gultee say.
عفت سعید صاحب، بہت شکریہ کہ میرا بلاگ آپ نے زیر غور رکھنے کے لائق سمجھا۔ امید ہے آپ آئندہ بھی اپنی رائے کا اظہار کرتی رہیں گی۔ نعمان کی ڈائری پر تبصرہ جات کو سراہا جاتا ہے اور انہی تبصرہ جات کی بدولت ہم کچھ مباحثے کرپاتے ہیں۔ (اوپر مٹائے گئے تبصرے کو درگزر فرمائیں دراصل وہ کچھ موضوع سے ہٹ کر تھا اور تبصرہ نگار نے ایک دوسرے تبصرہ نگار کے بارے میں شخصی حملہ کرنے کی کوشش تھی )
اس کے علاوہ میں یہ جاننا چاہوں گا کہ آپ نے اپنا نام تو اردو میں لکھا مگر باقی تبصرہ رومن اردو میں کیوں لکھا۔ اردو لکھنے میں اگر کسی بھی قسم کی مدد درکار ہو تو بلا جھجھک مجھے ای میل کریں۔ مجھے آپ کی مدد کرکے خوشی ہوگی۔
اب مندرجات کی طرف۔ میں نہیں سمجھتا کہ غیرجانبدار وکلاء کا اشتہار واقعی غیر جانبدار وکلاء نے شائع کرایا ہے۔ اسی لئے میں نے پوسٹ میں لفظ مبینہ کا استعمال کیا ہے۔
جھوٹ کا طوفان کتنا ہی زور دار ہو سچ کا سورج ضرور چمکے گا۔ ہم سب پاکستانی اس دن کے بارے میں بہت پرامید اور پریقین ہیں۔
افسوس کہ میں خود اس جذبے کا مشاہدہ نہیں کرسکا ہوسکا تو کراچی میں اسکا مشاہدہ کرنے کی کوشش کرونگا۔ لیکن، کیا یہ جلوس چیف جسٹس اور عدلیہ کی آزادی کے لئے تھا۔ یا یہ مشرف مخالف عمومی عوامی جذبات تھے اس بارے میں آپ کیسے یقین سے کہہ سکتے ہیں؟
اس بارے میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ سیاسی جماعتیں اس مسئلے سے سیاسی فائدہ اٹھانے کے چکر میں ہیں۔ جو کوئی قابل اعتراض بات نہیں، جمہوریت اسی کا نام ہے۔ لیکن سیاسی فائدہ اٹھالینے کے بعد، یا چیف جسٹس کو بحال کروالینے کے بعد، یا اس سارے ہنگامے کے بعد عدلیہ کی آزادی کی ضمانت کون فراہم کرے گا؟ وہ جج صاحبان جو ایل ایف او کے تحت حلف اٹھاتے ہیں یا وہ سیاست دان جو وردی کو اسمبلیوں میں آئینی تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ یا پھر وکلاء جن کی بڑی تعداد سیاسی وابستگیاں رکھتی ہے؟
یا پھر پاکستان کی عوام؟
اگر پاکستان کی عوام تو میرا یہ سوال بالکل صاف اور سمجھ میں آنیوالا ہونا چاہئے کہ پاکستان کی عوام (دیہاتی دہقان، شہری دکاندار، گھریلو خواتین ہی عوام کی خاموش اکثریت ہیں) کیا واقعی اس مسئلے اہمیت سے آگاہ ہیں اور اسے عدلیہ کی آزادی کا ایشو سمجھتے ہیں۔
سوری میں کچھ جزباتی ہوگیا تھا کیا کروں دین کا نام لے کر بےدینی برداشت نہیں ہوتی،پھر بھی میں یہ سوال ضرور کروں گا کہ آخر اجمل صاحب کے پاس ایسی کون سی مشین ہے جس سے وہ دوسروں کے اندر جھانک لیتے ہیں اور صحیح اورغلط کے فیصلے صادر کرتے ہیں،اور جسٹس صاحب کا کتھارسس انہیں اتنا صاف نظر آتا ہے کہ انہکا حضرت عمر(رض) اور حضرت خالد بن ولید(رض) سے موازنہ کروایاجاتا ہے،
اور مولوی عبدالعزیز کے نفاز اسلام کے مطالبات میں جو شدت آج ہے وہ اس سے پہلے کیوں نہ تھی ان کے مسجد اور مدرسے کے مسلے سے پہلے؟اور کیا یہ شدت اپنا مسئلہ حل ہونے کے بعد بھی
باقی رہے گی؟
معزرت خواہ ہوں کہ یہ سوال آپ کی پوسٹ پر پوچھ رہا ہوں، مجبوری یہ ہے کہ وہ اپنی پسند کے تبصرے شائع کرتے ہیں اس لیئے ،
عبداللہ کوئی بات نہیں۔ اجمل صاحب کی عمر ہے اور ان کا تجربہ ہے وہ یقینا مردم شناس آدمی ہونگے۔ ہوسکتا ہے ان کی اس قابلیت سے وہ صحیح اور غلط لوگوں کو پرکھ لیتے ہوں۔ مگر آپ پر یہ لازم نہیں کہ آپ ان کی رائے سے متفق ہوں۔
میرے ابتدائی کمنٹس میں نہ کوئی ذاتی عناد کار فرما تھا نہ ھی الزامات کا نشانہ آپ تھے۔ زاتی عناد کی کوئی وجھ ھی نھیںکیونکہ میں نے کبھی آپ کی دکان سے دودھ نھیںخریدا 🙂 ۔بس ھمیں ھمیشہ حق کا ساتھ دینا چاہیے
احمد اس وضاحت کا شکریہ کہ آپ نے مجھ پر کوئی الزام نہیں لگایا۔ میں اتفاق کرتا ہوں کہ ہمیں ہمیشہ حق کا ساتھ دینا چاہئے۔
میں جسٹس افتخار محمد چوہدری کو فرشتہ نہیں سمجھتا اور نہ میں کسی کے دل کا حال جانتا ہوں ۔ دلوں کا حال تو صرف اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی جانتے ہیں ۔ انسان اگر سنجیدگی سے بے لوث ہو کر مطالع کرے تو اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کئی باتیں سُجھا دیتا ہے ۔ کوئی کلمہ پڑھ لے تو ہم اُسے کافر نہیں کہہ سکتے جب تک وہ اپنے بعد کے عمل سے ایسا ثابت نہ کرے ۔ میں اور آپ ڈکٹیٹر کے سامنے کھڑے نہ ہو سکے تو جو کھڑا ہو گیا اس میں اس کے ماضی کی بنا پر کیڑے نکالے جائیں یہ کیسی مسلمانی ہے ؟
آپ کے سوالات کا کچھ جواب یہاں موجود ہے ۔
http://iftikharajmal.wordpress.com/2007/05/10/
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/story/2007/05/070510_munir_firing_karachi_as.shtml
http://www.dawn.com/2007/05/10/nat13.htm
http://thenews.jang.com.pk/top_story_detail.asp?Id=7734
مندرجہ ذیل خبر میں جن الزامات کا ذکر ہے وہ حکومت کے وکیل ڈاکٹر خالد رانجا صاحب نے لگائے تھے
http://thenews.jang.com.pk/top_story_detail.asp?Id=7731
bhai ge english ya urdu meen likhnay ka masla naheen hay mager urdu likhnay meen time bahut lagta and .. abhi practis ker raha hoon jald he urdu meen likhoon ga …
sab se aala baat ye hoee hay ke hamare history meen pehle baar kisi me miltare and establishment ko inkar kiya hay and jis ne inkaar kiya us ne hosla naheen haarra oor masla ko apni wukla bradree meen lay aaya .. ye lawa to 7 saal se pak raha thaa janaab … mager her koe dosray ke nikalnay ke intazaar meen thaa ke kab wo niklay to meen nikloon ga .. and jab itna onchee post wala adme apna sab kuch daaa per laga ker moon khool sakta hay ke masla kiya hay and kion hay oor meen ne aik jhootay ke hath per bait naheen kerne hay to toofan to khara hona he thaa …
kon seyase naheen hay yahaa per … garam hamaam se lay ker wo adme jo seyasat ke alif bay naheen janta hay wo aisay bat ker raha hota hay jesay bush ne jab jung ka decision liya thaa to wo us ke sath bethaa thaa … ya MUSH ne kitnay Rs is tour per lagaee hay kion ke wo us ke sath thaa … seyasat meen to her banda he tang aarata hay chahay us ka source of information kuch bhee hooo…
sare dunya meen politics ya polititions 90 % wakeel hotay hain mager ham ko kaha ja rahay ke seyasat na kareen … ta kay kisi ka bhee kabhi bhala na hosay …
aaam adme ko khushe sirf is baat ke hay ke kisi allah ke banday ne to jurrat dekhaee … kisi ne to is jaber ko taraak se jawab diya …
tum yaqeen naheen karoo gay jo izzat oor shaaan ham ko 1 aaam aadmi ne 5 May ke rally ke baad diya hay … its unbleavable …. ham jahaan jatay hain looog ser ankhoon per bithatay hain … and jab ham ne ye start kiya thaa to ham jantay thaay ke ham akeelay hain mager ab aisa naheen hay … logoon ko baat ke samajh aa rahee hay .. ooor ye loog pata koon hain jo door se kharay salaam kertay hain jin ka sirf dailly ke roote se wasta hay … wo khud kuch naheen ker saktay mager wo mantay hain ke ager kala koot apni jaga per tik giya to ho sakta hay society meen koe positive change aa he jaaee …
jab ham ne protest start kiya thaa to koe political party hamaray sath nahen thee .. ham ne tanha danday khanay se sab kuch start kiya hay and ab jo bhee hamaray sath aana chahay aa sakta hay sab ka pakistan hay and ager kisi ko bhe aitaraz hay wo us ka haq banta hay ke wo is ka izhaar karay aa ker hamaray sath … ham us ko most well come kaheen gay …
gher meen beth ker government mukhlif bateen kerna bahut aasaan hay mager jaltee dhoop meeen aaj jeese tapash meen sarak per nikal ker naaray lagana jab agencion walay photo and video bana rahay hoon bahut mushkil kaam hay …
hamaray wastay dua kena janaab …
and SAHIWAL meen jo kuch wakeeloon ke sath howa hay malooom hay aap kooo??? ager naheen to mere request hay us per kuch likhoo naheen to meen next time sare story likh ker bheej doon ga … its a horible story of our brothers…..
جناب عفت صاحب آپ کے تفصیلی تبصرے کا شکریہ۔ امید ہے عدلیہ کی خودمختاری کے لئے کی جانے والی جدوجہد جاری رہے گی۔