اسماعیل غالمی ایک ایسا ویب بیسڈ آپریٹنگ سسٹم استعمال کرنے کا تجربہ کرچکے ہیں کہ جس میں انہوں نے ایک ہفتے تک اپنے کمپیوٹرفائر فوکس کے علاوہ کسی بھی دوسرے اطلاقئے کو استعمال نہیں کیا۔ ایسا اس لئے کیا تاکہ وہ یہ اندازہ لگا سکیں کہ ایک ویب بیسڈ آپریٹنگ سسٹم کے امکانات کیا ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے اپنے تجربات کو قلمبند کیا اور آفس 2.0 میں استعمال ہونے والی اپلیکیشنز کا ایک ڈیٹابیس بھی مرتب کیا۔
اس ڈیٹابیس میں تقریبا ہر کٹیگری میں کوئی نہ کوئی ویب بیسڈ اپلیکیشن موجود ہے۔ جن میں سے اکثریت بالکل مفت ہیں۔ ورڈ پروسیسنگ، اسپریڈ شیٹ، پریزینٹیشن، گرافی، ڈرائنگ، ڈیسک ٹاپ پبلشنگ اور کئی دیگر زمرہ جات میں سینکڑوں ویب سائٹ لسٹڈ ہیں۔ ان میں سے کئی ہم سب استعمال کرچکے ہیں۔ میں خود ٹیکسٹ ایڈیٹنگ کے علاوہ زیادہ تر کام ویب براؤسر پر ہی کرتا ہوں، اور کافی ساری ویب ٹو اپلیکیشنز روزانہ استعمال کرتا ہوں جیسے جی میل، ایڈسینس، گوگل ڈاکس اینڈ اسپریڈ شیٹس، گوگل کلینڈر اوہ ویسے کیا میں نے آپ کو بتایا کہ اب آپ گوگل کلینڈر سے یاد دہانیاں اپنے ٹیلی نار کے موبائل نمبر پر بذریعہ ایس ایم ایس وصول کرسکتے ہیں۔ یو ٹیوب، فلکر، بلاگر،ڈگ، اسٹمبل اپون، لنکڈان، فیڈبرنر، فیڈ بلٹز وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔
ٹم اوریلی، اوریلی میڈیا کے فاؤنڈر، آزاد سوفٹویر کے وکیل اور جدید ٹیکنالوجی کے خودساختہ فلسفی ہیں۔ ویب ٹو کی اصطلاح انہوں نے اپنی ویب ٹو کانفرنس سے پیش کی۔ ٹم اوریلی کے خیال میں ویب ٹو کیا ہے؟ ۔ مختصرا ویب ٹو، ویب کا وہ ڈھانچہ ہے جو نوے کی دہائی کا انٹرنیٹ بلبلہ پھٹنے کے بعد اس کی راکھ سے نمودار ہوا ہے۔ ٹیکنالوجیکل تبدیلیاں یہ ہیں کہ اب ویب سی ایس ایس، اجیکس، ایکس ایم ایل جیسی ٹیکنالوجیز استعمال کررہا ہے۔ اب ویب کو زیادہ لائق استعمال اور زیادہ سے زیادہ صارف پر مرتکز رکھا جاتا ہے۔ یہ ایک بہت دلچسپ اور حیرت انگیز بات ہے، اور جلد یا بدیر یہ بلبلہ بھی پھٹ ہی جانا ہے۔ کیونکہ حیرانی اور دلچسپی کا یہ عنصر وقت کے ساتھ کم ہوتا جائیگا اور ویب ٹو میں کوئی حیران کن بات نہیں رہے گی۔ اور تب کے لئے تیار ہوگا ویب تھری۔
شکریہ نعمان، بہت معلوماتی پوسٹ ہے تمہاری۔