کل کراچی میں غنڈہ گردی اپنے عروج پر تھی۔ چیف جسٹس کے جلوس کو روکنے کے لئے حکومت سندھ اور متحدہ قومی موومنٹ نے سر دھڑ کی بازی لگادی۔ متحدہ قومی موومنٹ کے تصادمی منصوبے کے آثار تو تب ہی نظر آنا شروع ہوگئے تھے جب انہوں نے چیف جسٹس کی آمد کے موقع پر اپنے جلوس کا اعلان کیا۔ ہفتے کی رات سے ہی پورے شہر کی ناکہ بندی کردی گئی خصوصا شہر کی اہم ترین شاہراہ، شارع فیصل کو ٹریفک کے لئے بالکل بلاک کردیا گیا۔ اس دوران شارع فیصل پر سے ایم کیو ایم کی ریلی گزری، اور ہزارہا لوگ ٹریفک جام میں گھنٹوں محصور رہے۔
ساری رات اور اگلے تمام دن شارع فیصل بلاک رہی تمام متحدہ قومی موومنٹ کی ریلیوں کو تبت سنٹر، ائر پورٹ اور شہر کے کسی بھی علاقے میں پہنچنے میں کوئی دشواری پیش نہ آئی۔ اس دوران پیپلز پارٹی، اے این پی، پاکستان مسلم لیگ نواز گروپ کی ریلیوں کو مختلف علاقوں میں روک دیا گیا اور انہیں ائرپورٹ تک نہیں پہنچنے دیا گیا۔
عوامی نیشنل پارٹی کی ایک ریلی جب شارع فیصل پر بلوچ کالونی فلائی اوور کے قریب پہنچی تو فلائی اوور سے ان پر بلاک گرائے گئے اور فائرنگ کی گئی جس سے کئی کارکن زخمی ہوگئے۔
شہر کے مختلف علاقوں میں فائرنگ سے چونتیس افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاعات ہیں اور ڈیڑھ سو بھی زیادہ افراد زخمی ہوئے۔ ہلاک ہونے والوں میں پاکستان پیپلز پارٹی اور اے این پی کے کارکنان کی تعداد زیادہ ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ نے اپنے بارہ کارکنان کے ہلاک ہونے کا دعوی کیا ہے۔
وکلاء، پیپلز پارٹی، اے این پی، مسلم لیگ ن اور ایم ایم اے نے ایم کیو ایم کے دہشت گردوں پر فائرنگ کے الزامات عائد کئے ہیں۔ آج ٹی وی اور جیو ٹی وی پر ایسی ویڈیو کلپس بھی دکھائی گئیں جن میں مسلح افراد ایک ہاتھ میں خودکار اسلحہ اور دوسرے میں متحدہ کا جھنڈا تھامے ہوئے ہیں۔ بار ایسوسی ایشنز نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ان کے دفاتر کے اردگرد متحدہ قومی موومنٹ کے کارکنان خودکار اسلحے سے لیس موجور ہیں اور انہیں آگے بڑھنے نہیں دیا جارہا۔ ملیر بار کے وکلاء کو ملیر پر یرغمال بنایا گیا شدید فائرنگ میں چاروں طرف سے محصور وکلاء کو چھڑوانے کے لئے چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کو بذات خود سی سی پی اور کراچی کو حکم دینا پڑا کہ ان وکلاء کو وہاں سے نکالا جائے۔ متحدہ قومی موومنٹ نے ریلیوں، پبلسٹی اور عوامی رابطہ مہم پر لاکھوں روپیہ خرچ کرا، کارکنوں کو جھنڈے، بینر، ٹی شرٹس، سواریاں حتی کہ ہفتے کی رات سے مسلسل قورمے، بریانی اور حلوہ پوری کی ضیافت تک کا اہتمام کیا گیا۔
یہ سب انتہائی شرمندگی کا مقام ہے۔ اور مجھے افسوس ہے کہ میں نے متحدہ قومی موومنٹ کی حمایت پر اپنے الفاظ اور وقت ضائع کرا۔
گرچہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری واپس تو چلے گئے ہیں۔ تاہم انہوں نے واپسی کا فیصلہ کرکے اور تمام دن ائر پورٹ پر محصور رہ کر ایم کیو ایم پر اخلاقی فتح حاصل کرلی۔ ایم کیو ایم کا کیس نہ صرف کمزور تھا بلکہ ایم کیو ایم نے جان بوجھ کر فساد اور فتنہ پھیلایا۔
اس ساری خونریزی اور فساد کی ذمہ داری متحدہ قومی موومنٹ، صوبائی اور وفاقی حکومت پر عائد ہوتی ہے اور انہیں فوری طور پر مستعفی ہوجانا چاہئے، جرنل مشرف کو فورا وردی اتار کر صدارات سے استعفی دے دینا چاہئے۔
نعمان آپ آج وہ ہی کہ رہے ہیں جو کبھی میں نے کہا تھا ، میں قسم اٹھا کہ کہتا ہوں کہ کل جو کچھ آج اور جیو پر دیکھا وہ ایک ڈے جا وو تھا میرے لئے ۔ ۔ ۔ اب اور کیا کہوں ۔ ۔ ۔
صدیوں سے رہا ہے یہ شیوہ سیاست
جب جواں ہون بچے ہو جائیں قتل
اصل مجرم جنرل پرویز مشرف ہے جس کی ایما پر اور اشیرباد سے یہ خون کی ہولی کھیلی گئی ۔ ایم کیو ایک کا دعوٰی کہ ان کے 12 کارکن مرے ہیں سفید جھوٹ ہے جن لوگوں کی پہچان نہ ہو سکی وہ انہوں نے اپنے کھاتے میں ڈال لئے پھر بھی 12 نہیں بنتے ۔
اجمل صاحب یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے ہی کارکنوں کو ہلاک کرتے ہیں اور پھر انکےقاتل وزرا مقتول کے جنازے میں بین ڈالتے ہیں۔ جسکا عملی مظاہرہ کل لوگ لائیو ٹی وی پر دیکھتے رہے ہیں۔ اتنے لوگوں کی قربانی رائیگاں نہیں گئی اور کل تمام لوگ اپنے اپنے نقاب اتار کر سامنے آگئے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہم عام لوگ ان سب باتوں کے بعد پھر وہی کریں گے جو ہم برسوں کرتے آئے ہیں یا پھر قاتلوں کو مسترد کر کے اپنے لیے ایک نئی قیادت کا انتخاب ؟
نعمان! دیر آید درست آید۔۔۔حیرت کی بات کہ صرف یہ ہے کہ کراچی میں رہ کر بھی آپکو اس یزیدی جماعت کی کارستانیاں نہیں پتا؟
اللہ آپ کو ان کی شر سے محفوظ رکھے۔
بخدا آج سے ایم کیو ایم کے بارے میں اگر کوئی اچھی بات دل میں تھی بھی تو نکل گئی ہے۔
الطاف حسین صرف ڈراما ہے جس کا رائٹرہر دور میں فوج رہی ہے۔
شاکر رائٹر فوج ہو یہ نہ ہو ڈرامہ ہر دور میں بہت خونریز، بے رحم اور سفاک رہا ہے۔