شریعت اور جمہوریت

کیا جمہوریت کے ذریعے نفاذِاسلام ممکن ہے؟ (قسط اول، دوئم)۔ لال مسجد کے خطیب عبدالرشید غازی کا مضمون روزنامہ جنگ میں۔ اس مضمون میں عبدالرشید غازی یہ بتانے کی کوشش کررہے ہیں کہ جمہوریت خود خلاف اسلام ہے اس لئے جمہوریت کے ذریعے اسلام کا نفاذ ممکن نہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

اسلام سیاسی، معاشی، معاشرتی غرض ہر لحاظ سے ایک کامل و اکمل دین ہے۔ اسلام کی ابتدائی فتوحات میں صحابہ کرام نے مفتوح قوموں کے سامنے اسلامی نظام حکومت کا خلاصہ ان الفاظ میں پیش کیا تھا کہ اسلام کا بنیادی مقصد بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر اللہ تعالیٰ کی غلامی میں داخل کرنا ہے جبکہ جمہوریت کی ایک بہت زیادہ مشہور اور جامع مانع تعریف امریکا کے سولہویں صدر ابراہم لنکن نے ان الفاظ میں بیان کی’Government of the people by the people, for the people” یعنی”بندوں کی حکومت ،بندوں کے ذریعے،بندوں کے لیے“دوسرے الفاظ میں یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ ”بندوں کوبندوں کی مرضی سے بندوں کی غلامی میں داخل کرنا “۔

اسی سے اندازہ ہوجانا چاہئے کہ اسلام اور جمہوریت میں کتنا واضح بُعد ہے جبکہ اسلام تو بندوں کی غلامی سے نکال کراللہ کی غلامی میں لانے کا نام ہے۔ نیز یہ امر بھی قابل غور ہے کہ بنی نوع انسان آغاز اسلام سے قبل ”جمہوریت“ کے ناکام تجربے سے گزرچکا ہے ۔ 500 قبل مسیح یونان کی بعض ریاستوں میں ”جمہوریت“ رائج رہی لیکن اپنے گوناگوں مفاسد اور مضرت رساں پہلوؤں کے باعث بری طرح ناکام ثابت ہوئی حتیٰ کہ ”ارسطو“ جیسا مفکر بھی اس طرز سیاست کے شدید مخالفین میں سے تھا ۔ بعد ازاں قریباً دو ہزار سال تک اس فرسودہ نظام سلطنت سے کرہٴ ارض مکمل طور پر پاک رہا پھر اٹھارہویں صدی کے اواخر میں4 /اگست1779ء کی ایک منحوس شب”جمعیت وطنیت فرانس“ نے اپنا منشور انقلاب شائع کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انقلاب فرانس کے بعد مذکورہ ”منشور آزادی“ پیش کرکے ”جمہوریت“ کے مُردہ جسم میں جان ڈالنے والے وہ لوگ تھے جو مذہب سے شدید نفرت کرتے تھے ،کلیسا کے مظالم اور ٹیکسوں کے بوجھ تلے سسکتے فرانسیسی اپنے بادشاہ کے استبدادی نظام اور ٹیکسوں کی بھر مار تلے بھی کچلے جارہے تھے چنانچہ ان کے منشور آزادی میں جتنی دشمنی بادشاہی نظام سے نظر آتی ہے اس سے دُگنی بیزاری اور نفرت ”مذہب“ سے بھی روا رکھی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ اس منشور آزادی میں سیاسی مساوات اور جنسی مساوات ایسی ہیں جن کا جواز انجیل سے بھی ثابت نہیں ہوسکتا اور اسلامی نصوص میں تو ان کے خلاف اتنی واضح آیات اور احادیث مل سکتی ہیں کہ باقاعدہ ایک کتاب تیار ہوسکتی ہے۔”جمہوریت“ میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کا تصور گویا اس نظام کی روح تصور کیا جاتاہے جبکہ اسلامی طرزحکومت میں حزب اختلاف کا تصور محال ہی نہیں سرے سے ناپید ہے۔ ذراغور کیجئے! جب خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق  کے دست صداقت پر تمام اکابر صحابہ  نے بیعت کرلی تو اس کے بعد کونسی سیاسی پارٹی یا گروہ بچ رہا تھا جو حکومت کے اقدامات پر نکتہ چینی کرنے کے لئے باقاعدہ تشکیل دیا گیا ہو۔یقیناکوئی نہیں مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ آج ہمارے مذہبی راہنمابھی جمہوریت کے لادینی نظام پر تنقید کرنے کی بجائے اس کے ٹوٹے پھوٹے ستونوں کو اسلامی پلستر سے جوڑنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔

جناب عبدالرشید غازی صاحب کی عربی اور اردو میں مہارت پر تو کسی کو شک نہیں ہونا چاہئے۔ تاہم مجھے لگتا ہے کہ ان کی انگریزی کافی کمزور معلوم ہوتی ہے۔ کیونکہ انگریزی لفظ people کا اردو ترجمہ بندہ نہیں ہوتا۔ اردو لفظ بندہ چونکہ بندگی سے جڑا ہے اس لئے غازی یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ جمہوریت دراصل بندگی سے بغاوت ہے۔

اسلام سے قبل دنیا جمہوریت کے ناکام تجربے سے گزر چکی تھی۔ یہ میرے لئے بالکل نئی معلومات ہیں۔ کیونکہ میں تو یہ سمجھتا تھا کہ موجودہ جہوری فلسفے کا آغاز یورپ کی بیداری نو سے ہوتا ہے۔ اس جمہوریت میں اور یونانی جمہوریت میں کئی فرق ہیں۔ جیسا کہ اگر ابراہم لنکن کے ہی مندرجہ بالا قول کو دیکھیں تو یونانی جمہوریت میں عوام کی حکومت نہیں بلکہ خواص کی حکومت ہوتی تھی، جسے خاص خاص لوگ ہی منتخب کرتے تھے اور مخصوص لوگ ہی چلاتے تھے۔ تاہم رائے دہندگی، ایوان نمائندگان، وغیرہ ضرور مستعار لئے گئے ہیں مگر موجودہ جمہوریت اس جمہوریت سے ارتقائی عمل میں اتنی دور آچکی ہے کہ ان دونوں کو ایک جیسا سمجھنا محض غلطی ہے۔

انقلاب فرانس کے بانیان مذہب بیزار تھے یا کلیسا بیزار تھے؟ جہاں تک مجھے علم ہے ان کی بیزاری کا تعلق کلیسا اور امراء کے مظالم سے تھا۔ مذہب بیزاریت تو جمہوریت کا کبھی عنصر نہیں رہی۔ حتی کہ امریکہ میں بھی جمہوریت اور مذہب کا گہرا تعلق ہے۔ معلوم نہیں غازی صاحب کو یہ کیوں لگتا ہے کہ جمہوریت پسندی دراصل مذہب بیزاری، اسلامی احکامات سے مفر اور جنسی اختلاط کی آزادی کے سوا اور کچھ نہیں۔

تبصرے:

  1. بندہ بندگی سے نہیں جڑا بلکہ لفظ بندگی بندہ سے بنایا گیا ہے ۔ دیگر بندہ اور غلام ہم مطلب ہونے کے باوجود عام طور پر انسان کی بجائے بندہ استعمال کیا جاتا ہے ۔
    کہا جاتا ہے کہ مغربی طرزِ جمہوریت میں اکثریت کی حکومت ہوتی ہے لیکن عملی طور پر ایسا نہیں ہوتا ۔ مثال کے طور پر ذوالفقار علی بھٹو صاحب کو مغربی پاکستان کے کل ووٹوں کا 33 فیصد ووٹ ملے تھے ۔ دوسری قباحت یہ ہے کہ اس سسٹم میں دولتمند اور با اختیار لوگ کامیاب ہو کر حکمران بنتے ہیں اور نیکی ۔ دیانتداری ۔ شرافت ۔ محنت اور قابلیت کا عمل دخل بہت کم ہوتا ہے ۔ تیسرے اگر ملک میں اکثریت بدکار لوگوں کی ہو تو حکومت بدکاروں کی ہو گی اور دیانتدار آدمی کا گذارہ مشکل ہو گا ۔ ہمارے ملک کے آئین میں ایسی شرائط ہیں جو بُرے آدمی کا راستہ روک سکتی ہیں مگر ہمیشہ آئین کی ان شقوں کی خلاف ورزی کی گئی ہے ۔

  2. ہم مولانا کی بات سے اتفاق نہیں‌کرتے اور سمجھتے ہیں‌کہ جمہوریت کے ذریعے شریعت نافذ کی جاسکتی ہے۔ شرط یہ ہے کہ جمہوریت کی بنیاد اسلامی فلسفے پر ہو۔ یعنی حاکم یا عوامی نمائندہ چننے کیلئے وہ ساری پابندیاں‌عائد کی جائیں‌جن کے بارے میں‌اسلام حکم دیتا ہے۔ اور اگر آپ غور کریں‌تو یورپ ویسی ہی پابندیاں رائج ہیں۔ یورپ میں کوئی صدر اپنی فیملی ویلوز کی خلاف ورزی نہیں‌کرتا، وہ جھوٹا نہیں‌ہوسکتا، وہ کردار کا پختہ ہونا چاہیے، وہ اپنے عوام کے حقوق کا خیال رکھنے والا ہو، یہاں‌تک کہ چرچ بھی جاتا ہو۔ کل کا پتہ نہہیں‌لیکن اب تک کوئی “گے“ یورپی حاکم نہیں‌بن سکا۔
    اسی طرح‌اسلام بھی چاہتا ہے کہ مسلمانوں کا حاکم مسلمان ہی چنیں‌مگر چند بنیادی شرائط کے ساتھ۔ مسلمانوں‌کا حاکم وہ ہوگا جو سب سے زیادہ پرہیزگار اور متقی ہوگا، اس کا رہن سہن عام لوگوں‌کی طرح ہوگا، وہ چیف جسٹس کے سامنے اپنے اعمال کا جوابدہ ہوگا، وہ غیروں کے مفادات پر مسلمانوں‌کے مفادات کو ترجیح‌دے گا۔ اس طرح‌مسلمانوں کو اسلام اختیار دیتا ہے کہ وہ اپنا حاکم چنیں جس طرح‌جمہوریت میں‌چنا جاتا ہے۔

  3. جمہوریت اور اسلام ، دو متضاد چیزیں ہیں۔
    اسلام نے حاکم کے انتخاب کا اختیار عام مسلمانوں کے ہاتھ میں نہیں‌ دیا ہے ۔ جبکہ جمہوریت بنتی ہی عوام کے ووٹ سے ہے۔
    اور قرآن کہتا ہے : کیا عالم اور بےعلم برابر ہو سکتے ہیں ؟
    اور پھر یہ بھی کہتا ہے : تم اکثریت کی باتوں پر نہ چلو کہ وہ تمہیں راہ سے بھٹکا دیں‌گے ۔

    اسلامی جمہوریت ۔۔۔ نام تو خوبصورت ہے ، مگر کوے کو سفید رنگ سے رنگ دیا جائے تو وہ حلال نہیں‌ ہو جاتا !

  4. باذوق، کیا عالم اقتدار کی ہوس، لالچ، بے ایمانی، کینہ پروری، اقربا پروری، بغض اور دھوکہ دہی جیسی بیماریوں سے پاک ہونے کا بھی سرٹیفیکیٹ رکھتے ہیں؟ ہوسکتا ہے ایک عالم جس میں یہ تمام برائیاں ہوں، جو صرف اقتدار کا بھوکا ہو، کیا آپ کے خیال میں وہ اس بے علم سے بہتر ہے جو اچھائی لانا چاہتا ہو اور لوگوں کی زندگی بہتر کرنا چاہتا ہو؟

    اور عالم کیا صرف دینی عالم ہی ہوسکتا ہے؟ کوئی طبعیات کا ماہر، کوئی ڈاکٹر، انجینئر، قانون دان، ادیب، یا فلسفی نہیں ہوسکتا؟

    اجمل گویا یہ طے ہے کہ غازی عبدالرشید نے جان بوجھ کو گمراہ کرنے کے لئے لفظ people کا غلط اردو ترجمہ کیا۔ عام طور پر بندہ استعمال ہوتا ہے مگر روزمرہ کی زبان میں تب نہیں جب آپ شریعت اسلامی کا مغربی جمہوریت سے تقابل پر ملک کے سب سے بڑے روزنامے میں مضمون لکھ رہے ہوں۔ دوسری بات، کوئی بھی سسٹم ہو، غازی کا اسلامی نظام ہو اس میں اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ دیانتدار، شریف اور باعلم و باعمل لوگ ہی آگے آئیں گے۔ کسی بھی سسٹم میں کسی بھی کنٹڈیڈیٹ کی کامیابی کے لئے اس کا اثر رسوخ، تعلقات، ناموری یقینا ضروری ہیں یہ چیزیں عموما شریف، دیانتدار اور باعلم لوگوں کے پاس نہیں ہوتیں۔ پھر غازی کے سسٹم میں اپوزیشن کا کوئی تصور نہیں۔ مواخذے یا چیک اور بیلنس کا بھی کوئی واضح نظام نہیں غازی خود لکھتے ہیں کہ "اسلامی طرزحکومت میں حزب اختلاف کا تصور محال ہی نہیں سرے سے ناپید ہے۔” یعنی اگر بھیڑ کے چوغے میں ملبوس کو بھیڑیا حاکم بن بیٹھا تو جب تک اسے اپنے اکابرین کی حمایت حاصل ہے وہ براجمان رہے گا۔ عوام اسے ہٹا نہیں سکیں گے۔ اگر ایسا ہے تو مشرف کی فوجی حکومت کیا بری ہے۔

  5. بازوق صاحب آپ نے یہ نہیں بتایا کہ پھر کونسا طریقہ اسلامی ہے؟
    دو ہی آپشنز ہیں یا تو منتخب ہو یا نامزد ہو۔ نامزدگی سے تو جو انتشار پھیلتا ہے وہ ھم تاریخ سے دیکھ ہی سکتے ہیں لہذا صرف انتخاب ہی صورت نظر آتی ہے۔۔۔۔امید ہے آپ مزید روشنی ڈالیں گے۔

    ویسے غازی صاحب فتنہ پھیلا کر کمال ڈھٹائی سے اسلامی حکومت کے خدوخال بیان کر رہے ہیں 🙂

  6. نعمان،میرے خیال میں مولانا صاحب کی باتوں پر بحث کرنا سوائے وقت کی بربادی کے کچھ بھی نہیں۔ صرف یہ کہوں گا کہ اگر جمہوریت ان کو ہضم نہیں ہوتی تو کوئی ایسا متبادل نظام ہے ان کے پاس جو اس سے بہتر ہو؟کیا بادشاہت؟ کیا آمریت؟ کیا لٹھ بردار (ان کا خود ساختہ) اسلام؟
    اور پھر مولانا صاحب قرآن کی اس آیت “وامرھم شوری بینھم“ کا کیا ترجمہ کریں گے؟کیوں کہ بقول ان کے غلامی بندوں کی بجائے اللہ کی کرنی چاہئیے تو پھر وہ اس آیت کے مفہوم کی کیا وضاحت کریں گے جس میں اللہ تعالیٰ مومنوں کو اپنے حکمرانوں کی اطاعت کا حکم دیتا ہے؟
    آپ نہیں سمجھتے کہ مولانا صاحب خوارج کی تاریخ پھر سے دہرانے کے درپے ہیں؟ مدرسہ فورس اور مدرسہ کورٹ بنا کر وہ خوارج کے اسی مؤقف کو نہیں دہرا رہے کہ جس کی وجہ سے اس امت نے بے تحاشہ نقصان اُٹھایا؟
    مانا کہ ہماری موجودہ حکومت نہ جمہوری ہے اور نہ اسلامی۔تو پھر مولانا صاحب ایسی بھونڈی دلیلوں اور پر تشدد رویئے کو خیر باد کہہ کر اپنے آپ کو پاکستان کی عوام کے سامنے پیش کیوں نہیں کرتے کہ آیا وہ ان کو اپنا صد یا وزیراعظم بنانا پسند کرتے ہیں یا نہیں؟ وہ ان کے (تاحال) پوشیدہ نظام حکومت کے حامی ہیں یا نہیں؟ وہ خلیفہ راشد نہیں ہیں کہ ان کے ہاتھ پر کوئی بیعت کرے۔ آج کے دور میں ووٹنگ اسی لئیے کروائی جاتی ہے کہ عوام کس کو پسند کرتے ہیں۔تو پھر وہ میدان میں آئیں اور حقیقت پسندی کا ثبوت دیں۔ میری ان سے درخواست ہے کہ خدا کے لئیے اسلام کی غلط تشریح کرنا بند کر دیں۔ آخر کو انہوں نے اللہ کے سامنے اک دن پیش ہونا ہے تب کیا جواب دیں گے۔

  7. احمد ‫:
    جناب غازی عبدالرشید کا جو طریقہ کار ہے وہ بہرحال عین شرعی نہیں ہے اور نہ ہی اس کی تائید علمائے حق نے ببانگ دہل کی ہے ۔
    جمہوری انتخاب ، قرآن و سنت کے خلاف کیوں ہے اس کی دلیل میں دے چکا ہوں کہ اکثریت معیار نہیں ہے اور عالم و بے علم برابر نہیں ہو سکتے ۔
    نامزدگی سے انتشار اگر پھیلتا ہے تو خلفائے راشدین کی نامزدگی کیا غلط حرکت تھی ؟ ایسا تو کوئی مسلمان بھی نہیں سوچتا بالخصوص اس صورت میں جب حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کو خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے نامزد کیا تھا ۔
    نعمان ‫:
    آپ ایک بات بھول رہے ہیں ۔ اسلام کوئی خودساختہ مذہب نہیں ہے بلکہ طریقۂ زندگی ہے جس کے متعلق انگریزی میں کہا جاتا ہے کہ ‫ISLAM is a way of life.
    اور اس راستے (یعنی بقول قرآن : صراط مستقیم) کا سراغ کہاں سے ملتا ہے ؟ کیا نامور و مقبول شخصیات کے کردار سے یا قرآن و سنت کی شفاف تعلیمات سے ؟
    آدمی کا کردار یا اس کی تعلیم ۔۔۔ کسوٹی نہیں ہے بلکہ کسوٹی ’قرآن و سنت‘ ہے ۔ ایک ایک عمل اور ایک ایک امر کو اسی کسوٹی پر پرکھ کر موازنہ و فیصلہ کیا جائے گا۔ جب ہم اس کسوٹی کو دل سے سمجھ جائیں گے تو یہ بحث ہی کھڑی نہ ہوگی کہ کونسا عالم ریاکار اور دنیا دار ہے اور کونسا غیرعالم پاکباز اور متقی ہے؟
    ساجد ‫:
    صحیح بخاری کے کتاب الاحکام کی بعض اہم احادیث پر جناب غازی عبدالرشید سچے دل سے غور کر لیتے تو ایسے اقدامات کبھی نہ اٹھاتے ۔ اب یہی بات ممکن ہو سکتی ہے کہ وہ ان صریح احادیث کی ویسی ہی تاویلات تراش چکے ہوں جیسا کہ علمائے احناف نماز کے طریقہ کار کے متعلق کئی اہم احادیث کی تاویلات گھڑ چکے ہیں اور اپنے مقلدین کو انہی پر سختی سے کاربند رہنے کی تاکید کرتے رہتے ہیں۔

  8. السلام علیکم

    نعمان:
    میں آپکا بلاگ پڑھتا رہتا ہوں۔ اگرچہ مجھے آپ کے نظریات سے ذرا بھی اتفاق نہیں مگر آپ کی بردباری کا میں قائل ہوں ۔ اس بات سے میں اتفاق کرتا ہوں کہ بحث میں ہر شخص کو اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کا حق حاصل ہے۔
    اسلام کسی انسان کی دماغی عرق ریزی کا نتیجہ نہیں ہے۔ اور نہ ہی اس کو کسی کونسل آف لیجسلیشن نے بنایا ہے۔ یہ خالقِ کائنات کا دیا ہوا نظام ہے۔ اس کو سمجھنے کے لئے خالق کائنات کو ماننا ضروری ہے۔ جب بندہ رب تعالی کو خالق و مالک مان لیتا ہے اور خود کو بندہ۔ اپنی عاجزی اور رب کی بڑائی کے اقرار کے بعد اس کو اسلامی احکام نہ تو گراں گزرتے ہیں اور نہ ہی عقل سے بعید نظر آتے ہیں۔ اگرچہ علامہ رازی (رح) نے اسلامی احکام کو عین عقل کے مطابق ثابت کیا ہے مگر مولانا قاسم نانوتوی (رح) کی یہ بات آب زر سے لکھنے کے قابل ہے کہ اسلامی احکامات عقل کے عین مطابق ہیں مگر زمانے کے مطابق عقل کی انھہیں سمجھنے کی صلاحیت مختلف ہے۔

    ساجد:
    اپنی باتوں کو عین عقلی اور دوسروں کی دلیلوں کو بھونڈا قرار دینا تو نہ جانے کب سے ہمارا المیہ ہے اور اصل میں یہی وقت کی بربادی ہے۔ مگر میں صرف آپکی ایک بات کی وضاحت کرنا ضروری خیال کرتا ہوں جو آپ نے لکھی ہے کہ قرآن کی آیت “وامرھم شوری بینھم“ کا کیا حکم ہوگا
    مجھے کسی کی ایمانی حالت اور علم و عمل پر انگلی اٹھانے کی نہ تو ضرورت ہے اور نہ شوق۔ مگر میں ایک عمومی رویہ کا تذکرہ ضرور کروں گا کہ لوگ کبھی کسی سپیشلسٹ ڈاکٹر کے ساتھ مغزماری نہیں کرتے کہ اس نے یہ نسخہ کیسے تجویز کردیا بلکہ اس کے علم وتجربے پر اعتماد کرتے ہیں مگر ایسے لوگ بھی جو قرآن مجید کو بغیر ترجمہ کے سمجھنے سے بھی قاصر ہوتے ہیں وہ علماء پر اعتراض شروع کر دیتے ہیں جو کہ دین پر ایک اتھارٹی کا درجہ رکھتے ہیں۔
    آپ نے ایک آیت تو پڑھ لی مگر ذرا دوسری آیت بھی پڑھ لیں جو مروجہ نظام جمہوریت کا رد کرتی ہے:
    وَشَاوِرْهُمْ فِي الأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّهِ إِنَّ اللّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ (سورہ آل عمران آیت نمبر 159)
    اگر آپ عربی کے قواعد سے واقف ہوں تو سمجھ گئے ہوں گے کہ اللہ کا فرمان ہے کہ ان سے مشورہ لے لیا کر ۔ پس جب تیرا ارادہ

  9. نعمان:
    میرا تبصرہ پورا شائع نہیں ہو سکا اس لئے میں‌ بقیہ سطور دوبارہ لکھ رہا ہوں۔ شاید آپ کے بلاگ کی سیٹنگ کا مسئلہ ہے

    وَشَاوِرْهُمْ فِي الأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّهِ إِنَّ اللّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ (سورہ آل عمران آیت نمبر 159)
    اگر آپ عربی کے قواعد سے واقف ہوں تو سمجھ گئے ہوں گے کہ اللہ کا فرمان ہے کہ ان سے مشورہ لے لیا کر ۔ پس جب تیرا ارادہ اور عزم پکا ہو جائے تو اللہ پر توکل کر لے

    یہاں اللہ تعالی نے واضح فرما دیا کہ مشورہ تو لے لو مگر جب تیرا اپنا ارادہ اور عزم پختہ ہو تو اس پر عمل کرو۔ یہ نہیں فرمایا کہ جب ان میں‌ سے اکثریت کی رائے پختہ ہو جائے۔ عزمت کا لفظ بتاتا ہے کہ مشورہ لینے کے باوجود اس پر عمل لازمی نہیں ہے۔

    اسی طرح جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی نے منکرین ختم نبوت کے ساتھ جدال کا ارادہ فرمایا تو اکثریت صحابہ نے مشورہ دیا کہ جدال سے گریز کیا جائے مگر صدیق اکبر نے مشورہ کو قبول نہیں فرمایا۔ اور اپنی رائے پر عمل کیا اور تمام صحابہ نے ان کے فیصلہ کو قبول کیا۔

    امید ہے کہ آپ کے ذہن میں اب “امرھم شوری بینھم“ سے متعلق اشکال ختم ہوگیا ہوگا۔

    اگرمیری کسی بات سے کسی کی دل آزاری ہوئی ہو تو میں معذرت خواہ ہوں۔
    والسلام
    سیفی ھزاروی

  10. نامذدگی سے میری مراد بادشاہت تھی ۔ آپ نے کہا کہ خلیفہ نامزد کئے گئے تو گویا یہی صحیح طریقہ ھوا کہ ھکمران جانشیں نامزد کر جائے؟

  11. سیفی آپ کی گرانقدر رائے کا بہت شکریہ۔ جی ہاں میرے بلاگ پر تبصروں کے درمیان کبھی کبھی یہ مسئلہ سامنے آتا ہے۔ امید ہے آپ اسی طرح اپنی رائے سے نوازتے رہیں گے۔

    سیفی مجھے اعتراض اس بات پر ہے کہ غازی صاحب جیسے لوگ ایک ایسا اسلام نافذ کرنا چاہتے ہیں جہاں عوام کو جاہل سمجھا جاتا ہے۔ ان کے آگے خود کو جوابدہ نہیں سمجھا جاتا بلکہ یہ دلیل دی جاتی ہے کہ یہی دین کامل ہے۔

    آپ نے ختم نبوت پر حضرت ابوبکر صدیق کے ایکشن کی مثال دی۔ جمہوریت میں بھی اگر منتخب کردہ نمائندہ چاہے تو اپنی شوری (کابینہ ) کی مرضی کے برخلاف ایکشن لے سکتا ہے۔

    کیا دین پر اتھارٹی ہونے کا مطلب حکمرانی کا حق ہے؟ اگر ایسا بھی ہے تب بھی اس ملک کی اکثر عوام مسلمان ہیں۔ عالموں کو انہیں دین کے بارے میں ایجوکیٹ کرنا ہوگا تاکہ عوام صحیح نمائندوں کا انتخاب کرسکیں۔ عوام کو ایجوکیٹ کرے بغیر، ان کی مرضی کے خلاف، ایک مخصوص‌گروہ کی شوری کا منتخب کردہ حکمران کس طرح معاشرے کی فلاح کا کام کرسکتا ہے

    باذوق، میں یہ سمجھتا ہوں کہ جب پاکستان بنایا گیا تھا تو قائداعظم نے واضح الفاظ میں یہ بات صاف کردی تھی کہ پاکستان تھیورکریٹک ریاست نہیں ہوگی۔

    معاشروں کے ارتقاء میں اگر اکثریت کی رائے علماء کی رائے کی نسبت کمتر درجے کی مان لی جائے تب بھی عالموں کو عوام کی رضامندی کے بغیر ان پر حکومت کرنے کا حق ثابت نہیں ہوتا۔

  12. محترم باذوق صاحب، آپ نے بالکل بجا فرمایا کہ مولانا صاحب اگر سچے دل سے ان احادیث پر غور فرماتے جو کہ ایک اسلامی مملکت کے نظام و انصرام اور ان کے احترام کے متعلق صحیح بخاری میں درج ہیں تو وہ کبھی تشدد، لاقانونیت اور ایک متوازی نظام کی بات نہ کرتے۔ ریاستی اداروں کی حیثیت اور ان کی اہمیت کو چیلنج کرتے ہوئے شہریوں اور حکومتی اہلکاروں کو اغواء نہ کرتے۔ انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی کے مرتکب ہونے کے بعد موصوف کا یہ فرمانا کہ یہ سب کچھ اسلامی نظام کے نفاذ کے لیئے کیا گیا ہے، بہت ہی افسوسناک ہے۔ پاکستان دارالکفر نہیں ہے کہ جہاں اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے طاقت اور تشدد کا راستہ اختیار کیا جائے۔ اچانک ہی ان کو پتہ چلتا ہے کہ اس محلہ میں ایک عرصہ سے فحاشی کا اڈہ موجود ہے تو ان کی ڈنڈا فورس حرکت میں آ جاتی ہے۔ کیا انہوں نے کبھی یہ پتہ لگانے کی کوشش بھی کی کہ اسی محلہ میں کتنے لوگوں کے گھر میں آج چولہا نہیں جلا؟ اس محلہ کے کتنے بیمار دوائی خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے؟ کتنے بچوں کو عید کے دن بھی نیا جوڑا پہننے کو نہیں ملا؟ کتنی بیوائیں ہیں جو حالات کی چکی میں پس رہی ہیں اور ان کے معصوم بچے افسروں کے گھروں میں ان کی جھڑکیاں سن رہے ہیں؟ اس محلہ کے کتنے نوجوان ہیروئن کی لت کا شکار ہوئے؟ مجبوریوں اور غربت کے ظلمت میں کتنی عزتوں کے سودے ہوئے؟
    نہیں ہرگز نہیں۔ کیوں کہ یہ کام تو ان کے کرنے کا نہیں بلکہ حکومت کا ہے۔ ان کا کام تو بد کاروں کو “نشان عبرت“ بنانا ہے بھلے ان “بدکاروں“ میں پانچ، چھ مہینے کا معصوم بچہ ہی شامل کیوں نہ ہو۔ اپنی دہشت اور دھاک بٹھانے کے لئے اسلام کا نام استعمال کر کے پوری دنیا میں جس طرح سے موصوف نے اپنااور پاکستان کا نام “روشن“ کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اب یہ تو اللہ ہی جانتا ہے کہ بچوں کی لائبریری میں کون سا بد کاری کا اڈہ قائم تھا جس کو ختم کرنے کے لئے ان کی لٹھ بردار فورس اس پر ابھی تک قابض ہے۔ اب جبکہ ان حضرت کو خود اپنے ہی پیٹی بھائیوں سے اپنے “کارناموں“ پر پھٹکار سننے کو مل رہی ہے تو یہ ان کو بھی رگیدنے پر تُل گئے ہیں۔ اور علاقہ غیر کے طالبان سے دھمکی آمیز بیانات دلوا رہے ہیں۔ شریعت کے نفاذ میں مخلص ہیں تو اپنے اوپر سب سے پہلے شریعت کا نفاذ کیوں نہیں کرتے؟ لوگوں کو ڈرا دھمکا کر اسلام کے نفاذ کی کوشش کی بجائے یہ صاحب،صاحبِ شریعت حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے احکام پر عمل کرتے ہوئے ان کو خوش خبری اور اور پیار سے اسلام کی طرف لانے سے کیوں ہچکچاتے ہیں؟ نام کے غازی ہونے کے ساتھ ساتھ کردار کے غازی کیوں نہیں بنتے؟

  13. محترم سیفی صاحب، آپکی تحریر کا شکریہ۔ آپ نے سورۃ آل عمران کی مذکورہ آیت کا حوالہ دے کر خود ہی میرے اور نعمان صاحب کے مؤقف کی تائید کر دی ہے۔ غور کیجئیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بھی فیصلہ کرنے سے پہلے مشورہ کا حکم دیا اور پھر فرمایا کہ “مشورہ کے بعد“ تیری جو رائے بنتی ہے تو پھر اللہ پر توکل کر کے اس پر عمل کر گزر۔ جی ہاں آپ جس لفظ “عزمت“ بمعنی “جب تُو ایک بات کا عزم یعنی پکا ارادہ کر لے“ پر زور دے رہے ہیں اس کا ذکر لفظ “شاورھم“ یعنی “ان سے مشورہ کر لے“ کے بعد آیا ہے۔ تو عزیز دوست اس کا مطلب یہ ہوا کہ (پہلے) ان سے مشورہ کر لے (پھر) جب تیرا ارادہ پختہ ہو جا ئے تو اللہ پر بھروسہ کر اور( اپنے ارادہ پر عمل کر)۔
    جناب یہ تو ہے آیت کا فی البدیہہ ترجمہ اب اس کی تفسیر میں بہت سے لوگوں کے درمیان بہت وسیع اختلاف ہے۔ جو آپ جیسا فاضل آدمی مجھ جاہل سے بہتر جانتا ہے۔
    اب اگر اللہ تعالیٰ نے مشورہ کرنے کا حکم دیا ہے تو ظاہری بات ہے یہ مشورہ انسانوں سے ہی لیا جائے گا دیواروں سے نہیں۔ اور یہ ممکن ہی نہیں کہ ہر معاملے پر ہر انسان کی رائے دوسرے سے 100 فیصد ملتی ہو۔تو پھر کیا کیا جائے؟ معاملے کو اختلاف کے حوالے کر دیا جائے؟ یا پھر حاکمِ وقت سب کی رائے کو پسِ پشت ڈال کر اپنی من مرضی کر گزرے؟ نہیں دونوں صورتوں کی اس آیت میں نفی کی گئی ہے۔ فرمایا “فاذا عزمت“ یعنی جب تیرا ارادہ پختہ ہو جائے۔یعنی سب کا مؤقف سن کر فیصلہ کر نہ کہ اپنے آپ سے ہی ایک فیصلے پر پہنچ جا۔
    بڑے افسوس سے لکھنا پڑ رہا ہے کہ اسلام کے اس سنہری اصول کو اغیار نے اپنا رکھا ہے اور ہم اس کی توجیہات میں مصروف ہیں۔آپ نے بار ہا بار سنا ہو گا کہ امریکی کانگریس میں امریکی صدر نے فلاں بل ویٹو کر دیا۔ جناب من اس ویٹو کے استعمال کی نوبت تب ہی آتی ہے جب ایوان کی اکثریت کے منظور کرنے کے باوجود امریکی صدر اس مسودہ قانون کو پاس نہیں کرتا جو اس کے خیال میں ان کے ملک کے لئے مناسب نہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ جمہوریت میں ہر قسم کا فیصلہ محض اکثریت رائے سے ہی ہوتا ہے۔ فوجی،ما لی اور حساس نوعیت کے فیصلے متعلقہ شعبوں کے انتہائی قابل اور جہاندیدہ افراد کے تجربوں کی روشنی اور مشاورت سے ہی کئے جاتے ہیں۔
    اور اسی بحث کا ایک پہلو آپ کے نقطہ نظر سے بھی غازی صاحب کے خلاف جاتا ہے وہ ہے ریاستی قوانین اور فیصلوں کو تسلیم کرنا۔ اگر آپ کے مؤقف کے مطابق بھی “فاذا عزمت“ کا نفاذ کیا جائے تو بھی غازی صاحب کے “کارنامے“ کو جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔
    اب آپ اسی تناظر میں ایک بار پھر قرآن پاک کی آیت “وامرھم شوری بینھم“ کا مطالعہ کیجئے کہ کس طرح سے ہمارا رب ہمیں سر پھٹول سے بچنے کی اور معاملات کو مل بیٹھ کر حل کرنے کی تعلیم دے رہا ہے۔اور پھر یہ بھی سوچئیے کہ ولی الا مر اور حاکم وقت کی اطاعت کا حکم ہمیں قرآن کیوں کر دے رہا ہے۔ کیوں یہ کہا جا رہا ہے کہ اپنے حاکم کی اطاعت کرو بے شک وہ بد نما اور اس کا سر بیر کی طرح سے ہی کیوں نہ ہو۔
    اب پرویز مشرف صاحب ایک فیصلہ کرتے ہیں تو وہ بھی کہہ سکتے ہیں “انا عزمت“ میں نے پکا ارادہ کر لیا۔ قاضی صاحب بھی کوئی فیصلہ کر کے “انا عزمت“ کی گردان شروع کر سکتے ہیں۔ غازی صاحب “انا عزمت“کی ایک مختلف شکل سامنے لے آئیں گے۔ علی ھذالقیاس ہر کوئی اپنا اپنا راگ الاپے گا تو ملک کیسے چلے گا؟ اور ہر کوئی اپنے فیصلے پر اسلام کی مہر لگانے کی کوشش کرے گا تو اسلام کی کون سی خدمت ہو گی؟ اس کا حل یہی ہے کہ ریاست کے قوانین کا احترام کیا جائے۔ شخصیات کی بجائے اداروں کو مضبوط کیا جائے۔ اور جو حکومت میں ہے، اچھا یا برا، اس کو اپنا وقت پورا کرنے دیا جائے۔ پھر اپنا منشور اور پالیسی پاکستانی عوام کے سامنے رکھیں اور بُلٹ کے ذریعے اپنی بات منوانے کی بجائے بیلٹ کا راستہ اختیار کریں۔ اسی کا نام جمہوریت ہے اور یہی اعتدال کا راستہ ہے۔

  14. نعمان میں کچھ عرصہ سے آپ کا بلاگ باقاعدہ پڑھ رہا ہوں لیکن پہلی بار لکھ رہا ہوں۔ دراصل لکھنے کا تو پہلے بھی بہت بار سوچا لیکن ارادہ ملتوی کر دیتا تھا۔ آپ کے بلاگ کی خاص بات آپ کی بہت خوبصورت اردو اور موضوعات کا تنوع ہے۔
    اگرچہ آپ کے بلاگ پر بے حد اچھی تحریریں میں نے پڑھی ہیں لیکن آج کے شریعت اور جمہوریت کے موضوع پر ساجد کی تحریر تو کمال کی تحریر ہے۔سچ پوچھیں تو ساجد کی اس تحریر نے ہی آج مجھے آپ کے بلاگ میں لکھنے کی تحریک دلائی ہے۔
    مولانا غازی اور جمہوریت اور اسلام پر انہوں نے جو کچھ لکھامیں ان سے اتفاق کرتا ہوں۔

  15. شاہد بہت شکریہ کہ آپ نے بالآخر یہ خاموشی توڑی۔ واقعی ساجد نے بہت ہی اچھا لکھا ہے۔ سیفی ہزاروی کے تبصرے نے تذکرے کو بہت اچھی روش پر ڈال دیا۔

    رواداری، خلوص اور افہام و تفہیم سے بات چیت کرنا۔ یہ بھی تو اسلامی روایات ہیں۔ اگر ہمارا معاشرہ کچھ پڑھا لکھا ہوتا، یہاں انصاف مہیا ہوتا، تو شاید پرتشدد نفاذ اسلام کا شوق رکھنے والے نوجوانوں کے پاس بہتر آپشن ہوتے۔ رواداری، برداشت، فہم، علم ہوتا اور وہ اسی کے ذریعے دین کو عام کرنے کی کوشش کرتے۔ تشدد اور جبر ہماری روایات نہیں، ہماری روایات برداشت اور رواداری کی ہیں۔

  16. نعمان ، آپ نے لکھا ہے : جب پاکستان بنایا گیا تھا تو قائداعظم نے واضح الفاظ میں یہ بات صاف کردی تھی کہ پاکستان تھیورکریٹک ریاست نہیں ہوگی۔
    نعمان ، میں بہت ادب کے عرض کرنا چاہوں گا کہ یا تو آپ لاعلم ہیں یا پھر آپ دوسروں کے کہے گئے جھوٹ کو دہرا رہے ہیں ۔
    قائد اعظم نے واضح طور پر فرمایا تھا :
    Pakistan not only means freedom and independance but the Muslim Ideology which has to be preserved
    تفصیل یہاں پڑھ لیں ۔ اور تمام مندرجات کا ذرا غور سے مطالعہ فرمائیے گا تاکہ آپ اور دیگر احباب قائد اعظم کی روح کو تکلیف پہنچانیں سے مستقبل میں باز رہیں ۔

    اور آپ کا یہ بھی کہنا ہے : عالموں کو عوام کی رضامندی کے بغیر ان پر حکومت کرنے کا حق ثابت نہیں ہوتا۔
    علماء کو حق ہے یا نہیں ۔۔۔ اس پر بات پھر سہی لیکن آپ ایک بات ضرور یاد رکھئے کہ اسلام میں قائدِ حکومت کے انتخاب کے لیے عوام کی رضامندی کی قطعاََ ضرورت نہیں ہے ‫!! یہ بات آپ کسی بھی معتبر عالمِ دین سے پوچھ کر دیکھ لیں ۔۔۔ سیدھی سی بات ہے کہ جب فہمِ دین میں عوام ایک جیسے نہیں ہوتے تو ان کی رضامندی کا سرٹیفیکٹ کیونکر لیا جا سکتا ہے؟ قرآن اسی لیے تو کہتا ہے کہ : عالم اور بے علم برابر نہیں ۔

  17. “کہ اسلام میں قائدِ حکومت کے انتخاب کے لیے عوام کی رضامندی کی قطعاََ ضرورت نہیں ہے“
    آپ انتخاب بھی لکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ عوام کی رضامندی بھی نہ ہو پھر یہ بھی نھیں فرماتے کہ منتخب کون کرے گا؟
    آپکے بیان کردہ “اسلامی“ طریقے سے تو مجھے مشرف حکومت اسلامی لگنے لگی ہے۔ ان کو خود کو ملک کا حکمران منتخب کیا اور عوام کی رضامندی بھی شامل نہ تھی۔ اسی لئے شائد باقی مسلمان مملکتیں بھی انتخاب کے چکر میں نہیں پڑتیں 🙂

  18. احمد
    عوام سے مراد ساری قوم نہیں ہے
    کیا آپ عوام اور خواص میں فرق نہیں سمجھتے ؟
    قرآن کی آیت میں بے علم کے مقابلے میں جس کسی کو بھی عالم کہا گیا ہے ۔۔۔ یہی وہ خواص ہیں جن کو حاکم کے انتخاب کا حق حاصل ہے ۔

  19. Bazoq, kisee kay alam honay ka faisla kon karay ga? App upnay molvi ko aalam kahain gay aur main upnay molvi ko. Faisla kis tara ho ga saway laraee kay?

  20. عزیزِمن جناب باذوق صاحب، قرآن عظیم میں اللہ سبحانہ تعالیٰ کے ارشاد “عالم اور بے علم برابر نہیں ہیں“ سے کس کی مجال ہے جو انکار کرے۔ لیکن آپ اس آیت کو جس امر کی وضاحت کے لئے بیان فرما رہے ہیں اُس سے اس کا تعلق نہیں بنتا۔ یا پھر ممکن ہے کہ آپ اپنا ما فی الضمیر پوری طرح سے بیان نہیں کر پائے۔اگر تھوڑی وضاحت فرما دیں تو نوازش ہو گی۔
    اس ضمن میں یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ آپ لفظ “عالم“ کی تعبیر میں تھوڑے چُوک گئے ہیں۔ عربی زبان میں “عالم“ کا لفظ صرف علمائے دین کے لئے ہی مخصوص نہیں ہے۔ ایسا صرف ہماری اردو زبان میں ہے کہ عالم سے مراد عالمِ دین ہی ہوتا ہے۔ جس ہستی کو انگریزی زبان میں Scientistاور اردو میں سائنسدان کہا جاتا ہے اُس کے لئے بھی عربی زبان میں یہی لفظ “عالم“ استعمال کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید کی فصاحت و بلاغت مسلمہ ہے۔ اس کا ایک ایک لفظ اور حرکت اپنے اندر بہت وسیع معانی رکھتے ہیں۔ علمائے دین کے لئے اہلِ عرب “اہل الذکر“ اور بالوضاحت “عالم دین“کا لفظ بولتے ہیں۔ بالفاظ دیگر کسی بھی علمی میدان میں اپنے کام اور تحقیق کا ماہر عربی زبان میں (اس علم کا) عالم ہی کہلاتا ہے۔ اب یہ علمی میدان قرآن، فقہہ، حدیث اور احکامِ قرآنی کی تعلیم اور تحقیق کا بھی ہو سکتا ہے۔ تاریخ،معاشرت،معیشت،سیاست‘ادب، فن،سپاہ گری،طبیعات،کیمیا، طب،فلکیات،جوہری توانائی،علم الحیوانات اور علی ھذالقیاس دیگر لا تعداد علوم کا بھی ہو سکتا ہے۔ قرآن عظیم نے سب سے پہلا حکم “اقراء“ کا دیا ہے اس لئے ہمیں اس کے باقی احکام کو سمجھنے کے لئے اپنے اذہان کی بہترین توانائیاں صرف کر کے اس کے معانی کی گہرائیوں کو سمجھنا ہو گا۔ محض تلاوت اور سرسری نظر یا سنی سنائی تشریحات سے اس کا حق ہرگز ہرگز ادا نہیں ہوتا۔ جس دن امت مسلمہ نے اس تحفہ خدا وندی کو دم درود یا محض عبادات میں پڑھی جانے والی کتاب سے ہٹ کر اس کو تمام علوم کا سر چشمہ مان کر اس سے استفادہ شروع کر دیا تو آپ یقین کریں اس دن سے ذلت اور پستی ہمارا مقدر نہیں رہے گی۔
    بہر حال بات موضوع کے محور سے ہٹ رہی ہے اس لئے اس پر کبھی پھر لکھوں گا۔
    ہم نے اپنے گھر میں بجلی کی وائرنگ کروانی ہو تو کسی بڑھئی کو تو نہیں لائیں گے نا؟ ظاہر ہے کہ یہ کام الیکٹریشن کا ہے اور ہم اسی کو ڈھونڈیں گے۔ دیوار بنوانی ہو تو معمار سے ہی رابطہ کریں گے سباک (پلمبر) سے نہیں۔ تو محترم جب اتنے عام سے کاموں کے لئے بھی ہم اسی شعبے سے متعلقہ آدمی تلاش کرتے ہیں تو کیسے ممکن ہے کہ ایک مسلم ریاست کا سربراہ ایسے آدمی کو بنا دیں جو بے شک بہت اچھا عالم دین تو ہو لیکن سیاسی بصیرت اور انتظامی امور سے بے بہرہ ہو۔ مانتا ہوں کہ ہماری آج تک کی تاریخ میں یہی ہوتا آیا ہے کہ جو جس کام کے اہل تھے ان کو کھڈے لائن لگا کر اپنے منظور نظر لوگوں کو نوازا گیا لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ ہم حالات سے مایوس ہو کر ایک ایسے راستے کا انتخاب کر بیٹھیں کہ کل کو ہماری نسلیں ہمیں کوسیں۔ ایسے لوگوں کو اقتدار تک پہنچانے کی سیڑھی بنیں جو جواب طلبی اور احتساب کا نام لینے پر بدکیں۔جو حزب اختلاف یعنی جواب طلب اتھارٹی کے سرے سے ہی منکر ہوں۔ اور جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ عالم صرف دین کے عالم سے ہی مراد نہیں ہے تو کیوں نہ ہم اپنے ملک کی سربراہی کے لئے ایک ایسا عالم ڈھونڈیں جو اپنے شعبے کا واقعی عالم ہو؟ آخر اس میں برائی کیا ہے؟ جن ملکوں میں جمہوریت نافذ ہے آپ وہاں کے قوانین کا مطالعہ کریں کہ وہاں ہر ایرا غیرا وزیر یا مشیر نہیں بن جاتا اس کام کے لئے اس کو اپنے شعبے کا حقیقی “عالم“ ہونے کا مستند ثبوت دینا پڑتا ہے؟ احتساب اتنا سخت ہوتا ہے کہ بل کلنٹن قصرِ صدارت سے نکل کر کرائے کے مکان میں منتقل ہوتا ہے۔ اور اپنا گھر خریدنے کے لئے رقم ادھار لیتا ہے۔ پولینڈ کا لیخ ویلیسا صدر بننے سے پہلے الیکٹریشن کا کام کرتا تھا اور جب اس کی مدت صدارت پوری ہوتی ہے تو وہ اپنا وولٹ میٹر اور پیچ کس اٹھا کر اگلے ہی دن کام پر جاتا ہے۔
    محترم یہی ہے وہ لگن اور ایمانداری جو ہمارے اندر مفقود ہے۔اور برائی کے اس دائرے میں ہمارے سیاسی یا فوجی لیڈر ہی نہیں مذہبی رہنما بھی آپ کو ملیں گے۔
    اگر اسلام میں احزاب اور پارٹی کی گنجائش نہیں تو براہ کرم یہ بات ہماری بجائے ان لوگوں کو سمجھائیے کہ جو دین کا نام بھی لیتے ہیں پارٹیوں کو نا جائز بھی قرار دیتے ہیں اور خود ان میں سے کوئی کسی مذہبی یوتھ فورس کا صدر ہے تو کوئی صحابہ کی سپاہ کا سربراہ۔ کوئی مصطفی کی سپاہ کی رہنمائی کر رہا ہے تو کوئی محمد کی سپاہ کی۔ کوئی طیبہ کا لشکر چلا رہا ہے تو کوئی محمد کی جیش کا لیڈر ہے۔ امت ایک ہے۔ نبی ایک ہے قرآن ایک ہے ۔ رب ایک ہے۔ اور (نفاذ اسلام) کا مقصد بھی ایک ہے تو یہ سارا ہلا گلا چہ معنی دارد؟ اور ایک جنرل صاحب ہیں جو امریکی آشیر باد سے ایک نیا ہی تُوت اس ملک میں کھڑا کر رہے ہیں۔ وہ ہے دہشت گردی کے خلاف محاذ۔
    محترم، جیو اور جینے دو کا رواج ایک مہذب معاشرےکی عکاسی کرتا ہے۔ ہمیں اس رواج کو نہ صرف اپنانا ہے بلکہ اس کے لئے سر توڑ کوشش بھی کرنی ہے۔ طاغوت ایک نئی شکل میں اس ارض پاک کو اپنی گرفت میں لے رہا ہے۔ وہ ہماری کمزوریوں اور آپسی رنجشوں کا بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے۔ جلاؤ،گھیراؤ،پتھراؤ اور فتوی بازی کی لہر اسی کی چال ہے۔ ہم نے افغانستان سے کیا سبق سیکھا؟ عراق کی بارود کی بو سے پُر صبحیں، خون آلود شامیں اور دہشت زدہ راتیں ہمیں کیا کہانی سناتی ہیں؟ کوئی جرمن ہے تو کوئی فرانسیسی کوئی اٹالین ہے تو کوئی آسٹریلوی۔ کوئی امریکن ہے تو کوئی برطانوی،عراقیوں کے خون سے ہولی کھیلنے میں سب پیش پیش ہیں۔ ان کی عزتیں تار تار کرنے میں یہ سب جنگلی خونخوار بھیڑیوں کے ایک غول کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ اور تو اور عدم تشدد کے پرچارک جاپانی بھی اس کام میں برابر کے شریک ہیں؟ آپ جانتے ہیں کہ یہ سب کیوں ہوا؟ اس لئے کہ یہاں جبر اور استبداد کا ایسا نظام کار فرما تھا جو خود کو کسی کے آگے جواب دہ نہیں سمجھتا تھا۔ عدم برداشت اور کینہ اس نظام کا خاصہ تھا۔ زبانوں پر تالے تھے اور ذہنوں پر پہرے۔ اغیار کی خوشنودی اپنی قوم کی ترقی سے زیادہ پیاری تھی۔ عقیدہ کے اختلاف کا بہانہ بنا کر اپنے ہی ہم مذہبوں کا خون بہانے سے دریغ نہ تھا۔ ہمسایوں سے دشمنی کو اپنے لئے آب حیات سمجھا جاتا تھا۔ پھر ہوا کیا؟ اپنی ہی قوم کے وہ لوگ کہ جن کو اچھوت بنا دیا گیا تھا اس طاغوت کی جھولی میں جا بیٹھے کہ جو اول دن سے ہی انسانون کے خون کا پیاسا ہے۔ گروہ کی گروہ سے اور علاقے کی علاقے سے نفرت اتنی بڑہ گئی کہ آج عراق تقسیم کے دوراہے پہ کھڑا ہے۔ دماغوں میں اٹھنے والے سرکش طوفانوں کو جب اپنے اظہار کا مو قع ملا تو انہوں نے ایسا اودھم مچایا کہ بڑے سے بڑا سنگدل بھی خون کے آنسو رو دے۔ مرنے والا مسلمان،مارنے والا مسلمان۔ قاتل بھی شاہ کربلا کا عقیدتمند اور مقتول بھی۔ ظالم بھی شیخ عبدالقادر جیلانی کا معتقد اور مظلوم بھی۔ ایک نے مسجد پر حملہ کیا تو دوسرے نے امام بارگاہ پر۔ نہ خانقاہوں کو بخشا گیا نہ عبادتگاہوں کو۔
    محترم کیا ہم بھی (میرے منہ میں خاک) اپنے پیارے وطن کو ایسا ہی دیکھنا چاہتے ہیں؟ آپ جس نظام حکومت کا تذکرہ فرما رہے ہیں اس کی بنیاد ہی اس بات پر ہے کہ حاکم کے چناؤ میں عوام الناس کی نہ تو کوئی اہمیت ہے اور نہ ضرورت۔ تو پھر آپ بتائیں گے کہ اگر عامۃا لناس اپنا رہنما خود منتخب نہیں کریں گے تو کون کرے گا؟ کیا آسمان سے فرشتے آ کر کسی کو خلعت پہنایا کریں گے۔ یا اللہ کی طرف سے کسی ہما کے آنے کا انتظار کیا جائے گا؟ اب تو وحی کا سلسلہ بھی موقوف ہو گیا کہ کوئی نبی ہی ہماری رہنمائی کر دے۔ اور اگر بفرض محال ایسا حاکم کسی نہ کسی طرح سے آ بھی جائے تو اس کے پاس ان لوگوں پر حکومت کرنے کا کیا اخلاقی جواز ہو گا کہ جو اس کی نظر میں اس قدر احمق ہوں کہ اپنے لئے ایک لیڈر بھی نہ چن سکیں۔ آخر کو وہ اسی “احمق“ قوم سے اپنے وزراء چنے گا۔تو کیا آپ بتائیں گے کہ اس کے حاکم بنتے ہی آسمان سے علم و دانش کی ایسی کون سی بارش ہو گی کہ پلک جھپکتے میں ہی اس کو انتہائی حساس اداروں کے لئے علماء اور فضلاء مل جائیں گے؟ اور پھر احتساب کا عدم وجود اس کو اس قدر شیر نہیں کر دے گا کہ وہ من مرضیاں کرے اور ایک دن اپنے ملک اور قوم کو دوسروں کے لئے نشان عبرت بنانے کا سبب بن جائے؟
    محترم، اس وقت ہم اور ہمارا وطن ایک سخت آزمائش سے دو چار ہے۔ یہ وقت ایسا نہیں ہے کہ ہم ایک سے ایک نئے تجربے کو دہرائیں۔ وزیرستان کا باشندہ ہو یا کراچی کا شہری سب ہمارے جگر کے ٹکڑے ہیں۔ شیعہ ہو یا سنی سب ہمارے اپنے ہیں۔ مسلم ہو یا غیر مسلم پاکستانی سب ہمارے بھائی ہیں کہ ہم سب کا باپ ایک ہی ہے۔
    ہمیں سب کو محبتیں بانٹتے رہنا ہے کہ یہی ہمارے دین کا مدعا ہے اور میرے پیارے نبی کا اسوہ حسنہ۔ اگر ہم اس سے رو گردانی کریں گے تو پھر وہی تاریخ خدانخواستہ ہمارے ساتھ بھی دہرائی جا سکتی ہے جو کہ عراق میں ہم دیکھ رہے ہیں۔ طاغوت کو اس کے شیطانی عزائم سے باز رکھنے کا یہ سب سے کارگر طریقہ ہے۔
    اب مندرجہ بالا وضاحت کی روشنی میں دیکھئے کہ میرے اور آپ کے نقطہ نظر میں اتفاق ہے یعنی ہم دونوں مانتے ہیں کہ عالم اور بے علم برابر نہیں ہیں۔

  21. السلام علیکیم
    ساجد:
    برادرم ! مجھے خوشی ہے کہ آپ مسلمانوں‌ کے مستقبل اور انکو درپیش مسائل بارے سوچتے ہیں اور فکرمند ہیں۔

    میرے پاس وقت نہیں ہوتا (ورنہ میں اپنا بلاگ شروع ہی کردیتا) اور کبھی فرصت ملے تو اردو فورم یا بلاگ پڑھنے کا موقع ملتا ہے۔ آپ نے میری گزشتہ پوسٹ سے بھی وہی مضمون اخذ کیا جس کے رد کے لئے میں‌ نے مضمون لکھا تھا۔ چلیں اسکا تفصیلی جواب پھر کبھی سہی۔

    سردست میں بات کروں گا جو آپ نے تفصیلی جواب لکھا ہے محترم باذوق صاحب کے جواب میں۔ آپ لکھتے ہیں:

  22. میرے پاس وقت نہیں ہوتا (ورنہ میں اپنا بلاگ شروع ہی کردیتا) اور کبھی فرصت ملے تو اردو فورم یا بلاگ پڑھنے کا موقع ملتا ہے۔ آپ نے میری گزشتہ پوسٹ سے بھی وہی مضمون اخذ کیا جس کے رد کے لئے میں‌ نے مضمون لکھا تھا۔ چلیں اسکا تفصیلی جواب پھر کبھی سہی۔

    سردست میں بات کروں گا جو آپ نے تفصیلی جواب لکھا ہے محترم باذوق صاحب کے جواب میں۔ آپ لکھتے ہیں:

    کیسے ممکن ہے کہ ایک مسلم ریاست کا سربراہ ایسے آدمی کو بنا دیں جو بے شک بہت اچھا عالم دین تو ہو لیکن سیاسی بصیرت اور انتظامی امور سے بے بہرہ ہو۔ ————۔ اور جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ عالم صرف دین کے عالم سے ہی مراد نہیں ہے تو کیوں نہ ہم اپنے ملک کی سربراہی کے لئے ایک ایسا عالم ڈھونڈیں جو اپنے شعبے کا واقعی عالم ہو؟ آخر اس میں برائی کیا ہے؟ جن ملکوں میں جمہوریت نافذ ہے آپ وہاں کے قوانین کا مطالعہ کریں کہ وہاں ہر ایرا غیرا وزیر یا مشیر نہیں بن جاتا اس کام کے لئے اس کو اپنے شعبے کا حقیقی “عالم“ ہونے کا مستند ثبوت دینا پڑتا ہے؟

    یہاں آپ نے فرمایا کہ ایک عالم دین جو بے شک اپنے شعبے کا ماہر ہو وہ سیاسی بصیرت اور انتظامی امور سے بے بہرہ ہونے کے سبب حق حکمرانی نہیں‌ رکھتا۔۔ آگے آپ مغربی طرز حکومت کی مدح میں لکھتے ہیں کہ :

    پولینڈ کا لیخ ویلیسا صدر بننے سے پہلے الیکٹریشن کا کام کرتا تھا اور جب اس کی مدت صدارت پوری ہوتی ہے تو وہ اپنا وولٹ میٹر اور پیچ کس اٹھا کر اگلے ہی دن کام پر جاتا ہے۔

    میری ناقص عقل تو اس گہرائی تک پہنچنے سے قاصر ہے کہ ایک مسلمان عالم دین اپنے شعبے میں ماہر ہونے کے باوجود حق حکمرانی سے اسلئے محروم رہے کہ وہ انداز جہاں بانی سے ناواقف ہے (بقول آپکے) اور مغرب کا ایک الیکٹریشن آداب حکمرانی کا علم کہاں سے لے آیا کہ وہ قابلِ تعظیم ٹھہرا۔

    مجھے صرف ایک بات کا جواب (اگر نعمان صاحب کا بلاگ اتنی لمبی بحث کی اجازت دیتا ہو تو) عنائت فرمائیں کہ کیا وجہ ہے کہ ایک عالم کو تو آپ اصول و مبدیات سیاست سے عاری قرار دیں اور مغرب کے الیکٹریشن اور پلمبر تاج حکمرانی سر پر سجائیں تو ان سے نہ پوچھا جائے کہ میاں جاؤ پانی کا نلکا ٹھیک کرو تمہیں عالمی سیاست کی کیا سوجھ بوجھ۔۔۔۔۔۔

    آپ پتہ نہیں کیاجواب دیں لیکن جواب واضح ہے کہ انسان کا پیشہ (چاہے عالم ہو یا درزی) قیادت کی ذمہ داری اٹھانے کی راہ میں رکاوٹ نہیں‌ ہوتا بلکہ قیادت کے لئے امانت و دیانت اور اخلاص وغیرہ اصل شرائط ہیں۔

    اور ایک اسلامی مملکت کے حکمران کو تو دین کا عالم ہونا اس لئے بھی ضروری ہے کہ تمام نظام کار مملکت، دوسرے ممالک سے تعلقات، سماجی و معاشرتی درستگی غرض ہر کام اللہ کے حکم اور نبی علیہ السلام کی سنت کے موافق کرنا ہے۔ کسی سپر پاور کی دھمکی یا جی ایٹ ممالک کے اقتصادی بائیکاٹ کے خطرے کی وجہ سے اپنے ہی عوام پر بارود کی بارش کرنے کی روش ، کوئی دینی احکام سے واقف اور خدا خوف حاکم نہیں‌ کرسکتا۔

    والسلام علی من التبع الھدی

  23. برادر سیفی نے اچھا تبصرہ کیا ہے ۔ اور دوسری بات یہ کہ اس موضوع پر میرے سارے تبصروں کو دیکھ جائیے ۔۔۔ کہیں بھی اس بات کا اشارہ تک آپ کو نہیں ملے گا کہ ’عالم‘ سے راقم کی مراد صرف ’عالمِ دین‘ ہی رہی ہے۔ بےشک حکمرانی کے لیے دنیاوی یا مروجہ سماجی تکنالوجی علوم بھی ضروری ہیں لیکن ۔۔۔ یاد رہے کہ جب اسلامی نظام کے نفاذ کی بات کر رہے ہوں تو دینی علوم اولیت کا درجہ رکھتے ہیں ۔ بےشک جارج بش یا ٹونی بلئیر یا من موہن سنگھ یا ان جیسے دیگر ماہرین ملک کے حکمران بن سکتے ہیں لیکن یہ لوگ کون سا نظام قائم کریں گے ؟ بھلا جو اسلام کی الف بے ہی نہ جانے آپ اس سے نفاذِ نظامِ اسلام کی توقع رکھ سکتے ہیں ؟
    گذشتہ تبصروں میں ، راقم نے کہیں بھی غازی عبدالرشید کے اقدام کی تائید نہیں کی ہے بلکہ الٹا تنقید ہی کی ہے ۔ اسی طرح اگر میں مشرف کی تعریف نہیں کرتا تو مشرف کے خلاف سول بغاوت کا مشورہ بھی قطعاََ نہیں دے سکتا کہ اس سلسلے میں احادیث خوب واضح ہیں۔
    رہی عوام کے مشورے کی بات ۔۔۔ تو میں صرف اتنا کہوں گا کہ اس موضوع پر آپ کو اسلامک لٹریچر کے مطالعے کی ضرورت ہے۔ دنیاوی مثالیں تو کافی دی جا سکتی ہیں جو کہ آپ نے دی بھی ہیں۔
    آپ نے لکھا کہ : ہمیں سب کو محبتیں بانٹتے رہنا ہے کہ یہی ہمارے دین کا مدعا ہے ۔ یہی جملہ آپ اور آپ کے ہمخیال دیگر احباب کی سوچ و فکر کو ظاہر کرتا ہے۔
    دنیا میں جتنے بھی مذاہب یا حکومتیں ہیں ، سب کا موٹو بھی یہی ہے جو آپ نے کہا ہے۔ پھر دینِ اسلام میں اور ان سب میں فرق ہی کیا رہ گیا ؟ اس پر کبھی فرصت ملے تو قرآن و حدیث کی روشنی میں غور کیجئے گا۔
    میں تو صرف اتنا کہوں گا کہ ۔۔۔ بقولِ قرآن ، انسان کی پیدائش کا مقصد واحد اللہ کی عبادت ہے (سورہ الزاریات)۔ اور عبادت میں احترامِ انسانیت کے علاوہ وہ تمام خصوصیات بھی آ جاتی ہیں جو اسلام کا خاصہ ہیں مثلاََ : عقیدہء توحید ، دعوتِ دین ، نظامِ مصطفیٰ کا نفاذ ، امر بالمعروف نہی عن المنکر کی پابندی ۔۔۔ وغیرہ ۔

  24. قبلہ سیفی ہزاروی صاحب، اگر میں اپنے الفاظ میں اپنا مدعا ٹھیک طرح سے بیان نہیں کر پایا تو دوبارہ عرض کرتا ہوں کہ میں نے یہ نہیں کہا کہ ایک عالم دین مسلم ریاست کا سربراہ نہیں بن سکتا۔ اسی صفحہ کی میری سابقہ تحریروں کو دیکھئیے میں نے عرض کیا ہے کہ “ مولانا غازی اپنا منشور پاکستانی عوام کے سامنے پیش کریں اور ان سے فیصلہ لیں کہ کیا وہ ان کو صدر یا وزیراعظم بنانا پسند کرتے ہیں یا نہیں؟“۔
    میری یہ تحریر اس بات کو بہت اچھی طرح سے واضح کرتی ہے کہ مجھے کسی عالم دین کے سربراہ ریاست بننے پر کوئی پرخاش نہیں ہے۔ صوبہ سرحد میں ایم ایم اے کی حکومت علماء دین ہی کی حکومت ہے کیا میں نے ان کے حق حکمرانی پر کبھی انگلی اٹھائی؟
    علماء دین کی مخالفت برائے مخالفت میرا مقصود نہیں ہے۔ اگر کوئی میرے جیسا دنیا دار آدمی بھی مطلق ا لعنانیت کی طرز کی حکومت کا حامی ہو گا تو میں اس کے اولین مخالفین میں سے ہوں گا۔ اور آپ دیکھ سکتے ہیں کہ مشرف صاحب کی مخالفت بھی میں اسی نکتے پر کرتا ہوں۔ عراق کے سابقہ نظام پر میری تنقید کو دوبارہ پڑھئیے کہ اس پر میری تنقید کی اساس کیا ہے؟ آپ خود ہی نتیجے پر پہنچ جائیں گے۔
    اگر کوئی عالم دین سیاست کے میدان کا بھی شہسوار ہو تو ایک اسلامی ملک کو اس سے اچھا رہنما میسر نہیں آ سکتا۔ لیکن اگر اس کے لئے یہ شرط ہو کہ چونکہ وہ عالم دین ہے اور جو چاہے کرے ۔ وہ حکومت میں آ کر جواب طلبی کے قانون سے مستشنیٰ ہے۔ اور وعامہ ا لناس کے لئے اس کی پالیسیاں صرف اس کی صوابدید پر منحصر ہوں۔ اس کی بات چیلنج کرنے کا کسی کو اختیار نہ ہو۔ عوام اس کی نظر میں ایک حقیر مخلوق کا درجہ رکھتی ہو (کیونکہ سب عوام تو اس کی طرح کے عالم نہیں ہیں)۔ تو اس متکبر اور آمرانہ نظام کو قبولیت‘‘‘ کم از کم میں تو نہیں دے سکتا۔
    محترم، پولینڈ کا لیخ ویلیسا ہو یا امریکی صدور مجھے کسی کی مدح سرائی کا جنون نہیں ہے۔ مدحت ہے تو صرف اللہ کے لئے جو میرا اور آپ کا رب ہے۔ اور آپ نے شاید غور نہیں فرمایا کہ ان لوگوں کی بات اگر میں نے کی ہے تو جمہوری نظام اور روئیووں کے حوالے سے۔ یہ لوگ ایک طویل اور متوازن جمہوری نظام کے تحت اپنے عوام سے سند قبولیت لینے کے بعد حکمران بنے۔ نہ تو یہ جبر کے کسی نظام کا حصہ تھے اور نہ ہی مطلق العنانیت کے پرچارک۔ اور نہ ہی یہ نظام احتساب سے مستشنیٰ تھے۔ اگر ایک عالم دین بھی اسی امتحان سے گزر کر ایک اسلامی ریاست کا سربراہ بنے تو ہمارے سر آنکھوں پر۔ آپ کا یہ کہنا کہ ایک عالم دین کے حکمران بننے کی مخالفت ہم صرف اس کے عالم ہونے کی وجہ سے کرتے ہیں‘ٹھیک نہیں ہے بلکہ کسی حد تک حقائق سے اغماض برتنے والی بات ہے۔
    والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔

    گزارش:
    اللہ کی مہربانی سے ہر مسلمان حتی المقدور ہدایت (اسلام) کی پیروی کرتا ہے اس لئے (من التبع الہدی) کا یہاں استعمال بر محل نہیں ہے۔

  25. محترم باذوق صاحب، نہایت خوشی کی بات ہے کہ آپ نے میری بات سے اتقاق کیا کہ عالم سے آپ کی مراد صرف عالم دین ہی نہیں تھی۔ آپ جس جوش و جذبے کے ساتھ علمائے دین کے حکمران بننے کی بات کر رہے ہیں تو ممکن ہے کہ آپ اپنی سابقہ تحاریر میں اس معنوی فرق کو پیش نظر نہ رکھ سکے ہوں۔ بہر حال دیر آید درست آید۔
    بلاشبہ دینی علوم دیگر تمام علوم پر فوقیت رکھتے ہیں اور ان کا حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔ لیکن مسئلہ تو اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ہم ان دینی علوم کا اطلاق دوسروں پر غلط طریقے سے کرتے ہیں۔ ان کی آڑھ میں لوگوں کو خوف میں مبتلا کرتے ہیں۔ ہمارے گاؤں کے ایک مولوی صاحب ہوا کرتے تھے وہ میت والے گھر سے ریشمی بستر (قل خوانی والے دن) یہ کہہ کر لیا کرتے تھے“، اوئے غلام محمدا تیرا مویا پیو ٹھڈ چہ کیویں سمسی۔ اوہنوں ہک سیالو بسترا کیوں نئیں دیندا؟“ اور نہ جانے کتنے غلام محمد اپنے مرحومین کو گرم رکھنے کے لئے ان حضرت کو بستر دیتے تھے۔
    اب دیکھئیے تصویر کا دوسرا رخ؛
    سالے غوث اعظم دے۔ غوث اعظم ساڈا۔ انہاں بدعتیاں دا کیویں ہو سکدا اے؟
    جی ہاں یہ ہیں وہ الفاظ جو ایک نام نہاد عالم دین نے منبر رسول پر بیٹھ کر ارشاد فرمائے۔ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب ہم شہر منتقل ہو چکے تھے اور ہمارے گھر کے قریب دو فرقوں کے علماء کا روزانہ کی بنیاد پر بعد از صلاۃ ا لفجر ٹاکرا ہوا کرتا تھا۔ یہ صاحب آج ایک بہت بڑے مدرسے کے “مالک“ ہیں اور دوسرے شہروں میں بھی “فساد فی سبیل اللہ “ پھیلانے کے لئے تشریف لے جاتے ہیں۔جہاں ہمارے جیسے بیوقوف ہی ان کو شیخ الاسلام اور شیخ الحدیث اور فاتح فلاں فرقہ کے القاب سے نوازتے ہیں۔
    محترم، مثالیں دینے پر آؤں تو قسم خدا کی آپ کا خون کھول اٹھے کہ یہ کیسا مذاق ہے جو دین کے نام پر کیا جا رہا ہے۔ہاتھوں کی مدد سے ایسے ایسے فحش اشارے کہ منبر رسول کے تقدس کا بھی خیال نہیں۔ زبان اتنی غلیظ کہ خدا کی پناہ۔
    کہاں گئے وہ علماء جو نبی پاک کے کردار اور گفتار کی عملی تفسیر تھے؟ جو بردبار تھے؟ تحمل مزاج تھے؟
    اگر میں محبتیں بانٹنے کی بات کرتا ہوں تو اس بنیاد پر کہ جن کا یہ کام تھا انہوں نے اس سے پہلو تہی اختیار کر رکھی ہے؟ جن کا کام اس قوم کو اسلام کے نام پر متحد کرنا تھا وہ ایک دوسرے پر کافر اور فاجر ہونے کے فتوے لگانے میں مشغول ہیں۔ اور اس قوم کو جلد از جلد تحلیل کرنے کی فکر میں ہیں۔ آپ مجھے اسلامی لٹریچر کے مطالعے کا کہہ رہے ہیں آپ کی بات سر آنکھوں پر۔ اسلامی لٹریچر بہت پڑھا بھی ہے مزید پڑھوں گا بھی، پر جو کچھ عملی طور پر میری آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے اس سے آنکھیں کیسے چرا لوں؟ آدم کے بیٹوں کے قتل پر کیسے خاموش رہوں کہ جو محض مذہبی اور سیاسی جنونیوں کے خوں آشامی کا شکار ہوتے ہیں۔ کل کو میری بھی باری آ سکتی ہے۔ مجھے بھی شیعہ یا سنی ہونے کے “جرم“ میں کوئی “جنونی“ قتل کر کے “جنت“ کا دعویدار بن سکتا ہے۔ میرا بیٹا اس خونی ماحول کے ایک سین کا حصہ بن سکتا ہے۔
    میں کیا کروں؟ چین کی بانسری بجاتا رہوں؟ نظام کے خلاف بغاوت کروں؟ قانون کو ہاتھ میں لوں؟ اغیار سے مدد مانگوں؟ طاغوت کی جھولی میں جا بیٹھوں؟
    نہیں مجھے ان سب میں سے کچھ بھی نہیں کرنا ہے ۔ مجھے خود وہ کام کرنا ہے کہ جو ان سیاسی اور مذہبی ذمہ داران کے کرنے کی پہلی ترجیح ہونی چاہیے تھی۔ یعنی مجھے محبتیں بانٹنا ہے ۔ اپنی قوم اور ملک کو متحد رکھنے کے لیئے اپنی انا کو فنا کرنا ہے۔
    بس محترم یہی کہانی ہے میری محبتوں کی جو شاید آپ کو کھلتی ہے۔

  26. ایک سوال جو عموما میرے ذہن میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ بالفرض پاکستانی عوام، پاکستان میں اسلامی نظام چاہتے ہی نہ ہوں؟ میرا مطلب ہے پاکستان میں اس مسئلے پر کبھی کوئی رائے شماری تو نہیں ہوئی۔ دوسری بات چونکہ پاکستانی آبادی کی اکثریت ناخواندہ ہیں اور دنیاوی معلومات تو کجا انہیں دین کے بنیادی اراکین کے بارے میں بھی واجبی سی معلومات ہیں۔ تو ہم کیسے یہ سمجھ سکتے ہیں کہ وہ نفاذ نظام اسلامی کے فوائد سے آگاہ ہیں؟ اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کیونکہ ان کی اکثریت اللہ کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں اسلئے وہ نفاذ شریعت کے حامی ہوں گے۔ تو کیا یہ ضروری نہیں کہ انہیں اس نظام کے بارے میں معلومات ہوں۔

    اور انہیں یہ تعلیم کون دیگا؟ ظاہر ہے علماء دین اور نفاذ اسلام کے حامی جو ابھی تک عوام کو اسلامی نظام کے تصوارات سے آگاہ نہیں کرسکے ہیں باوجود اس کے کہ پاکستان میں انہیں تبلیغ، دعوت دین اور درس و اشاعت کی پوری آزادی ہے۔

  27. اسلامی نظام پر رائے شماری اسی دن ہو گئی تھی جب اس سرزمین کے لوگوں نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا تھا !
    اتفاق سے آج ہی ڈاکٹر اسرار احمد اپنے کالم میں اسلامی ریاست کے خدوخال بیان کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب اسلامی نظام مملکت کو جمہوری ہی دیکھتے ہیں !

  28. […] جات والی تحریر طالبان کے نقش قدم پر تھی۔ اس کے بعد شریعت اور جمہوریت۔ ان پر بالترتیب چھتیس اور تیس تبصرہ جات ہوئے۔ کچھ […]

Comments are closed.