گزشتہ روز میں اپنے بھائی عازب کے ہمراہ چند کتابیں خریدنے اردو بازار گیا۔ تب میں نے محسوس کیا کہ تقریبا تمام کتابوں کی دکانوں پر پاکستان میں جمہوریت اور فوج کے سیاسی کردار پر لکھی گئی تنقیدی کتابیں نمایاں کرکے لگائی گئی ہیں اور سب سے زیادہ فروخت بھی ہورہی ہیں۔
جب میں نے کتابوں کی دکان پر ملٹری انک مانگی تو انہوں نے چپکے سے مجھے اندر سے کتاب ایک سفید کاغذ میں اچھی طرح لپیٹ کر لاکر دی۔ سوائے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی دکان کے اور کسی دکان پر ملٹری انک نمایاں کرکے نہیں رکھی گئی تھی۔ اس کے باوجود کتاب دھڑا دھڑ فروخت ہورہی ہے۔ پاکستان میں جہاں اردو ناولوں کی ہزار کاپیاں بڑی مشکل سے فروخت ہوتی ہیں وہاں کسی انگریزی کتاب کی چھ ہزار کاپیاں صرف دو ہفتے میں بک جانا ایک کمال ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عوام ملٹری کے معاشی اور سیاسی مفادات سے ناواقف نہیں اور وہ ان کے بارے میں مزید جاننا اور پڑھنا چاہتے ہیں۔
یہ کتاب کتنے کی ملی ہے آپ کو نعمان؟
ادھر تو مل ہی نہیں رہے میرے لائبریرین نے فرمائش کی تھی کہ پتہ کرکے بتاؤں۔
وسلام
شاکر قریبا چھ سو روپے کی ملی ہے۔ مگر چونکہ نامعلوم افراد کتب فروشوں کو ڈرا دھمکا رہے ہیں اس لئے یہ کتاب آسانی سے دستیاب نہیں اور اسلئے ہوسکتا ہے کہ آپ کے شہر میں کتب فروش اس کے زائد پیسے طلب کریں۔ مجھے ایسی بھی خبر ملی ہے کہ شاید یہ کتاب بین کردی گئی ہے۔ تاہم اس کا مجھے یقین نہیں کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو آکسفورڈ والوں نے اس کا پوسٹر نہ لگا رکھا ہوتا۔