خدا کے لئیے

in_the_name_of_god.jpg

شعیب منصور کی فلم "خدا کے لئے” کا ویب سائٹ آنلائن ہوگیا ہے۔ پاکستان کی معدوم شدہ فلمی صنعت کے لئے شعیب کی فلم ایک نئی امید لے کر آئی ہے۔ سپریم عشق، الفا براوو چارلی، سنہرے دن اور دل دل پاکستان والے شعیب منصور ایک نہایت باصلاحیت اور مقبول ہدایت کار ہیں۔ خدا کے لئے کے ویب سائٹ پر شعیب لکھتے ہیں کہ:

نو گیارہ کے بعد بیرون ملک مقیم پاکستانی اور دنیا بھر میں پھیلے مسلمانوں کو درپیش مسائل نے انہیں یہ فلم بنانے پر راغب کیا۔ یہ فلم جدت پسند مسلمانوں اور انتہاپسند مسلمانوں کے درمیان جاری کشمکش کی عکاسی کرتی ہے۔ جہاں ایک طرف نائین الیون کے بعد جدت پسند مسلمانوں کو انتہاپسندوں کی مخالفت کا سامنا ہے وہیں مغرب بھی انہیں شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ ان حالات نے جہاں ہر حساس دل کو متاثر کیا وہیں میں بھی ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ کہ پھر ایک دن ان کی نظر سے ان کے دوست جنید جمشید کا انٹرویو گزرا جس میں جنید ایک بالکل نئے کاسٹیوم میں ملبوس یہ بیان دے رہے تھے کہ انہوں نے موسیقی تج دی ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ موسیقی اسلام میں حرام ہے۔ شعیب لکھتے ہیں کہ مجھے یہ پڑھ کر بہت دکھ ہوا کہ ہماری پندرہ سالہ دوستی اور ساتھ کام کرنے کا تجربہ جنید کیسے مجھ سے بات کئے بغیر یوں تلف کرسکتا ہے؟ شعیب کے بقول جنید کے ان بیانات کا نوجوان نسل پر پڑنے والے اثر کا تدارک ضروری تھا۔

فلم میں پاکستانی اداکار شان مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں۔ دیگر کاسٹ میں ایمان علی، فواد خان، رشید ناز اور بھارتی اداکار نصیرالدین شاہ شامل ہیں۔ فلم کا ساؤنڈ ٹریک اس کا سب سے مضبوط پہلو ہوگا۔ میں نے ابھی تک اس کی موسیقی نہیں سنی ہے۔ مگر بول اگر شعیب منصور کے ہوں اور کئی باصلاحیت نئے فنکاروں نے موسیقی ترتیب دی ہو، گانے گائے ہوں، ریکارڈنگ اور مکسنگ کا کام شکاگو میں ہوا ہو تو پھر عمدہ موسیقی کی توقع یقینی ہوجاتی ہے۔

khuda-ke-liye.jpg

فلم کی کہانی بہت جاندار معلوم ہوتی ہے۔ اداکار شان، نصیرالدین شاہ اور رشید ناز کی صلاحیتوں کا بھی ہر کوئی معترف ہے اور شعیب کے میوزک ویڈیوز، ڈراموں اور ڈاکومنٹریز بے انتہا دلچسپ اور خوشنما ہوتی ہیں۔ مجھے ذاتی طور پر بہت بے چینی سے اس فلم کا انتظار ہے۔ ریلیز کی متوقع تاریخ بیس جولائی سننے میں آرہی ہے۔

میرے علاوہ اسلام آباد کے انتہاپسند مذہبی حلقوں کو بھی فلم کا بے چینی سے انتظار ہے۔ غازی عبدالرشید صاحب یہ بیان دے چکے ہیں کہ یہ فلم خلاف اسلام ہے اور اگر یہ سنسر بورڈ سے پاس کرائے بغیر جاری کی گئی تو حکومت نتائج کی ذمہ دار ہوگی۔ غازی عبدالرشید صاحب کو یہ فیصلہ دینے سے پہلے کہ آیا یہ فلم خلاف اسلام ہے یا نہیں یہ فلم دیکھنا ہوگی۔ ویسے میں تو یہ سمجھتا تھا کہ غازی صاحب کے دین میں تو فلم ہی خلاف اسلام ہے چاہے وہ کوئی سی بھی ہو شکر ہے غازی صاحب نے تصدیق کردی کہ ہر فلم خلاف اسلام نہیں ہوتی بلکہ کوئی کوئی فلم خلاف اسلام ہوتی ہے۔ خصوصا ایسی فلم جس میں جدت خیالی کا ذکر ہو۔

تبصرے:

  1. میں تو یہ فلم ضرور دیکھوں گا۔ میرے سر نے خصوصًا کہا ہے کہ یہ فلم دیکھی جائے۔ اور سینما میں جاکر دیکھوں گا۔ ایک اچھا موضوع مس کرنا زیادتی ہوگی۔

  2. نعمان تم اپنی تھوتھنی بند رکھا کرو۔ میں اس فلم کے انتظار میں ہوں، شیعب منصور مجھے خود پسند ہے لیکن اپنی پسند کا آدمی غلط کام کرے تو اسے اچھا نہیں کہا جا سکتا۔ اب ےی تو فلم دیکھنے کے بعد ہی پتہ چلے گا کے شعیب ہم جیسے انتہا پسندوں کو کیا دیکھاتا ہے اور تم جیسے روشن خیالوں کو۔۔

    اور یاد رکھو اسلام کے خلاف جو جائے گا انشاءاللہ ذلیل و خوار ہوگا۔ جدت پسندی کی کوئی حد بھی ہوتی ہے۔ اور شریعت کو جائز تصور کرنا غلط ہے تو ہم غلط ہیں تم اور تمہارا مخصوص طبقہ اپنے تک ہی رکھو تو بہتر ہے۔

    ایک اور بات۔ کتنا آسان ہے نعمان جیسے لوگوں کو جن کی ذندگی بھارتی فلموں کے بغیر گزر نہیں سکتی کو پاکستانی فلموں کی طرف راغب کرانا اگر فلم کو کسی ملاء کے ذریعے غلط قرار دلوا دیا جائے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو صرف اسلام کے خلاف ہونے والی کسی بھی چیز کو پسند کرتے ہیں۔

  3. کچھ ٹی وی پر اس کے کلپس دیکھیں ہیں جس سے یہ فلم کافی جاندار لگتی ہے۔ شعیب منصور ویسے بھی بہت منجھے ہوئے ہدایتکار ہیں اور چھوٹی چھوٹی چیزوں کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ نصیر الدین کی موجودگی سے فلم میں جان پڑ جائے گی۔ میوزک ابھی میں نے بھی نہیں سنا مگر شعیب منصور عموما اس طرف دھیان دیتے ہیں۔

  4. ویب سائٹ اور لوگوں کی باتیں سن کر تو ایسا لگتا ہے کہ یہ فلم نہایت جاندار ہوگی لیکن غلط اور صحیح کا فیصلہ ہم تو نہیں کرسکتے ہم صرف اختلاف یا اتفاق کرسکتے ہیں اب تو ان ملا لوگوں نے اتنے فتوے دے دیے ہیں کے لوگوں کے لیے ایک عام سی بات بن گئی ہے اور غازی صاحب کے لیے تو لال مسجد سے باہر کی پوری دنیا غیر اسلامی ہے اور انکا بس نہیں چلتا کے آگ لگا بھسم کردیں۔۔

  5. شعیب منصور کے انتہائی باصلاحیت ہونے میں کوئی شبہ نہیں لیکن بظاہر انکی جنید جمشید سے “ہٹ“ گئی ہے۔ کہتے ہیں کہ سولہ سال اسکو دئے تو اس نے پوچھے بغیر اسلامی تعلیمات پر عمل کیوں شروع کردیا بالفرض‌ اگر جنید اسلام پر عمل کرنا چاہتے ہی ہیں تو وہ شعیب سے کیوں پوچھیں گے کسی عالم سے کیوں نہیں ؟ مرے خیال میں یہی راستہ انہوں نے چنا اور کسی عالم سے رجوع کیا۔
    شعیب اب اس رنج میں اس موضوع کا انتخاب کرتے ہیں اک عجیب بات ہے۔
    فلم دیکھنے کے بعد ہی پتہ چلے گا کہ شعیب کوئی ٹھوس بات کرتے ہیں یا محض اسلام پسندوں کی برائی کرنے کے فیشن میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں

  6. میں نہیں سمجھتا کہ شعیب اپنی فلم میں کسی ایک طبقہ فکر کی حمایت کریں گے یا کسی دوسرے کی مخالفت۔ اس کے بجائے وہ صرف اس کشمکش کی عکاسی کرنے کی کوشش کریں گے جو گیارہ ستمبر کے بعد مسلمانوں میں پیدا ہوئی ہے۔ یہی فلم کا ایک دلچسپ پہلو ہے کہ کس طرح اسلامی معاشروں میں ایک طبقہ فکر کو دبایا جارہا ہے اس بنیاد پر کہ ان کے افکار انتہاپسند مسلمانوں سے مختلف ہیں۔

    ثاقب جس طرح روشن خیال مسلمانوں کو کسی ملاء کے فتوے سے کسی بھی خلاف اسلام چیز کی جانب مائل کیا جاسکتا ہے، ایسے ہی انتہاپسند مسلمانوں کو کسی بھی چیز کی مخالفت پر صرف اس بنیاد پر آمادہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ روشن خیال اسلام کی وکالت کرتی ہے؟

Comments are closed.