جیو نیوز کے نمائندوں کے مطابق منگل کے دن آنسو گیس کی شیلنگ کے بعد سینکڑوں کی تعداد میں طالبات جامعہ چھوڑ کر جاچکی ہیں۔ تاہم ابھی بھی جامعہ میں طالبات موجود ہیں جن کی تعداد کے بارے میں متضاد قیاس آرائیاں کی گئی ہیں۔ تاہم منگل کے روز کی حکمت عملی کے سبب کافی طالبات کو جامعہ چھوڑنے پر مجبور کردیا گیا۔ اب یہ اطلاع ہے کہ چند طالبات نے خود کو حکام کے حوالے کردیا جنہیں فورا چھوڑ دیا گیا ہے اور ان کے والدین انہیں گھر لے جاسکتے ہیں۔ تاہم مدرسے میں ایسی سینکڑوں طالبات اور طلباء زیر تعلیم ہیں جن کا تعلق پاکستان کے انتہائی دوردراز علاقوں سے ہے۔ کئی ایسی طالبات ہیں کہ جن کے پاس جامعہ کے علاوہ سر چھپانے کا اور کوئی ٹھکانا نہیں۔ مسجد اور مدرسوں میں اس وقت کتنے طالبعلم ہیں یہ کسی کو نہیں معلوم۔ ان میں سے کتنے مسلح ہیں یہ بھی نامعلوم ہے۔ ان کے پاس خوراک، بجلی وغیرہ کا کیا انتظام ہے اس بارے میں بھی کچھ کہنا ممکن نہیں۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ حکومت کو مکمل حق حاصل ہے کہ وہ لال مسجد کی انتظامیہ کے خلاف ایکشن لے۔ ایکشن کے طریقہ کار سے اختلاف کیا جاسکتا ہے، اس کی غلط ٹائمنگ پر اعتراض کیا جاسکتا ہے، خونریزی کا خدشہ بھی خوفناک ہے لیکن یہ بات سب سے زیادہ ضروری ہے کہ ریاست کی رٹ منوائی جائے اور آئین پاکستان کی حفاظت کے لئے کاروائی کی جائے۔ تاہم کاروائی کا مقصد اگر بدنیتی سے خون خرابہ کرنا ہے تو اس کے انتہائی سنگین نتائج مرتب ہونگے جن پر تمام پاکستانیوں کو تشویش ہے۔ حکومت کو محاصرہ جاری رکھنا چاہئے اور زیادہ سے زیادہ دیر تک اس محاصرے کو جاری رکھ کر طلباء اور انتظامیہ کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ یہی سب سے مناسب حکمت عملی ہے۔
مجھے یہ دیکھ کر شدید حیرت ہورہی ہے کہ مسجد کے اندر نہ صرف یہ کہ اتنی بڑی تعداد میں اسلحہ موجود ہے بلکہ یہ انتہائی جدید اور خودکار اسلحہ ہے جو یقینا کافی مہنگا بھی ہوگا۔ مسجد کی انتظامیہ کے پاس کیا اس تمام اسلحے کے لائسنس موجود ہیں۔ کن رقومات سے یہ اسلحہ خریدا گیا اور اس کی مسجد تک رسائی کس طرح ممکن ہوئی جبکہ مسجد کے اطراف میں اتنے اہم انٹیلی جنس اداروں کے دفاتر ہیں۔
جامعہ حفصہ لال مسجد کے احاطہ میں واقع ہے ۔ صحافیوں اور ایمبولینسز کو بھی ان سے 600 میٹر دور رکھا گیا ہے ۔ جو تصاویر شائع کی گئی ہیں وہ یکطرفہ ہیں اور غالباّ حکومت کی مہیا کردہ ہیں ۔ جامعہ حفصہ اور لال مسجد کی بجلی اور پانی کل سے بند ہے ۔ زخمیوں کو اُٹھانے کی اجازت بھی نہیں دی گئی ۔ دو ایمبولینسز نے زخمی اٹھانے کیلئے جانے کی کوشش کی تو ان پر رینجرز نے فائرنگ کر دی ۔ باقی میری آج کی تحاریر پڑھ لیجئے ۔
اجمل صاحب ، جو کچھ بھی ہوا وہ بہت افسوس ناک ہے۔ درجن بھر سے زیادہ قیمتی جانوں کا ضیاع ، خواہ یہ طالب علموں کی تھیں یا سیکورٹی اہلکاروں کی ، آج کی مہذب دنیا میں ہم سب کے لئیے شرمناک ہے۔ اللہ تعالی مرحومین کی مغفرت فرمائے۔ وہ جو گھر سے دین کا علم حاصل کرنے آئے تھے قانون شکنوں کے مقاصد کے حصول کی بھینٹ چڑھ گئے۔ کسی کے مستقبل کا سہارا چھن جائے یا کسی کے بچے یتیم ہو جائیں۔ یار لوگوں کو اس کی پرواہ ہی کب ہے۔ ان کا نام نہاد جہاد جاری رہنا چاہئیے۔ کچے ذہن کے نوجوانوں اور طالبات کو ڈھال بنا کر غازی صاحب نے ایک نئی مثال قائم کی ہے۔ نہ جانے اس “جہاد“ کے لئیے وہ خود اپنی جان پیش کیوں نہیں کرتے۔ کیا ان کو جنت کی طلب نہیں؟ آخر ان کا جہاد دوسروں کے معصوم بچوں کی قربانی ہی کیوں مانگتا ہے۔
بقول آپ کے کہ ایمبولنسوں کو جامعہ کے احاطے میں داخل نہیں ہونے دیا گیا تو پھر 200 کے قریب زخمی کس طرح سے مختلف ہسپتالوں میں پہنچائے گئے؟ اگر کلاشنکوف بردار طلباء کی تصاویر من گھڑت ہیں تو کیا آپ بتانا پسند کریں گے کہ رینجرز کے سپاہیوں پر کیا جنوں بھوتوں نے فائرنگ کی ؟ صحافیوں کو گولی کس نے ماری؟
غازی صاحب بار بار فرما چکے ہیں کہ خود کش حملے کئے جائیں گے تو کیا ایسے لوگوں کو کھلی چھٹی دی جانی چاہئیے جو پورے ملک اور قوم کو قتل کی دھمکیاں دے رہے ہوں۔
اجمل صاحب ، آپ دین دار آدمی ہیں غور کیجئیے کہ ہمارا دین کہتا ہے کہ جس نے کسی انسان کو جان بوجھ کر قتل ( قتل عمد) کیا اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔
پھر خود کشی کرنے والے کے بارے میں کیا حکم ہے۔ ذرا پھر سے دین کی طرف رجوع کیجئیے۔ کہا گیا کہ وہ کبھی جنت میں داخل نہیں ہو گا۔ اور محترم یہاں یہ حال ہے کہ خود کش حملے اور بے گناہوں کے قتل کو ہی جنت میں داخلے کا پرمٹ قرار دیا جا رہا ہے۔
اللہ ہمیں غازی جیسے مبلغین سے محفوظ رکھے۔
رینجرز پر فائرنگ کرنے کا الزام ہے جس میں کچھ صداقت بھی ھو سکتی ہے۔
بہرحال مجموعی طور پر حالات کی ذمہ داری غازی برادران پر عائد ہوتی ہے اور اس قتل و غارت کے بھی بنیادی ذمہ دار غاذی برادران ہی ہیں جس میںکئی بے گناہ افراد ان کی عجیب و غریب ضد کی بھینٹ چڑھ گئے۔
اجمل صاحب خود فریبی کی بھی حد ہوتی ہے۔ بجلی پانی بند کرنا ایک دانشمندانہ اقدامات ہیں تاکہ بغیر خون خرابہ کے غازی برادران ہتھیار ڈال دیں۔
اطلاعات ہیں کہ ایک غازی پہلے ہی شارٹ ہو چکے ہیں لہذا ان کو مفرور غازی کہا جا سکتا ہے۔
ساجد اور احمد صاحبان
ہر چند کہ عبدالعزیز اور عبدالرشید غازی صاحبان نے ملک کے قانون کو ہاتھ میں لیا مگر یہاں تو مسئلہ یہ ہے کہ حکومت کے مختلف اہلکار مذاکرات کر کے فیصلے کرتے رہے اور عمل اس کے برعکس ہوتا رہا ۔ آپ اگر میری کل اور آج کی سب تحاریر پڑھ لیتے تو شائد بات واضح ہو جاتی ۔ آپ باقی سب کو چھوڑیئے اور یہ بتائیے کہ ان معصوم بچوں کا کیا قصور ہے جو منگل کو وہاں قرآن شریف پڑھنے گئے اور وہاں موجود تھے کہ بغیر کسی اشتعال دلانے جانے کے کاروائی شروع کر دی گئی ۔ اور ان حکومتی اہلکاروں کا کیا اعتبار جنہوں نے اعلان کیا کہ جو اپنے آپ کو فوج کے حوالے کر دے گا اسے کچھ نہیں کہا جائے گا اور اپنے گھر جانے دیا جائے گا پھر جب 170 طلباء اور 500 سے زائد طالبات باہر نکل آئے تو انہیں قید میں ڈال دیا گیا ۔
ایک صحافی ایک تاجر دو تین راہگذر تین طالبات اور ڈیڑھ درجن طلباء رینجرز کی گولیوں سے ہلاک ہوئے ۔ ایک رینجر بھی ہلاک ہوا جو کہا جا سکتا ہے کہ لال مسجد والوں کی گولی سے مرا ۔ سب سے پہلی ہلاکت ایک پندرہ سالہ طالبہ کی تھی جو جامعہ حفصہ کے اندر تھی ۔
اجمل صاحب ، آپ کی تحریر کا پہلا فقرہ ہی آپ کے اٹھائے گئے سوالات کا جواب ہے۔ جب آپ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ غازی صاحبان نے قانون ہاتھ میں لیا تو پھر فساد کی جڑ تو انہوں نے خود ہی شروع کر دی ۔ کسی دوسرے پر الزام رکھنے سے کیا حاصل؟ حکومتی نمائندے جتنا عرصہ بھی مذاکرات کرتے رہے میڈیا اس بات کا گواہ ہے کہ وہ نمائندے ان نام کے غازیوں کو ان کے قانون شکنی کے حربوں سے باز رکھنے کی کوشش ہی کرتے رہے۔ اور جواب میں ہر روز ایک نیا مطالبہ اور دھمکی ہی اس کا حاصل ملا۔ اللہ کا شکر ہے کہ آپ نے بھی ان معصوموں کے خون کا ذکر کیا کہ جو ان کی انا پرستی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ ورنہ آپ تو اپنے بلاگ پر حکومت کو کوسنے اور لال مسجد انتظامیہ کو حق بجانب ثابت کرنے میں اس قدر مشغول رہے کہ ان بے قصوروں کی جانیں جانے پر افسوس کے دو الفاظ بھی نہ لکھ سکے۔
محترم کوئی بھی تعلیمی ادارہ اپنے طلباء کو نظم و ضبط اور قانون کی پابندی کا ہی درس دیتا ہے لیکن جب یہاں تعلیم و تدریس سے ماوراء سرگرمیوں کو اختیار کیا گیا۔ قانون شکنی پر اکسایا گیا اور اس کا عملی مظاہرہ بھی کروایا گیا اور ایک تعلیمی ادارے کو بارود خانہ بنایا گیا تو نتیجہ یہی ہونا تھا جو ہوا۔ کیا غازی صاحبان اس نتیجے کے وقوع پذیر ہونے سے ناواقف تھے؟ لوگوں کے جگر گوشوں کی سلامتی کے لئیے کیا ان پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی تھی؟ جب حکومتی اہلکار مسجد کے ارد گرد رکاوٹیں کھڑی کر رہے تھے تو ان حضرات نے مذاکرات کی بجائے ٹکراؤ کا راستہ کیوں اختیار کیا؟ اس قتل و غارت کی ذمہ داری صرف اور صرف غازی صاحبان پر ہی جاتی ہے کہ جن کو سات مہینے سے سمجھایا جا رہا تھا اور وہ ہر روز ایک نئی دھمکی داغ دیتے تھے۔ آخر ان بچیوں کو لاٹھیاں تھما کر رینجرز کے سامنے کس مقصد کے لئیے بھیجا گیا تھا؟ مرد کیا ناپید ہو گئے تھے؟ آپ کا یہ کہنا کہ کسی اشتعال کے بغیر کارروائی کی گئی مناسب نہیں ہے۔ رینجرز کوئی غیر ملکی فوج نہیں تھی کہ اس کے محاصرہ کرنے کے جواب میں لاٹھیاں اٹھائی جاتیں اور کلاشنکوف برداروں کو چھتوں پر پوزیشنیں سنبھال دی جاتیں۔ مولانا صاحب بنفس نفیس رینجرز سے بات کرنے کی کوشش کرتے یا خود کو قانون کے حوالے کر دیتے تو کون سی قیامت برپا ہو جاتی؟ کم از کم اتنی معصوم جانیں تو نہ جاتیں۔
محترم ، مدرسے سے باہر آنے والوں کو اگر آرمی نے اپنی تحویل میں رکھا ہوا ہے تو یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے کہ اس پر طوفان کھڑا کر دیا جائے۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں ایسے حالات سے نپٹنے کے لئے یہ طریقہ ہی اختیار کیا جاتا ہے کہ مبادا کوئی خطرناک مجرم اس آڑھ میں فرار نہ ہو جائے۔ شاید میری یہ تحریر چھپنے تک یہ لوگ معمول کی تفتیش کے بعد اپنے گھروں میں بھی پہنچ چکے ہوں گے۔اور آپ نے خبروں میں دیکھ ہی لیا ہو گا کہ غازی عبدالعزیز صاحب اپنے جاں نثاروں کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ کر برقعہ اوڑھ کر فرار ہوتے ہوئے دھر لئیے گئے ہیں۔ واہ کیا انداز ہے بڑھکیں مارنے کا اور کیا انداز ہے فرار ہونے کا۔ ہم تو پہلے ہی سے کہتے تھے کہ جامعہ حفصہ والون کو چھ ساڑھے چھ فٹ قد کاٹھ والی اتنی ساری خواتین کہاں سے دستیاب ہوئیں جب کہ پاکستانی عورتوں کا اوسط قد پانچ سے ساڑھے پانچ فٹ ہے۔
ایک معہد علمی اور قرآن پاک کی تعلیم کے ادارے کے تقدس کا خیال رکھنا ہم سب پر فرض ہے لیکن جب اس ادارے کے منتظمین نے اپنے غیر ذمہ دارانہ روئیے کی وجہ سے ایسے خطرناک حالات پیدا کر دئیے کہ قانون نافذ کرنے والوں کو ایسے انتہائی اقدامات اٹھانے پڑے تو میری دعا ہے کہ یہ معاملہ مزید خون خرابے کے بغیر حل ہو جائے اور پاکستان کی بدنامی کا سبب نہ بنے۔
بھائی ان سے ایسی باتوں کی ہی امید رکھو وہ جس پارٹی کے جانثار اور نمک خوار ہیں وہی ان برادران کے پیچھے تھی،تو اپنے لوگون کا فیور بھی نہ کریں بے چارے،خود کا تو یہ حال ہے کہ سوائے اپنی تعریفوں کے کوئی دوسرا تبصرہ اپنے بلاگ پر چھاپنے ہی نہیں دیتے،
افسوس ہوتا ہے ایسے دین کے ٹھیکیداروں پر ان لوگوں کے ایسے اعمال نے ہی تو نئی نسل کو دین سے بر گشتہ کر دیا ہے،
بغیر کسی سولڈ انفارمیشن کے سنی سنائی کو آگے پھیلا دینا اس بات کا خیال رکھتے ہوئے کہ جنہیں ناپسند کرتے ہیں ان کی تعاریف غلطی سے بھی نہ ہونے پائے،
ان سے کوئی یہ پوچھے کہ اور اشتعال دلایا جانا کسے کہتے ہیں،ماحولیات کے دفتر میں توڑ پھوڑ کرنااور وہاں کھڑی گاڑیوں کو نظر آتش کردینا،رینجرز سے بندوقیں چھین لینا اور ایک اہل کار کو گولی ماردینا،
اس حکومت نے جتنے صبر اور تحمل سے کام لیا ہے اگر ان کے چہیتے لیڈران نے اس کے آدھے کا بھی مظاہرہ کیا ہوتا تو آج بہت سی ماؤں کی گود اس طرح نہ اجڑتی مگر تعصب سے پر لوگوں کو اپنی ناک کے آگے کچھ نظر نہیں آتا بہتان لگاتے ہیں مگر ثبوت دیتے زبانیں بند ہوجاتی ہیں،بس اب اللہ ہی ہدایت دے ایسے لوگوں کو،
جب کہ حکومت پہلے ہی اس بات کا عندیہ دے چکی تھی کہ آپریشن ہوگا تب ہی بہت سے والدین نے اپنے بچوں کو مدرسے سے گھر بلوالیا۔ قرآئن صاف ظاہر کررہے تھے کہ لال مسجد کے زیر انتظام چلنے والے مدارس کے طلباء کبھی بھی کسی پرتشدد کاروائی کا نشانہ بن سکتے تھے۔ یہ کہنا کہ وہاں موجود لوگوں اور طالبعلموں کے لئے یہ آپریشن اچانک تھا بالکل غلط ہے۔
تصاویر حکومت کی فراہم کردہ نہیں بلکہ یہ تصاویر اس وقت بی بی سی، جنگ، دی نیوز اور روزنامہ ڈان کے نمائندوں نے کھینچی جب طالبان رینجرز کی شیلنگ کے جواب میں اسٹریٹ فائر کررہے تھے اور ان تصاویر کے بعد انہوں نے سرکاری دفاتر کو آگ بھی لگائی۔ اگر بارہ مئی کو میڈیا کی فراہم کردہ لائیو کوریج مستند تھی تو یہ کوریج بھی منگل کے روز کی گئی ہے اور مستند مانی جانی چاہئے۔ اجمل صاحب یہ بات تسلیم کی جاسکتی ہے کہ مدرسے میں موجود زیادہ تر طلباء متشدد اور مسلح نہیں تھے۔ لیکن یہ نہیں تسلیم کیا جاسکتا کہ مسجد میں موجود کسی طالبان کے پاس جدید ترین خودکار اسلحہ موجود نہیں تھا یا انہوں نے پرتشدد اشتعال انگیز کاروائیوں میں حصہ نہیں لیا۔
مسجد میں موجود طلباء اور انتظامیہ کی پہلے سے نگرانی جاری تھی۔ اور جو طالبان یا اساتذہ یا انتظامیہ انٹیلیجنس کو سنگین مقدمات میں مطلوب ہونگے انہیں بالکل رہائی نہیں دی جائیگی۔ مسجد اور مدرسے میں کچھ ایسے عناصر بھی پناہ گزین تھے جو افغانستان، امریکہ اور پاکستانی حکومتوں کو دہشت گردی میں مطلوب تھے۔ مسجد میں دھماکہ خیز مواد اور خودکش بمباروں کی موجودگی کا اعتراف غازی برادران برسرعام کرچکے تھے۔
مسجد کے طلباء کی حفاظت کے لئے پورا ملک دعاگو ہے۔ طلباء کو چھوڑ دینا انتہائی مستحسن ہوگا ماسوائے ان کے کہ جن کی برین واشنگ خودکشی کی حد تک ہوچکی ہے۔ اور جو دہشت گردی، اغواء، اور وفاق پاکستان کے خلاف سازشوں میں مطلوب ہیں۔
طلباء کو گرفتار کرنا ذیادتی ہے چاہے کسی حد تک بھی ان کی برین واشنگ کی گئی ہو۔ برین واشڈ ھوجانا جرم نہیں اور دیگر علماء ان کو صحیح راستہ دکھا سکتے ہیں، اگر حکومت نے اس مدرسے کو سرے سے ختم کردیا تو ہزاروں لوگ بے آسرا ہو جائیں گے۔ اس مدرسے کو وفاق المدارس کے کنٹرول میں دے دینا چاہئے تاکہ یہ تعلیمی درسگاہ بن جائے ۔
یہ آج کی جماعت جسے اسلامی کہنا ہی اسلام کی توہین ہے،مودودی صاحب کے انتقال کے فوری بعد ہی منافقین اور اسٹیبلشمینٹ کے کنٹرول میں آگئی تھی( تعلقات تو خیر ان کے دور میں بھی برے نہیں تھے الشمس اور البدر تو ہمیں یاد ہی ہوں گی)،اور اس کی منافقت کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اس نے کوٹہ جیسے غیر اسلامی اور غیر انسانی قانون کو جاری رکھنے کی حمایت کی اور اپنے ہی ووٹروں کی پیٹھ میں خنجر گھونپا،اور ضیاء کے دور میں حکومت کے مزے اٹھائے لوگوں کو آپس میں لڑواکر بہتے ہوئے خون پر بغلیں بجائیں،ایجینسیوں کے زور پر جس کو چاہا دہشت گرد اور غدار بنایا،اور مشرف کو باوردی صدر بھی اسی لیئے منتخب کروایاکہ دوبارہ ضیاء کے دور کے مزے لوٹ سکیں،مگر مشرف ان کے کالے کرتوتوں سے واقف تھا اس نے ان کے ساتھ وہی کیا جو انہوں نے اردو بولنے والوں کے ساتھ کیا تھا کہ کام نکلتے ہی ہری جھنڈی دکھادی،اور اب یہ اور اسٹیبلشمنٹ میں موجود ان کے ساتھی جسٹس کی اور 12 مئی کی کہانی فلاپ ہونے کے بعد لال مسجد اور جامعہ حفصہ کی آڑ میں اپنا شیطانی کھیل کھیل رہے تھے،حکومت نے آپریشن شروع کرتے ہی لاہور کے ایم ایم اے کے رکن اسمبلی میاں محمد اسلم کو اسی لیئے پکڑا کہ یہی لوگ اس سارے معاملے کو اگنیٹ کر رہے تھے،حالانکہ مولانا فضل الرحمان کے ساتھ جونک کی طرح چمٹے حکومت کے مزے اٹھا رہے ہیں مگر ہوس کی کوئی حد نہیں ہوتی اور پھر اپنے آقاؤں کا بھی تو بھلا سوچنا تھا نہ جو مشرف کے ہوتے ممکن نہیں،اے پاکستان کے معصوم لوگوں یہ تمھیں دین کے نام پر زہر ہلاہل پلاتے رہے ہیں اب تو آنکھیں کھولو،معصوم اور بھولے بھالے چہرے دیکھ کر دل خون کے آنسو رو رہا ہے،کیا قصور تھا ان معصوموں کا دین سے محبت جسے مفاد پرست لوگوں نے اپنے مفاد کے لیئے کیش کیا،اس ملک کے نظام تعلیم کو پہلی فرصت میں درست ہونا چاہیئے کہ جہاں ایک دوسرے سے محبت کی،انسانیت کی یعنی اصل دین کی اور جدید دنیا کی تعلیم سب کے لیئے ہو اور عام ہو،
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بے گانے بھی ناخوش
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہ نہ سکا قند
احمد جماعت اسلامی کا لال مسجد سے کیا تعلق ہے؟
نعمان میں احمد نہیں عبداللہ ہوں،جماعت اسلامی کا لال مسجد سے کیا تعلق ھاے یہ بھی انشاءاللہ آپکو جلد ہی پتہ چل جائے گا فلحال تو ان کا ایک ایم این اے ہی گرفتار ہوا ھے اور اس کے علاوہ وہ جس طرح ان کی ہمدردی میں زمین و آسمان ایک کررہے ہیں وہ بھی سب دیکھ رہے ہیں،
ان جماعت کے لوگوں کا ایک کارنامہ تو میں بتانا ہی بھول گیا حقیقی کے بدمعاشوں اور قاتلوں کی سرپرستی اور ایجینسیوں کے زریعے انہیں کراچی کے لوگوں پر زبردستی مسلط کرناجس میں حکومت وقت برابر سے شریک رہی تھی، آپ لوگ کیا سمجھتے ہیں کہ کراچی والے بے عقل ہیں کے قاتلوں کو اپنا نمائندہ منتخب کرتے،کراچی کے لوگوں نے ہمیشہ حق اور سچ کو پہچانا ہے اور اس کا ساتھ دیا ہے،
عبداللہ نام غلط لکھنے پر معاف کیجئے گا۔
کراچی کے لوگ ایم کیو ایم کو نہ پہچان سکے۔ بارہ مئی کو جو ہوا اور ایم کیو ایم جماعت اسلامی چپقلش اس پوسٹ کا موضوع نہیں۔ آپ گفتگو کہیں اور لے جارہے ہیں۔
نعمان اس پوسٹ کا موضوع مزہبی عناصر کا معصوم زہنوں کو اپنے زاتی مفادات کے لیئے استعمال کرنا ہے تو جو مینے لکھا ہے وہ بھی تو اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے،
جو کچھ بھی ہوا بہت غلط ہوا ہے، اسی لئے جرم ہوتے ہی اُس کی بیخ کنی کر دینی چاہیے، اگر لائبریری کے واقع کے بعد ہی قانون نافذ کرنے والے ادارے درست اقدامات کرتے تو آج موجودہ صورتحال سے بچا جا سکتا تھا۔ حکومت نے پہلے خود ہی ملزمان کی ایک قسم کی پشت پناہی کی اور ان کو یقین دلایا کہ حکومت ان کے خلاف کچھ نہیں کرے گئ، اور جب پانی سر سے گذر گیا تو انتہائی اقدام اٹھا لیا گیا، بہرحال ایسا کرنا بھی نا گزیر تھا۔ اللہ کرے جلد ہی یہ صورتحال ختم ہو جائے ۔
عبداللہ : جرمنی میں ہٹلر اور امریکہ میں کُو کلکس کلین (Ku Klux Klan) کو بھی اکثریت حاصل تھی اور اُن کی اکثریت ایم کیو ایم کی موجودہ اکثریت سے کہیں زیادہ اور موثر تھی۔ جرم چاہے کوئی بھی کرے ہمیں جماعتی وابستگیاں بالائے طاق رکھ کر اس کی مزمت کرنی چاہیے ہے ۔
اور ہاں ذاتی طور پر مجھے ایم کیو ایم KKK کا ہی ورژن لگتی ہے، کیونکہ وہ خود کبھی اقتدار کے لئے الطاف حسین کی طرح الیکشن میں کھڑے نہیں ہوئے بلکہ ان کے حمایت یافتہ امیدوار الیکشن لڑتے تھے جو کہ کسی سیاسی جماعت کے ممبر ہوتے تھے۔
جہانزیب میں آپ کی بات سے متفق ہوں کہ اگر جرم ہوتے ہی ذمے داران کے خلاف قانونی کاروائی کی جاتی تو بات اتنی آگے نہ بڑھتی۔ لیکن اگر ہمارے ملک میں جرم ہوتے ہی مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لاکھڑا کرنے کی کوششیں کرنے کی روایت ہوتی تو شاید غازی برادران کی اتنی جرات ہی نہ ہوتی۔ اور نہ ہی ایم کیو ایم کھلے عام مسلح کاروائیاں کرنے کو آزاد گھوم رہی ہوتی۔
[…] نے فرمایا: ہم اُن رشتے داروں کے غم میں برابر شریک ہیں جن لال مسجد کے طلبہ کو بروقت برقعے نہ ملنے کی وجہ سے اپنی ہی فوج کے ہاتھوں […]
[…] के दुःख मे बराबर शामिल हैं जिन लाल मस्जिद के विद्यार्थीओं को सही टाइम पे बुर्ख़े ना मिलने की वजह […]