قومی افتخار

میری والدہ کے ماموں اور ان کی ایک بیٹی ہندوستان سے آئے ہوئے ہیں۔ آج شام وہ ہمارے گھر ملنے کے لئے آئے۔ میری والدہ نے فورا مجھے بازار دوڑایا اور میں سموسے، نمک پارے اور گلاب جامن لے کر آیا۔ چائے پیش کی گئی، ٹی وی کھولا گیا۔ مہمان اور میزبان گفتگو میں محو تھے اور ٹی وی پر کسی کی نظر نہیں تھی۔ گفتگو میں ایک تعطل آیا اور میری والدہ کے ماموں اور ان کی بیٹی کی نگاہ ٹی وی پر پڑی جہاں فوجی جوان ایک مسجد کو چار دن سے گھیرے بیٹھے ہیں۔ مسجد کے اندر ایک جعلی ملا نے چھوٹے بچوں اور بچیوں کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اس مطالبے کے جواب میں کہ وہ گرفتاری پیش کرے، جعلی ملا کہتا ہے کہ وہ اس شرط پر ہتھیار ڈالے گا کہ مقدمات ختم کرے جائیں اور اسے گرفتار نہ کیا جائے۔ ماموں اور ان کی بیٹی بتاتے ہیں کہ یہ تو بالکل ہندی فلموں جیسا سین لگ رہا ہے جیسے ہندی فلموں میں کشمیری مجاہد ہندوستانی شہریوں کو یرغمال بنالیتے ہیں اور پھر بہادر ہندوستانی سپاہی انہیں چھڑاتے ہیں اور آتنک وادیوں کو گرفتار کرتے ہیں۔

ماموں بتاتے ہیں کہ پاکستان میں تو بے حد مہنگائی ہے ہندوستانی سو روپے کے بدلے پاکستانی ایک سو پچاس روپے ملتے ہیں۔ نئی دہلی میں میٹرو ریل چلتی ہے۔ ہندوستان میں بڑی ترقی ہوئی ہے۔ ہندوستانی فلمیں، ہندوستانی گانے، ہندوستانی شہر، مذاہب، ہندوستانی غربت، ہندوستانی بلیانائرز، وغیرہ وغیرہ۔

ہم پاکستانیوں کے پاس فخر کرنے کے لئے اتنی کم چیزیں ہیں کہ مجھے تو کچھ یاد ہی نہیں آرہا۔ میری والدہ کے ہندوستانی ماموں اور ان کی ہندوستانی بیٹی ہمارے گھر ایک دو روز رکیں گے۔ مجھے جلدی جلدی بتائیں کہ کن کن چیزوں میں ہم بھارت سے آگے ہیں اور کون سی ایسی چیزیں ہیں جن کا ذکر ہم اپنے ہندوستانی مہمانوں کے سامنے فخر سے کریں۔ یہ ذکر اس لئے ضروری ہے کہ ہندوستانی مسلمان اور پاکستانی مہاجر۔ کس کا فیصلہ بہتر تھا؟ جو بھارت میں رک گئے ان کا یا جو سب کچھ لٹا کر پاکستان آگئے ان کا۔ ہمارے اجداء کا فیصلہ اگر بہتر تھا تو آج ہم کس بات پر فخر سے اترا سکتے ہیں؟ جلدی سے بتائیں کہیں وہ ہندوستانی یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ ہم بالکل ہی قومی تفاخر سے عاری ہیں۔

مزید:
اسی موضوع پر شعیب صفدر کی پوسٹ ملاحظہ فرمائیں۔

تبصرے:

  1. سلام
    ہندوستان ہم سے کئی لحاظ سے آگے ہے اس کی بڑی وجہ ایک ارب کی آبادی ہے۔ اتنی بڑی مارکیٹ دیکھ کر ملٹی نیشنل کمپنیوں‌کی رال ٹپک پڑی۔ نتیجہ صاف ظاہر ہے۔ سیاست دان ہر دو جگہ بدقماش ہیں۔ اصل حکومت ملٹی نیشنل کمپنیوں کی ہے۔ اگر صدر مشرف کے دور اقتدار سے پہلے دیکھا جائے تو پاکستان اگر ترقی کی راہ پر دوڑ نہیں رہا تھا تو کم از کم رینگ رہا تھا۔ صدر مشرف کے دور میں ہر چیز کو بیک گئر لگا ہوا ہے۔
    میں ہندوستان کی ترقی سے کافی متاثر تھا لیکن پھر نیشنل جیوگرافک چینل ایک سال دیکھا اور میرا خیال ہے کہ بلاشبہ ہم بہتر ہیں جو پاکستان کی سرحد میں‌ہیں۔
    اگر میں گجرات اتر پردیش بہار کو نظر انداز کر دوں ٹرین کو بھی چھوڑ دوں تب بھی ہندوستان کے اپنے اندر اس حد کی غربت ہے جس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔جیو اور انڈینز چینل گلیمر پر چل رہے ہیں۔ حقیقت وہاں بھی بڑی بری ہے۔
    ہندوستان سے ہر سال سکھ آتے ہیں۔ ان کے اخباری بیانات سے ہٹ کر بات چیت کا موقع ملے تو ان کے پاس بھی بھارت کی غربت کے قصے ہیں۔ مسئلہ یہ ہےکہ مذہب پر ہم سب پی ایچ ڈی ہیں جبکہ دوسرے مذاہب کے لوگ اپنے مذہب پر خود کمنٹس کرنے سے بعض رہتے ہیں اور اپنے اپنے عقیدے کے مطابق زندگی گزارتے ہیں۔ ہم ایک دوسرے کو مسلمان کرنے چلتے ہیں اور اسی کا رونا روتے ہیں کہ دوسرے مسلمانوں کو مسلمان کر رہے ہیں۔
    پاکستانیوں کا روئیہ عام طور پر باہر سے کسی بھی آنے والے کے سامنے جھکا جھکا اور تھلے لگنے والا ہوتا ہے۔ بہت سے لوگ کسی نہ کسی احساس کمتری میں مبتلا ہوتے ہیں۔ نتیجتا خودداری سے محرومی کے باعث ان چیزوں کو زیادہ برا سمجھتے ہیں جو کہ دراصل اتنی بری ہوتی نہیں۔اگر آپ ماموں جان کے ہاں جاتے تو تقابل آپ کرتے وہ آئے ہیں تو وہ کریں گیں۔ اس میں اتنی شرمندگی کی کیا بات؟ آپ انڈیا جائیں تب آپ اصل صورتحال کا تجزئیہ کر سکیں گیں۔
    آپ نے کبھی ایک لمحہ کو بھی سوچنے کی زحمت کی کہ ملا کی اتنی جرات ہوئی کیسے؟ اور وہ کیوں کر ایسا کر بیٹھا؟ یقینا دیکھائے جانے سے کہیں بڑھ کر بڑا کھیل کھیلا گیا ہے جسمیں اگر ملا معصوم نہیں تو حکومت بھی صحیح نہیں ہے۔
    ‌میں چاہونگا کہ ہم احساس کمتری سے نکلیں بجائے دیکھنے کہ کہ کیا اچھا ہوا یا برا فیصلہ صحیح تھا یا غلط ماضی بدلا نہیں جا سکتا۔ اگر ہم بھی اختلافات کو دبائیں بجائے یہ کہ ان کو ابھاریں تو کافی اچھا کام کر سکتے ہیں۔ حال کو بدلنے کی کوشش کریں۔ بجائے یہ کہ ماضی پر کڑھیں۔

    نوٹ: تبصرے میں معمولی تدوین کی گئی ہے۔ نعمان

  2. نعمان۔

    ویسے تو میرا نام اور میرے تبصروں سے آپ کو نفرت تو ہے ہی لیکن پھر بھی ملائ باز نہیں آتے۔

    میں ہندوستانیوں سے ملا ہوں۔ ان کے حالات جانتا ہوں۔ بدتمیز نے سہی لکھا ہے ہم احساس کمتری کا شکار ہیں اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے ہم سہی ہیں۔

    ہمارے پاس فخر کے اسباب۔

    اپنے بھائیوں کو مارنا، ان کے ساتھ صرف داڑہی رکھنے کی وجہ سے امتیازی سلوک کرنا

    کسی بھی آدمی کو طالبان سے ملا دینا۔

    ہر مذہب پسند کو دہشت گرد کہنا۔

    اپنی عورتوں کو ٹی وی پر فیشن کے نام پر ذلیل کرنا۔

    اپنی شہرت کے لیے اپنے مذہب اور اپنے ملک پر کیچڑ اچھالنا۔

    دو

    امریکہ کی فرمانبرداری۔

    بھارت کی پیروی

    اور بہت سی ہیں جو دنیا کی کسی قوم میں نہیں لیکن پاکستانی ان رویوں میں خود کفیل ہیں۔

  3. ہم صرف آپ کی اس بات پر تبصرہ کریں گے کہ کس کا فیصلہ صیحح تھا۔ ہماری ملاقات بہت سارے ہندوستانی پڑھے لکھے مسلمانوں سے ہوچکی ہے اور وہ اکثر ان کی غربت اور ان کے بنیادی حقوق سے محرومی کا ذکر کرتے ہیں۔ ان کے مطابق مسلمانوں کو ترقی کے مواقع بہت کم میسر ہیں۔ اس وقت ہندوستانی مسلمان اس طرح کے چھوٹے چھوٹے کاموں کیلیے رہ گئے ہیں جو پاکستان میں ہم دوسری اقلیتوں سے کرواتے ہیں۔ آُپ کہ سکتے ہٰیں کہ مسلمانوں‌کی اپنی سستی کا شاخسانہ ہے پھر بھی ہم پاکستانیوں کے پاس ہندوستانی مسلمانوں کے مقابلے میں آزادی زیادہ ہے۔

  4. الحمداللہ میرے آباء کا فیصلہ درست تھا۔ مجھے اس ملک نے ترقی کے مواقع دئے جو مذہبی تعصب کی وجہ سے ہندستان میں ملنا مشکل تھے۔ مجموعی طور پر ھندستانی مسلمانوں سے پاکستان ہجرت کر آنے والے بہتر حالات میں ہیں۔ پے در پے غلطیوں سے ملک کافی پیچھے رہ گیا ہے لیکن یقین ہے کہ صحیح سمت بڑہیں گے ایک دن۔ مگر ھندستانی مسلمانوں کو ترقی کی راہ میں مسلسل ہندو مزاحمت کا سامنا رہے گا جو ہمیں نہیں ہے۔

  5. میرا سوال ہنوز جواب طلب ہے۔ قومی افتخار کے لئے کیا پیش کیا جائے؟

    شام کو دکان پر تھا تو ایک صاحب نے کچھ باتیں کہیں۔ کہنے لگے کہ آٹھ اکتوبر کے زلزلے کے بعد والے دن یاد کرو کیا یہ فخر کا باعث نہیں کہ کس طرح اپنے ہم وطنوں کے لئے پاکستانیوں نے امداد دی اور کس طرح عام لوگ کراچی سے سفر کرکے انتہائی دشوار گزار علاقوں میں پہنچے ان میں ڈاکٹر، انجینئر اور نرسیں بھی تھیں جو بغیر کسی مالی لالچ کے اپنا گھر بار چھوڑ نکل پڑے۔ کیا بھارت میں ایسا ہوتا ہے؟ اور مجھے واقعی نہیں معلوم کہ بھارت میں ایسا ہوتا ہے کہ نہیں۔

    بھارت کی غربت کا ذکر کرنا پاکستان کے لئے افتخار کا باعث کیسے ہوسکتا ہے؟ جب خود پاکستان کی زیادہ تر آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرتی ہو؟ ستر فیصد لوگوں کو صاف پانی دستیاب نہ ہو۔ ملکی آبادی کا دس فیصد اگر کراچی شہر میں رہتا ہے تو اس کا مطلب ہے دس فیصد لوگوں کو بجلی بھی دستیاب نہیں۔ ہوسکتا ہے پاکستان کی زیادہ تر عوام کا معیار زندگی بھارتی عوام سے بہتر ہو۔ مگر یہ معیار زندگی کوئی قابل فخر بھی نہیں۔

    بدتمیز یقینا شرمندگی کی بات نہیں۔ مگر معلوم نہیں آپ کے ہاں بھارت سے رشتے دار آتے ہیں یا نہیں۔ لیکن خیر ہمارے رشتے دار جب بھارت سے آتے ہیں یا ہم وہاں جاتے ہیں تو لڑکے لڑکیوں میں یہ ایک مزے دار بحث چھڑ جاتی ہے کہ کونسا ملک بہتر ہے۔ یہ روایتی سی دشمنی ہے (اسے دشمنی کہنا ویسے صحیح بھی نہیں)۔ یوں سمجھ لیں جیسے ایک طرح کی تفریح ہے۔ لیکن ہماری یہ مہمان بہت ہی تیز طرار ہیں، چونکہ اردو بھی لکھ پڑھ لیتی ہیں اسلئے ان سے مقابلے بازی ذرا دشوار ہے۔ اور اس بحث میں دلائل کی اتنی کمی مجھے پہلے کبھی محسوس نہیں ہوئی۔

    اوہ ویسے پتہ نہیں آپ لوگوں کو یہ بات معلوم ہے کہ نہیں، مگر زیادہ تر بھارتی شہری ہمارے جنرل صاحب پرویز مشرف کے بڑے مداح ہیں۔ ان کی صاف گوئی اور خوش لباسی کے قائل ہیں۔ان کے خیال میں جنرل صاحب اور بے نظیر بہت اچھے لیڈر ہیں اور الطاف حسین، نواز شریف، لوٹا لیگ وغیرہ کے لیڈران بہت برے ہیں۔ پاکستانی موسیقی ہندوستان میں بہت پسند کی جاتی ہے اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ پاکستانیوں کو موسیقی کی سمجھ اور شاعری کا ذوق ہندوستانیوں سے زیادہ ہے۔

  6. آپ مقابلہ بازی میں نہ پڑیں تو بہتر ہے کیونکہ بھارت کے سیاستدانوں نے قومی اہمیت اور حمیت بیدار کی ہے جبکہ ہمارے ملک میں عوام کی اکثریت قومی معاملات سے یا تو کوئی سروکار نہیں رکھتی یا تعصبانہ رویّہ اختیار کرتی ہے ۔ اسی تحریر میں آپ نے عبدالرشید کو جعلی مولوی کہا ہے اور اس پر بچوں کو یرغمال بنانے کا الزام بھی لگایا ہے جبکہ نہ تو آپ عبدالرشید کو جانتے ہیں اور نہ آپ کے علم میں ہے کہ اسلام آباد میں آپریشن سائیلنس کے نام سے کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے ۔ نہ ابھی تک معلوم ہو سکا ہے کہ عبدالرشید کے بڑے بھائی عبدالعزیز کو کس بڑے نے طلباء و طالبات کو بچانے کے نام پر بیوقوف بنا کر رسوا کیا ۔
    جن فلموں کی آپ کے بھارتی عزیزوں نے بات کی وہ مسلمانوں کے خلاف معاندانہ پروپیگنڈہ ہے پھر کیسی بڑائی وہ کر رہے ہیں بھارت کی ؟

  7. فی الحال مقابلہ بازی میں ہار ہی مقدر ہے۔ اس بات کو تسلیم کر لینا چاہئے کہ بھارت نے اکثر شعبوں میں ہم کو مات دے دی ہے۔ لیکن اس بات کا یہ مطلب نہیں کہ مسلمانوں کا بھارت میں رک جانے کا فیصلہ صحیح تھا۔کیونکہ یہاں اپنی غلطیاں‌ ہیں اور کوئی رکاوٹ نہیں لیکن وھاں مسلسل رہنے والی ھندوانہ ذہنیت کی رکاوٹ ہے۔

  8. اجمل صاحب کہ تبصرے سے معلوم ہوتا ہے کہ نہ ماننے والے کبھی نہیں‌مانیں‌گے۔ اس سب ڈرامے میں جو قتل ہوئے ہیں ان کی ذمہ داری غازی برادران پر نہیں تو کس پر ہے؟ سارے علماء‌ اپنے آپ کو اس معاملے سے علیحدہ کر چکے تو آپ لوگ کس بنیاد پر اسکی حمائت کر رہے ہیں۔ اسکا آخری مطالبہ دیکھ کر ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ کتنا کردار تھا برائی ختم کرنے اور کتنا کردار تھا خود کو گرفتاری سے بچانے کا۔

  9. اجمل پاکستانی سیاستدانوں نے بھی قومی غیرت اور حمیت بیدار کی ہے۔ مجھے پاکستانی اور ہندوستانی سیاستدانوں میں کوئی خاص فرق نظر نہیں آتا۔ عبدالرشید، کے جعلی ملا ہونے کی رپورٹ ملاحظہ فرمائیں۔

    قانون اپنے ہاتھ میں لینے والوں، پاکستان کی عوام کو دھمکانے، ڈرانے اور اغوا کرنے والوں اور خودکش حملوں کے لئے معصوم طالبعلموں کو تیار کرنے والے یقینا پاکستانیوں کے لئے شرم کا باعث ہیں۔ اوپر سے ڈھٹائی کی انتہا دیکھیں کہتے ہیں ہمیں گرفتار نہ کرو۔ احمد تم نے درست کہا لال مسجد کے محاصرے میں مرنے والے تمام طالبعلموں، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار اور صحافی کے قتل کی ذمے داری غازی برادران پر عائد ہوتی ہے۔

    عزیزہ کا کہنا یہ نہیں کہ وہ فلمیں پاکستان دشمنی پر مبنی نہیں۔ بلکہ وہ اس بات پر حیران ہیں کہ جو مناظر ان فلموں میں دکھائے جاتے رہے ہیں وہ پاکستان میں براہ راست نشر ہورہے ہیں۔

    مقابلے بازی صحت مند رجحان ہے۔ اور مجھے یقین ہے کہ ہم بھارت سے مسابقت رکھ سکتے ہیں۔ یہاں تو بات صرف قومی افتخار کی ہے۔ کیا آپ لوگ کوئی ایک بھی ایسی بات نہیں بتاسکتے جو آپ کے خیال میں فخر کا باعث ہے؟

  10. نعمان کیا آپ بتانا پسند کریں گے کہ آپ کے ہندوستانی مہمان اپنے ملک کی کن باتوں پر فخر کرتے ہیں اور وہ باتیں کونسی ہیں جو پاکستان میں‌نہیں ہیں۔
    “ماموں بتاتے ہیں کہ پاکستان میں تو بے حد مہنگائی ہے ہندوستانی سو روپے کے بدلے پاکستانی ایک سو پچاس روپے ملتے ہیں۔ نئی دہلی میں میٹرو ریل چلتی ہے۔ ہندوستان میں بڑی ترقی ہوئی ہے۔ ہندوستانی فلمیں، ہندوستانی گانے، ہندوستانی شہر، مذاہب، ہندوستانی غربت، ہندوستانی بلیانائرز، وغیرہ وغیرہ۔“
    یہ جو آپ کے عزیزوں نے کہا ہے قومی افتخار کے زمرے میں‌نہیں‌آتا۔

  11. انہیں ٹیکنالوجی کے میدان میں ہندوستان کی برتری پر فخر ہے۔

    انہیں ہندوستان کی جمہوریت پر فخر ہے۔

    صنعت و حرفت میں ہندوستان کی ترقی تو ہر دم ان کے لبوں پر رہتی ہے۔

    اور ابھی کل ہی ہندوستانی آرکیٹیکچرل ہیریٹیج کی بات بھی ہوئی ہے کہ ہندوستان میں مغل، اسلامی، برطانوی، قدیم ہندوستانی طرز تعمیر کے نمونے کس کثرت سے پھیلے ہوئے ہیں۔ اور پاکستان میں کس طرح ہندوازم کی علامتیں آرکیٹیکچر ہیریٹیج سے مٹائی گئی ہیں۔

  12. نعمان بہت خوب آپ نے بہت خوبصورتی سے قارئین کو اپنے گریبان مین جھانکنے پر مجبور کردیا۔ میرے لیے میرا پاکستان کا تبصرہ بہت کچھ سوچنے پر مائل کرتا ہے “ اس وقت ہندوستانی مسلمان اس طرح کے چھوٹے چھوٹے کاموں کیلیے رہ گئے ہیں جو پاکستان میں ہم دوسری اقلیتوں سے کرواتے ہیں۔ “ یہ پاکستان میں اقلیتوں سے جاری سلوک کا اعتراف ہے۔ اگر اقلیتیں ایسے ہی کام کرتی ہیں تو پھر رونا کیسا؟؟؟؟ اجمل صاھب ہمدردیاں یا دشمنیاں اپنی جگہ مگر “ آج“ ٹی وی پر عبدلعزیز کی گرفتاری کی پہلی ویڈیو جو دکھائی گئی ہے اور اس کے بعد عبدلرشید کے جو بیانات آتے رہے ہم انہی کو ہی سچ مانیں گے اب تو انہوں نے قلابازی کھائی ہے۔ راھِ شہادت میں بھی کذب سے باز نہیں آرہے۔

  13. رضوان اقلیتوں کے ساتھ دونوں ملکوں میں ایک سا سلوک روا رکھا گیا ہے۔ تاہم ہندوستان میں کم از کم عدالتیں اقلیتوں کو بھرپور تحفظ فراہم کرنے کی کوششیں کرتی ہیں۔ پاکستان میں ایسا نہیں۔ لیکن پھر یہ بھی دیکھیں کہ پاکستانی عدالتیں تو اکثریتی آبادی کو بھی اکثر انصاف فراہم کرنے میں ناکام رہتی ہیں تو ایسا نہیں لگتا کہ عدالتیں جان بوجھ کر تفریق کرتی ہیں دراصل خرابی قوانین، مقننہ، طریقہ نفاذ ہر جگہ ہے اور یہ صورتحال تمام پاکستانیوں کے لئے ایک سی ہے۔

    اللہ نہ کرے یہ غازی شہید ہو۔ ورنہ اس کی لاش پر بہت لوگ سیاست کرنے اٹھ کھڑے ہونگے۔

  14. […] ایک بلاگر نعمان صاحب نے پچھلے دنوں اپنی ایک تحریر قومی افتخار میں بھارت کے مقابلے میں پاکستان کی کامیابیوں کے بارے […]

  15. نعمان صاحب ، اگر ہم یہ فرض کر لیں کہ قابل افتخار چیزوں کی کوئی لسٹ بنائی جا سکتی ہے تو یہ نا ممکن ہے۔ آپ کے مہمانان نے بھارت کی تیز اقتصادی ترقی اور مالدار شخصیتوں کا ذکر کیا تو کچھ غلط نہیں ہے۔ لیکن بہت دور نہیں صرف 12 سال پیچھے مڑ کر دیکھئیے تو آپ کو ہندوستان کی ایک دوسری تصویر نظر آئے گی۔ جب یہ ملک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا۔ جب خالصتان کی تحریک اور گولڈن ٹیمپل کے معاملات نے بھارتی حکومت کو لوہے کے چنے چبانے پر مجبور کیا۔بھارت کی حکومت ہماری محترمہ کے اس احسان کی ہمیشہ ابھاری رہے گی انہوں نے سکھوں کی فہرستیں مہیا کر کے اس ملک کی بہت سی مشکلات آسان کر دیں۔یہ وہ وقت تھا جب ایک پاکستانی روپیہ بھارت کے ایک روپے پچاس پیسے میں ملتا تھا۔ حالات اسی طرح چل رہے تھے کہ بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا اور نو گیارہ کا واقعہ پیش آ گیا۔ پھر کیا تھا۔ دنیا کی سیاست کا نقشہ ہی بدل گیا اور حالات بھارت کے لئیے کچھ اس طرح سے موافق ہوئے یا بنائے گئے کہ کشمیر کے مسئلہ سے لے کر بھارت کی دیگر ریاستوں میں جاری بھارتی فوج کی پر تشدد کارروائیوں پر دنیا کا چوہدری امریکہ اور اس کے حواری بھارت کے نام کی مالا جپتے دکھائی دئیے ۔ نعمان ، مختصر عرض کروں کہ جب اتنی بھرپور حمایت اور ٹیکنالوجی کی فراہمی کے ساتھ ساتھ بھاری سرمایہ کاری اور امریکہ بھارت ایٹمی اور دفاعی معاہدوں کے تناظر میں حالات کا غیر جانبداری سے جائزہ لیا جائے تو یہ نتیجہ نکالنا مشکل نہیں کہ بھارت کی اس ترقی کی اصل حقیقت کیا ہے۔ بہت سے اقتصادی ماہرین بھی کہہ رہے ہیں کہ بھارت کی ترقی کی موجودہ رفتار مصنوعی ہے۔ امریکہ اور یورپ ، چین کو اس کی “اوقات“ میں رکھنے کے لئیے بھارت میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ اور اس طرح سے بھارتی معیشت پر ان کا کنٹرول بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ کام اپنے پاکستان میں بھی امریکہ بہادر اور دیگر صنعتی ممالک بہت پہلے ہی انجام دے چکے ہیں اور جس کا نتیجہ میں اور آپ شدید مہنگائی کی شکل میں بھگت رہے ہیں اور آپ کے نانا جان نے بھی پاکستان آ کر اس مہنگائی کو محسوس کیا۔ آپ ذرا غور کریں کہ پچھلے 3 سال سے بھارت میں بھی افراط زر کی شرح کہاں سے کہاں پہنچی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ دولت کا ارتکاز ہو رہا ہے ، غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوتا جا رہا ہے ۔ جب ایسا ہوتا رہے گا تو ایک دو نہیں ہر سال درجنوں بھارتی لوگ تو ارب پتیوں کی فہرست میں شمار ہوتے رہیں گے لیکن غریب بھارتی ترقی کے ثمرات سے محروم ہی رہے گا۔ اعداد و شمار دیکھئیے کہ بھارتی کسانوں میں غربت کی وجہ سے خود کشی کا رجحان کس حد تک بڑھ چکا ہے۔ اور اپنا پیٹ پالنے کے لئیے سیکس ورکرز کا دھندہ کیسے فروغ پا رہا ہے۔ پاکستانی عوام کا معیار زندگی بھارتیوں اور بنگہ دیشیوں سے کہیں بلند ہے اس کا احساس ہمیں اس وقت ہوتا ہے جب ہم پاکستان سے باہر رہتے ہیں۔
    اب آتے ہیں اس بات پر کہ ہمارے پاس فخر کے لئیے کیا ہے۔ ہمارے پاس فخر کے لئیے ہیں ہمارے وہ محنتی پاکستانی کہ جن کی شبانہ و روز محنت نے اس ملک کو ایٹمی طاقت بنا دیا کہ 1947 میں جس کی حکومت کے دفاتر درختوں کے نیچے لگائے جاتے تھے اور کاغذ کو نتھی کرنے کے لئیے کیکر کا کانٹا استعمال کیا جاتا تھا۔
    قابل فخر ہیں وہ سیالکوٹی کہ جن کے بنائے ہوئے آلات جراحی دنیا بھر کے سرجنوں کا اولین انتخاب ہے۔
    قابل فخر ہیں وہ پاکستانی فوجی جوان جو اس وقت اقوام متحدہ کی فوج کا تقریبا 59 فیصد ہیں۔
    قابل فخر ہیں وہ لوگ جو بھارت سے آنے والوں کو اپنی میزبانی سے اپنا گرویدہ کر لیتے ہیں جبکہ میرے سمیت بہت سے پاکستانی جب بھارت جاتے ہیں تو ان کا تجربہ اس سے مختلف ہوتا ہے۔
    اور محترم قابل فخر ہے میرا پاکستان کہ جس کی عمر صرف ساٹھ سال ہے لیکن وہ ہزاروں سال کی عمر رکھنے والے انتہائی تجربہ کار ، جہاندیدہ ، شاطر ، غضب کے منصوبہ ساز ، اور وسائل سے مالا مال بھارت کے پہلو میں نہ صرف آزاد حیثیت میں موجود ہے بلکہ اس کی بار بار کی جانے والی جارحیتوں کا مقابلہ کر کے بھی اس سے دوستی کا ہاتھ بڑھانے میں ہمیشہ پہل کرتا ہے۔
    احساس کمتری؟ کس بات پر؟ میرے اجداد کا فیصلہ غلط نہیں تھا ۔ میں پاکستانی ہوں اور مجھے فخر ہے اپنے ملک پر۔

  16. میری گزشتہ تحریر کی ترتیب میں کمپیوٹر نے کچھ گڑ بڑ کر دی ہے۔ خالصتان کے مسئلہ کو 12 سال پہلے کے بھارت کی تصویر سے الگ پڑھا جائے۔

  17. بہت خوب ساجد۔ گرچہ مجھے بہت سی باتوں سے اتفاق نہیں۔ کیونکہ دیکھیں بھارت کہاں کہاں ناکام ہوا یہ پاکستان کے لئے فخر کی بات نہیں۔ ہمارے فخر کا تعلق ایسی چیزوں سے ہونا چاہئے جو ہماری شناخت ہوں۔ مجھے آپ کا تبصرہ بہت اچھا لگا۔

  18. شکریہ نعمان۔
    آپ تو جانتے ہیں کہ تلاش روزگا تو نابغہ روزگار کو بھی بندہ روزگار بنا دیتی ہے اور میں تو ٹھہرا ایک مزدور۔
    آپ کا شکریہ ادا کرنے اور بلاگ پر حاضری میں تاخیر کا یہی سبب تھا۔

Comments are closed.