آپریشن سائلنس اپنے اختتام کو پہنچا۔جناب پرویز ہود بھائی چوک ڈاٹ کام پر اپنے مضمون "مزید لال مسجدوں کا تدارک” پر اس بارے میں اظہار خیال کرتے ہیں۔ قدیر، افضل، اجمل، نبیل، اظہر،خالد بھی فکرمند ہیں۔ ڈاکٹر علوی، پاکستانی اسپیکٹیٹر، اسلام آباد میٹروبلاگ کے بلاگر، دیگر کئی انگریزی اور اردو بلاگر، ان سب تحریروں پر تبصرہ جات کرنے والے، اور آنلائن فورمز پر۔ ٹی وی، ریڈیو، اخبارات ہر جگہ یہی ذکر ہے۔ چاہے کوئی انتہاپسندی کے اُس طرف ہے یا روشن خیالی کے اِس طرف۔ تشویش ان کو بھی ہے جو اعتدال کی نازک ڈور پر جھولتے ہیں اور ان کو بھی کہ جو بندوق تھامے محاذوں پر کھڑے ہیں۔
میرے ذہن میں بھی سوال ہیں۔ لیکن سردست صرف ایک سوال ہے جو میرے خیال میں ہم سب کو سوچنا ہوگا۔ مجھے معلوم ہے کہ یہ سوال بہت بے چیدہ ہیں اور ان کے جوابات پر مشتمل حل ناقابل عمل معلوم ہوتے ہیں۔ مگر پھر بھی۔۔۔
پاکستان میں ایسے کتنے مدارس ہیں جو طالبعلموں کو اس بات پر اکسا رہے ہیں کہ وہ ملک کی عورتوں کے چہرے نقابوں سے ڈھک دیں نہیں تو ان پر تیزاب ڈال دیں۔ ایسے اور کتنے ادارے ہیں جو سی ڈیز جلانے، ہجاموں کی دکانوں پر حملے کرنے اور زنا کرنے والوں کو قتل کرنے کی ترغیب دے رہیں۔ کیا جہادیوں کی یہ فوج جو کشمیر اور افغانستان آزاد کرانا چاہتی تھی اب اپنا مقصد پاکستانیوں کو زیر کرنا بناچکی ہے؟ کیا ہمارے محلوں کے وہ بچے جو قرآن حفظ کرنے گئے ہیں واپسی پر ہمارے چہرے جھلسائیں گے اور ہمیں ڈرائیں دھمکائیں گے؟ نہیں سوال یہ نہیں۔
پاک فوج، پارلیمینٹ، حکومت پاکستان، سیاستدان، عدالتیں، میڈیا کیا یہ سب ادارے اس بات پر غور کررہے ہیں کہ اگر کسی دن یہ مدارس، یہ ادارے، یہ افراد ہاتھ سے نکل گئے تو پاکستان کی عوام کے جان و مال عزت و آبرو کی حفاظت کے لئے کتنے آپریشن سائلنس درکار ہونگے؟ اوں ہوں، نہیں یہ وہ سوال نہیں۔
مجھے سخت تشویش ہے، اور میری طرح ان سب پاکستانیوں کو بھی جو انٹرنیٹ پر، گھروں میں، دکانوں، بازاروں، گلیوں، محلوں، نکڑوں اور چائے خانوں میں اس وقت اپنی تشویش کا اظہار کررہے ہیں اور اس امید میں ہیں کہ کوئی ان کو یہ یقین دلائے گا کہ ان کی حفاظت کے لئے پاکستان میں کوئی قانون موجود ہے، ایسے ادارے اور ایسی عدالتیں موجود ہیں جو انصاف فراہم کرسکیں۔ لیکن پاکستانیوں کو یقین کون دلائے گا؟ جب یقین دلانے والے لوگ ہی قانون شکن، ادارہ شکن، آزادی دشمن، انصاف دشمن ہوں تو کوئی بھی پاکستانی کیسے کسی کی بات کا یقین کرے اور کیسے اس کا خوف دور ہو؟ کیا یہ وہ سوال ہے؟ شاید ہے یا شاید نہیں ہے۔
جامعہ حفصہ، فریدیہ، لال مسجد کے بعد آپریشن سائلنس کا راستہ چننا ہے یا تعلیم، انصاف اور آزادی کا؟ سوال یہ ہے۔
آپ کے ذہن میں کیا سوچ اور سوال ہیں؟
رات طلعت نے بھی اپنے پروگرام میں سوال ہی سوال کئے تھے ۔ ۔ ۔ میرے خیال میں اب سوالوں کا وقت گذر چکا ۔ ۔ جوابوں کا وقت ہے ۔۔ ۔ کچھ لوگ قانون ہاتھ میں لے کر یہ جواب دیں گے ، کچھ مر کہ کچھ مار کہ یہ جواب دیں گے ۔ ۔ ۔اور کچھ ہماری طرح صرف ۔ ۔ باتیں کریں گے ۔ ۔ اور اکثریت خاموش تماشائی بنی رہے گی ۔ ۔ ۔ جواب ہر کوئی دے گا اور دے رہا ہے ۔ ۔۔ مگر شاید ۔ ۔ ۔ ۔ ہر جواب ایک نئے سوال کو جنم دے رہا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
Thanks a lot for mentioning us.
A very interesting tradition of Holy Prophet:
"Ali (RA) related that Prophet of Allah (SAW) said ‘soon a time will dawn upon mankind when there will be nothing left in Islam but its name only and nothing in Quran but its (written) words only. The mosques will be full (of people) but empty of righteous guidance, their clergy will be the worst creation under the sky, divisive movements (Fitna) will rise from them and return to them’.”
[Mishkat, Book of Ilm, Al-Fasl III, page 38 and Kanz-al-Ummal page 6 of 43]
سب سے پہلے نعمان آپ یہ کس بنیاد پر کہہ رہے ہیں کہ مدرسوں کے طلباء کو وہاں خواتین کے چہرے تیزاب سے جھلسانے کی تعلیم دی جاتی ہے؟
ایک تعلیمی ادارے میں کس طرح کی تعلیم دی جاتی ہے اس کے لئے اس کے فارغ التحصیل یا موجودہ طلباء کے ایکشن اور نظریات ہی سب سے بڑا ثبوت ہوتے ہیں۔ چونکہ جامعہ فریدیہ کے طلباء اسلام آباد کی سڑکوں پر خواتین موٹرسٹس کو ہراساں کرنے اور دھمکانے میں ملوث ہیں اور جامعہ کی انتظامیہ ان کے اس عمل کا جائز سمجھتی تھی تو ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہوجاتے ہیں کہ وہاں خواتین کے چہرے پر تیزاب ڈال کر جھلسانے کی تعلیم دی جاتی تھی۔ یا کم از کم اسے بطور دھمکی استعمال کرنے پر اکسایا ضرور جاتا تھا۔
محترم آپ نے اپنے بہتان کیلیے انتہائی بھونڈا جواز پیش کیا ہے۔ جن دنوں یہ خبریں چھپ رہی تھیں کہ جامعہ فریدیہ والے خواتین ڈرائیورز کو ہراساں کر رہے ہیں، انہی دنوں میں جامعہ فریدیہ کے بالکل قریب ایف-7میں مقیم تھا اور میںآپکو حلفیہ کہہ سکتا ہوں کہ ایسا کچھ بھی نہیں تھا وہاں پر۔ بلاتحقیق بہتان طرازی کرکے آپ اپنی تحریروں پر آراء کی تعداد تو بڑھا سکتے ہیں لیکن کسی کو اپنی تحریر سے متاثر نہیں۔ آپ جیسے ہی ایک کالم نگار ان دنوں یہی لکھ رہے تھے کہ لال مسجد اور جامعہ فریدیہ والوں کے خوف سے خواتین نے بازاروں کو رُخ کرنا چھوڑ دیا، وہ محترم لاہور میں بیٹھ کر کیسے دیکھ سکتے تھے کہ لال مسجد سے تین قدم کے فاصلے پر اتوار بازار اور آبپارہ مارکیٹ میں نظر آنے والی مخلوق خواتین ہی تھی۔ نعمان میرا آپکو مخلصانہ مشورہ ہے کہ کبھی وقت ملے تو بنوری ٹاؤن کی جامعہ بنوریہ یا پھر کورنگی میں واقعہ جامعہ عمر کا دورہ کریں۔ اگر کوئی خوف ہے تو میں آپکو گارنٹی دیتا ہوں کہ آپکو “اغوا‘‘ نہیں کیا جائیگا۔
میری رائے کی بنیاد خبریں ہیں اور دور جدید میں خبریں رائے سازی کا سب سے اہم ہتھیار ہیں۔ افسوس لال مسجد والے اس اپنی کلیریفیکیشن کے لئے استعمال نہ کرسکے گرچہ عبدالرشید نے دنیا بھر کے ٹی وی چینلوں اور اخباروں کو انٹرویو دئے اور تصاویر کھنچوائیں اور کہیں بھی اس خبر کی تردید نہیں کی کہ لال مسجد کے زیر انتظام چلنے والے مدارس کے طلباء نے خواتین کار ڈرائیوروں کو ہراساں نہیں کیا۔
افسوس آپ آدھی خبریں پڑھتے ہیں جب ان سے اسی معاملے کے متعلق پوچھا گیا تو ان کا جواب تھا کہ انکی اپنی اہلیہ(یا پھر مولانا عبدالعزیز کی اہلیہ) اپنی گاڑی خود چلاتی ہیں، تو وہ دوسروں کو کسطرح اس سے منع کر سکتے ہیں۔
اگر میڈیا آپکو کہے کہ سورج مشرق سے نہیں نکلتا تو کیا آپ یقین کر لینگے؟ اللہ نے انسان کو تحقیق کیلیے عقل عطا کی ہے۔
میڈیا ہی کے بدولت مولانا عبد العزیز کی اتنی بدنامی ہوئی لیکن اسی میڈیا نے جب انکی بے گناہی دکھائی تو اس کسے نے درخوئے اعتنا نہ سمجھا۔ حکومت نے غیرقانونی مساجد گرانے کی رٹلگائے رکھی لیکن جب تحقیق کرنے والوں نے تحقیق کی تو پتہ چلا کہ کئی مساجد نہ صرف خود حکومت نے بنائی بلکہ ایک مسجد تو سو سال سے بھی پرانی نکلی۔
میں معذرت چاہوں گا کہ میری زیادہ باتیں آف ٹاپک اور آپکے موضوع سے میل نہیں کھاتیں لیکن خدارا بہتان طرازی سے پہلے تحقیق کر لیجیے۔
Another chapter form our history; the Justice Munir report
http://www.mediafire.com/?2lbjlhmslbj
Quite hefty at 33MB but quite an eye opener.