ہمارے محلے میں حافظ جی کے نام سے ایک مشہور مٹھائی کی دکان ہے۔ جہاں بناسپتی گھی میں تیار کردہ سموسے، جلیبی اور گلاب جامن فروخت ہوتی ہیں۔ صبح سویرے حلوہ پوری لگتی ہے۔ جب میں موٹا ہوا کرتا تھا تو میرے مٹاپے کا اصل سبب یہی پوریاں تھیں۔آج کل تو ان کے مزے آئے ہوئے ہیں۔ شام چار بجے سے جو سموسے بکنا شروع ہوتے ہیں تو افطار کے بعد تک بھی بھیڑ لگی رہتی ہے۔ ویسے تو میری امی افطار کا سب سامان گھر میں ہی بناتی ہیں۔ لیکن اگر بازار سے کچھ نہ کھائیں تو افطار کا مزہ کیا ہے۔ آج میں نے سوچا کہ سموسے، گلاب جامن اور جلیبی لیتا چلوں۔ روزہ کھلنے میں دس منٹ تھے بھاگم بھاگ مٹھائی والے کے یہاں پہنچا۔ رش تو بہت تھا مگر میں اس گمان میں تھا کہ بچپن سے ان کی دکان سے پوریاں کھائی ہیں ہفتے میں چار چھ بار کبھی مٹھائی لینے، کبھی سموسے لینے جاتا ہوں، مسجد میں، نائی کے یہاں، پنساری کی دکان پر بھی مٹھائی کی دکان والے سارے بھائیوں سے سلام دعا رہتی ہے۔ اس لئے وہ مجھے خصوصی توجہ کا مستحق سمجھیں گے اور سب کو نظر انداز کرکے مجھے سائیڈ میں سامان تھما کر چلتا کریں گے۔
مگر کہاں جناب۔ طوطا چشمی کا ایسا مظاہرہ کہ آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ رہے۔ میں کبھی سلیم بھائی کو آواز لگاؤں تو کبھی نسیم بھائی کو۔ کھٹاکھٹ پیسے کاٹے جارہے ہیں اور فٹافٹ سموسے پارسل کرے جارہے ہیں مگر مجال ہے جو کوئی نعمان کو دیکھ لے۔ خریدار بھی ایک کے اوپر ایک چڑھا جارہا تھا۔ میں اس بھیڑ کو چیر کر آگے بڑھنے کی سوچتا مگر ایک تو آج کی قیامت خیز گرمی نے مجھے نڈھال کررکھا تھا دوسرا اس بھیڑ کو چیر کر کاؤنٹر تک پہنچنا میرے لئے تو کیا کسی چیونٹی کے لئے بھی ناممکن تھا۔ مگر ایک چھوٹا سا بچہ آیا اور پتہ نہیں کیسے وہ سب کو چیرتا چھوٹی سی درزوں سے ہوتا کاؤنٹر تک جا پہنچا اور نسیم بھائی پانچ آلو، سلیم بھائی پانچ آلو کا شور مچادیا۔ اس کی آواز اتنی تیز اور باریک تھی کہ اگر کسی کو کیل ٹھونکنا ہو اور ڈرل مشین نہ ہو تو اس بچے کو دیوار کے سامنے چیخوایا جائے دیوار خود ہی درد سے ریزہ ریزہ ہوجائے گی۔ غالبا گھر والوں نے سکون سے افطار کرنے کے لئے ہی اسے عین افطار کے وقت گھر سے سموسے لینے بھیجا ہے۔ اور لیں جناب مولوی صاحب نے لاؤڈ سپیکر کھڑکھڑادیا۔
"روزہ افطار کریں!” کی صدا گونجی۔
بھیڑ میں اچک اچک کر سموسوں کی تھیلیوں کو لپک لینے کو بے قرار ہاتھ ایک دم سے ڈھے گئے۔ سلیم بھائی نے جلدی سے کھجور کا پیکٹ بھیڑ کی طرف بڑھایا سب نے روزہ افطار کرا۔ ان کا ایک نوکر بھاگ کر شربت کے جگ لا کر گاہگوں کو پلا رہا تھا۔ سلیم بھائی نے میری طرف بھی ایک گلاس بڑھایا اور ایسے بنے جیسے ابھی ہی مجھ پر نظر پڑی ہو۔
"آہا نعمان بھائی، میاں ادھر کدھر کھڑے ہو۔ادھر کو آؤ یار کب سے کھڑے ہو؟” اور اپنے نوکر کی طرف منہ کرکے منہ بولے "ابے تو نے نعمان بھائی کو کھڑا کر رکھا ہے۔ کیا دوں نعمان بھائی بولو”۔ مجھے تو غصہ آرہا تھا۔ لیکن اب کیا ہوسکتا تھا، روزہ تو کھل چکا تھا۔ بجھے دل کے ساتھ سموسے اور جلیبی لیں اور گھر کی طرف چل پڑا۔ لوگ بھاگ بھاگ کر مسجد کی طرف دوڑ رہے تھے اور میں گھر جارہا تھا کہ اپنی من پسند افطار تو کرلوں جس کے ارمان میں مرا جارہا تھا۔
گھر پہنچا تو امی بھی دسترخوان سمیٹ رہی تھیں۔ زبردستی منہ میں سموسے ٹھونسے۔ جلیبی کھائی۔ ڈھیر سارا مزید شربت روح افزاء پیا۔ مگر تسکین نہ ہوئی۔
سبق نمبر ایک: رمضان میں اگر سموسے خریدنے ہوں تو افطار سے کم از کم ایک گھنٹہ پہلے گھر سے نکلیں۔
سبق نمبر دو: افطار کا اصل مزہ صبر اور اطمینان میں ہے سموسے یا جلیبی میں نہیں۔
یہ آپ نے بالکل ٹھیک کہا۔
سبق نمبر تین: جو میسر ہو اسی سے روزہ افطار کرلیا جائے۔
اس کا مطلب ہے کہ بچت ہوگئی۔ کل میں سوچ رہا تھا کہ کیوں نہ تمہارا ڈیرا تلاش کیا جائےاور افطار کا موقع دے کر روزے کے ثواب میں شیئر کیا جائے لیکن پھر ریگل ہی سے واپس ہوٹل کو لوٹ آیا۔
رضوان کاش تم کل آہی گئے ہوتے تو بھری پری پر رونق افطار کا میرا ارمان بھی پورا ہوجاتا۔
jistra aap baree kay bina aagay nikalna chahtay thay mushrraf bhai bhee retirement ka intezaar keeay bagair sadar bannna chahtay hain…kia karain sara maashra aisa hee hai, koi bhee "chaleebeion” kay leeay baree ka intezaar nahain chahta 😛
می بجا فرماتے ہیں۔ بس ذرا یہ خیال کریں کہ تبصرہ کرتے وقت ایک مناسب نام اور کارآمد ای میل پتہ فراہم کردیا کریں۔ اس بلاگ پر بغیر نام یا ای میل کے کرے گئے تبصرے ناپسندیدہ سمجھے جاتے ہیں۔