میرے ایک نئے دوست جناب راشد صاحب کی بدولت مجھے عید سے چند دن پہلے شہر بھر کی مارکیٹوں میں گھومنے کا موقع ملا۔ دراصل راشد صاحب عروسی ملبوسات کی ایک معروف بوتیک میں ملازم ہیں۔ عید کے فورا بعد ہونے والی شادیوں کی وجہ سے ان پاس بے تحاشہ آرڈر ہیں۔ راشد صاحب ایک اچھے سیلز مین کی طرح اپنے گاہگوں کی ضروریات اور مفادات کا بے حد خیال رکھتے ہیں۔ اسلئے انہیں ڈر ہے کہ عید کے اضافی کام کی وجہ سے ان کے کارخاندار اور کاریگر کہیں ان کے کام آگے نہ کردیں اسلئے وہ خود ہر جگہ پیش پیش رہ کر کام نمٹا رہے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ مجھے اپنے ساتھ طارق روڈ، بہادرآباد اور کریم آباد کے مینا بازار لے گئے۔
میں قطعا ان لڑکوں میں سے نہیں ہوں جو عید سے پہلے بازاروں میں گھومتے ہیں۔ بلکہ مجھے تو بھیڑ والی جگہوں پر متلی اور چکر کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ گرمی اور پسینہ تو مجھ سے بالکل برداشت نہیں ہوتا اور گاڑیوں کا دھواں میری جلد اور بالوں کی صحت کے لئے سخت نقصان دہ ہے۔ لیکن ڈالمین سے اپنے لئے کچھ کپڑے خریدنا تھے اور جوتے پہننا تھے تو راشد کے ساتھ ہولیا۔ ویسے تو ہمارے گھر میں سب عید کی تیاری کافی پہلے سے کررکھتے ہیں۔ میری امی نے ہم تینوں بھائیوں کے لئے ایک جیسے لیکن مختلف رنگوں کے کاٹن کے کرتے سلو ارکھے ہیں۔ میں شلوار قمیض، کرتا پاجامہ کم ہی پہنتا ہوں بس عید ایسے مواقع پر۔ حالانکہ کرتا پاجامہ مجھ پر خوب جچتے ہیں۔ میرے دونوں بھائیوں کو یہ شکوہ رہتا ہے کہ امی سب سے اچھے کپڑے میرے لئے سلوادیتی ہیں۔ عازب کے روز طارق روڈ کے چکر لگ رہے ہیں، وہ اور اس کے دوست کسی بھی ایک دوست کی گاڑی میں بھر کر ہر روز طارق روڈ پہنچ جاتے ہیں اور جان بوجھ کر پوری خریداری نہیں کرتے تاکہ اگلے روز آنے کا بہانہ رہے۔ کامران بھی چاند رات کو ہی جوتے خریدنے جائے گا۔ حالانکہ اصل عید تو اس کی ہے کیونکہ ایک تو اس کے روزے بھی پورے جاتے ہیں بلکہ پورے رمضان وہ کوئی نماز نہیں چھوڑتا۔ دو چار قرآن ختم کرتا ہے اور پورے اہتمام سے روزے رکھتا ہے۔
رمضان بھر کی تیاری کے باوجود بھی آخر وقت تک کچھ نہ کچھ یاد آتا ہی رہتا ہے۔ میری والدہ کل شام کو پارلر گئیں تو تقریبا بارہ بجے رات کو لوٹیں۔ کل راشد کے ساتھ میں پہلے اپنے بال کٹوانے، اسٹریکنگ کروانے اور فیشل مساج وغیرہ کے لئے گیا۔ ہم شام کو ساڑھے سات بجے ویلا بہادرآباد میں داخل ہوئے تو رات ساڑھے گیارہ بجے وہاں سے نکلے ہیں۔ ہم سمجھ رہے تھے کہ ہم ہی ہوشیار ہیں جو چاند رات سے پہلے ہی سب کام کرلیں گے۔ وہاں پہنچ کر پتہ لگا کہ اس شہر میں سبھی ڈیڑھ ہوشیار ہیں۔ (کراچی کی زبان میں ڈیڑھ ہوشیار اوور اسمارٹ ہونے کو کہا جاتا ہے)۔
شہر بھر کے بازاروں میں اسقدر رش ہے کہ کہیں تل دھرنے کو جگہ نہیں۔ خواتین، بچوں اور ان خواتین اور بچوں کے ساتھ ان کے شوہر اور والد۔ اور نوجوان لڑکے لڑکیاں، ٹولوں اور غولوں کی شکل میں ہر جگہ بھرے پڑے ہیں۔ سمجھ نہیں آتا اگر اسقدر مہنگائی ہے تو یہ لوگ خریداری کیسے کررہے ہیں۔ بقول راشد سب کریڈٹ کارڈ کا کرشمہ ہے۔ ہر جگہ پارکنگ کی اتنی پریشانی ہے کہ اگر آپ کو طارق روڈ پر خریداری کرنی ہے تو پی سی ایچ ایس کی اندورنی گلیوں یا پھر بہادرآباد کر پرلے سرے گاڑی کھڑی کرکے آئیں۔ آئسکریم، بن کباب، رول، تکہ کباب وغیرہ کھانے کے لئے تو کہیں رکئے گا بھی نہیں۔ دکاندار بھی نک چڑھے ہوگئے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے جیسے مچھلی بازار ہو۔
چھوٹے بچوں کی دکانوں پر خصوصا زیادہ بھیڑ ہے۔ ایک دکاندار نے جو راشد کے دوست ہیں بتایا کہ انہوں نے اتنی زبردست سیل پچھلے پانچ سال میں نہیں کی۔ ان کی دکان پر بچوں کے کپڑے، جوتے، گھڑیاں، چشمے اور جرابیں سب دستیاب ہیں اور ان کے پاس ابھی سے اسٹاک ختم ہونے لگا ہے اور وہ پرانی ورائٹی آگے سے مہنگے داموں اٹھا کر کام چلا رہے ہیں۔
چھوٹی چھوٹی بچیاں اپنی امی سے ضد کرکے اپنے لئے جیولری اور مرمیڈ ڈریسز خرید رہی ہیں۔ چھوٹی چھوٹی ننھی پریاں سب فکرات سے بے نیاز بے حد ایکسائٹڈ ہیں کہ عید آئے گی تو وہ اپنے نئے کپڑے پہنیں گی، مہندی لگائیں گی اور چوڑیاں پہن کر سب سے عیدی وصول کریں گی۔ چھوٹے لڑکے بھی اپنے ابو جیسے والٹ خریدرہے ہیں۔ ان ننھے والٹس میں وہ اپنی عیدی جمع کریں گے۔ کرتا کارنر والوں نے چھوٹے بچوں کے لئے خصوصا کاٹن کے ننھے کرتے تیار کرے ہیں جن کے ساتھ چوڑی دار اور ہندوستانی پاجامے ہیں۔ ناگرہ یا سلیم شاہی جوتیوں کے ساتھ، یہ کرتے خوب کھلیں گے۔ دوسری طرف چھوٹی بچیاں بھی رنگ برنگی پوشاکیں زیب تن کرے، چھوٹی چھوٹی دوپٹیاں گلے میں ڈالے، گالوں پر گول گول لالی کے ٹپے اور ہونٹوں پر سرخی لگائے شہزادیاں بن جائیں گی۔ روز عید جب یہ ننھے شہزادے شہزادیاں اپنے بڑوں کو عید مبارک کہیں گے تو وہ اتنے نہال ہونگے کہ بھول جائینگے کہ کتنے دھکے کھا کر اور کیسے جتن کرکے عید کی تیاری کی گئی تھی۔