بینظیر دبئی میں ہی پریس کانفرنس میں یہ کہہ چکی تھیں کہ ان کی جان کو خطرہ حکومت میں موجود چند عناصر سے ہے جو دہشت گردی کی پشت پناہی کرتے ہیں اور وہ ان کی آمد سے خوفزدہ ہیں۔
بینظیر کو وزیر اعظم اور صدر سے بھی زیادہ سیکیوریٹی پرووائڈ کرنے کا دعوی مضحکہ خیز حد تک جھوٹا ہے۔ بیس ہزار پولیس اہلکار پورے شارع فیصل پر موجود تھے۔ لیکن پندرہ لاکھ سے بھی زیادہ افراد کے اس ہجوم کی نگرانی کے لئے بیس ہزار پولیس اہلکار جو کہ کسی بھی جدید ٹیکنالوجی سے لیس نہیں تھے اور سیمی آٹومیٹک ہتھیاروں کے علاوہ ان کے پاس وائرلیس تک نہ تھے۔ حکومت نہ بم جام کرنے والی ڈیوائسز اگر محترمہ کے ساتھ چلنے والی گاڑیوں میں نصب کررکھی تھیں تو انہوں نے کام کیوں نہ کیا؟ شارع فیصل پر ان دو دھماکوں کے علاوہ کئی اور مقامات سے خودکش بیلٹس ملی ہیں۔ تین مشتبہ افراد سارا دن گرفتار ہوئے تھے۔ منصوبہ یہ تھا کہ پہلا دھماکہ ٹرک کے آگے کرا جائے گا جس سے ہجوم گھبرا کر پیچھے بھاگے گا جس کے نتیجے میں ٹرک کے گرد قائم پیپلز پارٹی کے سیکیوریٹی ونگ کا حصار ٹوٹ جائے گا۔ حصار ٹوٹنے کے بعد دوسرا دھماکہ ٹرک کے اندر یا اس کے باہر کیا جائے گا۔ اور تیسرا دھماکہ ٹرک کے اندر کرنے کی کوشش کی جائے گی اور پرائم ٹارگٹ کو قتل کرنے کی کوشش کی جائیگی۔ خوش قسمتی سے کراچی پولیس، کیمرہ مین اور میڈیا کی بڑی تعداد میں موجودگی کی وجہ سے پہلے دھماکے کے بعد مچنے والی بھگدڑ ایسی نہیں تھی کہ ٹرک کے گرد موجود حصار ٹوٹ پاتا۔ تب دوسرے بمبار نے خود کو سیکیوریٹی کی انسانی شیلڈ سے ٹکرایا۔ جس سے سب سے زیادہ اموات ہوئی ہیں اور ٹرک کو بھی نقصان پہنچا۔ اسی دوران کسی شخص نے ٹرک کی ونڈ شیلڈ اور ٹائرز پر فائر کرے۔ لیکن جو انسانی شیلڈ ٹوٹی تھی پیلزپارٹی کے کارکنان نے اسے فورا دوبارہ بنادیا۔ اب اگر تیسرا بمبار اسی شیلڈ پر حملہ کرتا تب بھی پرائم ٹارگٹ کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا اور خدشہ تھا کہ یہ تیسرا بمبار ہی کمانڈ کررہا تھا اس نے وہاں بھاگنا زیادہ بہتر جانا۔
مرنے والوں میں ساٹھ سے زیادہ جوان پیپلزپارٹی کی سیکیوریٹی ونگ کے وہ نوجوان تھے جنہوں نے ٹرک کو گھیرے میں لے رکھا تھا۔ تین سیکیوریٹی اہلکار ٹرک کے ریک پر ہلاک ہوئے۔ اور ہلاک ہونے والوں میں بڑی تعداد سندھ پولیس کے جوانوں کی ہے۔
کارکنان نے مثالی اعصابی جرات کا مظاہرہ کرا۔ پولیس کے خون میں لت پت اہلکار ہجوم کی مدد کرتے رہے ۔ یہ فرض شناسی اور احساس ذمہ داری کا زبردست مظاہرہ تھا۔
ٹرک میں موجود لیڈران کو فورا محفوظ مقام پر پہنچانا اسلئے ضروری تھا کہ اس بات کا اندازہ کرلیا گیا تھا کہ دیگر حملہ آور اردگرد موجود ہیں اور ایک اور حملہ متوقع ہے۔ جس کے نتیجے میں لیڈران کو نقصان پہنچتا یا نہیں لیکن اور بہت لوگ مرتے۔
شہر کے ہسپتال ریڈالرٹ پر تھے۔ جناح اور لیاقت ہسپتال قریب ترین تھے۔ لیکن شہری حکومت کا ٹراما سینٹر جو ایسے حادثات کے لئے ویل ایکویپڈ ہے وہ جائے حادثہ سے دور تھا اور وہاں کم زخمی لوگوں کو لے جایا گیا۔
لوگ کہتے ہیں کہ ہیلی کاپٹر میں بے نظیر کو کیوں نہ لے جایا گیا۔ یہ وہی سوال ہے جو ایم کیو ایم کے لوگوں نے بارہ مئی کو چیف جسٹس سے کیا تھا کہ ہیلی کاپٹر میں جانے میں کیا عذر ہے۔ لیکن چیف جسٹس نے انکار کردیا تھا۔ اگر چیف جسٹس انکار کرسکتے ہیں تو بے نظیر کیوں نہیں؟
زخمیوں اور مرنے والوں میں ایک بڑی تعداد اندرون سندھ اور پنجاب سے آئے ہوئے پیپلز پارٹی کے کارکنان کی ہے۔ مرنے والوں کی شناخت اور ان کے لواحقین تک ان کی میتیں پہنچانے کا کام جاری ہے۔ زخمیوں کی بڑی تعداد ہسپتالوں سے فارغ کی جاچکی ہے۔ چند بری طرح جھلسنے والے مریض سنگین حالت میں ہیں اور ڈر ہے کہ ڈیتھ ٹول ابھی اور بڑھے گا۔
مجھے یہ سمجھ نہیں آتا کہ یہ کون لوگ ہیں۔ آخر یہ چاہتے کیا ہیں؟ اگر یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کے عوام ان کے مذموم مقاصد کے آگے گھٹنے ٹیک دیں۔ تو یہ کبھی قبول نہ ہوگا۔ پاکستانیوں کو اسوقت یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ کس کے ساتھ ہیں۔ پاکستان کے ساتھ، یا انتہاپسندوں کے ساتھ۔ یہ لاشیں دیکھیں اور سوچیں کہ ہمیں کسطرف جانا ہے؟
میں کل شام ہی محب سے بات کررہا تھا۔ اور محب نے کہا کہ وزیرستان میں مرنے والے لوگ ہمارے اپنے ہیں اور فوج ہمارے اپنے لوگوں کو ماررہی ہے۔ تو میں نے محب سے کہا کہ ہمارے جو تین سو فوجی جوان انہوں نے یرغمال بنائے اس پر لوگوں کو کیوں دکھ اور فکر نہیں۔ میں یہ پوچھتا ہوں کہ آپ کس کے ساتھ ہیں؟ ان کے ساتھ جنہوں نے بم پھاڑ کے ڈیڑھ سو لوگوں کو آن واحد میں ہلاک کردیا۔ یا ہمارے ساتھ جو پاکستان میں جمہوریت، امن، انصاف، تعلیم اور ترقی دیکھنا چاہتے ہیں۔
کوئی کہتا ہے کہ بے نظیر فوج کو تباہ کرنے آرہی ہیں۔ جو کہ غلط ہے بے نظیر فوج کو بچانے آرہی ہے۔ کیونکہ ہر سچے پاکستانی کو اسوقت اپنے ملک کی فوج کے ساتھ ہونا چاہئے۔ قاتلوں سے ہتھیار ڈلوانے کے لئے اگر ہم متحد نہ ہونگے تو خانہ جنگی پورے ملک کو لپیٹ لے گی۔
سوچنے والی بات یہ ہے کہ یہ خوف کش حملے ابھی کیوںہو رہے ہیں۔ یہ بینظیر اور نواز شریف کے دور میں کیوںنہیںہوئے۔ ہمیں ان خود کش حملوں کی اصل وجہ معلوم کرنی پڑے گی تبھی یہ حملے روکے جاسکیں گے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ بلوچستان اور شمالی وزیرستان میںجنگ کس نے چھیڑی اور کیوں چھیڑی جس کی چنگاریاں اب کراچی تک محسوس کی جارہہی ہیں۔ ہم اس بات پر بھی متفق ہوں گے کہ مسائل کا حل جنگ نہیںبلکہ پرامن مذاکرات ہیںجو ہماری موجودہ نہیںکررہی۔ آئرلیند اور انگلینڈ کی جنگ ابھی پرانی نہیںہوئی۔ اس جنگ کا اختتام بھی تبھی ہوا جب ٹون بلیئر نے مذاکرات کا آغاز کیا اور پھر کہیںپچاس سالہ جنگ ختم ہوئی۔ جس طرحآئرش دھشت گردوں کو رام کیا گیا اور انہیں حکومت کا حصھ بنایا گیا اسی طرحہماری حکومت کو بھی پٹھانوں اور بلوچوں کے ساتھ مذاکرات کرنے پڑیں گے اور یہی دھشت گردی اور خود کش حملوں کو روکنے کا واحد طریقہ ہے۔ آج حکومت وزیرستان اور بلوچستان کی جنگ جو بیرونی طاقتوں کے کہنے پر شروع کررکھی ہے بند کردے تو خود کش حملے بھی رک جائیںگے۔
آپ یہ مت سمجھنا کہ ہم فوج کی بجائے دہشت گردوں کی حمایت کررہے ہیںہم تو خودکش حملوںکو روکنے کا حل پیش کررہے ہیں۔
میرا پاکستان صاحب، مجھے سمجھ نہیں آتی کہ یہ روٹ کاز یا مسئلے کی جڑ جس کا اتنا ذکر ہوتا ہے یہ کیا ہے۔ جو بھی ہے اس تک پہنچنے کے انتظار میں لوگوں کو مرتا تو نہیں چھوڑا جاسکتا۔
آپ مزاحمت کاروں سے مذاکرات کرسکتے ہیں۔ لیکن آپ خودکش بمباروں سے کیسے مذاکرات کرسکتے ہیں؟ مذاکرات اور فوجی ایکشن دونوں بیک وقت ضروری ہیں ہم مذاکرات سے بہت دور نکل آئے ہیں۔
حکومت جنگ ختم نہیں کرسکتی کیونکہ آپ اپنے علاقے کو طالبان بیس کیمپ نہیں بننے دے سکتے کیونکہ اگر ایسا ہوا تو آج نہیں تو کل انہی بیس کیمپس سے آپ کے ملک پر حملے ہونگے۔
حکومت میں شامل ہونے کا طریقہ بذریعہ ووٹ قبائلیوں نے پسند نہ کیا انہیں ہمیشہ اسپیشل اسٹیٹس عزیز رہا۔ لیکن جب تک انہیں قومی دھارے میں لایا جائے تب تک انہیں من مانیاں کرنے کے لئے نہیں چھوڑا جاسکتا۔
خودکش حملوں کو روکنے کا سب سے پہلا طریقہ میں آپ کو بتاتا ہوں۔ ان کی مذمت کرنا سیکھیں بجائے اس کے کہ روٹ کاز یا مسئلے کی جڑ کا ذکر کرکے حملہ آوروں کے لئے ہمدردی کا اظہار جتانے کی۔
آپ نے میرے لکھے کا غلط مطلب لے لیا۔ دنیا میں کوئی بھی ایسا شخص نہیںہو گا جو ان خودکش حملہ آوروں سے ہمدردی کرے گا۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ مذمت کرنے سے کیا یہ حملے رک جائیںگے۔ ہمیں حالات کو حقیقت کی عینک سے دیکھنا چاہیے اور یاد رکھیں یہ حملے صرف مذاکرات سے رک سکتے ہیں فوج کشی سے نہیں۔ حامد میر کا کالم آپ کی نظروں سے گزرا ہوگا جنہوں نے قبائلی علاقوں کا دورہ کیا اور بتایا کہ ان حملوں سے مزید خودکش حملہ آور تیار ہورہے ہیں۔
آپ کو یاد ہوگا جنرل ضیا کے زمانے میںبھی حملے ہوئے اور جب افغان جنگ ختم ہوگئی تو حملے بھی خٹم ہوگئے۔ اسی طرح مقبوضھ کشمیر میںجب دراندازی کم ہوئی تو خودکش حملے ختم ہوگئے۔
پتہ نہیںآپ فوج کشی کو مسائل کا حل کیوں سجمھتے ہیں۔ جنگ سے تبھی مسئلہ ہوتا ہے جب ہیروشیما اور ناگاساکی کی طرح شہر کے شہر تباہ کردیے جائیں۔ جس طرح کی جنگ ہم کررہے ہیں یہ کبھی ختم نہیں ہوگی۔
امریکہ کے اندر بھی 911 کے بعد تمام مسلمانوں کو نہ تو جلاوطن کیا گیا نہ قید۔ بلکہ تمام حکومتی مشینری نے مسلمانوں سے ملاقاتیں کرکے انہیں قائل کیا کہ یہ جنگ مسلمانوںکیخلاف نہیں بلکہ شدت پسندوں کے خلاف ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک سپر پاور اگر اپنے ملک کے حالات ٹھیک رکھنے کیلیے سختی کی بجائے نرمی سے کام لیتی ہے تو اس کی کوئی نہ کوئی وجہ تو ضرور ہوگی۔
آپ فوج کشی کی حمایت کرکے شارٹ کٹ ڈھونڈنے کی کوشش کررہے جو ٹھیک نہیں ہے۔ ہمیںایک نہ ایک دن مذاکرات کرنا ہی پڑیں گے۔
میرا پاکستان فوج کشی مسائل کا حل نہیں لیکن مذاکرات کے ساتھ قانون اور امن نافذ کرنے کے لئے آپریشن ضروری ہے۔
مذمت کرنے سے حملہ آوروں کی یہ غلط فہمی دور ہوگی کہ پاکستان کی عوام ان کے حملوں کو معمولی سا بھی جسٹیفائڈ سمجھتی ہے۔
جنگ ہم نہیں کررہے وہ لوگ ہم پر مسلط کررہے ہیں۔ یعنی انہیں من مانی کرنے دیں تو امن ورنہ ہمارے شہروں پر خودکش بمباروں کی یلغار۔
مذاکرات ہورہے ہیں لیکن وہ اسلئے کامیاب نہیں ہوتے کیونکہ اس میں پاکستان کی نمائندگی غیر جمہوری اور غیر سیاسی لوگ کرتے ہیں۔ مذاکرات تب کامیاب ہونگے جب یہ کام منتخب ادارے، منتخب لوگ اور عوامی نمائندے کریں۔ لیکن تب تک امن کے لئے فوجی کاروائی نہ صرف ضروری ہے بلکہ پاکستان کے شہریوں کی حفاظت کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس میں تیزی لائی جائے۔
یہ امریکی ایشو نہیں۔ یہ پاکستانی ایشو ہے۔ ہمارےعوام کی سلامتی اور ترقی کے لئے ضروری ہے کہ دہشت گردی اور انتہاپسندی کو ہر ممکن طریقے سے روکا جائے۔ اور ناکام بنایا جائے۔
آفرین ہے جیالوں پر اور ہزار نفرین ہو موت کے سوداگروں پر