NA 250 Karachi – حلقہ این اے دو سو پچاس کراچی

ہمارے علاقے میں انتخابی سرگرمیاں عروج پر ہیں۔ لیکن جماعت اسلامی کے بائیکاٹ کے باعث ایسا لگ رہا ہے جیسے ایم کیو ایم اکیلی الیکشن لڑ رہی ہے۔ پیپلز پارٹی نے جناب مرزا اختیار بیگ کو اس حلقے سے قومی اسمبلی کے لئے نامزد کیا ہے لیکن ان کا جیتنا تو درکنار ایسا لگتا ہے کہ وہ کوئی قابل ذکر ووٹ بھی حاصل نہیں کرپائیں گے۔ جماعت اسلامی کے بائیکاٹ کے سبب ایم کیو ایم کی فتح یقینی ہوچکی ہے۔ قومی اسمبلی کے پچھلے عام انتخابات میں ایم کیو ایم کی نائب کنوینر نسرین جلیل کو جماعت اسلامی کے عبدالستار افغانی کے ہاتھوں شکست کھانی پڑی تھی۔ اس کے بعد افغانی صاحب کے انتقال کے سبب منعقد ہونے والے ضمنی انتخاب میں ایم کیو ایم کے اخلاق حسین کو کامیابی حاصل ہوئی جس کی وجہ بلدیاتی حکومت کی تمام تر مشینری، مہنگی انتخابی مہم اور جماعت اسلامی کی عدم دلچسپی تھی۔ اب ایک بار پھر ایم کیو ایم نے اس حلقے سے ایک خاتون امیدوار کو نامزد کیا ہے۔

خوش بخت شجاعت ایک معروف ٹی وی کمپیئر، نعت خواں، ایک مہنگے پرائیویٹ اسکول کی بانی و ڈائریکٹر، آرٹس کونسل کی ایک فعال رکن اور نائب صدر رہی ہیں۔ ایم کیو ایم کے دیگر نامزد امیدواران کے برعکس شجاعت صاحبہ پہلے سے معروف ہیں۔ وہ اسی سال فروری میں پارٹی میں شامل ہوئی ہیں اور تب سے وہ پارٹی کے تمام جلسوں میں شرکت کرتی رہی ہیں۔ ان کے شوہر جناب شجاعت علی بیگ سندھ کے نگران وزیر تعلیم اور ایک معروف کاروباری شخصیت ہیں۔ ایم کیو ایم نے دوسری بار اس حلقے سے ایک خاتون کو نامزد کیا ہے جس کی وجہ غالبا ڈیفنس اور کلفٹن کے ووٹ ہیں۔

پیپلز پارٹی کے نامزد امیدوار ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ پچھلے عام انتخابات میں بھی پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر نامزد ہوئے تھے۔ وہ ایک معروف صنعتکار ہیں اور پچھلے دنوں ایمرجنسی کے خلاف جلوس میں گرفتار بھی ہوچکے ہیں۔ بینکنگ اور فنانس کے شعبوں میں خدمات پر وہ صدر پرویز مشرف سے گولڈ میڈل بھی حاصل کرچکے ہیں۔ پچھلے ضمنی انتخابات میں جب پیپلز پارٹی کے نفیس صدیقی اس نشست پر انتخاب لڑرہے تھے تو انہوں نے دھاندلی اور تشدد کی شکایات درج کرائی تھی۔ مرزا اختیار بیگ پہلے ہی چند پولنگ اسٹیشنز کو دھاندلی اور پرتشدد واقعات کے انسداد کے لئے حساس قرار دئیے جانے کا مطالبہ کررہے ہیں۔

میری والدہ کا ووٹ تو ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ کو ہی ملے گا۔ کامران کا ووٹ خوش بخت شجاعت کو۔ میرے والد یا تو ووٹ نہیں ڈالیں گے یا پھر مرزا اختیار بیگ کو صرف ایم کیو ایم مخالفت پر ووٹ دیں گے۔ میں کنفیوزڈ ہوں، کیوں کہ میرے خیال میں دونوں امیدواران کو علاقے کے مسائل کا کوئی خاص علم نہیں۔ لیکن دونوں ہی امیدوار مسئلے سلجھانے کی لیاقت رکھتے ہیں۔ دونوں ہی کا تعلیمی کیرئیر شاندار رہا ہے۔ دونوں ہی اپنا کام دلچسپی، جانفشانی اور محنت سے کرتے ہیں۔ خوش بخت شجاعت اس لحاظ سے بہتر امیدوار ہیں کہ وہ اس حلقے میں کئی ایسے کام کراسکتی ہیں جو پہلے نہیں ہوئے۔ جیسے ایک سرکاری ہسپتال کی تعمیر، آرٹس کونسل اور قومی میوزیم کو فنڈز کی فراہمی، شہری کی علمی، ادبی اور ثقافتی زندگی کی ترقی اور ترویج کے اقدامات۔ خوش بخت سے ہم یہ امید کرسکتے ہیں کہ وہ خواتین کے حقوق، ان کے خلاف امتیازی قوانین، اور ان کے مسائل کو زیادہ بہتر انداز میں اجاگر کرسکیں گی۔ گرچہ میں ایم کیو ایم کو ووٹ نہیں دینا چاہتا مگر اب میرے لئے فیصلہ کرنا مشکل ہورہا ہے۔ ایک اچھے امیدوار کو ووٹ دیں یا ایم کیو ایم کو سزا دینے کے لئے مرزا اختیار بیگ کو ووٹ دیں؟ میرے خیال میں کراچی کے تمام حلقوں میں جہاں جماعت اسلامی کا اثر ہے وہاں ووٹر کو اسی شش و پنج کا سامنا کرنا ہوگا۔ یا تو وہ اپنا حق رائے دہی استعمال نہ کریں، جو کہ ایک بڑا اخلاقی جرم اور قومی فرض سے تغافل ہے۔ یا پھر ایم کیو ایم کو روکنے کے لئے پیپلز پارٹی کے امیدواروں کو ووٹ دیں۔

تبصرے:

  1. آہ میرے بھائی،
    ووٹ نہ ڈالنا اخلاقی جرم ہے تو چوروں، لٹیروں اور غنڈوں کو چوری، لوٹ مار اور غنڈہ گردی کا موقع دینا کیا ہے؟ اگر کل کو تمام جماعتیں اپنے ٹکٹ گدھوں، گھوڑوں اور بندروں کو دے دیں تو کیا پھر بھی ہم پر ووٹ ڈالنا لازم ہو گا؟
    یہ تمام امیدوار بیشک اچھے انسان ہونگے پر بات جب پارٹی سیاست کی آتی ہے تو اس حمام میں سب ننگے ہو جاتے ہیں۔ جماعت کی پالیسی ملک کی پالیسی سے مقدم ٹھہرتی ہے اور اپنے اصول پارٹی کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ خیر دیکھتے ہیں۔۔۔۔

  2. بھائ نعمان۔ آپ ایک سمجھدار انسان ہیں۔ آپ نے اپنی تحریر میں جن بنیادی ضروریات کی فراہمی کا ادراک کیا ہے وہ بھا ئ فیصل کے مطابق واقعی گدھوں، گھوڑوں اور بندروں کے بس کی بات نہیں کہ مہیا کر سکیں۔ فلحال تو آپ اپنی ضمیر کی آواز پر لبیک کہیں۔ آیندہ اگر کبھی آپ کے علاقے سےکوئ گدھا، گھوڑا ے یا بندروں خدانہ خواستہ کھڑے ہوں تو بے شک اعتراض کیجئے گا۔ اللہ نے انسان کو حواس خمسہ اس لیے نہیں دئیے ہیں کہ وہ انہیں استعمال نہ کرے۔ سمجھدار انسان حب علی کی بات کرتے بغض معاویہ کی نہیں۔ ہم اور آپ اس بات پر اپنے اللہ کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے کہ ہم اپنے ووٹ کا حق رکھتے ہیں۔ ایسے کوئ ان سے پوچھے جو اس سے نا بلد ہیں۔ آپ اپنا حق ضرور استعمال کریں۔ اور صحیح جگہ استعمال کریں۔ اور ایسے لوگوں کو منتخب کریں جو آپ میں سے ہوں، آپ کی پہنچ میں ہوں اور جو کام کرنا اور کام آنا جانتے ہوں “ صرف لوٹنا نہ جانتے ہوں“۔

  3. ہم اور آپ اس بات پر اپنے اللہ کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے کہ ہم اپنے ووٹ کا حق رکھتے ہیں۔ ایسے کوئ ان سے پوچھے جو اس سے نا بلد ہیں۔ آپ اپنا حق ضرور استعمال کریں۔ اور صحیح جگہ استعمال کریں۔ اور ایسے لوگوں کو منتخب کریں جو آپ میں سے ہوں، آپ کی پہنچ میں ہوں اور جو کام کرنا اور کام آنا جانتے ہوں “ صرف لوٹنا نہ جانتے ہوں“۔

  4. فیصل ایسے بھی انسان ہیں جو پارٹی سیاست کو ذاتی اصولوں پر مقدم سمجھتے ہیں۔ جیسے ایم کیو ایم ہی کے ڈاکٹر عامر لیاقت حسین جنہوں نے لال مسجد کے ایشو پر وزارت سے استعفی دے دیا اور ن کی جماعت نے اس سال انہیں ٹکٹ بھی نہیں دیا۔ شرافت اور دیانت کسی خاص گروہ کی جاگیر نہیں۔ برے لوگوں کے ساتھ اچھے لوگ بھی ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔ لیکن چونکہ ہم جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں اور ملک میں ایک اچھا نظام دیکھنا چاہتے ہیں تو یہ بات از بس ضروری ہے کہ ہم ووٹ کے حق کا استعمال کریں اور اپنا ووٹ صحیح امیدواروں کو دینے کی کوشش کریں۔

    فرمان الحق صاحب تبصرے کے لئے بہت شکریہ۔ میرے خیال میں اس میں قصور فیصل کا نہیں اس پروپگینڈے کا ہے جو پاکستان کے عوام کے دلوں میں بٹھادیا گیا ہے کہ منتخب نمائندے کرپٹ ہوتے ہیں اور ووٹ دینا ایک فضول مشق ہے۔ جو سراسر جھوٹ کا پلندہ ہے۔ جمہوریت کا تسلسل ہی ایک مستحکم ریاست کی ضمانت ہے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم خود پر اعتماد کریں اور جمہوری عمل میں اپنا فرض ادا کریں۔

  5. عامر لیاقت کی تو آپ بات ہی نہ کریں:
    لنک
    باقی رہی بات آپکے یہ کہنے کی کہ میں ہر منتخب نمائندے کو کرپٹ سمجھتا ہوں تو اسکا جواب تو میںپہلے ہی دے چکا ہوں کہ میں ایسا نہیں سمجھتا۔
    آخری بات یہ کہ آخر آپ الیکشن کو ہی جمہوریت کیوں سمجھتے ہیں، یہ تو ایک جزو ہے جمہوریت کا، جو مجموعہ ہے ایک خاص قسم کے رویوں کا۔ صرف الیکشن کروا کر جمہوریت حاصل نہیں ہو سکتی۔ جمہوریت نام ہے شخصی آزادیوں کا، ٹرانسپیرنسی کا، مضبوط عدالتوں کا اور ہم سب کے اس رویے کا کہ ہم دوسروں کی آزادی کو کتنا مقدم رکھتے ہیں۔ خیر کچھ ہی دنوں کی بات ہے، دیکھ لیتے ہیں۔۔۔

    (تبصرہ کلیریٹی کے لئے ایڈیٹ کیا گیا ہے۔ بلاگ ایڈمنسٹریٹر) ۔

  6. فیصل سپریم کورٹ آف پاکستان سے بھی بالاتر ایک ادارہ ہے وہ ہے پارلیمنٹ۔ شخصی آزادیوں کی ضمانت وہی آئین دیتا ہے جو یہ پارلیمینٹ بناتی ہے۔ آپ ایک ادارے کو بچانے کے لئے دوسرے ادارے کو برباد نہیں کرسکتے۔ لولی لنگڑی ہی سہی لیکن پارلیمان ہی جدوجہد آزادی عدلیہ کا صحیح اکھاڑہ ہے۔ آپ اپنی آزادیوں کو یقینی بنانے کے لئے ہی ووٹ دیتے ہیں۔ پارلیمنٹ کا کام محلوں کے گٹر کھلوانا یا گھر گھر میٹھے پانی کا نلکا لگوانے سے زیادہ اہم ہے۔ اس اتنے اہم کام کے لئے اگر آپ اپنے نمائندے منتخب نہیں کریں گے تو آمروں کے لئے میدان کھلا رہے گا۔

    میں یہ سمجھتا ہوں کہ جمہوری عمل کے تسلسل سے پارلیمینٹ مضبوط ہوتی جائیگی اور اتنی طاقت حاصل کرلے گی کہ ہم تہتر کے آئین کو اس کی صحیح شکل میں واپس لا سکیں۔

  7. میری کمزور معلومات کے مطابق تو عدلیہ اور مقننہ دو متوازن ادارے ہیں اور ایک کو دوسرے پر کوئی برتری حاصل نہیں۔ دونوں کے اپنے اپنے کام ہیں اور ایک کو دوسرے کے کام میںمداخلت کی بھی کوئی اجازت نہیں۔ تیسرا ادارہ انتظامیہ ہے جسکا سربراہ صدر ہوتا ہے، اسکی ٹیم سول بیوراکریسی، فوج، پولیس، اور دوسرے ملازمین پر مشتمل ہوتی ہے۔

  8. فیصل آپ کی معلومات درست ہیں۔ لیکن سپریم کورٹ آف پاکستان انہی قوانین کی تشریح کرنے کا حق رکھتا ہے جو یہی پارلیمان بناتی ہے۔ لحاظہ عدالتوں کی آزادی کے لئے ایک آزاد پارلیمنٹ ضروری ہے۔ ایسا ادارہ جسے پاکستان کے عوام نے منتخب کیا ہو اور جو اٹھاون دو بی کے خوف سے آزاد ہو۔ ایسا ادارہ جس پر فوجی جرنیل شب خون نہ مارتے ہوں۔

    آپ خود بتائیں اگر مشرف کے پسندیدہ ممبران منتخب ہوجاتے ہیں تو کیا ایک ایسی پارلیمنٹ وجود میں نہیں آجائے گی جو آئین کا حلیہ آسانی سے بگاڑ سکتی ہو؟ پھر عدلیہ کی آزادی کی کیا اہمیت رہ جائیگی؟ جب حکمران عدلیہ کی آزادی کو ایک نام نہاد پارلیمان کے پیش کردہ قوانین سے لگام دئیے رکھیں گے۔ یوں اقتدار کو بھی دوام ملے گا اور یہ سب کام پاکستان کے عوام کو ان ووٹوں کے نام پر ہوگا جو انہوں نے کاسٹ ہی نہیں کرے۔

    اسلئے ضروری ہے کہ پارلیمنٹ میں عوامی نمائندے پہنچیں تاکہ آئین کو مزید چرخے نہ لگائے جاسکیں۔ اور اسی لئے ضروری ہے کہ ہم آٹھ جنوری کو ووٹ کا حق استعمال کریں۔ ایک ایک ووٹ جو قانون کی بالادستی کے نام پر ڈالا جائیگا وہ آمروں کے منصوبوں پر پتھروں کی طرح پڑے گا۔ اور پھر اب تو وکلا ایکشن کمیٹی نے بھی نو منتخب پارلیمنٹ کو تین ہفتوں کی مہلت دینے کا اعلان کیا ہے۔ کیا اس سے آپ کو نہیں لگتا کہ عدلیہ کی آزادی کی تحریک میں آئندہ منتخب ہونے والے نمائندوں کا کتنا اہم کردار ہوگا؟

    اگر کوئی بھی شخص اپنے ملک سے محبت کرتا ہے۔ تو اسے چاہئے کہ وہ جذباتی باتوں، پرتشدد انقلاب کی خواہشوں اور مایوسی سے نکلے اور وہ راستہ اپنائے جو قائداعظم نے اپنایا تھا یعنی غیرمتشدد قانونی، آئینی اور عوامی فتح کا راستہ۔ اور اس راستے میں ووٹ ڈالنا پہلا قدم ہے۔

Comments are closed.