امید کا فسانہ

امید آزادی ایک ایرانی بلاگر ہیں جو فارسی اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ ان دنوں یہ امریکی شہر اٹلانٹا کے ایک ہائی اسکول کے طالبعلم ہیں۔ انہوں نے شہید جمہوریت محترمہ کے بیٹے بلاول کے بارے میں ایک افسانہ لکھا ہے۔ یہ افسانہ جس کا عنوان بلاول کا جنون ہے امید نے اپنی ورلڈ لٹریچر کلاس میں پیش کرنے کے لئے لکھا تھا۔ امید ایک انتہائی ذہین اور سمجھدار نوجوان ہیں۔ اس کا اندازہ مجھے ان کے ساتھ ای میلز کے تبادلے کے بعد ہوا۔ وہ اپنے افسانے میں بلاول کا انجام بھی اس کی ماں جیسا ہی دکھاتے ہیں جو مجھے نامناسب لگا میرا خیال تھا کہ اس سے بہتر اختتام یہ ہوتا کہ بلاول وزیر اعظم ہاؤس میں حلف اٹھانے کے بعد اعلان کرتا کہ اس نے اپنی ماں کا انتقام لے لیا۔ امید کا کہنا ہے:

میری پیشن گوئی میرے ذاتی تخیل یا بغض پر مبنی نہیں بلکہ کچھ سماجی اور تاریخی حقائق ہیں جن پر میں ہمیشہ اپنے ملک، ایران میں پیش آنے والے حالات کی وجہ سے اعتماد کرتا ہوں۔ سوشیولوجیکلی، جمہوریت ایک اچانک رونما ہونے والا انجام نہیں بلکہ منظم معاشرتی تبدیلیوں کا نتیجہ ہوتا ہے جن سے پاکستان نہیں گزرا۔ اپنے ملک کے تجربات کی روشنی میں، میں پاکستان کی جمہوری تحاریک کے بارے میں ایسا سوچتا ہوں۔ یہ میری پیشن گوئی ہے جو میں امید کرتا ہوں کہ سچ ثابت نہ ہو لیکن میں محسوس کرتا ہوں کہ بھٹو کی تحریک تقریبا انہی وجوہات کی وجہ سے ناکام ہوجائیگی جن کی وجہ سے پچاس سال قبل مصدق کی تحریک ناکام ہوگئی تھی۔

میری رائے ابھی بھی امید سے مختلف ہے، لیکن اس کی اس دلیل میں وزن ہےکہ جمہوریت کو اپنانے کے لئے معاشرے کو جن تبدیلیوں سے گزرنا پڑتا ہے ان سے گزرے بغیر پاکستان جمہوریت اپنانے میں ناکام رہے گا۔ ہمارے معاشرے کا تعلیم یافتہ مڈل کلاس طبقہ جمہوریت کو ایک فضول خیالی پلاؤ تصور کرتا ہے۔ کبھی اس طبقے کے مفاد میں ہو تو اس پلاؤ کی دیگیں چڑھائی جاتی ہیں، جج بحال کرائے جاتے ہیں پتھراؤ کرے جاتے ہیں۔ اور کبھی جب ان کے مفاد میں ہو تو یہ ہر غیرقانونی کام پر خاموش رہتے ہیں اور شور نہیں مچاتے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر جدوجہد کرنی ہے تو ہمیں اپنے معاشرے میں کرنا ہوگی جو جمہوریت کی راگنی تو الاپتا ہے لیکن اسے اپنانے کو پوری طرح تیار نہیں۔

تبصرے:

  1. کسی بھی تبدیلی کیلئے مڈل کلاس کی شمولیت ضروری ہے، جب تک یہ طبقہ گھروں میں بیٹھا رہیگا، کم از کم اندرونی تبدیلی تو نہیں آ سکتی۔ اور یہ طبقہ اسوقت تک بیٹھا رہیگا جب تک کوئی غیر معمولی قیادت سامنے نہیں آتی یا بہ صورت دیگر لوگوںکو زندگی کی بہت ہی بنیادی اشیا دستیاب رہتی ہیں۔

Comments are closed.