دنیا بھر میں ویلنٹائن ڈے منایا جارہا ہے۔ کراچی میں پھولوں، تحائف اور ویلنٹائن کارڈز کی فروخت زوروں پر ہے۔ خود راقم نے۔ آہم آہم۔۔۔
تاہم چند ایسے بھی لوگ ہیں جنہیں محبت کرنے والے لوگ بالکل پسند نہیں۔ وہ آدمی اور عورت، لڑکا اور لڑکی کے درمیان محبت کے اظہار کو مغربی تہذیبی یلغار سمجھتے ہیں۔ ان لوگوں کے عزائم انتہائی جارحانہ ہیں۔ اور نعمان وقتا فوقتا اپنے بلاگ کے قارئین کی توجہ ان کی طرف مبذول کراتا رہتا ہے تاکہ لوگ ان عناصر سے چوکنے رہیں۔
چوکنے رہنے پر یاد آیا کوئی دو روز قبل ٹیلیویژن پر نیوز چینلز نے یہ سلائیڈ چلائی کہ دو مشتبہ خود کش بمبار جن کا تعلق وزیرستان سے ہے وہ کراچی پہنچ چکے ہیں۔ شہر بھر میں سیکیوریٹی انتہائی سخت کردی گئی۔ افواہیں یہ اڑنے لگیں کہ ان میں ایک بمبار ساٹھ سال کی عمر کا قبائلی بوڑھا جس نے براؤن جیکٹ پہن رکھی تھی اور اسے چادر سے چھپا رکھا تھا۔ اس نے ایک کار سوار سے لفٹ لی۔ پھر کار سوار کو اپنی خودکش جیکٹ دکھائی اور اس سے گورنر ہاؤس والی سڑک پر چلنے کو کہا۔ کار سوار اپنی جان خطرے میں ڈال کر اسے سارے شہر میں گھماتا رہا۔ تنگ آکر اس بوڑھے نے خود ہی کار سے اترنے کا فیصلہ کرلیا۔ کار سوار فورا سی پی ایل سی گورنر ہاؤس پہنچا اور اس نے مشتبہ بمبار کا خاکہ بنوایا۔
اپڈیٹ: یہ افواہ نہیں بلکہ سچی خبر نکلی
اس افواہ میں کئی جھول ہیں مسئلا یہ کہ کراچی شہر میں کوئی کسی اجنبی کو رات کے وقت لفٹ کیوں دے گا۔ دوسری بات خودکش بمبار گاڑی چھیننے کے بجائے لفٹ لینا کیوں پسند کرے گا؟ لیکن بہر حال اس سے شہر بھر میں سیاسی کارکن ڈرے رہے اور وہ ایسے تمام پختونوں کو مشکوک نظروں سے دیکھتے رہے جنہوں نے جیکٹ پہن رکھی ہو یا چادر لپیٹ رکھی ہو۔
تو آپ کے خیال میں شرعی رشتےکے خیر موجودگی میں محبت کی تازہ تعریف پر عمل کیا جانا ہی محبت ہے؟ جس میں آج کی نوجوان نسل منتلا ہوتی جا رہی ہے؟؟
تازہ تعریف سے آپ کی کیا مراد ہے؟
اگر کوئی لڑکا لڑکی آپس میں پیار کرتے ہیں اور شادی کا ارادہ رکھتے ہیں تو میرے خیال میں اس میں کوئی ہرج نہیں۔ یہ میری رائے ہے جو کہ یقینا غیر شرعی بھی ہوسکتی ہے۔
اور اگر یہ غیرشرعی بھی ہے تو میں نہیں سمجھتا کہ کسی کو بھی یہ اختیار ہونا چاہئے کہ وہ لوگوں کو بزور شریعت پر عمل پیرا ہونے پر مجبور کرے۔
آپ کے جواب کے بعد کسی دینی حوالے سے بات کرو گا تو لازم وہ کوئی اثرپزیر نہ ہو گی!!
کسی کا آپس میں شادی کا ارادہ کا جہاں تعلق ہے وہ قابل اعتراض نہیں! مگر میں نے ایسا جذبہ جوڑوں میں کم ہی دیکھا ہے! وہ محبت کے دھوکے میں ہوس کے پجاری بنے ہوتے ہیں!! سٹی کورٹ میں والدین کی مرضی کے بغیر کورٹ میرج کرنے والوں میں ساتھ فیصد وہ لوگ ہوتے ہیں جو اس خوف سے آتے ہیں کے وہ تمام “حدود“ کو پار کرچکے ہوتے ہیں! اور قریب20 فیصد کو معلوم ہوتا ہے کہ اُس کے بہکنے کا نتیجہ کس مرحلے میں ہے!! باقی کسی حد تک مخلص ہوتے ہیں!!
اب یہ وہ دن بن جاتے ہیں جب تحفہ کے ساتھ کورٹ میرج کا وعدہ تحفہ میں “کس“ اور پھر اس سلسلے میں مزید پیش رفت!!
یہ باتیں میں کورٹ میں روزانہ آنے والے جوڑوں سے گفتگوں کی بنیاد پر کر رہا ہوں!!
پاکستان اور انڈیا میں ویلنٹائن کا جو انداز ہے ویسا بہرحال یہاں امریکہ میں نہیں ہے، نہ ہی کوئی شور شرابہ نہ ہی ٹی وی پر ویلنٹائن کے خصوصی شو وغیرہ ۔
اور کراچی میں ، میں خود رات کو کئی دفعہ لفٹ لے چکا ہوں۔
“پاکستان اور انڈیا میں ویلنٹائن کا جو انداز ہے ویسا بہرحال یہاں امریکہ میں نہیں ہے، نہ ہی کوئی شور شرابہ نہ ہی ٹی وی پر ویلنٹائن کے خصوصی شو وغیرہ ۔
“
murda bolay kafan phaaray 🙂
ویلنٹائن کا ابھی تازہ تازہ بخار چڑھا ہے ہمیں۔ دس بارہ سال کے بعد اس کے رنگ ڈھنگ بھی بدل جائیں گے اور میڈیا کو بھی سکون آجائے گا۔
اور اگر یہ غیرشرعی بھی ہے تو میں نہیں سمجھتا کہ کسی کو بھی یہ اختیار ہونا چاہئے کہ وہ لوگوں کو بزور شریعت پر عمل پیرا ہونے پر مجبور کرے۔
————————————————-
ذرائع ابلاغ کو یہ دن لوگوں پر مسلط کرنا کا کیا اختیار ہے۔ اور کیا یہ امر واقع نہیں کہ ذرائع ابلاغ کے ویلینٹائن دن کو اچھالنے سے پہلے اس کا تصور پاکستانی معاشرہ میں نہیں تھا۔
مزید یہ کہ ہم ہر چیز دوسروں سے لیتے ہیں۔ لنڈے کے طور پر ۔ یہ کبھی بند ہوگا یا ساری زندگی منگتا ہی رہنا ہے۔
مجھے ڈر ہے کہ اگر مغرب نے کوئی ایسا دن منانا شروع کر دیا جس دن اپنے والدین کو گھروں سے ایک دن کیلیے نکال دیا جائیگا تو ہم بھی اگلے سالوں سے اسے بھی وطیرہ بنا لینگے۔
واقعی ہمیں لنڈے کی عادت ہو چکی۔ ایک ندیدی قوم کی اس سے بڑھ کر اوقات ہو بھی کیا سکتی ہے۔
میرے خیال میں انسانی تہذیبوں کا یہ طریقہ رہا ہے کہ قومیں جو زیادہ ترقی یافتہ ہوتی ہیں ان کی روایات، کلچر، زبان اور ثقافت دوسری قوموں پر اثرانداز ہوتا ہے۔ یہ ایک نیچرل پروسس ہے اور مجھے نہیں لگتا کہ اس کے اعتراف میں کسی کو شرم آنی چاہئے۔ اور میڈیا کا کام ہے اشتہار بیچنا۔ اگر وہ یہ تہوار نہیں بنائیں گے تو کس طرح لوگوں کو فضول خرچی پر راغب کیا جائے گا۔
ویسے بھی ویلنٹائن ہر کوئی ہی تو نہیں مناتا۔ جنہیں اپنی مشرقی روایات عزیز ہیںوہ بے شک نہ منائیں۔ اوہ ویسے جہاں تک میرا خیال ہے محبت کرنا تو مشرقی روایت ہے یا اسے بھی آپ لوگ غیرشرعی فعل تصور کرتے ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جس طرح منانے والے لوگوں کو نہ منانے والوں کو مجبور کرنے کا اختیار نہیں ایسے ہی کسی نہ منانے والے کو دوسرے لوگوں کی زندگی میں ٹانگ اڑانے کا اختیار نہیں ہونا چاہئے۔
مجھے نہائت افسوس کے ساتھ یہ لکھنا پڑ رہا ہے کہ آپ کو شاید خود معلوم نہیں کہ آپ کہنا کیا چاہ رہے ہیں اور کہہ کیا رہے ہیں ۔ شعیب صفدر صاحب نے آپ کو حقیقت کی ایک ہلکی سی جھلک دکھائی ہے ۔ آپ صحافی اور مصنّف ہیں ۔ تحقیق کیجئے اور حقائق زیرِ قلم لایئے ۔ یہ قومی خدمت ہو گی ۔