بھلے دنوں کی یاد

wapda_vs_kesc.gif

آتا ہے یاد مجھ کو وہ گزرا ہوا زمانہ کہ جب ہمارے گھر میں دن کے وقت بھی ٹیوب لائٹیں جلا کرتی تھیں۔ جب ہم ہر وقت انٹرنیٹ استعمال کرسکتے تھے۔ ہماری ماسی جس دن اس کا موڈ ہوتا واشنگ مشین لگالیتی تھی۔ ہم استری شدہ کپڑے پہنا کرتے تھے۔ اور تمام فارغ وقت امی کی دھمکیوں کے باوجود ایرکنڈیشنر بند نہ کرتے تھے۔ آہ وہ بھی کیا دن ہوا کرتے تھے۔

اب تو یہ عالم ہے کہ دن میں ہر چار گھنٹے بعد دو گھنٹے بجلی غائب۔ جلدی جلدی نیٹ یوز کرتے ہیں۔ کچھ لکھیں تو ہر ساٹھ سیکنڈ بعد محفوظ کرتے جاتے ہیں۔ پانی کی موٹر چلا کر جلدی جلدی ٹنکیاں بھرتے ہیں۔ ماسی بھی بجلی دیکھتی ہے تو فورا واشنگ مشین لگالیتی ہے۔ کسی کو کپڑے استری کرنا یاد آتا ہے تو کسی کو اپنا پسندیدہ ٹی وی پروگرام۔

موسم ابھی اتنا گرم نہیں ہوا اور ہم کراچی والے سوچ رہے ہیں کہ گرمیاں کیسے گذاریں۔ جبکہ احباب یو پی ایس، گیس کے جنریٹر اور اس قسم کی چیزیں خرید رہے ہیں۔ میں سوچ رہا ہوں کہ اپنے کمرے کی چھت پر رسی سے چلنے والا پنکھا لگوالوں۔ آپ نے شاید یہ کسی پرانی فلم میں دیکھا ہو۔ اس میں ایک ہاتھ سے بنا ہوا بڑا سے پنکھا چھت سے لگا ہوتا ہے اور ڈوری کھینچیں تو چلتا ہے۔ موم بتی کی روشنی کا جو رومانی تاثر ہے وہ یقینا اس پنکھے سے دوبالا ہوجائے گا۔ فوم کے گدوں کی جگہ چارپائیاں ڈال لیتے ہیں کہ وہ زیادہ ٹھنڈی ہونگی۔ اور پرانی وضع کے اونچے ململ کے کرتے سلوالیتے ہیں۔ کیسا مزہ آئے گا جب ہمارا کمرہ شمعوں سے جگمگائے گا، ہاتھ سے چلنے والا پنکھا ہوگا اور ہم سفید براق کپڑوں میں ملبوس کھری چارپائیوں پر لیٹے۔ ہاتھ میں کاغذ قلم تھامے اپنے بلاگ کی اگلی پوسٹ لکھ رہے ہوں گے۔ زبردست۔

میری دادی مرحومہ بہت پرانے دنوں کے قصے سناتی تھیں تو بتایا کرتی تھیں کہ گرچہ آس پاس کے تمام محلے میں بجلی موجود تھی مگر ان کے گھر تک نہیں پہنچی تھی تو وہ لالٹین کے روشنی میں رات کا کھانا کھایا کرتے تھے۔ میری دادی اکثر گرمیوں میں بھی بغیر پنکھے کے ہی سویا کرتی تھیں کہ پنکھے کی ہوا سے ان کے جسم میں درد ہوجاتا تھا۔ ہمیں یاد نہیں ہم نے انہیں کبھی رنگین کپڑے پہنے دیکھا ہو۔ ہمیشہ وہی ایک جیسے سفید کرتے جن پر الگ الگ طرح کے سونے کے بٹن لگے ہوتے تھے۔ یہ بٹن بڑی عزت اور وقار کی علامت تھے اور میری دادی کی متاع حیات تھے۔ یہ بٹن انہیں بیتے دنوں کی یاد دلاتے تھے (میری دادی کے انتقال کے بعد ان بٹنوں کی گمشدگی اور ان پر ہونے والی لڑائیاں الگ موضوع ہیں کبھی یاد دلائیے گا تو یہ قصہ بھی سناؤں گا)۔ اور سفید چوڑی دار پاجامہ جیسے دیکھ کر میں اکثر سوچتا تھا کہ یہ کیسے پہنا جاتا ہوگا۔ مجھے یہ تجربہ اپنی روزہ کشائی کے دن ہوا جب میں نے پہلی بار چوڑی دار پاجامہ پہنا تب مجھے احساس ہوا کہ میری دادی روزانہ کتنی سخت مشقت انجام دیتی ہیں۔ ان کے ہاتھ اور پیر سردی ہو یا گرمی ہمیشہ مہندی سے رنگے ہوتے تھے۔ ان کے سر کے تمام بال سفید تھے جن پر وہ کبھی مہندی نہیں لگاتی تھیں۔ حالانکہ ان کے شوہر زندہ سلامت تھے۔ مگر وہ سمجھتی تھیں کہ اب چونکہ وہ بوڑھی ہوگئی ہیں تو انہیں ایسی ہی وضع اختیار کرنی چاہئے۔ اللہ انہیں جنت بخشے بڑی نیک عورت تھیں۔ بڑی صابر اور سدا کی شکرگزار۔

میں سوچتا ہوں کہ میں بھی اپنے پوتوں کو کچھ ایسے ہی قصے سنایا کروں گا۔ ان دنوں کے کہ جب ہمارے گھر میں ٹیوب لائٹیں جلا کرتی تھیں۔ جب ہم ٹی وی دیکھتے ہوئے کھانا کھایا کرتے تھے۔ جب ہم ڈی وی ڈی پر فلمیں دیکھا کرتے اور انٹرنیٹ پر بلاگ لکھا کرتے تھے۔ اور ہمارے گھر میں اتنے آلات بجلی تھے جتنے اب قومی عجائب گھر میں بھی نہیں۔

کارٹون: روزنامہ جنگ کراچی ایڈیشن ۱۱ مارچ ۲۰۰۸

تبصرے:

  1. ہمارے حال پر رحم کیجئے کہ بجلی کو بار بار یاد نہ کیا کیجئے ۔ اِدھر کسی نے یاد کیا اُدھر بجلی غائب ۔ میں نے آپ کا بلاگ کھول کر پڑھنا شروع ہے کیا تھا کہ بجلی پھُر ہو گئی اور ڈیڑھ گھنٹے بعد بحال ہوئی ہے ۔ یہ روزانہ کی منصوبہ بندی کے علاوہ ہے ۔ میں تو سوچ رہا تھا کہ آپ کے پوتے پوتیاں پوچھیں گے "دادا ابُو ۔ یہ بجلی کیا چیز تھی ؟ بڑی تعریفیں لکھی ہیں اس کی ہماری کتاب میں”

  2. عمہدہ کیا صاحب ! بہت ہی عمدہ ۔ مگر نعمان بھیا اپنی خیر منایئے ، اگر کے ایس سی والوں نے پڑھ لیا تو گھر کی بجلی ہی کاٹ دیں گے ۔

  3. اسلام علیکم،
    آپ کا لکھنے کا انداز بہت اچھا ہے۔
    اللہ کرے کم از کم بجلی ہماری زندگی میں ناپید نہ ہو ۔

  4. میرا خیال ہے کہ رہائشی علاقوں میں لوڈ شیڈنگ زیادہ ہورہی ہے فی الحال۔ جن دنوں دفتر میں ہوتا ہوں، لوڈ شیڈنگ سے کم ہی واسطہ پڑتا ہے لیکن اگر گھر پر ہوں تو برا حال ہوجاتا ہے۔ کرتے تو میں نے پچھلی گرمیوں ہی میں سلوالیے تھے اور اب امی کہہ رہی ہیں کہ ایک دو مزید بنوالو کہ گرمیاں شروع ہونے والی ہیں۔۔۔ اگر یہی حال رہا تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ کراچی میں گزارا کس طرح ہوسکے گا؟
    دوسری طرف گرمیوں کی شدت بھی ہر آنے والے سال میں بڑھتی ہی جارہی ہے۔ ابھی مارچ ختم نہیں ہوا اور لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ چھ گھنٹے ہے۔ جب ہم اپریل اور مئی گزار کر جون، جولائی میں پہنچیں گے تو شاید 12 گھنٹے وصلِ برق اور 12 گھنٹے فرقتِ برق میں گزریں گے۔

  5. راہبر ۔ کل کسی نے کے ای ایس سی کا حب سے آنے والا بجلی کا ٹاور اڑادیا اور اچانک ان کے ایک پاور پلانٹ نے بھی کام کرنا بند کردیا۔ ہماری طرف تو حالات بہت خراب ہیں۔

Comments are closed.