کچھ لوگوں کو خوشامد بڑی پسند ہوتی ہے۔ اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو خوشامدیوں کو بہت پسند ہوتے ہیں۔ مسلم لیگ نواز گروپ کے سربراہ نواز شریف کو خوشامد پسند ہو کہ نہ ہو، مگر خوشامدیوں کو وہ بہت پسند ہیں۔ وہ جب بھی اقتدار میں آتے ہیں تو اخبارات ان کے جانثاروں کی بڑھکوں سے سجے نظر آنے لگتے ہیں۔ نذیر ناجی صاحب ان کے پچھلے ادوار میں ان کی بڑی توصیف کیا کرتے تھے اور ایک عطاالحق قاسمی صاحب۔ ناجی صاحب تو سکہ بند صحافی لوٹے ہیں جو اکثر طاقت کے توازن کی طرف لڑھکتے رہتے ہیں۔ لیکن قاسمی صاحب نواز شریف کے ایک دیرینہ جانثار حمایتی ہیں۔ وہ ایک کالم نویس اور مشہور مزاح نگار بھی ہیں۔ موصوف نواز شریف کی پچھلی حکومت میں ناروے کے سفیر رہ چکے ہیں۔ ان کے کالم انتہائی جانبدارانہ ہوتے ہیں۔ مجھے ان کے لکھنے کا انداز بہت پسند ہے۔ لیکن کبھی کبھی وہ اپنے پسندیدہ لیڈر کی حمایت، تعریف اور توصیف میں زمین آسمان کے قلابے ایسے ملاتے ہیں کہ پڑھنے والے کو شرم محسوس ہونے لگتی ہے کہ وہ اس عظیم الشان لیڈر کا حامی کیوں نہیں ہے۔ ایسا کرتے وقت بعض اوقات ان کی زبان عامیانہ ہوجاتی ہے اور وہ صحافتی اخلاقیات اور اردو زبان کی روایتی شائستگی اور شگفتگی کو بھی یکسر نظر انداز کردیتے ہیں۔
ہوا یوں کہ صدارتی ترجمان راشد قریشی صاحب نے بیان جاری کیا کہ:
۔نواز شریف کے علاوہ کسی سے بھی پوچھ لیا جائے سب کہتے ہیں کہ وہ صدر کے ساتھ کام کرنے کیلئے تیا ر ہیں۔اس لیے نواز شریف کو بھی کوئی تکلیف نہیں ہونی چاہیے۔
جس پر نواز شریف نے جوابی بیان داغا کہ:
صدارتی ترجمان حیثیت دیکھ کر بات کریں۔ آمریت دفن کرنے کیلئے جلد قانون سازی کرنا ہوگی.
اگر حیثیت کی بات ہورہی ہے تو نواز شریف پر یہ بات واضح ہونی چاہئے کہ وہ عوامی نمائندے ہیں کوئی شہنشاہ نہیں کہ جس کی حیثیت تنقید سے بالاتر ہو۔ یہ نیا پاکستان ہے، اور اب یہاں تنقید اسی طرح کی جاتی ہے۔ خود پرویز مشرف پر آٹھ سالہ دور حکومت میں لوگوں نے جی بھر کر تنقید کی ہے۔ برا بھلا کہا ہے اور برملا ملکی ٹی وی چینلز پر کہا ہے اس لئے نواز شریف کو بھی تیار رہنا ہوگا اس قسم کی تنقید سننے اور اس کا مدلل جواب دینے کے لئے۔ لیکن یہ بنیادی بات ہمارے کالم نویس عطاالحق صاحب کو بھی سمجھ نہیں آئی اور آج کے اخبار میں انہوں نے اپنے چہیتے لیڈر کی توصیف میں ایک اور کالم لکھ مارا۔ :
چوہدری نثار علی کی پریس کانفرنس بھی ٹی وی چینل پر براہ راست دیکھنے کا موقع ملا۔ ان کا لہجہ بتاتا تھا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف بطور صدر چند گھڑی کے مہمان ہیں، آپ انہیں مہمان اداکار بھی کہہ سکتے ہیں۔ چوہدری صاحب نے صدارتی ترجمان میجر جنرل (ر) راشد قریشی کی جس طرح دُھنائی کی، اس حوالے سے He asked for itوالی بات ہی کہی جا سکتی ہے کیونکہ موصوف نے پاکستانی عوام کے مقبول قائد میاں نواز شریف کے لئے جو زبان استعمال کی تھی، اس کے بعد یہ ان کا ”حق“ بنتا تھاکہ انہیں ان کی اوقات یاد دلائی جاتی.
چلیں لگتا ہے عطاالحق قاسمی صاحب، جو ہمارے دیگر معزز شعرا کی طرح یورپی اور امریکی مشاعروں کے شیدائی ہیں، اب ان کی سفارتی ذمہ داریاں شروع ہوا ہی چاہتی ہیں۔ لیکن اگر اسطرح صدر پاکستان کو اوقات یاد دلانے پر واہ واہ کرنے والے لوگ سفارتکار بنیں گے۔ تو نوازشریف وہی غلطی دہرائیں گے جو وہ پچھلے ادوار میں دہرا چکے ہیں۔ اور کالم نویسوں کو بھی یہ سمجھنا چاہئے کہ ایمانداری اور انصاف جس کی توقع وہ معاشرے سے رکھتے ہیں، معاشرہ بھی ان سے توقع رکھتا ہے کہ وہ اپنا کام ایمانداری اور غیرجانبداری سے انجام دیں گے۔
عطاءالحق قاسمی نے کبھی اپنی سیاسی وفاداریوں کو پوشیدہ نہیں رکھا۔ سب جانتے ہیں کہ وہ مسلم لیگ کے پارٹی ورکر ہیں۔ بہرحال دوسرے صحافیوں کی طرح یہ بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے فن سے آگاہ ہیں۔
قاسمی صاحب زندگی کی اصل حقیقتوں سے پروہ اٹھاتے ہیں اور عام قاری کیلیے لکھتے ہیں۔
ان کی ایک خامی جو انہیں ایک سیاستدان بناتی ہے وہ ان کی خودستائی ہے۔ یعنی بہت سے دوسرے کالم نگاروں کی طرح وہ اپنے آپ کو سکندر اعظم سمجھتے ہیں۔
لکھا جانا چاهیے ، اعتراض کی اگر بات هو تو بڑے لکھاریوں پر بهی هونا چاهیے
قاسمی صاحب میرے بهی پسندیدھ لکھاری هیں مگر ان کی تحاریر میں اعتراض والی بات پر اپ کا لکھنا بهی ایک احسن کام هے ـ
خود ستائی اور چاپلوسی ہماری قوم کی اکثریت کا خاصہ ہے ۔ بلا وجہ کی دُشمنی بھی کچھ صحافیوں کا شیوہ ہے
میں انکے کالم باقاعدگی سے نہیں پڑھتا لیکن آج جس کالم کا آپ نے ذکر کیا وہ میں نے پڑھا تھا، واقعی چاپلوسی کی حد ہے۔ ایک لمحے کیلیے تو میں ششدر رہ گیا کہ اتنا سینئیر کالم نگار ایسی باتیں بھی لکھ سکتا ہے۔ کل جاوید چودھری نے ایسے ہی کالم نگاروں کے بارے میں ایک مضمون لکھا تھا، ضرور پڑھیے گا۔ لیکن عین ممکن ہے کہ یہ کالم پیشہ ورانہ رقابت کا شاخسانہ ہو۔ 😉
ساجد ربط دینے کے لئے شکریہ۔ واقعی یہ بات درست ہے کہ بڑے روزناموں میں لکھنے والے اکثر کالم نگار پرلے درجے کے چاپلوس اور لوٹا چشم ہوتے ہیں۔ میرے خیال میں عوام کو صحافیوں پر بھی نظر رکھنی چاہئے اور ان کے لوٹا ازم پر تنقید کی جانی چاہئے تاکہ یہ بری روش مزید پروان نہ چڑھے۔ اور لوگ اگر غیر جانبداری نہ برتیں تب بھی پیشہ ورانہ اخلاقیات تو ملحوظ ہی رکھیں۔
شاید پرویز مشرف کی دکھتی رگ اور اس بلاگر کی دکھتی رگ ایک ہے۔ ہی ہی ہا ہاہا
روسی شہری اور وہ دکھتی رگ کیا ہے؟
نیا محاورہ ایجاد کرنے پر مبارکباد
لوٹا چشم
نعمان نذیر ناجی کے بارے میں آپ کی رائے سو فیصد درست ہے ۔۔ وہ ہر حکوموت کے حق میں ایسے لڑھکتے ہیں جیسے کوئی لوٹا سیاستدان اور ہر ملکی اور غیر ملکی واقعے کو اپنے کسی پرانے کالم سے ملا کر کہتے ہیں دیکھا میں نہ کہتا تھا۔۔ خیر چند ایک کالم نگاروں کو چھوڑ کے تمام کے تمام کسی نہ کسی حد تک لوٹا چشم ہی ہیں ۔۔ اسی لیے بلاگز تازہ ہوا کا جھونکا معلوم ہوتے ہیں
اجمل دراصل میں سمجھتا ہوں کہ بیچارے طوطوں کے دل پر کیا بیتتی ہوگی جب انہیں اسطرح پکارا جاتا ہوگا۔ لہذا لوٹاچشم۔ ویسے میرے خیال میں لوٹا چشم ضرب المثل ہے محاورہ نہیں۔ تاہم مجھے یقین نہیں ضرب المثل اور محاورے میں کیا فرق ہوتا ہے۔
راشد کامران، بالکل بلاگز تازہ ہوا کا جھونکا ہوسکتے ہیں بشرطیکہ ہم توازن، دلیل، اور منطق کو اپنے مباحثوں کی بنیاد بنائیں۔ نہ کہ جذباتی وابستگیوں کو خود اپنی ہی عقل پر حاوی کرلیں۔