میں نے ابھی کچھ دیر پہلے ۱۰،۰۰۰ قبل از مسیح (10,000 BC) فلم دیکھی ہے۔ باوجود اس حقیقت کے کہ اس فلم کی کہانی میں کئی تاریخی، سائنسی اور آرکیالوجیکل نقائص ہیں، میں اس فلم کو ایک اچھی تفریحی فلم قرار دونگا۔ کہانی گھڑنے اور افسانہ طرازی کے اس عمل کے دوران آپ تخلیق کار کو تخیلاتی آزادی تو ضرور دیں گے۔ ورنہ تو کہانی سے محظوظ ہونا دشوار ہوجائیگا۔ تاہم یہ فلم چونکہ یہ دعوی کرتی ہے کہ یہ دس ہزار قبل از مسیح کے دور کی عکاسی کرے گی تو یہ مناسب ہوتا اگر فلم بنانے والے تحقیق سے کام لیتے اور حقائق کی مدد سے ہی کہانی بناتے۔ میرا خیال ہے کہانی تب بھی دلچسپ ہوتی۔
گرچہ یہ ایک اچھی تفریحی فلم ہے، مگر یہ کوئی عظیم فلم نہیں ہے۔ کہانی تقریبا بارہ مسالہ جات کی چاٹ کی طرح چٹپٹی بنائی گئی ہے۔ آپ کو فلم میں اس طرز کی کئی اور پرانی فلموں کے عناصر نظر آئیں گے۔ جیسا کہ نسبتا حال ہی میں جاری ہونے والی فلم آئس ایج۔
کچھ ذکر فلم کے تاریخی اور آرکیالوجیکل اور سائنسی نقائص کا کرتے ہیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ کہ دس ہزار قبل از مسیح کے وقت مصری عظیم اہرام نہیں بنارہے تھے۔ درحقیقت مصری تہذیب کا دور ہی تین ہزار سال قبل از مسیح سے شروع ہوتا ہے۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ کہانی میں یہ ذکر نہیں کیا گیا کہ یہ واقعی مصری تہذیب ہے۔ فرض کرلیں اگر یہ مصری تہذیب نہیں بھی تھی تب بھی یہ تقریبا ناممکن ہے کہ دس ہزار سال پہلے کوئی انسانی تہذیب اتنی ترقی یافتہ تھی کہ وہ اہرام تعمیر کرتی۔ نہ صرف یہ کہ وہ اہرام تعمیر کررہے تھے بلکہ عظیم اہرام کی نوک پر خالص سونے کا تکون پتھر بھی سجا رہے تھے۔ یہ ہضم کرنا بھی کافی مشکل کام ہے۔ اس بات کے تو شواہد ہیں کہ اس دور کا انسان دھاتوں سے آگاہ تھا۔ مگر تب بھی وہ ان کے استعمال سے نابلد تھا اور یہ تو بہت ہی دشوار ہے کہ وہ ان سے کسی قسم کا اوزار بناتا۔ یا کہ وہ ایک سونے کا اتنا بڑا ٹکڑا نہ صرف تیار کرے بلکہ اسے اہرام کی نوک پر سجائے۔ سونے کی اتنی بڑی چٹان کا وزن عظیم اہرام کے سب سے وزنی بلاک سے بھی پانچ گنا زیادہ ہوتا اور اسے وہاں تک لے جانا اور نصب کرنا ناممکن تھا۔
یہ بات بالکل سمجھ سے باہر ہے کہ کہانی کے ہیرو کا قبیلہ کہاں واقع تھا۔ فلم میں دکھایا گیا ہے کہ وہ عظیم برفانی پہاڑ پار کرتے ہیں پھر میدانی علاقے میں آتے ہیں، پھر ایک عظیم صحرا پار کرتے ہیں جس کے ایک طرف عظیم دریا بہہ رہا ہے۔ اگر ہم یہ فرض کریں کہ یاگل قبائل ہمالیہ کے اس پار رہتے تھے تب بھی یہ کافی لمبا سفر بنتا ہے۔ اگر ہم انہیں وسطی ایشیا اور یورپ کے بیچ کہیں رکھیں تب بھی۔
بڑی مرغی نما ڈائنوسار قسم کی مخلوق جو فلم میں دکھائی گئی ہے اس کا ہمارے ہیرو سے سامنا ہونا کافی مشکل ہے۔ کیونکہ ایک تو یہ ٹیرر برڈز جنوبی امریکہ میں پائی جاتی تھیں۔ دوسرا یہ کہ وہ دس ہزار قبل مسیح سے پہلے ناپید ہوچکی تھیں۔
نوکیلے دانتوں والا چیتا جو فلم میں دکھایا گیا ہے وہ بھی شمالی اور جنوبی امریکہ میں پایا جاتا تھا نہ کہ افریقہ یا یورپ میں۔
فلم میں کچھ مضحکہ خیز نظریات کو عجیب بے ڈھنگے طریقے سے دکھایا گیا ہے۔ جیسے یہ کہ مصری خلائی مخلوق تھے جو کسی ایسے جزیرے سے آئے تھے جو سمندر میں ڈوب چکا تھا (اٹلانٹس)۔ اٹلانٹس کے تصوراتی منظرنامے میں ہاتھیوں کی مدد سے تعمیرات کا تواتر سے ذکر ملتا ہے۔ فرعون نما جو حکمران دکھایا گیا ہے وہ سفید فام ہوتا ہے۔ حکمرانوں کے طبقے کے ناک نقوش بھی عجیب سے دکھائے گئے ہیں۔ جس کا مقصد غالبا یہ دکھانا تھا کہ ارتقائی عمل میں انسانی کی یہ نسل دنیا کے دیگر انسانوں سے زیادہ آگے تھی اور زیادہ ذہین تھی۔
فلم میں دکھایا گیا ہے کہ یہ تہذیب مموتھ کو سدھا کر ان سے تعمیراتی کام میں مدد لے رہی تھی۔ جو کہ عین ممکن ہوسکتا تھا۔ گرچہ ایسے کوئی شواہد کبھی نہیں ملے جن سے ایسا لگتا ہو کہ انسان نے کبھی مموتھ کو سدھایا ہو لیکن ڈی این اے تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ مموتھ کے قریب ترین رشتہ دار ہندوستانی اور جنوب مشرقی ایشیا کے ہاتھی ہیں جو قد میں افریقی ہاتھی سے چھوٹے ہیں اور افریقی ہاتھی جو کہ کافی غصیلے اور مشکل ہوتے ہیں ان کے مقابلے میں ایشیائی ہاتھی صدیوں سے انسانوں کے ساتھ کام کررہے ہیں۔
بادبانی کشتیاں۔ اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ انسان اس دور میں کشتی بانی کرچکا تھا۔ مگر مجھے یہ علم نہیں کہ دس ہزار سال قبل مسیح کا انسان اتنی بڑی بادبانی کشتیاں بنانے کی ٹیکنالوجی رکھتا تھا۔
یہ ممکن ہے کہ دس ہزار سال قبل مسیح کا انسان پتھروں کی مدد سے تعمیرات کرنے کے فن سے آگاہ تھا۔ تاہم فلم میں دکھائی گئی عظیم تعمیرات کی ٹیکنالوجی کا تب موجود ہونا بے حد مشکل ہے۔ جیسے آپ دیکھیں گے کہ وہ پہیوں لگے ٹھیلے استعمال کرتے ہیں اہراموں کی تعمیر میں۔ دس ہزار سال قبل مسیح میں انسان گھوڑوں پر بیٹھ کر لڑنے کے فن سے بھی یکسر ناآشنا تھا۔ انسان تب گھوڑوں کا شکار کرکے انہیں کھایا کرتا تھا۔ لیکن فلم میں دکھایا گیا ہے کہ انہوں نے نہ صرف گھوڑوں کو سدھا رکھا تھا، بلکہ ان پر سواری بھی کرتے تھے اور انہیں لڑائی میں بھی استعمال کرتے تھے۔
یعنی آپ کا مطلب ہے کہ میں اسے ڈاؤن لوڈ نہ کروں؟:P