آج کے روزنامہ جنگ کراچی ایڈیشن کے صفحہ اول پر سوات کے طالبان کا ایک سنہرا کارنامہ رقم ہے۔یہی خبر بی بی سی اردو پر بھی موجود ہے۔ سوات میں جاری آپریشن کے باوجود وہاں مقامی طالبان نے چوروں کے ایک گروہ کو شرعی سزا سنائی جو کہ سولہ کوڑے تھے۔ سزا سے پہلے چوروں نے اپنا جرم قبول کرلیا اور معافی طلب کی تاکہ وہ آخرت کے عذاب سے بچ سکیں۔ یہ واقعہ سینکڑوں افراد کی موجودگی میں ایک ایسے اسکول میں پیش آیا جہاں مقامی طالبان نے قبضہ کررکھا ہے تاکہ کوئی بھی بچہ تعلیم سے فیض یاب نہ ہوسکے۔ جائے وقوع پر مقامی صحافی بھی موجود تھے۔
ہماری حکومت دعوے کرتی ہے کہ وہ انتہاپسندوں، عسکریت پسندوں اور دہشت گردوں سے سختی سے نمٹے گی۔ لیکن دہشت گرد تو کھلے عام اپنی عدالتیں لگارہے ہیں۔ تو پھر یہ بم یہ میزائل کہاں ضائع ہورہے ہیں؟
Well, 16 lashes is still a enjoyable sentence if you compare it with burning alive. That’s what people of Karachi did on the road when they caught three robbers. Wanna see that?
http://www.youtube.com/watch?v=HHBcyVAQCwY
Are you worried because they imposed the "Sharaee Saza” on the thieves?
میرے خیال میں گدھے اور گھوڑے میں فرق کرنا ضروری ہے، آج طالبان کے نام پر کم از کم تین قسم کے لوگ اپنا کام کر رہے ہیں. ایک تو افغان طالبان جو امریکیوںسے بر سر پیکار ہیں، دوسرے پاکستانی طالبان جو افغانستان اور پاکستان دونوںمیں موجود ہیں اور تیسرے وہ جرائم پیشہ لوگ جو پاکستان کے مختلف حصوں سے جا جا کر فاٹا میں پناہ لیتے اور کاروائیاں کرتے ہیں. دوسری اور تیسری قسم کے طالبان کے خود امریکہ، بھارت، اسرائیل، جرمنی وغیرہ سے تعلقات ہیں جن پر اسلم بیگ گاہے گاہے لکھتے رہتے ہیں.
میرے سبھی دوست جو سوات، دیر، پاڑہ چنار، وزیرستان وغیرہ تعلق رکھتے ہیں ایک بات کا تسلسل سے ذکر کرتے ہیں اور وہ ہے انکے علاقوں میں نئے اور اجنبی لوگوں کی آمد، مثلآ پنجابی طالبان وغیرہ. باقی اگر کوئی سورج کی روشنی کو اپنی ذاتی وجوہات کی بنا پر رات کا اندھیرا کہے تو کیا کہا جا سکتا ہے؟
نوید، کراچی کے لوگوں نے جو کیا وہ بھی بربریت کی سنگین مثال تھی. جی ہاں مجھے اس بات پر سخت تشویش ہے کہ لوگ بندوقیں اٹھائے شریعت کے نفاذ کے نام پر فوٹوسیشن منعقد کرائیں اور انصاف سے محروم عوام کو سراب دکھا کر الو بنائیں. مجھے تشویش اس بات پر بھی ہے کہ کراچی میں ڈاکوؤں کو زندہ جلانے کے واقعے کے برعکس اس واقعے کو لوگ عجیب افسانوی رنگ دیں گے کہ جی واہ کیا انصاف ہے. کیسے بہترین لوگ ہیں. بجائے اس کے کہ لوگ انہیں مجرم سمجھیں جنہوں نے ہماری ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھا رکھے ہیں، ہمارے فوجیوں، اساتذہ حتی کہ آج کے اخبار میں تو یہ خبر بھی تھی کہ انہوں نے اسکول کے تین سو بچوں کو یرغمال بنانے کی کوشش کی. یہ سب نظر انداز کردینا محض اسلئے کہ انہوں نے چند معمولی چوروں کو پکڑ کر انہیں سولہ کوڑے لگادئے؟ اور یہ کرتے وقت وہ میڈیا کے نمائندوں بشمول فوٹوگرافر کے لانا نہ بھولے. تشویش مجھے اس بات پر بھی ہے کہ اگر ان کے خلاف آپریشن جاری ہے جس میں پاک فضائیہ بھی شامل ہے تو وہ کیسے یوں کھلے عام بڑے اجتماعات کررہے ہیں؟
فیصل خبر سے اس بات کا اندازہ لگانا مشکل ہے کہ متذکرہ بالا طالبان گھوڑے ہیں یا گدھے. اور سورج کی روشنی اور رات کے اندھیرے سے آپ کی مراد کیا ہے؟
میں آپ کی بات سے اتفاق کرتا ہوں.. مسئلہ کراچی میں ڈاکووں کا جلائے جانے کا ہو یا سولہ سترہ کوڑے مارنے کا .. ریاست کے خلاف مسلح بغاوت سنگین جرم ہے.
فیصل صاحب کی بات بھی مانی جاسکتی ہے اور طالبان کے لسانی قسمیں بھی بنائی جاسکتی ہیں جو قیاس زیادہ ہے لیکن یہ بھی تو حقیقت ہے کہ مولوی عمر نے باقاعدہ واہ میں دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی اور ایسے مزید خود کش حملے کرنے کا اعلان کیا.. اس کو کیسے دیکھا جائے؟ ویسے بھی پاک افغان سرحد کی طالبان کے لیے کوئی خاص اہمیت نہیں اور نظریاتی طور پر بھی طالبان کے پاکستانی یا افغانی ہونے سے طریقہ واردات میں کوئی خاص فرق نظر نہیں آتا.
راشد دیکھئے گا ابھی کوئی آئے گا اور کہے گا کہ مولوی عمر نے ایسی کوئی دھمکی نہیں دی اور وہ تو بے قصور مسلمانوں کا خون بہانے کو ظلم سمجھتے ہیں. وہ دھمکی یقینا امریکہ بھارت یا افغانستان نے ان کے نام سے جاری کردی ہوگی. یہ بھی ہوسکتا ہے کوئی اس کا تانا بانا را سے بن دے اور کوئی بہت ہی ذرخیز ذہن کا مالک ہوا تو وہ موساد کو ملوث کردے گا.
سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ نو گیارہ سے پہلے کیوں نہیںتھا اور اگر تھا تو پھر پرویز مشرف نے خاموشی کیوںکیے رکھی اور طالبان کا ساتھ کیوںدیا.
جہاںتک ریاست کے اندر ریاست کا تعلق ہے تو وہ ہر کسی نے قائم کی ہوئی ہے. موبائل چھیننا، بینک سے نکلتے ہوئے لوگوں سے رقم چھین لینا، انتخابات میں دھاندلی کرنا، ذخیرہ اندوزی کرنا، ڈاکے ڈالنا، عورتوں کو زندہ دفن کرنا، یہ سب لاقانونیت نہیںہے تو اور کیا ہے.
نو گیارہ سے پہلے یہ سب کچھ اس تجربہ گاہ میں ہورہا تھا جو ہم نے افغانستان میں سجا رکھی تھی.
کم از کم موبائل چھیننے والے، ڈاکے مارنے والے اپنے پسندیدہ نظام کو سب پر تھوپنا تو نہیں چاہتے. نہ ہی وہ اخبارات کو انٹرویو دینے کے شوقین ہوتے ہیں اور نہ ہی خود کو خدائی فوجدار سمجھتے ہیں.
ہاہاہا…یہی دہرا معیار ہے، طالبان ہوں یا موبائل چھیننے والے ….سب برابر ہیں.
جس دن اپنے آپ کو تعلیم یافتہ اور مہذب سمجھنے والوں کی اکثریت قانون کا احترام اور اس پر عمل شروع کر دے گی اُس دن کے بعد ان کو حق پہنچے گا کہ تعلیم اور دوسرے حقوق سے محروم لوگوں کو قانون کی پاسداری کا سبق دیں ۔ فی حال تو سب ننگے ہیں خواہ وہ کراچی ۔ لاہور یا اسلام آباد میں ہوں یا قبائلی علاقہ میں ۔ لیکن قصور اُن کا زیادہ ہوتا ہے جو تعلیم حاصل کرنے اور تمام سہولیات میسّر ہونے کے باوجود قانون پر عمل نہیں کرتے ۔
افتخار. بجا فرمایا آپ نے، پڑھے لکھے لوگوں کو مہذب ہونے کا ثبوت پہلے خود قانون کی پاسداری کرکے دینا چاہیئے. یہ بات قبول کرنے کا شکریہ کہ قبائلی علاقہ جات میں بھی لوگ ننگے ہیں، ورنہ آپ کی گذشتہ تحاریر سے تو لگ رہا تھا کہ آپ انہیں دودھ کے دھلے نیک اور اعلی برانڈ کے مسلمان سمجھتے ہیں.
یہاں میری اس پوسٹ میں موجود سوال کا ذکر کوئی کیوں نہیں کررہا. کہ اگر طالبان کے خلاف آپریشن جاری ہے تو وہ کیسے کھلے عام عدالتیں لگارہے ہیں؟
ب تک مسلمان اس دھرتی پر ہے ہم کو چین مسلمان کا دوسرا نام دھستگرد ہے اسلیے ہم جب تک مسلمان اس دھرتی پر ہے ہم کو چین مسلمان کا دوسرا نام دھستگرد ہے اسلیے ہم دھستگردی کا علاج دھرم بدلنا مانتے ہیں اسلکے لیے ہم لوگ گجرات میں مسلمان کو زبردستی ہندو بناتے ہیں جو آسانی سے ہندو بن جاے تو ٹھیک . نہیں بنتا تو ہم سمجھ جاتے ہیں کہ یہ کٹر پنتھی ھے اور پھر اسگو مارتے نہیں بلکہ جیل میں تڑپا تے ہیں کہ ہندو بن جاؤ پھر بھی اگر نہی بنتا تب اسکو جان سے مارتے ہیں امریکا کا تریکا اچھا نہی اسکو ایسا ہی کرنا چا ھیے ایک موقا دینا چا ہیۓ اگر پا کستان والے ہندو بن جاو تو تم پر ھملہ نہیں ھوگا اگر لوگ تیار ہو جاۓ تو ٹھیک نہیں ہو تو جتنا لوگ تیار ہو انکو نکال کر پاکستان پر ایٹم بم گرا دینا چاہیے کٹر پنتھیون کا جینا دنیا کے لیۓ کھترا ہے
ہندو دھرم ایسا ئ دھرم سے اچھا کم سے کم کسی پر اتیا چار تو نہیں کرتا ھندو جگیگا دنیا میں شانتی آۓگی آپ گیتا راماین کا مانے پڑھو یہ دھرم آپکو پسند آےگا
شنکر سنگھ .. اچھا کیا آپ نے دوبارہ تبصرہ کرتے ہوئے اپنا نام بتادیا.. اب کوئی آپ کے تبصرے کا برا نہیں مانے گا.
بھیا شنکر تمہارے تبصرے کا بہت شکریہ اللہ تمہارے دل کو صبر اور تمہارے دماغ کو عقل دے.
نعمان بھیا
میری بات سے آپکو اندازہ تو ہو ہی جانا چاہیے کہ مذکورہ طالبان گھوڑے ہیں یا گدھے. اسی رویے کا ذکر کرتے ہوئے ہی میں نے کہا تھا کہ دن کی راشنی کو رات کے اندھیرے سے الگ کر کے دیکھنا چاہیے. زندگی میں بہت سے واقعات کی حقیقت اس سے بہت مختلف ہوتی ہے جو اپنے ارد گرد ہوتے واقعات کو سمجھنے کے لئے ہم خود طے کر لیتے ہیں. ایسا اسلئے بھی ہوتا ہے کہ ہمارے پاس وقت نہیں ہوتا، یہ حقائق ہمارے لیے غیر اہم ہوتے ہیں یا ہم ان پر غور کرنے کی تکلیف نہیں کرتے کہ بہر حال سوچ بچار خاصا مشکل کام ہے.
حقیقت یہ ہے کہ ریاست کمزور ہو چکی ہے اور اسکے اندر کئی شیڈو سٹیٹس کام کر رہی ہیں. یہ دنیا سے کچھ انوکھا نہیں کہ کئی ممالک ایسا ہوتا دیکھ چکے ہیں. شیڈو سٹیٹس پر گوگل کیجئے اور لٹریچر دیکھیئے کہ یار لوگوں نے کتنا کام کیا ہے.
پاکستانی طالبان ایک ایسا گروہ ہے جسکے کوئی سٹریٹیجک مقاصد نہیں، نہ کوئی آئڈیالوجی ہے جبکہ افغان طالبان کے مقاصد بھی واضح ہیں اور ایک نظریہ بھی ہے، اچھا یا برا جیسا بھی ہے.
پاکستانی طالبان آپکے، میرے، کئی لوگوں کے کام بھی آتے ہیں اور کئی غیر ممالک کے بھی، جو بھی انکی خدمات کا اچھا خریدار مل جائے، میرے اندازے کے مطابق تو خود وہ لوگ بھی جو انھیں ختم کرنے کا دعوی کرتے ہیں وہ بھی انکے خریدار ہی ہیں.
رہا سوال آپکی اس بات کا کہ آپریشن ہونے کے باوجود وہ کھلے عام عدالتیں کیسے لگا رہے ہیں تو میرے بھائی، ایک بہت بڑے علاقے میں وہ موجود ہیں اور پاکستانی فوج کے بس میں یہ ہے ہی نہیں کہ وہ بیک وقت اس سارے علاقے کو قابو میں کرے، خصوصا اسوقت جب وہ کافی قدم جمائے ہوئے ہیں. وہ کسی ایک علاقے کو چنتے ہیں، وہاں سرکار کی عملداری ختم کرتے ہیں مثلآ اہلکاروں کا قتل و اغوا وغیرہ اور جب فوج وہاں پہنچتی ہے تو بھاگ کر کسی اور طرف نکل جاتے ہیں. گویا بلی چوہے کا کھیل جاری ہے، فائدہ کس کو ہو رہا ہے، آپ خود سوچ لیں.
آپ کا یہ کہنا کہ بمباری کر کے انکا خاتمہ کر دیا جائے محض خام خیالی ہے. ایک تو ان علاقوں میں پاکستانی شہری آباد ہیں اور یہ لوگ بستیوں میں یا آس پاس ہی رہتے ہیں. پھر اگر ایک مرتبہ انکا یوں خاتمہ کر بھی دیا جائے تو کچھ عرصہ بعد یہ کینسر کی طرح کہیں اور سر اٹھا لینگے یہاں تک کہ کراچی اور اسلام آباد میں بھی.
یہ گند ایک دن کا نہیں اور نہ یوں صاف ہو گا. اسکے لئے بہت سے ان فیصلوں کی ضرورت پڑے گی جو آج تک قوم نے کیے ہی نہیں مثلآ طاقت اور اختیارات کی تقسیم، فوج کا سیاست سے خاتمہ، شمالی پنجاب اور شہری سندھ کے علاوہ بھی علاقوں کی ترقی، افغانستان میں پاکستان کا کردار، امریکہ کے ساتھ تعلقات کی نوعیت، وغیرہ. اس بات کا امکان کم ہی ہے کہ مستقبل قریب میں حالات بہتر ہوں اور اگلے چند ماہ تو خصوصا بڑا امتحان ہیں، اللہ خیر کرے.
تبصرہ مٹادیا گیا ہے۔ تبصرہ جات قبول کرنے کی پالیسی
دھشتکردی کا مطلب کیا
لاالہ الا اللہ محمد الرسول اللہ
امریکا کا دھشت گردوں کے خلاف جہاد جاری ہے اور حکومت اسمیں بھر پور مدد دے رھی چند دن پہلے بم گراۓ جسم سو بے قصور شھید ہو گیۓ آپ کراچی کے بم بلاسٹ کو بحقیق طالبان کی طرف منسوب کر دیا گیا پر برھم کیوں امریکہ جب بم گراتا ہے تو حکو مت کہتی ھے کہ امریکا سے جنگ نہیں ہو سکتی امریکہ کی خد ا ی فوج سے کیسے لڑیں امریکا کتنے بھی حملے کرے اس سے جنگ نہی ہو سکتی اگر امریکا کے خلا ف کوئ اٹھ کھڑا ایک دو امریکی فوجیوں کو مار دے تو تو اسے سختی سے کچلنے کی ضرورت ھے امریکا کتنے بھی بے قصوروں کو مار ڈا لے کو ئ بات نہیں کیو نکہ یہ جہاد ہے کیونکہ مسلمان ہی دھشتگرد ہیں
اور ہماری حکومت بھی تن من دھن سے امریکا کو دھشتگردوں کے خلاف مدد دے کر اپنی آخرت سرخرو کر رھے اور اسلام کے د شمنو ں کی واہ واہی لوٹ کر پھولے نہیں سما رھے اسلام کے خلاف جو بولے جو لکھے اسی کو داد دی جاتی ہے جسکی مثا ل تسلیمہ نسرین ھ
عماد آپ کا تبصرہ ویب پیڈ کی وجہ سے کٹ گیا ہے۔ آپ دوبارہ تبصرہ لکھ سکتے ہیں؟
یہ بھی دیکھیے:
بی بی سی اردو: کہہ دو آپریشن کا ردعمل ہے
دھشتگردی کیا چیز ہے امریکہ جو کررہا ہے وہ انصاف ہے طالبان جو کر رھے ہیں وہ دھشت گردی آپ لوگوں کا پیما نہ میری سمجھ سے پرے ہے آخر امریکہ نے مسلمانو ں کی خیر خواہی کی ہے لڑنا ہے زمینی لڑائ کرے تو اسے اپنی اوقات خود پتہ چل جا ئگی امریکہ نے چند روز پہلے پاکستان پر بم گراۓ سو سے زیاد ہ لوگ جاں بحق ہو گیۓ لیکن اس پر کوئ الزام بقول حکومت ہم امریکا سے جنگ نہیں کر سکتے جیسے کہ امریکہ خدا ہو کراچی بم دھما کے خدا جانے کس نے کرواۓ بہر حال مجا ھدین کی طرف اسکو منسوب کروایا گیا میڈیا کے دریعہ امریکا جہاد کر رہا ہے اسلام کے خلاف اسلیۓ ہماری حکومت امریکہ کی حکومت الہیہ کے خلاف جنگ کیسے کر سکتی ھے چاہے وہ کتنے ھی بے قصوروں کو بم گرا کر موت کے گھاٹ اتار دے لیکن اگر کوئ اسکے خلاف کھڑا ہو تو بس اسی کو سختی ساتھ کچلنے کی ضرورت ھے وھی دھشت گرد ہے دنیا میں یہی ہو رہا ہے جومسلمان ہوکر اسلام کے خلاف بولے اسکو خوب داد ملتی ہے اسکی مثال تسلیمہ نسرین ہے
عماد بہت شکریہ.
فیصل یہ پوسٹ اسلام آباد کے میریٹ ہوٹل ہوٹل میں ہونے والے دھماکے کے بارے میں نہیں بلکہ طالبان کی غیرقانونی عدالتوں کے بارے میں ہے. میریٹ ہوٹل والے واقعے پر الگ سے مباحثہ چھیڑیں گے.
بجا فرمایا نومان طالبان کی عدالت ناجائز ہے…. امریکی عدالت خدائ ہے وہ عدالت جائژ ہے افغانستان میں موجود ھے بھر طالبان کو کیا حق ہے اپنی عدالت لگانے کا …..
ہے نا….؟؟
امریکہ جس کی زانی فوج نے عراق میں85 ہزار کنواری مسلمان لڑکیوں کو ماں بنا دیا
وہ امریکا جس کو اسلام سے نفرت ہے
وہ امریکہ جو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتا ہے
جس کے نزدیک اسلام پر چلنا جرم ہے جو امریکہ کی جیلوں میں بے قصور مسلمانوں کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کرتا ہو مسلمان بہنوں کو جنسی تشدد نشانہ بناتا ہو جن کا قصور صرف اتنا ھے کہ انہوں نے اللہ کا کلمہ پڑھا اسلیے دھشتگردی کا مطلب کیا
لا الہ الااللہ محمدالرسول اللہ
چور کے ہاتھ کاٹنے کا مطلب کیا
لا الہ الااللہ محمد الرسول اللہ
اسلامی عدالتوں کا مطلب کیا
لا الہ الااللہ محمدالرسول اللہ
طالبان کا مطلب کیا
لا الہ الااللہ محمدالرسول اللہ
یہود سے دشمنی کا مطلب کیا
لا الہ الااللہ محمدالرسول اللہ
امریکی افواج کو افغانستان میں کاروائی کا اختیار اقوام متحدہ نے دیا ہے. وہاں صرف امریکا کی نہیں دنیا کے کئی ممالک کی فوج موجود ہے۔ افغانستان کی حکومت امریکی اور نیٹو افواج کی وہاں موجودگی کو قبول کرتی ہے. لحاظہ یہ کہنا کہ وہاں ان کی موجودگی غیر قانونی ہے بالکل غلط ہے. غیر اخلاقی شاید ہو لیکن غیرقانونی نہیں.
لیکن اگر امریکہ طالبان یا عراق پر حملے کرتا ہے تو طالبان کو یہ حق کیسے مل جاتا ہے کہ وہ پاکستان کے آئین کو توڑیں. پاکستانی شہریوں پر حملے کریں اور ہماری ریاست کو کمزور کریں؟ انہیں لڑنا ہے تو جا کر امریکیوں سے لڑیں.
بیشک امریکہ کو حق ہے کہ وہ جہاں چاہے حملے کرے اسی کو حق کہ وہ پاکستان پر حملے کرے کیونکہ اقوام متحدہ جو کہ دشمنان متحدہ ہیں اسلام کے خلاف جسکا مقصد مسلمانون کے روے زمین پر سے ختم کرنا ہے
جسکے سربرہ کو پوپ سے رہنمای لینی ہوتی ہے
وہ خدا ی تنظیم حکم دیدے تو بیقصوروں پر بمباری عورتوں کی عصمت دری سب جایز ہو جاتی ہے
نلگتا ہے آپ بھی با باے یہودیت کے مرید ہومسٹر
Asslamualikum
Sab se pelhe to main aap se request karna chaon ga, ke aap sirft newspaper main news parh kar he apne raai na dya karin, kyon ke media to hai he west ke zere asar.
App apna mind use kya karo, Taliban wo nahi jin ke gov kahe rahe hai, Taliban to wo the, jinhon ne aftanistan main 5 nonmuslim women ko arrest kya, jo ke muslims ko money ka lalach de kar nonmuslim bana rahi thi, Jab unhe reha kya to un main se bohat se un ke behaviour se mutasar ho kar Muslim bann gyi, aur Islam kabool kar lya.
تبصرہ مٹا دیا گیا ہے۔ تبصرہ جاتی پالیسی ملاحظہ فرمائیں۔
نعمان صاحب یہ لحاظہ نہیں لہٰذا ہوتا ہے۔ لحاظہ اردو کا کوئی لفظ نہیں ہے، البتہ لحظہ ہے جسکا معنی لمحہ ہوتا ہے
حافظ صاحب
کیا واقعی آپکا خیال ہے کہ آج کے مسلمانوں کےلئے صرف القاعدہ ہی فکری اور سیاسی لیڈرشپ فراہم کر سکتی ہے؟ اگر ہاں تو مجھے آپ سے ہمدردی ہے.
فیصل صاحب ذرا آپ بتا سکتے ہیں کہ القاعدہ کیا اور کیسے چاہتی ہے یا کوئی رٹی رٹائی بولی بول رہے ہیں؟
رٹی رٹائی بول رہا ہوں.
میرا خیال ہے ہمیں القاعدہ، طالبان اور طالبان کی مختلف اقسام و اجناس، پاکستانی انتہاپسند تنظیموں کے درمیان فرق کو سمجھنا چاہئے. عطاء کیا آپ کو معلوم ہے القاعدہ کیا چاہتی ہے؟ ذرا ہمیں بھی بتائیں.
ضرور بتائیں گے
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ القاعدہ والے کون ہیں؟ اس بات کے جواب سے پہلے چند تاریخی باتیں آپ کے ذہن میں ہونی چاہئیں۔ اولاً تو یہ ہے کہ یہودیوں اور انگریزوں کے ہاتھوں خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد امت مسلمہ بحیثیت ایک طبقہ کےایک قسم کی یتیم ہوگئی تھی۔ اس کے بعد خصوصا اسرائیل کے قیام اور عربوں پر عربوں ہی کےذریعے ظلم نے مسلمانوں کو اندر ہی اندر کاٹ کر رکھ دیا تھا۔ اوپر سے مسلمانوں کی بے بسی یا لاچارگی میں اضافہ والی بات یہ ہوگئی تھی کہ اقوام متحدہ کے قیام نے خلافت کی عدم موجودگی میں اپنا ایک مضبوط بلاک اور وجود قائم کرلیا تھا جس میں مسلمانوں کو ضمنی سی حیثیت حاصل تھی۔ ان تمام باتوں کے ساتھ ساتھ جب پرانی جنگوں ( جنگ عظیم اول و دوم) کی گرد بیٹھنا شروع ہوئی تو اشتراکیت نے سر اٹھانا شروع کردیا تھا، یہی وجہ تھی کہ وسط ایشیاء کی ریاستیں یکے بعد دیگرے سوویت یونین کی جارحیت کا شکار ہوتی چلی گئیں اور ایک ایسا وقت آگیا کہ روس نے پکی نیت کرلی کے افغانستان کے راستے چند گھنٹوں میں پاکستان کو فتح کرتا ہواگرم پانیوں تک رسائی حاصل کرے اور اپنے مد مقابل بڑی مغربی طاقتوں خصوصا برطانیہ و امریکہ کی حیثیت کو کچل ڈالے مگر اس کی سوچ کے برعکس وہ افغانستان میں پھنستا چلا گیا۔ اس کے افغانستان میں اٹک جانے کی دو بنیادی وجوہات ت تھیں، ایک تو عالمی طاقتوں کا روس مخالف اتحاد دوسرا ظلم و جبر میں پستے ہوئے مسلمانوں کی ثابت قدمی۔
پہلی وجہ سے عالمی طور پر روس کا مقابل کرنے والوں کا مورال بلند رہا اور دوسری وجہ سے روس طویل لڑائی کو برداشت نہ کرسکا، اوپر سے افغانوں کی حملہ آوروں کے خلاف قدیم جدوجہد (مثلا برطانیہ کی عبرتناک شکست وغیرہ) اور مہمان نوازی کی بے مثال صلاحیت نے پوری دنیا کے دبے ہوئے اور اجتماعیت سے کٹے ہوئے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا شروع کردیا اور مسلمانوں کی بکھری ہوئی عسکری طاقت یکجا ہونا شروع ہوگئی۔ جب اٍافغانستان سے روس چلاگیا تو جہاں عالمی طاقتوں کو افغانستان میں اپنی پسند کے مہرے مل گئے تھے وہیں ایک نئی اسلام سوچ اور طاقت کو وجود مل گیا جنہوں نے کسی قسم کی صہیونی(عیسائی،یہودی) پالیسی کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور خلافت کے بعد ملسمانوں میں نشاۃ ثانیہ کی جو امیدیں دم توڑ گئیں تھیں انہیں ایک نئی راہ ملنا شروع ہوگئی۔
تو میں کہہ رہا تھا جب افغانستان میں دنیا بھر سے مجاہدین آنا شروع ہوگئے تو عرب، عجم ،کالے،گورے ہر قسم کے افراد کا ایک مجموعہ تیار ہوگیا ، ان میں خاص طور پر جو عرب نوجوان تھے انہوں نے اسلامک پان ازم کی عالمی سوچ کو اپنے اپنے ملکوں تک پھیلانا شروع کردیا، جب یہ بات ان کے ممالک تک پہنچی تو ان ممالک کے سربراہان جو در اصل خلافت عثمانیہ کے سقوط میں شریک تھے اور اسی کار کردگی کے بدلے میں ملی ہوئی حکومت کے مالک تھے، انکو اپنے پیروں تلے سے زمین نکلنا شروع ہوئی۔ اور جب ان کے آقائوں کی طرف سے ان کو ایسے سرپھروں کے خلاف سخت قسم کی ہدایات ملنا شروع ہوئیں تو انہوں نے پکڑ دھکڑ شروع کردی، اسی دوران عراق جنگ ہوگئی اور سعودیہ نے امریکہ کو مدد کے لئے انوایٹ کرلیا اور اس نے لمبے ڈیرے جمالئے، اس طرح مجاہد ذہنیت کے لوگ جو سعودیہ میں تھے مزید مشتعل ہوگئے، انکا موقف تھا کے اگر بلانا ہی تھا کسی مسلم ملک کی فوج کی خدمات لیتے اگر امریکہ کی مدد لے بھی لی تھی تو اسے بروقت واپس کردینا چاہئے تھا، اس کی سعودیہ میں مستقل موجودگی سے ایک طرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکال دو کی کھلم کھلا نافرمانی ہوتی ہے اور دوسری طرف سعودی معیشت پر بے تحاشا بوجھ بڑھتا چلا جائے گا، سعودی فرمانروا جو مکمل طور پر مغربی طاقتوں کے خوشہ چین تھے اس پر برہم ہوگئے اور اپنے ہی شہیریوں کے خلاف سخت اقدامات اٹھائے۔ اور شیخ اسامہ جو ان میں سرفہرست تھے اور سعودی عرب میں ایک ممتاز مقام رکھتے( اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ شیخ کے والد کے پاس اس وقت اپنا طیارہ تھا جب سعودی حکومت کے پاس بھی نہیں تھا، وہ ایک نماز حرم کعبہ میں ایک مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اور ایک مسجد اقصی میں اداء کرتے تھے، اور تینوں مقدس مقامات کی تعمیرات میں انہوں نے ایک بلڈر ہونے کی حیثیت سے حصہ لیا تھا، اورآج بھی بن لادن کمپنی ہی حرمین کے اندرونی نظم و نسق کی ذمہ دار ہے ) کو ملک بدر کردیا گیا ۔ جس سے اشتعال میں مزید اضافہ ہوگیا اور وہ ہجرت کرکے سوڈان چلے گئے، جہاں سے بھی انہیں امریکی دبائو پر ملک بدر کردیا گیا۔ اسی سخت پریشانی میں انہوں نے والدہ سے مشورہ کیا کہ میں افگانستان منتقل ہونا چاہتا ہوں آپکی کیا رائے ہے؟؟ انہوں نے کہا کہ سوچ کر بتائوں گی، اسے پریشانی میں ان کی والدہ کو خواب میں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت ہوئی اور فرمایا گیا کہ اسے افغانستان بھیج دو اس کی حفاظت کی ذمہ داری لے لی گئی ہے۔ صبح والدہ نے خوشی خوشی فون کیا ااور انہیں افغانستان جانے کی اجازت دے دی۔ ان کے افغانستان آنے کے بعد نوجوان ان کے گرد جمع ہونا شروع ہوگئے اور سعودی حکومت اور امریکہ پر دبائو بڑھتا چلا گیا۔ اوپر سے افغانستان میں کانہ جنگی سے تنگ آکر جو لوگ ایک طرف ہوکر بیٹھے ہوئے تھے وہ طالبان کی صورت میں اٹھ کھڑے ہوئے، ان کے یکدم حرکت میں اآنے کی وجہ یہ ہوئی کہ قندھار میں جگہ جگہ وارلارڈز نے چوکیاں بنا کر بھتہ خوری کا سسٹم شروع کیا ہواتھا جو عوام کے لئے ناقابل برداشت ہوتا چلا جارہا تھا، ایک روز تو حد ہوگئی کے ایک حاملہ عورت کو ہسپتال جاتے ہوئے راستہ میں روک لیا گیا اور بھتہ کے لئے پیسہ نہ ہونے پر کہا گیا کہ آج ہم بچہ ہوتا ہوا بھی دیکھیں گے جو پہلے نہ دیکھا تھا، اور ایسا ہی کیا گیا، ملا عمر جو ایک مکتب کے ملا تھے کو اس پر بڑی غیرت آئی، انہوں نے چند طلباء سے ملکر ان چوکی والوں کو سبق سکھا دیا اور چوکی ختم کرادی، رفتہ رفتہ دوسرے علاقے والوں نے بھی اپنے ہاں مدعوکرنا شروع کردیا اور طالبان کی عملداری بڑھتی چلی گئی، روسی اسلحہ تو پہلے ہی موجود تھا اور اوپر سے عظیم مجاھد راہنما کمانڈر جلال الدین حقانی اپنی ساری کی ساری منظم فوج لے کر طالبان کے ساتھ ہوگئے اور تمام چھوٹے چھوٹے گروپ۔ ان جلاوطن عربوں سمیت ملتے چلے گئے۔ اور ایک طاقتورتحریک بن کر ابھرے جو پورے افغانستان پر چھاگئے۔
اسی دوران خلافت کا سویا ہوا جذبہ دوبارہ انگڑایی لینا شروع ہوگیا اور افغانستان اسلامی حریت پسندوں کی آماجگاہ بنتا چلاگیا۔ اور مجاحدین ایک عالمی موقف میں جڑتے چلے گیے، جو درج ذیل تھا۔
1- پوری دنیا میں اسلامی ممالک کے اندر قایم غیر ملکی افواج کو اپنے اڈے ختم کرنا ہوں گے۔
2- امریکہ و مغربی طاقتوں کو اسرائیل کی پشت پناہی چھوڑنا ہوگی۔
3- ملسمانوں کو ایک ایسے خطے کے قیام کی فوری کوشش کرنا ہوگی جہان وہ اسلامی طرز پر زندگی گذار سکیں۔
نوٹ:۔ اسی مقصد کو لیتے ہویے طالبان حکومت کے استحکام کے لیے قربانیاں دی جاتی رہیں اور الحمدللہ ہما را گھرانہ بھی اس جدوجہد میں شریک رہا۔{ جب 2001 میں امریکہ نے افغانستان پر جذباتی حملہ کیا تو طالبان پر بے تحاشا ظلم کیا گیا۔ طالبان نے جب افغانستا ن پر سے اپنی عملداری کے خاتمے کا اعلان کیا تو ایک معاہدہ کے تحت شمالی افغانستان میں اپنا اسلحہ جرنل دوستم کے حوالے کیا، مگر اس نے غداری کرتے ہوئے امریکیوں سے ملکر کیی ہزار لڑکوں کو ایر ٹایٹ کنٹینروں بند کرکے تپتے صحراء میں چھوڑدیا جہان وہ بھوکے پیاسے شہید ہوگئے اور بچے ہوئے افراد پر اوپر سے بمباری کرائی گئی، ان پیاس سے شہید ہونے والوں میں میرا سگا بھائی بھی تھا، اور چند ایک جو معجزانہ طور پر بچ گیے تھے وہ آج بھی اس ظلم کے گواہ ہیں، جو بتاتے ہیں کہ کئی کئی گھنٹے لاشوں پر ہمارے (گرفتار شدگان( کے ٹرک چلے تھے اور یہ بھیانک منظر دیکھتے ہویے کئی ساتھی پاگل بھی ہوگیےتھے}
اب جو افغانستان سے مجاھدین تتر بتر ہوئے تو امریکہ نے شیخ اسامہ کی تنظیم ( قاعدۃ الجھاد الاسلامیہ) کے نام پر ان کو القاعدہ مشہور کردیا اور ان کے ساتھ ساتھ اسلامک پان ازم کی سوچ رکھنے والے دنیا بھر میں موجود افراد کی پکڑدھکڑ شروع کردی گئی اور گوانتاناموبے، بگرام ایربیس اور عرب ممالک میں قائم امریکی اڈوں پر لے جا کر ان پر ظلم کرنا اور شہید کرنا شروع کردیا۔ جسکی وجہ دیوار کے ساتھ لگتے ہوئے مجاھدین نے مجبورا گوریلا جنگ شروع کردی۔
اب حقیقت یہ ہے کہ
1-القاعدہ کا موقف اوپر جو میں نے بتایا ہے وہی تھا اور ہے۔
2- افغانستان میں برسر پیکار طالبان کا موقف وہی ہے۔
3- پاکستان میں لڑنے والے طالبان کا مقصد بھی وہی ہے۔
4- پاکستانی دیگر (دیوبندی) تنظیموں کا مقصد بھی یہی ہے۔
البتہ ہر ایک اپنے اپنے ایشوز پر کام کر رہا ہے۔
1- القاعدہ کے پاس انٹرنیشنل ڈیسک ہے اس لئے وہ زیادہ زیر عتاب ہے
2-افغان طالبان اور دیگر تین گروپ مشترکہ طور پر افغانستان پر امریکی تسلط کے خاتمے کے لئے کوشاں ہیں۔
3-پاکستانی طالبان قبائلی علاقوں میں جارحیت کرتی ہوئی پاکستانی افواج سے نالاں ہیں اور ان کے ساتھ ہاتھا پائی میں سرگرداں ہیں۔
4- دیگر پاکستانی تنظیمیں پاکستان میں حکومت کی یکطرفہ پکڑ دھکڑ سے نالاں ہیں۔ مثلا سپاہ صحابہ کے اسی فیصد نظریاتی افراد جیلوں میں بند ہیں اور اس کے مقابل شیعہ حضرات کو اسی فیصد چھوٹ حاصل ہے اور ایران کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ اسی طرح کراچی میں بڑے بڑے علماء کی ٹارگٹ کلنگ کی جاتی ہے اور دوسرے فرقوں کے عسکری ونگ کھلا کام کر رہے ہیں۔ اسی طرح دیوبندی مدارس کو حکومتی سرپرستی میں نیست و نابود کیا جاتا ہے اور دوسرے فرقوں کو وزارتوں سے نوازا جاتا ہے۔ یہاں یاد رہے کہ مولانا فضل الرحمٰن سیاسی ہیں دیوبندی یا مذہبی نہیں ہیں، اگرچہ وہ اپنے آپ کو مذہب کے ٹھیکیدار ثابت کرنے پر تلے ہوں۔ اسی لئے یہ تنظیمیں بعض اوقات زیادہ سخت گیر موقف اپناتی ہیں۔
لیکن عالمی موقف سب کا ایک ہی ہے۔ ان میں سے کوئی اسلامی ممالک خصوصا پاکستان میں عسکری کارروائیوں کے حق میں نہیں تھا اور نہ ہے۔ یہاں جتنی بھی کار روائیاں ہوئیں ہیں وہ تنگ آمد بجنگ آمد کی مصداق ہیں۔ حقیقتا ایک مجاھد کو نہ صرف پاکستان سے بلکہ دنیا بھر کے انسانوں سے محبت ہے مگر اسلام دشمن پالیسی میکرز سے ان کو سخت نفرت ہے اور ان پالیسی سازوں کے ہمنوائوں سے بھی۔ اسی لئے پاکستان سعودی عرب یا کہیں بھی کوئی کارروائی ہوئی ہے وہ عسکری اہداف پر یا عسکری اہداف سے منسلک افراد یا اداروں پر ہوئی ہے۔ اگر ضمنا سویلین کو نقصان پہنچا بھی ہے تو وہ انکا ہدف نہیں تھے۔
اب آپ ہی بتائیں مندرجہ بالا صورتحال اور اجتماعی موقف سیلف ڈیفنس ہے یا جارحیت؟؟؟
اور جہاں تک خواتین کی تعلیم اور دوسرے ایشوز ہیں تو ان میں یہ بات کلیئر ہے کہ مندرجہ بالا چاروں طبقات میں سے کوئی بھی ان کی تعلیم کے خلاف نہیں، وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ ان کے لئے الگ اور محفوظ تعلیمی اداروں کا قیام عمل میں لایا جائے۔ سعودیہ میں رائج عورتوں کا تعلیمی نظام اور سہولیات آپ ملاحظہ فرمائیں، انشاء اللہ آپ کو ستر فیصد اسلامی یا طالبانی نظریہ سمجھنے میں کسی حد تک مدد مل جائے گی۔
اور انفرادی سوچ دیکھنی ہے تو مجھے دیکھ لیں۔ میں ایک مدرسہ کا فارغ ہوں اور مجاھدین سے دل و جان سے محبت رکھنے والوں میں سے ہوں۔ میں نے اپنی فراغت سے ایک سال(آج سے 9 سال پہلے) عورتوں کی ایک یونیورسٹی کا خاکہ بنایاتھا، جس کے لئے ایک سروے فارم ترتیب دیا تھا جو کم ازکم پچاس صفحات پر مشتمل تھا، اس تعلیمی ادارے میں ان کے لئے دنیا کی ہر مفید سہولت، آمدورفت کے محفوظ ذرائع، ان کے، انکی فیمیلیز اور عزیز و اقارب کے لئے میڈیکل، شاپنگ سنٹر، تفریح وغیرہ کی سہولت صرف 300روپے ماہانہ فیس میں مہیا کی گئی تھی، اور ایسا مالیاتی نطام مرتب کیا تھا کہ ایک سال کے اندر اندر وہ ادارے مضبوطی سے اپنے پائوں پر کھڑا بھی ہوجاتا۔ اسے کسی قسم کی گرانٹ کی ضرورت نہ پڑتی۔ اس کے لئے میں نے دنیا بھر میں مسلم غیر مسلم اداروں کو خطوط بھی ارسال کئے مگر آج تک جواب نہیں آیا۔
لیکن میں ابھی بھی اپنے مشن پر کام کر رہا ہوں اور مجھے امید ہے کہ انشاء اللہ مستقبل قریب میں ایسا ادارہ قائم کرنے میں کامیاب ہوجائوں گا۔
ایک بات کل بھی میں کہنا چاہ رہاتھا مگر ڈسکنکٹ ہوگیا تھا ۔ وہ یہ کہ آپ کی تبصرہ جاتی پالیسی ایک لطیفہ کے مصداق ہے (((( شیر بچہ دے یا انڈا دے اس کی مرضی ہے))))
کیونکہ وہ جنگل کا بادشاہ ہے۔ یہی حال امریکی پالیسی کا ہے اور یہی آپکی تبصرہ جاتی پالیسی کا ہے۔آپ حضرات کا تقریبا ہر لفظ ہمارے لئے نشتر ثابت ہوتا ہے، اور ہمارے تلخ حقائق بھی پالیسیوں کے منافی ٹھہرتے ہیں۔۔ اس لئے آپ کی طرف سے میری پوائنٹ تو دی پوائنٹ گفتگو مٹانے پر مجھے حیرانگی نہیں ہوئی کیوں کہ پہلے ہی ہم امریکہ گردی کا شکار ہیں اب نعمان پسندی کا ہوئے تو کیا ہوا۔
حافظ صاحب آپ کے تفصیلی جواب کا شکریہ گرچہ اسمیں سے کام کی بات وہ تین یا چار سطور ہیں جس بابت سوال تھا یعنی یہ کہ القاعدہ کیا چاہتی ہے.
جہاں تک آپکی تبصرہ جات سے متعلق بات ہے، میرا مشورہ ہے کہ آپ اپنا بلاگ شروع کر لیں جہاں آپکا جو دل چاہے آپ کہہ سکیں گے کوئی آپکو منع نہیں کریگا، میرا اپنا بلاگ ورڈ پریس پر ہے جو مفت ہے، مجھے کوئی پیسہ نہیں خرچ کرنا پڑتا اور مجھے اپنی بات کہنے کی مکمل آزادی ہے.
کچھ سوالات ہیں: طالبان ملک بھر میں شہریوں پر خود کش حملے کیوں کرتے ہیں جبکہ تقریبا ہر پاکستانی فاٹا، بلوچستان آپریشن بلکہ افغانستان، عراق اور فلسطین کے قبضے کے خلاف ہے؟ جواب اسکا سادہ تو نہیں لیکن کچھ یوںہے کہ ایک طرف تو انتقام کا جذبہ ہے خود کش حملہ کرنے والے کے ذہن میں جبکہ دوسری طرف اچھی میڈیا کوریج مل جاتی ہے بیت اللہ محسود اینڈ کمپنی کو. اسکے علاوہ تو کوئی تعلق ڈیرہ اسماعیل خان، کوہاٹ، پشاور، لاہور وغیرہ وغیرہ میں ہونے والے دھماکوں کا مجھے طالبان کے "سٹریجک” مقاصد سے نظر نہیں آتا. اگر آپکو نظر آتا ہے تو بتا دیں.
دوسری بات کہ مجھے سپاہ صحابہ سے متعلق آپکے نظریات پر بھی حیرت ہوئی ہے، انکی کاروائیوں کا امت مسلمہ کی نشاۃ ثانیہ سے کوئی ربط ہے تو وہ بھی بتائیے.
ابھی پچھلے دنوں ڈیرہ اسماعیل خان میں اہل تشیع کی ایک مسجد میں ایک خود کش حملہ آور پکڑا گیا جسکا تعلق غالبا فاٹا سے تھا اور وہ طالبان میں سے تھا، سوال یہ کہ وہ وہاں کیا کر رہا تھا جبکہ طالبان تو خود کو شیعہ سنی کے جھگڑے سے دور ہی رکھتے ہیں؟ افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے لیکن میں نے سپاہ صحابہ کے بہت سے لوگوں کو قریب سے دیکھا ہے بلکہ گھر سے چند گز دور ہی انکی ایک مسجد ہے لیکن ان میں بہت سے لوفر اور لفنگے بھی ہیں جنہیں ماہانہ تنخواہ، موٹرسائکل کے بدلے آپ کسی کو بھی قتل کرا سکتے ہیں. یہی حال غالبا اہل تشیع کی آئی ایس او میں شامل لوگوں کا بھی ہے. ایسے لوگوں کی نظریاتی اساس کوئی نہیں ہوتی لیکن مذہب کے نام پر انھیں "لائسنس ٹو کِل” مل جاتا ہے.
آپ نے مسلم دنیا کی جو تاریخ بیان کی ہے وہ غلط نہیں لیکن اس ساری کہانی میں بہت سے جھول بھی ہیں. کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ بن لادن خاندان کا سارا جھگڑا ہی سعودی اقتدار کا ہے. سوال تو یہ بھی اٹھتے ہیں کہ بن لادن خاندان کا کاروبار امریکہ میں کیسے جاری و ساری ہے جب موصوف خود امریکہ کے "اشتہاری” ہیں. مسلم دنیا کی محرومیوں کے گرد جذبات کا ابھارنا کوئی زیادہ مشکل کام نہیں. ہماری سادہ قوم تو اس جوتے کی کمپنی کو ایک جوڑے کا آڈر دینے لگتی ہے جس کمنی کے جوتے کا بش پر وار ہوا ہے. اس قوم سے اور کیا توقع آپ کر سکتے ہیں. القاعدہ کے لئے تو بہت سے "بریڈنگ گراؤنڈ” موجود ہیں جن میں سے کچھ غیروں کے اور باقی خود ہمارے اپنے بنائے ہوئے ہیں.
میں القاعدہ کو ہرگز اس قابل نہیں سمجھتا کہ وہ امت مسلمہ کو درپیش مسائل کا کوئی حل نکالنے کے قابل ہے، سیاسی نعرے مارنا اور بات ہے اور ایک ریاست کا نظم یا ایک ملت کی فکری نشونما اور رہمائی کرنا اور بات ہے. آپ نے جن گروپوں کا ذکر کیا ہے وہ سب الگ الگ دھڑے ہیں جنکے اپنے مخصوص مقاصد ہیں. صرف مشترکہ دشمن اور مستقبل قریب کے کچھ مشترکہ مفادات نے انھیں اکھٹا لا کھڑا کیا ہے جیسے القاعدہ اسی کی دہائی میں امریکہ کی رفیق تھی. یقین مانئے کہ ان سب کی فکری اساس اتنی کمزور (یا مختلف) ہے کہ اگر آج امریکہ افغانستان، عراق سے نکل جائے تو یہ آپس میں ہی جھگڑنا شروع کر دیں اور انکو سمجھ ہی نہ آئے کہ اب جانا کدھر ہے اور کرنا کیا ہے. میرے نزدیک اسمیں کسی کا بھی قصور نہیں کہ پچھلے ہزار سالوںمیں مسلمانوں نے کیا کیا ہے؟ خلافتِ عثمانیہ کے ٹوٹنے کا تو آپکو غم ہے لیکن یہ بھی تو بتائیے کہ اس خلافت کے اپنے طور طریقے کیا تھے اور دنیا کے مختلف علاقوں پر بزور شمشیر قبضے کے علاوہ کونسا کارنامہ انکا تھا کہ مسلم دنیا خود کو اس سے جڑا ہوا محسوس کرتی. سو وہ ہوا جو منطقی طور پر ہونا چاہیئے تھا. اور وہ خلا اب بھی ہے، لیڈرشپ کا بحران ہے جو ختم نہیں ہوا، القاعدہ یہ جگہ لے سکے گی؟ مجھے تو کم از کم ایسا نہیں لگتا.
اس سے پہلے کہ آپ مجھ پر نعمان کی طرح قادیانی، مرزائی، شیعہ، یہودی ایجنٹ یا ایسا کچھ ہونے کا لیبل لگا دیں میں بتا دوںکہ میں الحمد اللہ ایک راسخ العقیدہ سنی حنفی ہاشمی سید خاندان سے ہوں جسکا شجرہ نسب گاؤں میں محفوظ پڑا ہے، ہمارے آباؤ اجداد کے مزارات پر بلوٹ شریف میں ایک خلقت حاضری دیتی ہے (گرچہ میں خود کبھی نہیں گیا) اور میرے بزرگوں نے کئی صدیوں سے پورے علاقے کی فکری رہنمائی کی ہے. ایسا کہنے کی ضرورت آپکی مخصوص ذہنیت کو سامنے رکھ کر پڑی ورنہ بخدا میرے نزدیک ایک انسان کا تقوی اور اعمال ہی سب کچھ ہیں اور ان باتوںکی کوئی اہمیت نہیں.
آپ کا پہلا سوال ہی اس بات کا غماز ہے کہ آپ میری بات سمجھ نہیں پائے ہیں یا سمجھنا نہیں چاہ رہے ہیں۔ اس سوال کا جواب میں ان الفاط میں ((مثلا سپاہ صحابہ کے اسی فیصد نظریاتی افراد جیلوں میں بند ہیں اور اس کے مقابل شیعہ حضرات کو اسی فیصد چھوٹ حاصل ہے اور ایران کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ اسی طرح کراچی میں بڑے بڑے علماء کی ٹارگٹ کلنگ کی جاتی ہے اور دوسرے فرقوں کے عسکری ونگ کھلا کام کر رہے ہیں۔ ((مثلا سپاہ صحابہ کے اسی فیصد نظریاتی افراد جیلوں میں بند ہیں اور اس کے مقابل شیعہ حضرات کو اسی فیصد چھوٹ حاصل ہے اور ایران کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ اسی طرح کراچی میں بڑے بڑے علماء کی ٹارگٹ کلنگ کی جاتی ہے اور دوسرے فرقوں کے عسکری ونگ کھلا کام کر رہے ہیں۔ ))دے چکا ہوں۔
جس کا خلاصہ یہ بنتا ہے کہ نا انصافی اور مخصوص فرقہ پروری ہمیشہ تشدد اور عدم برداشت کو جنم دیتی ہے، اور آپ کا یہ کہنا کہ خود کش حملہ آور فاٹا کے تھے تو یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے ۔ سپاہ صحابہ فاٹا میں بھی ہے اور پرتشدد شیعہ گان پارہ چنار میں بھی ہیں۔ اور یہ کہ سپاہ کی کارروائیوں کا اسلام کی نشاۃ ثانیہ سے تعلق کا مسئلہ ہے تو وہ تو آپ کا اختراعی ہے، میری بات اتنی سی تھی کہ (((اسی طرح کراچی میں بڑے بڑے علماء کی ٹارگٹ کلنگ کی جاتی ہے اور دوسرے فرقوں کے عسکری ونگ کھلا کام کر رہے ہیں۔ اسی طرح دیوبندی مدارس کو حکومتی سرپرستی میں نیست و نابود کیا جاتا ہے اور دوسرے فرقوں کو وزارتوں سے نوازا جاتا ہے۔ یہاں یاد رہے کہ مولانا فضل الرحمٰن سیاسی ہیں دیوبندی یا مذہبی نہیں ہیں، اگرچہ وہ اپنے آپ کو مذہب کے ٹھیکیدار ثابت کرنے پر تلے ہوں۔ اسی لئے یہ تنظیمیں بعض اوقات زیادہ سخت گیر موقف اپناتی ہیں۔)))
یہاں سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی بھی طبقہ کے کچھ لوگ جب زیادہ پستے ہیں تو عدم تشدد کا فلسفہ دفن ہوجا تا ہے۔ رہا یہ مسئلہ کے خود کش حملہ آور طالبان میں سے تھا کس کی ہے؟ آپ کی سچ کی پجاری گورنمنٹ کی؟؟ جو سچ کو قرآن و حدیث نہیں سمجھتی یا کسی آزاد محقق یا تحقیقی ادارہ کی؟
رہی آپ کی یہ بات کہ(((آپ نے مسلم دنیا کی جو تاریخ بیان کی ہے وہ غلط نہیں لیکن اس ساری کہانی میں بہت سے جھول بھی ہیں. کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ بن لادن خاندان کا سارا جھگڑا ہی سعودی اقتدار کا ہے. سوال تو یہ بھی اٹھتے ہیں کہ بن لادن خاندان کا کاروبار امریکہ میں کیسے جاری و ساری ہے جب موصوف خود امریکہ کے “اشتہاری” ہیں)))
پہلا جھول: بن لادن خاندان کا اقتدار کا جھگڑا!! اگر ایسا کچھ ہوتا تو آج حرمین میں سعودی بادشاہان بن لادن کمپنی کی خدمات قطعا برداشت نہ کرتے۔
دوسرا جھول: بن لادن خاندان کا کاروبار امریکہ میں!! تو جہاں بن لادن خاندان میں شیخ ہیں وہاں آپ جیسے روشن خیال بھی ہیں جن کے انٹرویوز اور تصاویر آپ انٹرنٹ پر دیکھ سکتے ہیں۔
اور صرف کہنے والوں کی باتوں میں آنا اور اسے آگے چلانا کم ازکم حقیقت پسندوں کا شیوہ نہیں ہے۔ اس لئے آپ کے وساوس کا فی الحال ہمارے پاس کوئی علاج نہیں ہے۔
جہاں تک آپ کی یہ بات ہے((آپ نے جن گروپوں کا ذکر کیا ہے وہ سب الگ الگ دھڑے ہیں جنکے اپنے مخصوص مقاصد ہیں. صرف مشترکہ دشمن اور مستقبل قریب کے کچھ مشترکہ مفادات نے انھیں اکھٹا لا کھڑا کیا ہے جیسے القاعدہ اسی کی دہائی میں امریکہ کی رفیق تھی. یقین مانئے کہ ان سب کی فکری اساس اتنی کمزور (یا مختلف) ہے کہ اگر آج امریکہ افغانستان، عراق سے نکل جائے تو یہ آپس میں ہی جھگڑنا شروع کر دیں اور انکو سمجھ ہی نہ آئے ))
تو میں نے تن تمام گروپوں کا فکری ارتباط اوپر واضح کردیا ہے اور آپ کا یہ اچھوتا یقین میں ہرگز ماننے کے لئے تیار نہیں کہ وہ آپس میں جھگڑیں گے کیوں کہ طالبان دور اور موجودہ جدوجہد اور ایک دوسرے پر تن من دھن وارنا جیسی اظہر من الشمس حقیقتیں میرے سامنے ہیں۔ اور آپ کا القاعدہ کو لیڈنگ کے لائق نہ سمجھنا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ فکری ذوق میں کون ڈو لیزا رائس کی اقتدائ کے باوجود ابھی خلاء نفسانی میں گھوم رہے ہیں کیونکہ وہ بےچاری اور ان کے ہمنوا بخوبی سمجھتے ہیں کہ القاعدہ کا نظم بے مچال ہے۔
آپ کی یہ ہرزہ سرائی کہ (((خلافتِ عثمانیہ کے ٹوٹنے کا تو آپکو غم ہے لیکن یہ بھی تو بتائیے کہ اس خلافت کے اپنے طور طریقے کیا تھے اور دنیا کے مختلف علاقوں پر بزور شمشیر قبضے کے علاوہ کونسا کارنامہ انکا تھا کہ مسلم دنیا خود کو اس سے جڑا ہوا محسوس کرتی. سو وہ ہوا جو منطقی طور پر ہونا چاہیئے تھا))))
اس پر میں خلافت کا ایک ہی کارنامہ بیان کروں گا اور وہ خلیفہ عبد الحمید ثانی رحمہ اللہ کا وہ موقف ہے جو یہودیوں کے پیشوا ہرٹزل ن کے ارض فلسطین کو مانگنے پر تھا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ:
جہاں تک ارض فلسطین کی بات ہے تو یہ ممکن ہی نہیں کہ میں ایک بالشت زمین بھی تمہارے لئے خالی کردوں یہ میری نہیں پوری امت مسلمہ کی ملکیت ہے۔ جب تک میرے بدن میں خون کا ایک قطرہ بھی ہے تو یہ ممکن ہی نہیں کہ تمہاری سوچ عملی جامہ پہن جائے ہان یہ ہے کہ جب خلافت ختم ہوجائے گی تو تمہیں فلسطین بلاقیمت بھی مل جائے گا))) اس خط کی اصلی تصویر میرے پاس موجود ہے اگر آپ چاہیں گے تو ارسال کردی جائے گی۔
میرے خیال میں اس سے بڑا کارنامہ کوئی نہیں تھا کہ خلافت عثمانیہ نے دنیا بھر میں خصوصا مشرقی وسطیٰ میں فتنوں اور جنگوں کا دروازہ بند کر رکھا تھا۔ اور بزور شمشیر قبضہ کی بات کا جواب یہ ہے کہ قبضہ شمشیر زن ہی کرتے ہیں اور شمشیر سے ہی ہوتا ہے ،ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا اس بارے میں طریقہ کار اور لقب(( نبی الملاحم)) جنگوں والے نبی ہمارے سامنے ہے۔ البتہ یہ بات اگر آپ نے تاریخ کا مطالعہ کیا ہوتو آپ کو معلوم ہونی چاہئے کو خلافت عثمانیہ کہ صدیوں پر محیط دور میں اتنا سکون اور امن تھا کہ نو تو بغواتیں کھڑی ہوئیں اور نہ خلافت کے دعویدار پیدا ہوے۔ یہ بنو امیہ کے بعد کی تمام خلافتوں میں ایک ممتاز حیثیت ہے جو اس خلافت کے حصے میں آئی تھی۔ تھوڑی بہت کمزوریان انسان میں ہوتی ہیں۔ ہاں یہ یاد رہے کے خلافت عثمانیہ کو کمزور کرنے اور اس سے لڑنے والوں میں عبد اللہ بن سبا کا پیروکار شیعان دنیا کا سردار تیمور لنگ واحد تھا جس نے ہمیشہ کی طرح اسلام کو نقصان پہنچایا۔ اور دوسرے یہودی اور صہیونی تھے جنہیں مصطفیٰ کمال کے روپ میں مشرف اور اس کی طاقت کی شکل مں فیصل جیسے روشن خیال اور لال مسجد پر وکٹریاں بنانے والے مخلص فوجی بھی دستیاب تھے۔
اور ((( لیڈر شپ کا بحران)))) جس کا آپ ڈھنڈورا پیٹ تے ہیں پیٹ رہے ہیں اس وقت حل ہوگا جب قوم زندہ ہوگی آپ جیسے دوسروں کی سوچ پر پلنے والے جب تک رہے تو نہ لیڈر ملے گا اور نہ ہی لیڈر شپ کی پیدائیش کے لئے راہ ہموار ہوگی کیونکہ پنجابی میں کہتے ہیں (( جے ہو جیا منہ او ہو جئی چپیڑ)) کہ جیسا منہ ہوتا ہے ویسا ہی تھپڑ چاہئے ہوتا ہے، لہٰذا ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنا چاہئے تاکہ یہ بات ثابت ہوجائے کہ: خودی کو کر بلند اتنا کہ خدا تجھ سے پوچھے کہ بتا تیری رضا کیا ہے۔
جہاں تک آنجناب نے یہ فرمایا کہ((((اس سے پہلے کہ آپ مجھ پر نعمان کی طرح قادیانی، مرزائی، شیعہ، یہودی ایجنٹ یا ایسا کچھ ہونے کا لیبل لگا دیں میں بتا دوںکہ میں الحمد اللہ ایک راسخ العقیدہ سنی حنفی ہاشمی سید خاندان سے ہوں جسکا شجرہ نسب گاؤں میں محفوظ پڑا ہے، ))))) تو میں آ ج بھی کہتا ہوں کہ نعمان صاحب کی سوچ اور آپ کی سوچ اس ایجنٹی کی ایک سو ایک فیصد غماز ہے اور اس بدلنا ایک مسلمان ہونے کے ناطے ضروری ہے۔ رہی آپکی (((راسخ العقیدہ سنی حنفی ہاشمی سید خاندان سے ہوں جسکا شجرہ نسب گاؤں میں محفوظ پڑا ہے))) بات تو سید ہونے کے ناطے ہم آپ کے جوتوں کی خاک بھی نہیں ہیں مگر آپ کا نظریہ اور طرز استدلال نہ تو حسنی ہے اور نہ ہی حسینی (رضی اللہ عنہما) اور آپ کی سوچ کا محور نہ تو حیدر کرار(کرم اللہ وجہہ) والا ہے اور نہ ہی آپ کسی فاطمی(رضی اللہ عنہا) تربیت کا چشم و چراغ لگتے ہیں۔ شاید چراغ تلے اندھیرے والا محاورہ ایسے موقعوں کے لئے ہی وضع ہوا ہے۔ البتہ میری مخصوص چند عالی دماغوں کو چبھتی ہوءی ذہنیت سے آ پکا سیخ پا ہونا نہ توحیران کن ہے اور نہ ہی میرے لئے پریشان کن ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو سیدھا راستہ دکھائے۔آمین
نوٹ: اب یہ ثابت ہونے کے بعد کہ آپ اپنے نظریات کے پیروکار ہیں اور میری سوچ اسلام پسندی(جدید انتہا پسندی) کی آئینہ دار ہے میں اس موضوع پر مزید وقت ضائع نہیں کرنا چاہوں گا، البتہ اگر آنجناب اور ہم اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے مسائل کے حل کی چاہت رکھیں اور دنیا کے لئے کچھ کرنا چاہیں تو ایسے ایشوز پر بات کی جا سکتی ہے۔
رہی بلاگ شروع کرنے کی بات تو میں یہ کہنے سے نہیں ہچکچاوں گا کہ مجھے سب بلاگز میں نعمان صاحب کے بلاگ کی سیٹنگ اچھی اور آسان لگی ہے اور یہاں کبھی کبھار آمد ورفت بھی اسی دلچسپی کی وجہ سے ہے۔ میرا اپنا بلاگ شروع کرنا وقت مانگتا ہے اور زائرین سے مفید گفتگو کے لئے اچھی خاصی محنت درکار ہوتی، صرف من چاہی سوچ کو آگے چلادینا اور جو منہ میں آئے کہہ دینا میرے نزدیگ ایماندار بلاگنگ سے ماورا ہے۔ اس کا حل میں نے یہ سوچا ہے کہ پہلے ایک تحقیقی سایٹ بناءی جائے اس کے بعد لوگوں کے استفسارات کے مطابق انکا جواب دیا جائے اس سلسلے میں ایک ہلکی پھلکی سایٹ بنانے کے لئے آپ حضرات کے تجربات اور مشورے مفید ہوسکتے ہیں۔
کچھ بڑےٹائپنگ ایررز:
1- اوپر ایک جملہ دو دفعہ پیسٹ ہوگیا ہے جس کے لئے معذرت چاہوں گا۔
2- اور یہ عبارت (((رہا یہ مسئلہ کے خود کش حملہ آور طالبان میں سے تھا کس کی ہے؟))) اصل میں (((رہا یہ مسئلہ کے خود کش حملہ آور طالبان میں سے تھا کس کی ہے؟))) اس طرح ہے۔
3- اوپر بے مثال کی جہ بے مچال لکھا گیا ہے۔
ایک چیز میں کہنا چاہ رہا تھا مگر باتوں میں گول ہوگئی وہ یہ کہ:
نعمان صاحب کی تبصرہ جاتی پالیسی امریکی جمہوریت اور بالادستی کا ایک چرب ہے، لہٰذا پہلے ہم امریکہ گردی کا شکار ہیں اب نعمان پسندی کا زکار ہوئے تو کیا ہو!!
((چربہ))
حافظ اگر تم مجھ پر کفر کے فتوے صادر نہ کرو اور ذاتیات سے گریز کرو تو تمہارے تبصرے مور دین ویلکم ہیں.
نعمان چاچا آپ ہمیشہ یہی تہمت لگادیتے ہم نے بارہا آپکو ایسےتبصرے ڈلیٹ کرتے دیکھا ہے جس میں آپکو واجب القتل نہیں کہا گیا لیکن آپ نےجھوٹی تہمت لگا کراس کوڈلیٹ دے مارا
اور آپ نے اوپر حافظ عطاءالله كي سائٹ کا لنک تو مٹا ہی دیانا؟؟؟
خیر اور فرمائں دھی فروشی کا کاروبارکیساچل رہا ہے
نعمان چاچا آپ کے بلاگ کی پرانی تحاریر میں تلاش کرنا چاہ رہا ہوں مگر ناکام رہا ہو تقریبا چارپانچ سال پہلے کی کوئ تحریر اگرکوئ پڑھنا چاھے توکیاکرےجی?؟?؟آپ کے بلاگ کاڈیزائن بہت خوبصورت اورتکنیکی لحاظ سےاعلی ھے مگر بلاگ کامواد پھوڑے کے مواد سے کم گندا نہیں جیسےچاندی کے پلیٹ میںٹررکااچار:->خیر چاچا تم جانو ناکہ مجھے تمہاراکتنا خیال اپنےبلاگ پراچھے اچھے تکنیکی مضامین لکھاکرواور اپنی قوالیفکیشن کی میراث تقسیم کرجاؤ جو کہ بانٹنےسےبڑھتی ھے نہیں تو آپ کے ساتھ آپکا یہ ربردست ٹیکنکل علم بھی دفن ھو جاۓگااورہم محروم رہ جائنگے لہذا کچھ ایسا کرجاؤ جو کہ ہم آپکو یاد رکھ سکیں اورطفل کو کبھی کوئ کام ہو ضرورحکم کرا کریں
آپکا بھتیچہ
طفل معصوم