میٹروبلاگ کراچی کی بلاگر تزین کو دن دھاڑے کسی طالبان بھائی نے اسلام کے نام پر ہراساں کیا۔ کراچی کے اکثر لوگوں کو شمالی علاقہ جات، صوبہ سرحد اور فاٹا سے آنے والے بے حساب پناہ گزینوں سے کچھ اسی قسم کا خطرہ ہے۔
تزین کی پوسٹ کے فورا بعد کراچی میٹروبلاگ پر ڈاکٹر علوی، صدر صاحب اور سندھ حکومت کے رجسٹریشن کے فیصلے کا ذکر کرتے ہوئے، میٹروبلاگ کراچی کے قارئین سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ بتائیں ان کے خیال میں نئے آنے والوں کی رجسٹریشن ہونی چاہئے یا نہیں۔ اور جس وقت میں دیکھ رہا تھا تب انہتر فیصد لوگ اس کے حق میں تھے۔ تبصرہ جات دیکھ کر آسانی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شہریوں کی بڑی تعداد اسے کافی اچھا قدم سمجھتی ہے۔
اس سلسلے میں ڈاکٹر علوی کی پوسٹ پر کامی کے تبصرہ جات کافی مدلل ہیں۔ اور میں بہت حد تک ان سے متفق ہوں۔ کہ رجسٹریشن ہونا چاہئے۔ لیکن کامی کہیں بھی یہ نہیں بتا پائے کہ خونریزی سے بچتے ہوئے کس طرح ُپختون آبادی کو رجسٹریشن پر تیار کیا جاسکتا ہے؟ ان تبصرہ جات میں کچھ لوگ تو اس بات پر بھی بحث کررہے ہیں کہ کراچی میں ووٹ دینے کا حق کسے ہونا چاہئے۔ یہ بھی وہیں سے پتہ چلا کہ انٹرنلی ڈسپلیسڈ رفیوجز کی رجسٹریشن دنیا کے اور کئی ممالک میں ہوتی رہی ہے۔ یہ بھی علم ہوا کہ چائنا ہانگ کانگ جانے والے تمام چینی باشندوں کر رجسٹریشن کرتا ہے اور انہیں یہ یقین دہانی کرانا ہوتی ہے کہ وہ واپس مین لینڈ چین واپس آئیں گے۔ لگتا ہے اس مسئلے پر میں ہی سب سے کم علم تھا باقی سب لوگ تو اس پر ٹھیک ٹھاک سوچ بچار کرچکے ہیں۔
میرا خیال بھی یہ ہے کہ ہمیں شہر میں ہر نئے آنے والے کی رجسٹریشن کرنا چاہئے۔ لیکن ڈر یہ ہے کہ اس قسم کے کسی بھی فیصلے سے شہر میں رہنے والے پختون تعصب کا نشانہ بنیں گے اور ان کی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ اور رجسٹریشن کا یہ سارا بکھیڑا کسی سنگین فساد کی صورت اختیار کرسکتا ہے۔ بالفرض اگر یہ فساد کی صورت نہیں بھی اختیار کرتا تو کیا رجسٹریشن سے پورے ملک سے آنے والوں لوگوں کی تعداد میں کچھ کمی آجائے گی؟ کیا دہشتگرد رجسٹریشن نہیں کراسکتے؟ کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ ہم اپنے وسائل انٹیلی جنس کو بہتر بنانے میں خرچ کریں۔ اور عوامی زندگی میں دخل ڈالنے والے طالبان سے نمٹنے کے لئے انتہائی سخت رویہ اختیار کریں۔
اگر کسی کو کراچی میں خواتین کے بے حجاب گاڑی چلانے پر اعتراض ہو، ہمارے فحش فلمیں دیکھنے اور رقص و موسیقی سے لطف اندوز ہونے پر اعتراض ہو، ہمارے طور طریقوں رہن سہن پر اعتراض ہو۔ تو کیا اسے یہاں رہنا چاہئے؟ اگر تزین کے واقعے کی طرح اس قسم کے لوگوں نے ہمارے گھروں کے دریچوں پر دستک دینا شروع کی تو کیا ہم یہ برداشت کرسکیں گے؟ اور اس سے بھی بڑھکر کیا وہ ہماری مسلسل ڈھٹائی کے ساتھ اپنے طرز زندگی پر ڈٹے رہنے کو برداشت کرسکیں گے؟
تعزین کی کہانی میں ان کے بلاگ پر پڑھ چکا ہوں، اور مجھے انکی کہانی میں جھول نظر آتا ہے . ویسے بھی بقول انکے طالبان صرف "نارتھرتن پارٹس آف پاکستان” سے شائد تعلق رکھتے ہیں، کیونکہ ٹیکسی ڈرائیور ایسا نظر آ رہا تھا، اس لئے وہ طالب ہی تھا، جسے انگریزی میں پریجڈس یا اردو میں تعصب پرست کہتے ہیں، ایسا رویہ امریکہ میں کالوں کے ساتھ بھی برتا جاتا ہے، جہاں کسی کالے کے سٹور میں آنے کے بعد ہر کوئی چوکس ہو جاتا ہے کہ یہ چور ہی ہے .
فکر والی بات یہ ہے کہ کیا صرف کراچی آنے والوں کی ہی رجسٹریشن ہونی چاہیے دوسرے شہروںکی نہیں. کیا لاہور، فیصل آباد، اسلام آباد، حیدرآباد، کوئٹہ اور پشاور پاکستان کے شہر نہیںہیں اور کیا صرف کراچی کو ہی طالبنائزیشن سے خطرہ ہے دوسرے شہروںکو نہیں.
میرا تو خیال ہے ہر شہر کے باہر ایک فصیل بنا دی جائے، اور ہر آنے والے کا ڈومیسائل وہاں چیک کیا جائے، اس کے علاوہ "ترقی یافتہ” شہروں میں داخلے کے لئے ایک عدد ویزا کا اجراء کیا جائے، اور اس سے ہونے والی آمدن ان شہروں کی شہری حکومتوں کو ادا کی جائے. اس سے ایک اور بہتر آپشن یہ بھی ہے، کہ ان شہروں میں نئے آنے والوں سے ہر قسم کے خطرات سے بچنے کے لئے، شہر کے گردو نواح میں نئے علاقے قائم کئے جائیں، اور چھاؤنی کی طرز پر وہاں فوجی یا نیم فوجی پہرہ کا انتظام کیا جائے، کیونکہ زیادہ آنے والے ان پڑھ اور جاہل ہوتے ہیں، اس لئے خطرہ ہے کہ وہ شہریوں پر بوجھ بنیں گے، اس سے نپٹنے کے لئے ایسے جاہلوں کو صج ٹرکوں میں بھر کر ان سے شہر میں تعمیراتی کام کروائے جائیں، اور بدلے میں انہیں روٹی اور رہنے کی ضمانت دی جائے، اس طرح وہ شہریوں پر بھی بوجھ نہیں بنیں گے .
nice … i like jahanzaib idea 😀
Lets do it
سر جی! ایسا کریں کہ شہر کے گرد چالیس فٹ اونچی اور دس فٹ چوڑی فصیل بنا کر ہر بیس فٹ پر برجیاں بنا دیں! ہر برجی میں کم از کم پندرہ ایم کیو ایم کے بندے کھڑے کر دیں جو ہر آنے جانے والے سے بھتہ وصول کر کے اسے ایٹم بم سمیت کراچی میں داخل ہونے دیں. کراچی کے لیے ویزہ کی شرائط اتنی سخت کر دیں کہ امریکیوں سے گِلہ ختم ہو جائے.
اب تو ہمیں بھی اپنے شہر کے لیے رجسٹریشن شروع کرنی پڑے گی.
اچھی کاوش ہے اتحاد کے لیے.
رجسٹریشن محض وقت اور پیسے کے ضیاع کے اور کچھ نہیں. دوسری بات یہ کہ اس سے صرف منافرت ہی پھیلے گی.
یار ہمارے فیصل آباد کا کیا بنے گا. یہاں تو فاٹا اور پاٹا سے کئی لوگ آکر آباد ہیں. بلکہ میرا ایک جاننے والے خان بابا مہمند کا شنواری ہے جہاں آجکل آپریشن چل رہا ہے.
مجھے تو ڈر لگ رہا ہے اب اس کی ڈاڑھی سے.
رجسٹریشن سے منافرت اور فساد پھیلنے کا ڈر میرے خیال میں اس عمل سے حکومت کو باز رکھے گا. یہ کافی بڑی قیمت ہوگی.
لیکن یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ بغیر فساد پھیلائے یہ کام افہام و تفہیم سے انجام دیا جاسکے.
اگر ایسا کیا جاسکے تو اس سے شہر کو بہت زیادہ فائدہ ہوگا. کیا آپ لوگ واقعی مسئلے کو اس رخ سے نہیں دیکھ سکتے؟
شہر میں آنے والا ہر شخص اس شہر کی سڑکیں، گلیاں، پانی، بجلی استعمال کرتا ہے۔ ہر آنے والے خاندان کے بچوں کو اسکول اور ہسپتال چاہئے۔ انہیں ایسی نوکریاں درکار ہونگی جس سے وہ گزر بسر کرسکیں۔ کے ای ایس سی، واٹر بورڈ، مقامی حکومتیں، بزنسز، این جی اوز، ہر کسی کو اس معلومات کا فائدہ ہوگا۔ کراچی میں رہنے والے لاکھوں لوگوں کے پاس کراچی کے شناختی کارڈ بھی نہیں ہیں۔ رجسٹریشن سے کسی کو شہر بدر کرنے یا ان کو رہنے کا اجازت نامہ دینا مقصود نہیں بلکہ محض معلومات کا حصول ہے۔ اور یہ معلومات انتہائی بیش قیمت ثابت ہوگی۔
کیا ایک فائدہ مند کام محض اس لئے نہ کیا جائے کہ اس میں ایم کیو ایم ملوث ہے؟ بالفرض اگر یہی تجویز نعمت اللہ خان یا جماعت اسلامی کے کسی بندے نے دی ہوتی تو؟
آخری دفعہ پڑتال کرنے پر مجھے "کراچی کا شناختی کارڈ” نہیں ملا، بلکہ پاکستان کا شناختی کارڈ نام کی چیز آتی ہے، اسے لئے انگریزی میں اسے "نیشنل آئڈنٹی کارڈ” اور اردو میں قومی شناختی کارڈ کہا جاتا ہے . رہ گئی بات سہولیات استعمال کرنے کی، تو اس کے لئے شہر ٹیکس لاگو کرتے ہیں، اس نظام کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے. آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ کراچی میں پیدا ہونے والا شخص جو بیان کردہ تمام سہولیات استعمال کرتا ہے، اپنے ٹیکس بھی درست ادا کرتا ہے، جبکہ کراچی کی ایک اور بلاگر کھلے عام کنڈے ڈالنے کا واقعہ بھی بیان کر چکی ہے. حل نفرتیں پیدا کرنے میں نہیں نظام کو فول پروف بنانے میں ہے .
کیا ایک فائدہ مند کام محض اس لئے نہ کیا جائے کہ اس میں ایم کیو ایم ملوث ہے؟ بالفرض اگر یہی تجویز نعمت اللہ خان یا جماعت اسلامی کے کسی بندے نے دی ہوتی تو؟
دیکھے اپ کے نظریے اچھے ہے لیکن کچھ وجہ سے اپ ہم سے الگ ہو جاتا ہے .یہ صییح ہے اپ پاکستانی ہے ہم بھی ہے ..لیکن ہم مسلما………. …
تو کہنے کا مقصد یہ یے مزکورہ بالا عبارت میں اپ نے کہا کے اس کا کا م کو نعمت اللہ خا ن نے دی ہوتی تو ہم اسے اچھا سمجھتے ….. بات رہی ایم کیو ایم کی اپ کی حمایت کی اس کی دو وجہ ہے جو کہ اپ سمجھ گئے ہو گے میں اس تبصرہ کو زاتی نہیں بنا نا چا ہتا ہوںنہ ہی چا ہتا ہو اس میں کچھ حزف ہو .میں ایم کیو ایم دو چیزوں کی وجہ سے نفت کرتا ہو .پہلی وجہ اس کا دہشت گر د ہونا ہے .12 مئی کا قصہ ….. اگر واقعی اپ لبرل ،ازاد سوچ کے مالک ہے تو اس کا جواب دے سکتے ہے جو کے اپ نے اپنے بلاگ کے تعارف میں لکھا ہے جس کی وجہ سے میں یہاں وقت دیتا ہوں .میں خود بھی لبرل اور ازاد سوچ کا مالک ہو .اللہ نے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت دی میں خود سندھی ہو ں اور پیپلز پارٹی سے تعلق ہے لیکن میں یہ سچ لکھنے سے نہیں گھبراتا کے اس جما عت کے اقتدار میں انے سے ہم نا جائز فا ئدہ اٹھا رہے ہے.جو غلط ہے .کیونکہ میںا ندھ ، گونگھ ،بہرا نہیں ہو .دن کو دن کہوں گا …… رات کو رات ……
مجھے بتا ئے اس جماعت کا ہر قومیت سے کیوں جھگڑا ہے .اول دن سے یہ کبھی پشتونوں سے لڑ رہے کبھی سندھیوں سے کبھی پنجا بیوں سے اور کبھی بلوچوں سے اور قوموں کے اپس میں اتنے جھگڑے نہیں ہو تے ہے جتنے اس کے ہے .ان کا لیڈر تو لندن میں شاہا نہ ٹھاٹ باٹ سے رہتا ہے اتنی محبت ہے تو وطں کیوں نہیں اتا ہے ؟؟؟؟ رہی بات ان پاکستانی طا لبا ن کی یہ کون سے وطن پرست ہے بیت اللہ محسود خود امیرہکی ایجنٹ ہے اخر کیوںاس پر فصا ئی ھملہ نہیں کرتاہے ……..لیکن اخر میں یہ کہوں گا کے خدا کے لئے اس شہر میں معصوم لو گوں کے خون سے مت کھیلو ..کیوں برے لوگ ہر جگہ پا ئے جاتے ہے جنہیں صرف موقہ چا ہیے ….
جہانزیب: کراچی کے شناختی کارڈ سے مراد. شناختی کارڈ پر کراچی کا پتہ تھا. شہر جو ٹیکس لاگو کرتے ہیں۔ نئے پناہگزینوں اس ٹیکس نیٹ میں نہیں آپاتے۔ کیونکہ یہ کچی آبادیوں میں رہتے ہیں۔ سرکاری، ویران اور غیرآباد جگہوں پر تعمیرات شروع کردیتے ہیں۔ بچوں کو اسکول نہیں بھیجتے اور بجلی، پانی اور ٹیلیفون کا کنکشن حاصل نہیں کرتے۔ اتنی بڑی تعداد میں غیر ہنرمند مزدوروں کی شہر میں آمد سے پہلے سے رہائش پذیر مزدوروں کی حق تلفی ہوتی ہے اور ان کی دیہاڑیوں میں کمی آتی جاتی ہے۔ بڑی تعداد میں بیروزگار نوجوان، جو کم پڑھے لکھے ہوں اور جن کی آبادیوں میں طالبان اور القاعدہ سرگرم ہوں۔ کیا واقعی آپ کو نہیں لگتا کہ یہ انتہائی خطرناک صورتحال ہے؟ ذرا سی چنگاری سے یہ نوجوان اردو بولنے والوں پر پل پڑیں گے اور کتنی کٹاچھنی مچے گی اس کا کوئی اندازہ بھی نہیں لگا سکتا۔ شاید آپ کو ضیاء دور کے پٹھان مہاجر فساد یاد ہونگے جب مہاجروں کی پوری بستیوں پر افغان و پاکستانی پٹھانوں نے قتل عام مچاگیا تھا اور ان کی ویڈیوز آج بھی نائن زیرو پر نفرت پھیلانے کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔ لیکن چونکہ کراچی کے شہری یہ فسادات پہلے دیکھ چکے ہیں اس لئے ان کا خوفزدہ ہونا فطری عمل ہے۔
روسی شہری میں بھی اس پوسٹ کو ایم کیو ایم کے بجائے کراچی پر فوکس رکھنا چاہتا ہوں. اور میں خود بھی پیپلزپارٹی کا ووٹر اور سندھی ہوں. یہ اور بات ہے کہ میں خود کو مہاجر کہلوانے میں بھی شرم محسوس نہیں کرتا.
میں یہ چاہتا ہوں کہ خون خرابے کے خدشے کو اگر ہم دور کردیں تو دیکھیں کیا یہ فائدہ مند تجویز ہے؟ میں بالکل اس بات کا حمایتی نہیں کہ جبرا اس قانون کو شہر کی پختون آبادی کے سر پر مسلط کردیا جائے اور مجھے خود اس بات کا اندازہ ہے کہ شہر میں پہلے ہی ان کے ساتھ کافی نفرت انگیز سلوک برتا جارہا ہے.
لیکن اس شہر کی غریب پروری کی بھی کوئی انتہا ہونی چاہئے. اس کا دامن تنگ نہیں مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ہم اس دامن کو اتنا بھردیں کہ یہ پھٹ جائے.
نعمان آپکے خدشات درست ثابت ہونا شروع ہو گئے ہیں. مجھے ایک جاننے والے کی توسط سے اطلاع ملی ہے کہ انکی مہاجروں سے کافی سخت قسم کی لڑائی ہوئی ہے. مہاجر انہیں طالبان وغیرہ کہہ کر نکلنے کی کہہ رہے تھے. یہ لوگ نئے آنے والے قبائلی مہاجرین نہیں بلکہ سوات کے سالوں سے رہنے والے کراچوی ہیں. بہرحال اب وہ سر کسی کے ہاتھ سر پھاڑ کر گھر میں پڑا ہے.
آپ کو نہیں لگتا کہ ایم کیو ایم کا طالبان پروپیگنڈا عام لوگوں کو تصادم کی طرف دھکیل رہا ہے؟
روسی شہری میں بھی اس پوسٹ کو ایم کیو ایم کے بجائے کراچی پر فوکس رکھنا چاہتا ہوں. اور میں خود بھی پیپلزپارٹی کا ووٹر اور سندھی ہوں. یہ اور بات ہے کہ میں خود کو مہاجر کہلوانے میں بھی شرم محسوس نہیں کرتا.
‘
اپ نے تھوڑا زکر کیا تو میں بھی کر دیا
دو خبروںکو بصیرت سے پڑھے گے تو معاملے سمجھ سکتے ہے
پہلی خبر دیکھے "نامعلوم افراد” کے کا رناے
http://www.ummatpublication.com/2008/11/26/lead4.html
پروپیگنڈے کی صیح وجہ
http://www.ummatpublication.com/2008/11/26/lead5.html
یہ لو گ چا ہتے جنگل کے شیر کی طر ح اس شہر میں راج کر ے جب موقع ملے تو اسے ” جناح پور ” میں تبدیل کر دے
ساجد مجھے ایم کیو ایم کی سیاست پر اعتراضات ہیں. اور شہر میں انتہائی تیزی کے ساتھ داڑھی والوں اور شمالی علاقہ جات سے تعلق رکھنے والوں کے خلاف تعصب اور نفرت پھیل رہی ہے. میرا خیال ہے رجسٹریشن تصادم روکنے کا ایک طریقہ ہوسکتی ہے. مگر ضروری نہیں کہ رجسٹریشن ہی کی جائے دیگر طریقہ کار بھی ہوسکتے ہیں. جیسے شہری حکومت رجسٹریشن ان لوگوں کے لئے کھول دے جو اقوام متحدہ کے رفیوجی پروگرام یا مقامی حکومتوں سے امداد کے حصول کی توقع رکھتے ہیں. اور غیرقانونی مدارس کے خلاف سخت اقدامات کرے جائیں اور انٹیلی جنس بہتر بنائی جائے.
روسی شہری میں امت اخبار کو اس لائق نہیں سمجھتا کہ ان کی خبروں کو خبر سمجھوں. ان کی جانبداری میں کوئی شبہ نہیں ہے.
الطاف بھائ کراچی کو نوے کی دہائی میں پہنچانا چاہتے ہیں۔ الطاف بھائی ایک عرصے سے طالبان کو چیلنج کر رہے ہیں کہ آؤ ہم انتظار کررہے ہیں اور تم سے نمٹنے کے لیے تو ہماری “خواتین“ تک تیار ہیں۔ اصل میں الطاف بھائی کراچی میں رہنے والے پٹھانوں کو طالبان بننے پر مجبور کررہے ہیں۔
آپ نے کراچی کے فسادات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ افغانی و پاکستانی پٹھانوں نے مہاجروں کی بستیوں میں قتل عام کیا لیکن آپ کے لبرل ازم نے یہ گوارا نہ کیا کہ ان فسادات میں مہاجروں کا کردار بھی بتادیتے۔ پٹھانوں کو اس تشدد پر ایم کیو ایم نے بھڑکایا تھا اور پختونوں کو لکڑی کے ٹالوں اور گھروں میں زندہ جلادیا گیا تھا۔ پختونوں کے کچھ خاندانوں کو اس بے بدردی سے ہلاک کیا گیا کہ ان کا بدلہ لینے کے لیے پختونوں کی اکثریت جنون میں مبتلا ہوگئی اور یوں انہوں نے بدلے میں مہاجروں پر حملہ کیا۔ پٹھانوں نے بھی جوابی طور پر ویسی ہی وحشت ناک کاروائیاں کیں جیسی ایم کیو ایم نے کی تھیں لیکن تعصب کی اس آگ لگانے کا سہرا ایم کیو ایم کے سر ہے۔
میں نے ساری زندگی کراچی میں بتائی ہے اور مجھے یہ بات اچھے طریقے سے معلوم ہے کہ پٹھانوں کے رویے میں لچک مہاجروں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ پٹھان در گزر کرنے میں مہاجروں سے بہت آگے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر مہاجروں کی “قومی غیرت“ جاگ اٹھتی ہے لیکن پٹھانوں کا حوصلہ قابلِ دید ہے کہ وہ کٹر مہاجر بستیوں میں بھی اپنے چائے خانے کھولتے ہیں اور دیگر کام کرتے ہیں۔ جتنا اگنور پٹھان کرتے ہیں اس سے آدھا بھی مہاجر کرلیں تو یہ فساد ہی باقی نہ رہے۔ اور اب تو مہاجروں کی بڑی اکثریت ایم کیو ایم کا اصل چہرہ جان چکی ہے بس “بندوق“ اور “مخبروں“ کے خوف سے خاموش ہے۔
س “بندوق“ اور “مخبروں“ کے خوف سے خاموش ہے۔
اس جما عت کی اصلیت یہ ہے کہ ان کے بھائی کی تنخواہ تو دہلی سے اتی ہے .اگر کوئی تھوڑا سے بھی وطن پرستی کا مادہ با قی ہو تو ان بھائی کے بیا نات کو غور سے پڑھا کر ے .اگر کراچی دوبارہ سے کوئی مسا ئل پیدا ہوتے ہے تو اس کا کیا جا نا ہے .لندن میں بیٹھ کر موجیں کرے مرے یہاں غریب لوگ ..
خاور بلال، میں جس فساد کا ذکر کررہا تھا وہ ایم کیو ایم کے وجود میں آنے سے پہلے کا واقعہ ہے. بشری زیدی کے فسادات کے حوالے سے مشہور ہے. ایم کیو ایم اس کے بعد وجود میں آئی ہے. ایم کیو ایم کی وکالت مقصود نہیں لیکن ایم کیو ایم بننے سے آج تک کراچی میں مہاجر پٹھان فسادات نہیں ہوئے۔ اور توقع ہے کہ آئندہ بھی نہیں ہونگے۔
جی آپ کی بات صحیح ہے کہ یہ بشریٰ زیدی فسادات ہی ہیں۔ ایک ٹریفک حادثہ جس میں ایک مہاجر لڑکی پٹھان ڈرائیور کے ہاتھوں جاں بحق ہوگئی تھی۔ اگر بشریٰ زیدی پختون، پنجابی یا کوئی بھی غیر “مہاجر“ ہوتی تو یہ واقعہ عام واقعات کی طرح ہی نمٹ جاتا لیکن کیونکہ مہاجروں کی بڑی تعداد کو انسانیت کی بجائے “قومیت“ عزیز تھی اس لیے اس واقعے کو ایسی ہوا دی کہ جس نے مہاجر پٹھان کو آمنے سامنے کردیا۔ اس قوم پرستی کی آگ میں جل کر قوم پرست مہاجروں نے تشدد کی وہ راہ اختیار کی کہ جس نے پٹھانوں کو بدلہ لینے پر مجبور کیا۔
اور اس کے بعد سے لیکر آج تک جو مہاجر پٹھان فسادات نہیں ہوئے وہ ایم کیو ایم کی وجہ سے نہیں بلکہ پٹھانوں کی فراخ دلی کا نتیجہ ہیں۔ ورنہ ایم کیو ایم بارہا ایسی حرکتیں کرچکی ہے کہ جن کی وجہ سے یہ فسادات پھر سے شروع ہونے کا اندیشہ تھا۔ بارہ مئی کے فورا بعد جب میں ایک پٹھان رکشے والے سے اپنے علاقے میں آنے کے لیے کہہ رہا تھا تو وہ بہت ڈر رہا تھا اور ایسی ہی فضا پورے شہر میں پائی جاتی تھی۔ بارہ مئی کا سارا دن اور اس سے اگلی رات میں نے جماعت اسلامی کے زخمی کاکنان کے ساتھ ہاسپٹل میں گزاری ہے۔ یقین کریں وہاں زخمیوں کی بڑی تعداد پٹھانوں کی تھی جن کے عزیز اس واقعے کے بعد مہاجروں سے نفرت کا اظہار کررہے تھے۔ یہ ہم لوگ تھے کہ جنہوں نے ان پٹھانوں کو سمجھایا کہ دیکھو یہ ظلم سب مہاجروں کی طرف سے نہیں بلکہ ایم کیو ایم کی جانب سے ہوا ہے اور ہم نے انہیں ایم کیو ایم کے ہاتھوں زخمی ہونے والے جماعتِ اسلامی کے مہاجر کارکنان دکھائے تو انہیں کچھ چین آیا۔ بارہ مئ کے بعد فسادات ہونا یقینی تھے لیکن پختون لیڈر شپ نے بہت حوصلے اور برداشت کا ثبوت دیا جس کی وجہ سے یہ آفت ٹلی۔ اور اب یہ رجسٹرین والی بات پھر نسلی تعصب کو ہوا دینے کا باعث ہوگی کیونکہ ایم کیو ایم کے کارکنان کی بڑی تعداد ان لفنگوں پر مشتمل ہے جو پارٹی کے کہنے پر اپنی ماں بہن سے بھی بدسلوکی کرسکتے ہیں اور ان لوگوں کی ہمیشہ خواہش رہتی ہے کہ انہیں کوئی موقع ملے اور وہ اپنا اسلحہ آزمائیں اور شجاعت کے جوہر دکھائیں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر پٹھانوں نے ذرا بھی مزاحمت کی تو لفنگوں کی یہ فوج بھوکے لکڑ بھگوں کی طرح ان پر پل پڑے گی اور دنیا کو دکھائی گی کہ دیکھو ہم نہ کہتے تھے کہ پٹھان “طالبان“ ہوتے ہیں۔
تب شیر ایا ، شیر ایا والا قصہ بھی ختم ہو جائے گا ….. اب مشرف سرکا ر تو رہی نہیں کہ 12 مئی دھرایا جا سکے …… کیونکہ اس دفعہ یہ مخلوط حکومت ہے …..فوجی مارشل لاء تو ہے نہیں جو ہمیشہ "مستقل قومی میصیت ” کا ساتھ دیتی رہتی ہے .چلو اس دفعہ یہ براہ راست پٹھا نو ں سے لڑائی مول رہے ہے اس دفعہ ان کی بہا دری بھی نظر ا جائے گی …..دیکھے کیا ہو تا ہے
خاور بلال:
کبھی آپ کہتے ہیں کہ مہاجر قومیت پسند ہیں کبھی کہتے ہیں کہ جماعت اسلامی کے کارکن ہیں. ایم کیو ایم سے پہلے مہاجر فساد کے ذمے دار تھے. اب ایم کیو ایم ہے تو وہ فساد کی ذمہ دار ہے. اب اگر میں اس تبصرے کے جواب میں کچھ کہتا ہوں تو ایسا لگے گا کہ میں مہاجروں کی حمایت کررہا ہوں اور پختونوں کو برا کہہ رہا ہوں.
روسی شہری:
موضوع گفتگو مہاجر پٹھان فساد نہیں. بلکہ کراچی کو بے پناہ مائیگرینٹس کے سیلاب اور اسے پیدا ہونے والے مسائل سے بچانا ہے.کیا آپ کے خیال میں یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے؟ یا آپ کو لگتا ہے کراچی کوئی کوڑے کا ایسا ڈبہ ہے جو کبھی نہیں بھرے گا؟
نعمان میں یہ کہہ رہا تھا کہ سارے مہاجر ایم کیو ایم میں نہیں ہیں. ایم کیو ایم کے حامی صرف وہی مہاجر ہوسکتے ہیں جنہیں قوم پرستی انسانیت سے بھی بڑھ کر عزیز ہے۔ انسانیت کی جو توہین ایم کیو ایم نے کی ہے اسے دیکھ کر تو قوم پرست مہاجروں کی بڑی تعداد بھی ایک کیو ایم سے نالاں ہیں اور صرف اس لیے خاموش ہے کہ انہیں معاشرتی بائیکاٹ اور خوف و ہراس کا سامنا ہے۔ اور جماعتِ اسلامی کراچی کی اکثریت مہاجروں پر مشتمل ہے۔ لیکن یہ وہ مہاجر ہیں جو قوم پرستی کی لعنت سے پاک ہیں۔
مہاجر تو آپ بھی ہیں تو کیا محض اپنی قوم کی حمایت میں آپ انسانیت کی دھجیاں بکھرتے برداشت کرلیں گے؟ یقینا نہیں۔ بس یہی فرق ہے ایک عام مہاجر میں اور ایک کٹر قوم پرست مہاجر میں۔ اور صرف مہاجر ہی نہیں قوم پرستی کے مرض میں مبتلا کوئی بھی شخص چاہے وہ مہاجر ہو یا پختون، اپنی قوم سے وفاداری میں دیگر قوموں کے افراد سے ناروا سلوک کرتا ہے اور قوم پرستی کا پہلا مطالبہ ہی آدمی سے یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی قوم کو دوسروں سے برتر سمجھے۔ یہی کچھ مشرقی پاکستان میں ہوا تھا جہاں پنجابی نیشنل ازم نے بنگالیوں میں احساسِ محرومی پیدا کیا جس کے نتیجے میں ملک دو ٹکڑے ہوا اور اب بھی اس نیشنل ازم نے پاکستان میں جگہ جگہ بھائ کو بھائ سے نفرت کرنے پر مجبور کررکھا ہے۔ اور مجھے یقین ہے کہ غیر مہاجروں کی رجسٹریشن کا یہ سلسلہ اس نفرت کو مزید بڑھائے گا۔ اگر ایم کیو ایم کو کراچی کی بھلائی میں کچھ کرنا ہے تو اسے چاہیے کہ سب سے پہلے اپنا “مافیا اسٹائل“ ختم کرے تاکہ کراچی سے گھٹن کا ماحول ختم ہو اور تاجر و صنعت کار یہاں بے خوف ہوکر کام کرسکیں۔ ابھی تو یہ حال ہے کہ اندھیرا چھاتے ہی گلیوں سے گزرتے لوگ ایک دوسرے کو شک کی نظر سے دیکھنے لگ جاتے ہیں کہ کہیں یہ موبائل چور تو نہیں۔ اور موبائل چوری وہی کرسکتے ہیں جن کے پاس ایک عدد ٹی ٹی ہو اور کراچی میں ٹی ٹیاں سیکٹر اور یونٹ سے ہی بٹتی ہیں۔ ایک دفعہ متحدہ مجلس عمل کی ہڑتال تھی میں کچھ دوستوں کے ساتھ گھر سے نظارہ کرنے نکلا۔ گھر سے کچھ دور ہی الفلاح تھانے کے قریب ایم کیو ایم کے لفنگے جمع تھے، ہمیں آتا دیکھ کر انہوں نے فورا پہنچان لیا۔ پہلے ایک ہوائی فائر کیا اور پھر ہم پر پسٹل تان لیے، سب کے سب مسلح تھے۔ انہوں نے ہمیں بائیک پر بیٹھنے کو کہا اور سیدھا تھانے لے گئے۔ تھانے میں انہوں نے ہمیں پولیس کے حوالے کیا اور کہا کہ ان کے پاس اسلحہ تھا اور ابھی جو فائر ہوا وہ انہوں نے ہی کیا تھا۔ مزے کی بات یہ کہ نہ تو انہوں نے اپنا اسلحہ پولیس سے چھپایا اور نہ ہی پولیس نے ان سے پوچھنے کی جرات کی کہ صاحب اسلحہ آپ کے پاس ہے تو فائر انہوں نے کیسے کردیا۔ خیر ان کے جانے کے پولیس والوں نے انہیں خوب کوسا اور ہمیں کہا کہ شکر کرو کہ یہ تھانے لے آئے اگر اپنے ساتھ ہی کہیں لے جاتے تو جسم کی ایک آدھ چیز “شارٹ“ کرکے ہی بھیجتے۔ یہ واقعہ بتانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ایم کیو ایم جب تک خود غنڈہ گردی و دہشت گردی میں ملوث رہے گی اس وقت تک ایم کیو ایم کو ہرگز یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ طالبان کی دہشت گردی کا واویلا مچائے۔ جب گھر والے ہی اپنے گھر کی ترقی نہ چاہتے ہوں تو باہر والے کیوں کر اس کی ترقی کا خیال کریں۔
خاور .. آپ کے تبصرے میں کچھ بھی نیا نہیں ہے. میں یہ سب کچھ پہلے دس ہزار بار ایم کیو ایم مخالف لوگوں سے سن اور پڑھ چکا ہوں. ایسے کئی قصے بھی سن چکا ہوں. مجھے یہ قصے بالکل متاثر نہیں کرتے. جن میں ایم کیو ایم کے ہولناک جرائم کی حیرت انگیز داستانیں پیش کی جاتی ہیں. پاکستان میں ہر سیاسی جماعت اسلحہ رکھتی ہے، ہر سیاسی جماعت کے کارکنان اسلحے کی نمائش کرتے ہیں. خود جماعت اسلامی کے کارکنان جہاد کشمیر کے دوران دہشت گردی کی ٹریننگ لیا کرتے تھے. میں یہ نہیں کہہ رہا کہ یہ صحیح ہے میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ یہ سب پروپگینڈا زیادہ محسوس ہوتا ہے.
غنڈوں میں نظم و ضبط نہیں ہوتا. وہ تقریریں نہیں سنتے، وہ جلسے نہیں کرتے، وہ پوسٹر نہیں چپکاتے وہ نعرے نہیں لگاتے.
میں ایم کیو ایم کو ووٹ نہیں دیتا. ان کی حمایت بھی نہیں کرنا چاہتا. لیکن آپ کے اپنے تعصبات بھی کافی نمایاں ہیں. میرا خیال ہے کہ لاکھوں لوگ جو ایم کیو ایم کو ووٹ دیتے ہیں. وہ کافی سمجھدار، باشعور اور سلجھے ہوئے لوگ ہیں. ان کی رائے کا احترام کیا جانا چاہئے.
اف کیا ضروری ہے کہ ایم کیو ایم کا ذکر آئے اور آپ لوگ فورا موضوع سے ہٹ جاءیں؟ کیا ہم پلیز اصل موضوع پر واپس آسکتے ہیں؟
یو ایس میں اگر آپ ایک ریاست سے دوسرے ریاست ہجرت کریں تو آپ کو لازمی دس دن کے اندر اندر اپنا ڈرائیونگ لائسنس موجودہ اسٹیٹ کا بنوانا پڑتا ہے اور اگر آپ اپنا پتہ تبدیل کرتے ہیں تو بھی آپ کو اپنے نئے پتے سے اتھارٹیز کو مطلع کرنا پڑتا ہے. لیکن اس میں قومیت جیسی کسی چیز کا دخل نہیں ہوتا بلکہ یکساں قانون لاگو ہوتا ہے. اگر آپ مستقل بنیاد پر منتقل نہیں ہورہے تو پھر آپ دوسری اسٹیٹ کے لائسنس اور نمبر پلیٹ پر گاڑی چلاتے رہتے ہیں. لیکن یہ انتہائی انتظامی نوعیت کا مسئلہ ہے. اگر رجسٹریشن کی بنیاد کسی قومیت جیسے پختونوں کی رجسٹریشن ہے تو پھر تو اس سے اختلاف کی گنجائش ہے لیکن اگر ایک قانون بنا کر کسی بھی شہر یا صوبے سے منتقلی کا طریقہ کار وضع کردیا جائے تو یہ انتظامی فیصلہ ہوگا اور یہ ضروری بھی ہے لیکن صرف ایک شہر یا صوبے اور کسی خاص قومیت کے ساتھ اسکا اطلاق لوگوں سے پاکستانی شہریت کا بنیادی حق یعنی پاکستان میں کہیں بھی رہائش چھین لے گا جس کی حمایت نہیں کی جاسکتی. اے این پی اور ایم کیو ایم کے ایجنڈے مختلف نوعیت کے ہیں اور اس میں انتظامی سے زیادہ انتقامی اور شہر کے قبضے کی نوعیت کے کنٹرول کا زیادہ عمل دخل ہے اور فیصلے کو لسانی رخ زیادہ دے دیا گیا ہے جس کی وجہ سے اس کا اطلاق بہتری کے بجائے ابتری پیدا کردے گا.
راشد ادھر ادھر تبصرہ جات پڑھنے اور گذشتہ چند دنوں سے بڑھتے ٹینشن سے مجھے بھی یہی لگتا ہے.
لیکن میرا خیال ہے کہ اگر کوئی کسی دوسرے صوبے سے کراچی منتقل ہورہا ہے یا ہوچکا ہے تو انہیں اپنے قومی شناختی کارڈ میں ضرور اس کا اندراج کروانا چاہئے. رجسٹریشن نہ سہی مگر ایسے دیگر طریقوں پر ضرور کیا جانا چاہئے جن سے مقامی آبادی اور ان کی ضروریات کا تعین کیا جاسکے اور شہریوں کو بہتر سیکیوریٹی فراہم کی جاسکے.
یہ بات صحیح ہے کہ اسلحہ سب کے پاس ہے لیکن اسلحے کی جو زنبیل ایم کیو ایم کے پاس ہے وہ کسی کے پاس نہیں۔ اور محض اسلحہ ہونا کافی نہیں ہوتا اصل چیز تو اسلحے کا استعمال ہے جو ایم کیو ایم سے زیادہ کوئی نہیں جانتا اور ایم کیو ایم کو سرکاری سرپرستی بھی حاصل ہے جس کی وجہ سے انہیں اطمینان ہے کہ اسلحلے کا استعمال ان کے لیے وبال جان نہیں بنے گا۔ ورنہ دیگر تنظیموں کے لوگ اتنی بڑی تعداد میں نہ مارے جاتے کراچی میں۔ بارہ مئی کے بعد جمعیت اور جماعت کے قریب دس افراد ایم کیو ایم کے انتقام کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ لانڈھی کورنگی سے جماعت کے کئی افراد ایم کیو ایم کے انتقام کے خوف سے دوسری بستیوں میں ہجرت کرچکے ہیں۔ یہ کہنا کہ سب کو اسلحے کی ویسی ہی آزادی ہے جیسی ایم کیو ایم کو ہے تو یہ بچکانہ بات۔ آپ جانے کس بھولی بستی میں رہتے ہیں کہ جہاں آپ کو ایم کیو ایم کا “مافیا اسٹائل“ دیکھنے کو نہیں ملتا یا شاید آپ کے ساتھ یہ سلوک آج تک نہیں ہوا تو آپ دوسروں کی تکلیف کا اندازہ نہیں کرپارہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو میں مشورہ دوں گا کہ حقیقت پہچاننے کےلیے ایم کیو ایم کے کچھ قریب ہوں، سیکٹر اور یونٹ کے چکر لگائیں ان کے ساتھ اٹھیں بیٹھیں۔ میں خدا کو گواہ کرکے کہتا ہوں کہ اگر آپ کا ضمیر زندہ ہے تو آپ چند نشستوں میں ہی ایم کیو ایم کا “مافیا اسٹائل“ پیچان لیں گے، اور آپ کو یہ بھی معلوم ہوگا کہ لفنگوں کی کتنی بڑی تعدا ہے جنہیں ایم کیو ایم نے پال رکھا ہے۔ اور غنڈہ کہنے کا مطلب یہ نہ تھا کہ وہ کوئی تین چار گلیوں کے عام سے غنڈے ہیں۔ نہیں بلکہ المیہ یہی ہے کہ ایم کیو ایم بیک وقت سیاسی تنظیم بھی ہے اور مافیا بھی۔ اور سیاسی سرپرستی میں غنڈہ گردی بہت بھیانک ہوتی ہے اور سیاسی کے ساتھ اگر سرکاری سرپرستی بھی شامل ہوجائے تو پھر کوئی حال نہیں۔ یہی کراچی میں ہورہا ہے۔ مشرف دور میں ایم کیو ایم کے reveal کے بعد وہ قاتل غنڈے جو منہ چھپائے پھرتے تھے پھر آزاد ہوگئے اور ان میں سے کئی تو مسندوں پر بٹھادیے گئے۔ اب اگر کوئی سمجھتا ہے کہ اتنے طاقتور مافیا کی موجودگی میں شہر ترقی کرسکتا ہے تو سمجھتا رہے، کرے غیر مہاجروں کی رجسٹریشن۔ رجسٹریشن ہوجائے گی تو مسئلہ حل ہوجائے گا؟ الطاف بھائی پھر ایک نیا شوشہ چھوڑدیں گے کہ ہمیں کراچی میں رہنے والے غیر مہاجروں سے خطرہ ہے۔ اور ایک بیان آئیگا کہ مہاجر قوم کے بوڑھے، جوان، عورتیں، بچے اور نومولود بچے سب اپنے دفاع کے لیے تیار ہوجائیں یہ ہماری بقا کا سوال ہے۔
خاور میں نے اتفاقا آپ کے لنک پر کلک کیا تو وہاں مولانا مودودی کی تصویر چسپاں تھی.
اور مجھے نہیں لگتا کہ مجھے ایم کیو ایم کا دفاع کرنا چاہئے. لوگ انہیں ووٹ دیتے ہیں. دعا کریں کہ کبھی کوئی سیاسی جماعت انہیں ہراسکے. باقی آپ چاہے انہیں مافیا کہیں یا کچھ بھی. یہ آپ کی اپنی رائے ہے. میرا اس سے متفق ہونا ضروری تو نہیں ہے نا؟؟؟
نعمان، پہلے جب آپ بات کر رہے تھے تو مجھے لگا کہ آپ، تارکین وطن(افغانی) اور ہم وطن (پاکستانی پٹھان) دونوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا چاہ رہے ہیں، اس لئے بعد میں تبصرہ کی ضرورت محسوس نہیں کی . تارکین وطن کی ضرور رجسٹریشن ہونی چاہیے، لیکن ہموطنوں کی ملک کے کسی بھی حصہ میں جانے پر ایسی کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیے .
اوپر راشد نے امریکہ میں دس دن کے اندر ڈرائیور لائسنس کی بات کی ہے، جو مکمل درست نہیں ہے، صرف اس صورت میں ایسا کرنا ضروری ہے جب آپ اپنی رہائش بدلتے ہیں، نہیں تو مہینہ مہینہ بھر تو لوگ نیویارک میں سیروسیاحت کے لئے ہی آتے ہیں . پھر یہ صرف ریاست بدلنے پر نہیں ہے، بلکہ جب بھی آپ اپنی رہائش ایک شہر میں بھی بدلتے ہیں تو ایسا کرنا ضروری ہے، لیکن اس کی بنیادی وجہ امریکہ میں ڈاک کا نظام اور آنے والی ڈاک زیادہ ہے .
اب میں اس بات کا حامی ہوں، لیکن مجھے پکا یقین ہے کہ کراچی والے اس کے حامی نہیں ہوں گے . وجہ یہ ہے کہ جب آپ اپنا نئے پتے پر لائیسنس حاصل کر لیتے ہیں تو آپ وہاں کے شہری ہو گئے ہیں،آپ کا ووٹ بھی وہاں ہو گیا ہے اور آپ ان سب سہولتوں کے بھی حقدار بن گئے جو وہاں کے مکینوں کو حکومت کی طرف سے میسر ہیں . جب کہ کراچی میں دو نسلوں سے رہنے والے پنجابی آج بھی پنجابی اور پٹھان آج بھی پٹھان ہیں .کراچی والے انہیں کراچی والا ماننے کو تیار نہیں . میرے خیال میں اس کو ملک میں حل کرنے کی ضرورت ہے .
جہانزیب یہ ہموطن جو اب آرہے ہیں یہ کراچی روزگار کی تلاش میں نہیں آرہے بلکہ یہ متاثرین جنگ ہیں میرے بھائی کیا یہ بات کسی کو سمجھ نہیں آرہی کہ متاثرین جنگ کہ بحالی اور آباد کاری کا مناسب میکنزم ضروری ہے؟؟؟؟
امریکہ کی مثال اس لئے غلط ہے کیونکہ امریکی ایک تو اپنے ملک میں بہت زیادہ سفر کرتے ہیں دوسرا امریکہ میں لسانی تضادات قریبا نہ ہونے کے برابر ہیں. ہالی ووڈ کا شکریہ امریکہ کا ہر قصبہ ہر شہر قریب قریب ایک جیسا ہی دکھائی دیتا ہے.
ہمارے شہر کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ باقی پاکستان سے ایک مختلف مزاج رکھتا ہے. بہت بڑی تعداد میں ایک مخصوص کلچر سے تعلق رکھنے والے بے سروسامان لوگوں کو شہر میں آنا مقامی لوگوں کے لئے تشویش کا باعث ہے کیونکہ ایک تو اس سے شہر کی ڈیموگرافکس میں یکایک تبدیلی آرہی ہے دوسرے کلچرل تضاد اور مفادات کا اختلاف روز بروز بڑھ رہا ہے. اس لئے ہمیں ایک میکنزم کی ضرورت ہے.
کسی کو کراچی آنے میں بالکل کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی. مطالبہ محض یہ ہے کہ آنے والے ایک میکنزم کے تحت آئیں تاکہ ڈیموگرافکس، کلچرل، معاشی اور دیگر تبدیلیوں پر نظر رکھی جائے اور گزشتہ دنوں ہونے والے تصادم جیسے واقعات کی پیش قدمی اور بچاؤ کی منصوبہ بندی کی جاسکے. اس سے ایک بہتر سیاسی کلچر بھی تشکیل پائے گا. کیونکہ رجسٹریشن سے بچنے کے لئے یہاں عشروں سے آباد پختون فیملیاں اپنے شناختی کارڈ درست کروائیں گے جس سے ان کے ووٹ رجسٹرڈ ہونگے. اور شہر میں خوشگوار سیاسی تبدیلی آئے گی.
جہانزیب میں نے واضح لکھا ہے کہ اگر آپ مستقل بنیادوں پر منتقل نہیں ہوتے تو پھر لائسنس اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی یہ صرف اس وقت ہے جب آپ دوسری ریاست میں مستقل رہائش لیتے ہیں.
نعمان امریکہ کی مثال اس لیے دی گئی ہے کہ کس طرح اسکو انتظامی طور پر ہینڈل کیا جاتا ہے نا کہ لسانی طور پر اور یہ بھی کہ امریکہ کا ہر علاقہ ایک جیسا نہیں ہے. بنیادی اسٹرکچر غالبا ایک جیسا ہی ہے لیکن کچھ کالونیاں دیکھ کر آپ لیاری کو بھول جائیں گے.