تیرہ اپریل کو پاکستان کی پارلیمنٹ نے ایک قرار داد منظور کی جس کے تحت صدر کے جاری کردہ نفاذ عدل ریگیولیشن کی بھرپور حمایت کی گئی۔ تین سو ارکان کے ایوان میں سے صرف متحدہ قومی موومنٹ اور ایاز میر نے اس مسودے کے خلاف پارلیمان میں آواز بلند کی۔ متحدہ قومی موومنٹ کے پارلیمانی لیڈر ڈاکٹر فاروق ستار نے اسے آئین پاکستان، عدلیہ، پارلیمان اور پاکستان کے عوام کی تضحیک قرار دیا اور ایوان سے واک آؤٹ کیا۔
میں اپنے بلاگ پر پچھلی کئی تحاریر میں یہ بات دہرا چکا ہوں۔ کراچی کے لوگ پاکستان کی اسلامائزیشن اور طالبانائزیشن کے سخت مخالف ہیں۔ اس سے اکثر یہ تاثر لیا جاتا ہے کہ کراچی کے لوگ اسلام مخالف ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ لیکن کراچی کے لوگ اسلام کے نام پر ایک طالبانی تجربے کی پاکستان میں آزمائش کے سخت مخالف ہیں اور اسے قائداعظم کے پاکستان کے اغراض و مقاصد سے متصادم سمجھتے ہیں۔ پاکستان کو ایک ایسی اسلامی فلاحی ریاست ہونا تھا جہاں تمام شہریوں کو یکساں مساوی حقوق حاصل ہوتے۔ ان حقوق میں اظہار رائے کی آزادی، ترقی اور خوشحالی کے حصول کا حق، تعلیم اور صحت کا حق، عبادت کا حق اور دیگر حقوق شامل ہیں۔ ملک میں جاری نام نہاد اسلامی تحاریک ان تمام حقوق کو عوام کی پہنچ سے بہت دور کردینے کا ارادہ رکھتے ہیں جو پاکستان کی عوام کو پہلے ہی کم کم حاصل ہیں۔
لوگ سوال کرتے ہیں کہ صوبہ سرحد اور سوات و مالاکنڈ کراچی سے بہت دور ہیں تو ایم کیو ایم سوات میں تحریک نفاذ شریعت محمدی کے ساتھ حکومتی معاہدے کی اتنی مخالف کیوں ہے؟ صوبہ سرحد اور قبائلی علاقہ جات میں جاری خانہ جنگی کے باعث ہزاروں خاندانوں نے کراچی کی طرف نقل مکانی ہے۔ان علاقوں میں جو بھی کچھ ہوتا ہے یا آئندہ ہوگا اس کا لامحالہ اثر کراچی کی شہری زندگی پر محسوس کیا جائیگا۔ ان چند اثرات میں سے کچھ یہ ہیں ان کا ذکر پہلے بھی اسی بلاگ پر اس پوسٹ میں ہوچکا ہے۔
1۔ شہر میں بڑی تعداد میں غریب، ناخواندہ آبادی کا اضافہ جس میں اکثریت بچوں، بوڑھوں اور خواتین پر مشتمل ہے۔ ان لوگوں کے لئے تعلیم، صحت اور بہتر معیار زندگی کا بندوبست کرنا شہر کی مجموعی ترقی کے لئے بہت ضروری ہے ورنہ غربت اور ناخواندگی کا نتیجہ جرائم اور انتہاپسندی کی صورت میں نکلتا ہے۔
2۔ ان آنے والوں کی آڑ میں شہر میں شرپسندوں کی آمد اور کراچی کا بطور محفوظ پناہ گاہ استعمال کراچی کو دہشت گرد حملوں اور طالبانائزیشن کا آسان ٹارگٹ بنادیتا ہے۔
3۔ کراچی کے لوگوں کو خوف ہے کہ اس طرح کے انتہاپسند لوگ متاثرین جنگ کی آڑ میں کراچی کا امن تباہ کرسکتے ہیں۔ جس کی ایک مثال کراچی میں جاری ٹارگٹ کلنگ کی حالیہ وارداتیں ہیں جن میں متحدہ قومی موومنٹ اور عوامی نیشنل پارٹی کے کارکنان ہلاک ہوئے ہیں۔
4۔ ایم کیو ایم کو یہ خوف ہے کہ اگر شہر میں لسانی فسادات بھڑکائے گئے تو شہر کی طالبانائزیشن بہت آسان ہوجائیگی۔ جو داڑھی والے مسلح نوجوان آپ آج ٹی وی پر بونیر کی گلیوں میں دندناتے دیکھ رہے ہیں وہ کل کراچی کی سڑکوں پر دندنا سکتے ہیں۔ اور صوفی محمد کے ترجمان اس کا اشارہ دے چکے ہیں کہ کراچی سمیت کہیں بھی مسلمان طالبان کو بلائیں گے تو وہاں طالبان ضرور ان کی مدد کو جائیں گے۔ صوفی محمد کے دیگر بیانات سے آپ یہ اندازہ لگا چکے ہونگے کہ ان کی نظر میں مسلمان کون ہیں اور کافر کون۔ ان بیانات کی رو سے متحدہ قومی موومنٹ اور کراچی کی مڈل کلاس سراسر کافروں پر مبنی ہے اور کیونکہ یہ لوگ سیکولر نظریات رکھتے ہیں اس لئے واجب القتل بھی ہیں۔
اس لئے ایم کیو ایم کو عوامی نیشنل پارٹی کے انتہاپسندوں کے ساتھ مذاکرات اور گٹھ جوڑ پر سخت تحفظات ہیں۔ چند ماہ قبل ممبئی میں دہشت گرد حملوں کے فورا بعد کراچی میں لسانی فسادات بھڑکانے کی ایک سازش ایم کیو ایم اور عوامی نیشنل پارٹی ناکام بناچکے ہیں۔ مگر ہر بار ان سازشوں کو ناکام بنانا ممکن نہ ہوگا۔ خصوصا تب جب عوامی نیشنل پارٹی اپنے سیکولر نظریات کو دفن کرکے محض سیاست چمکانے کی خاطر انتہاپسندوں کو صوبہ سرحد میں پھلنے پھولنے اور پنپنے کا بھرپور موقع دے رہی ہو۔
5۔ ملک کے شمالی علاقہ جات میں سخت انتہاپسندی پر مبنی قوانین کا نفاذ پاکستان کے آئین سے متصادم ہیں جو ہر پاکستانی کو یکساں حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔ ان قوانین میں سے چند یہ ہیں جیسے نائیوں کی دکانوں پر پابندی، موسیقی کی فروخت پر پابندی، لڑکیوں کے تعلیم حاصل کرنے اور ووٹ ڈالنے پر پابندی، خواتین پر جبری پابندیوں کا نفاذ۔ وغیرہ۔ ایک طرف کراچی کی عوام کو یہ آزادیاں حاصل ہوں اور دوسری طرف ہمارے ملک کی ایک علاقے میں رہنے والی آبادی کو یہ حقوق حاصل نہ ہوں تو یہ سراسر ناانصافی ہے۔
کراچی کے لوگوں کی زندگیاں براہ راست اس سے متاثر ہونگی لیکن اس کے علاوہ ملکی زندگی پر اس کے اثرت بھی کراچی کے شہریوں کے لئے سخت تشویش کا باعث ہیں۔
1۔ پاکستان کے آئین کے مطابق ایسی کوئی بھی قانون سازی نہیں کی جاسکتی جس سے پاکستانیوں کی شخصی آزادی یا بنیادی حقوق متاثر ہوتے ہوں۔
2۔ پاکستان کا آئین اس بات کی بھی ضمانت دیتا ہے کہ پاکستان میں ایسی کوئی قانون سازی نہیں کی جاسکتی جو اسلام کے بنیادی اصولوں سے متصادم ہو۔ پاکستان کے ہر شہری کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ایسے قوانین کو سپریم کورٹ کی شریعت بنچ میں چیلنج کرسکتا ہے جو اس کے خیال میں اسلام کے بنیادی اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتے۔ ان قوانین کی موجودگی میں کسی نئے اسلامی پیکیج کی ضرورت نہیں رہ جاتی۔
3۔ جو نام نہاد اسلامی قوانین کو نفاذ کیا جارہا ہے وہ محض ایک مخصوص گروہ کو پاکستان کے ایک علاقے کی معاشرت، معیشت اور عوامی زندگی پر اپنے مخصوص نظریات کے نفاذ کی اجازت دیتا ہے۔ یہ نظریات پاکستان کے آئین، نظریہ پاکستان اور پاکستان کے عوام کے بنیادی حقوق اور ملکی استحکام سے زبردست طریقے سے متصادم ہیں۔ اس تصادم سے انتہاپسندی بڑھے گی، تشدد بڑھے گا، نام نہاد اسلامائزیشن کے پروپگینڈے کو پر اثر ہونے کا موقع ملے گا اور ملک کے مزید غریب اور ناخواندہ نوجوان تشدد اور جنگ کی بھینٹ چڑھیں گے۔
4۔ دنیا بھر کے جن ملکوں میں بھی گذشتہ چند دہائیوں کے دوران مسلح تحریکوں نے جنم لیا ہے وہاں ریاستوں نے دہشت گردوں سے مذاکرات کئے ہیں۔ لیکن کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا کہ دہشت گردوں کو ریاست کے چند علاقوں میں اپنے نظریات کے پرچار کی چھوٹ دی جائے۔
5۔ پاکستان کے ہی ایک اور صوبے بلوچستان میں دہشت گردوں کے خلاف ریاست کی کاروائی جاری ہے۔ حکومت وہاں کسی دہشت گرد سے مذاکرات نہیں کرتی بلکہ کسی کاروائی سے بھی سراسر انکاری ہے۔ دوسری طرف سرحد اور قبائل میں نام نہاد امن معاہدوں کے نام پر ہر ایک مہینے کی کاروائی کے بعد چار مہینوں تک کاروائی بند کردی جاتی ہے اور طالبان کو چیک پوسٹوں پر حملے اور ریاست پر لشکر کشی کی کھلی چھوٹ دی جاتی ہے۔
یہ تضاد بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک کو روزبروز شدید کررہا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ دنیا بھر میں مصدقہ دہشت گردوں اور انتہاپسندوں کے ساتھ ہماری حکومت، فوج اور ایجنسیاں افہام و تفہیم اور تعاون کی بات کرتے ہیں اور اسی ملک کے دوسرے صوبے کے لوگوں کی کوئی بات بھی سننے کا روادار نہیں؟ کیا ہماری حکومت ایجنسیاں اور فوج ملک میں انتہاپسند اسلامائزڈ طالبانائزیشن کے حامی ہیں؟ پاکستان کے ان لوگوں کو کیا کرنا چاہئے جو امن چاہتے ہیں، جمہوریت چاہتے ہیں، خوشحالی، ترقی، تعلیم اور دنیا کے مہذب معاشروں میں عزت و مقام چاہتے ہیں؟ سندھی، بلوچی، پنجابی، پختون اور مہاجر سے ہٹ کر بطور پاکستانی ہمیں یہ سوچنا ہے کہ پاکستان کی بقاء اور مضبوطی کے لئے کیا ضروری ہے۔ اور کیا چیزیں ہیں جو ہمارے ملک کو کمزور کررہی ہیں۔ کراچی کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انتہاپسند دہشت گرد اپنے نظریات کے نفاذ سے کم کسی چیز پر راضی نہیں ہونگے۔ لیکن بلوچستان کے لوگوں کو آسانی سے راضی کیا جاسکتا ہے اور وہاں تحریک کو مذاکرات، تعمیر، ترقی اور امن معاہدوں سے محض چند مہینوں میں توڑا جاسکتا ہے۔ مگر ان سے بات کیوں نہیں جاتی، ان کے مطالبات کیوں نہیں مانے جاتے۔
6۔ طالبان کو دی جانیوالی حکومت سرحد، حکومت پاکستان، اور پاکستانی افواج کی چھوٹ سے کراچی کے شہریوں کو سخت تشویش ہے۔ مزید تشویش کا سبب بین الاقوامی برادری کے وہ کھلے عام الزامات ہیں جن میں پاکستانی ایجنسیوں پر طالبان اور القاعدہ کی مدد کا الزام لگایا جاتا ہے۔
7۔ یہ وہی ایجنسیاں ہیں جو پہلے ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کے نام پر کراچی کے شہریوں ہر زبردست مظالم ڈھاچکی ہیں۔ اور ان کے لسانی تعصبات کسی سے بھی ڈھکے چھپے نہیں۔ کراچی کے شہریوں اور ایم کیو ایم کو ڈر ہے کہ یہ ایجنسیاں انہیں پشتو بولنے والی آبادی کے مقابل لاکھڑا کریں گے۔ لسانی فسادات کی آڑ میں شہر میں طالبان کو سڑکوں پر پختون آبادی کی مدد کے لئے بھیجا جائیگا اور اسطرح کراچی کی طالبانائزیشن کا منصوبہ عمل میں لایا جائیگا۔ اس منصوبے پر عمل میں ہزاروں لوگ مارے جائیں گے مگر ملک میں اسلام کا نفاذ مکمل ہوجائیگا اور ملک کافروں سے پاک جنت کا روپ دھار لے گا۔
8۔ وادیلا مچانے سے کیا ہوگا؟ وادیلا مچانے سے شہری ہوشیار رہیں گے۔ اے این پی کو اس بات پر رضامند کیا جاسکتا ہے کہ وہ انتہاپنسدوں کے ساتھ گٹھ جوڑ چھوڑ دے اور شہر کی ترقی میں پختون آبادی کے حصے کو مزید بڑھانے میں مدد کرے۔ متاثرین جنگ کے بہتر مستقبل کے لئے سیاست کرے اور کراچی سے ووٹ حاصل کرے جمہوریت کو مضبوط کرے۔ وادیلا مچانے سے طالبانائزیشن کے حامیوں کو اس بات کا ادراک ہوگا کہ گرچہ شہر پر قبضہ ہوجائیگا مگر اس دوران انہیں سخت عوامی مزاحمت کا سامنا ہوگا۔ وہ ابھی تک عوامی مزاحمت کے ذائقے سے ناآشنا ہیں۔ اور پہاڑوں پر جنگ کرنے والے جب تنگ گلیوں میں آئیں گے تو یہ میدان جنگ بہت مختلف ہوگا۔ اس جنگ کو دنیا اسلام پسندوں اور سیکولر لبرل لوگوں کے درمیان جنگ کی نظر سے دیکھیں گے۔ اس جنگ سی یہ تاثر پیدا ہوگا کہ عوام اسلام پسندوں سے متصادم ہیں۔ جو بطور مسلمان ہم سب کے لئے انتہائی شرم کا مقام ہوگا۔
ان چند وجوہات کی بنا پر میں، کراچی کے ان لاکھوں شہریوں میں شامل ہوں جو ایم کیو ایم کے طالبان اور نفاذ عدل معاہدے کی سخت مخالفت پر مبنی وادیلے کے پرزور حامی ہیں۔ ان حامیوں میں صرف ایم کیو ایم کے حامی ہی شامل نہیں بلکہ کئی ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو کٹر ایم کیو ایم مخالف ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ مذاکرات ہوں، مگر پہلے دہشت گردوں سے ہتھیار ڈلوائے جائیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ سالانہ اربوں روپیہ جو ہمارے ٹیکس پیسوں سے پاکستان کے دفاع پر خرچ کیا جاتا ہے اسے استعمال میں لایا جائے۔ ہم طالبان کو کچلنے کے لئے طاقت کے استعمال کے حامی نہیں۔ لیکن طالبان کی پیش قدمی اور تحریک کو روکنے لئے ہر قسم کی فوجی، سیاسی اور عوامی طاقت کے استعمال کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔
آپ اور کراچی کے عوام تو حامی ہیں انہیں روکنے کے لیکن پلاٹوں اور بیکریوں والی فوج نہیں۔ حقیقت بہت تلخ ہے، آپکی فوج اس قسم کے میدان جنگ میں لڑنے کے قابل ہی نہیں۔
آپ کے مفروضے حقیقت پر مبنی نہیں ہیں ۔
اسلامائزیشن کس بلا کا نام ہے ؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ لفظ کس نے ایجاد کیا ؟
اس بات کو آپ واضح نہیں کر سکے کہ آپ پاکستان میں اللہ کے دین کا نفاذ پاکستان کے آئین کی بنیادی شِقات کے مطابق چاہتے ہیں یا نہیں ؟
اگر نہیں تو آپ آئین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوں گے جو کہ قابلِ سزا ہے ۔ یہ ایک الگ مسئلہ ہے کہ آج تک اپنے آپ کو مسلمان کہنے والوں نے نہ صرف آئین کی بارہابار دھجیاں اُڑائی ہیں بلکہ اللہ کے فرمان کی بھی برسرِعام خلاف ورزی اور تضحیک کی ہے
سوات میں کوئی طالبانی نہیں بلکہ وہ نظامِ عدل نافذ کرنے کا معاہدہ ہوا تھا جو دراصل 1994 کے اس ریگولیشن میں کچھ ترمیم کر کے بنایا گیا ہے اور شعیب صفدر صاحب کے بلاگ پر موجود ہے ۔ یہ ریگولیشن 1974ء کے اوائل تک سوات میں نافذ رہنے والے رواج نظامِ عدل سے ملتا جُلتا ہے ۔ اسے اسلامی شریعت کہنا لاعلم ہو سکتا ہے اور علم نہ ہو تو انسان کو بات کرنا زیب نہیں دیتا ۔
آپ نے پختونوں کے کراچی میں اکٹھا ہونے کا ذکر کیا ہے وہ اس معاہدے کا نتیجہ نہیں بلکہ اس سے کئی سال قبل قبائلی علاقہ پر امریکی اور پاکستانی فوجی کاروائی کا نتیجہ ہے جو پرویز مشرف نے اپنے آقاؤں کے کہنے پر شروع کی اور اب تک جاری ہے
آخر میں یہ خط پڑھ لیجئے ۔ شاید آپ کو کچھ سمجھ آ جائے
Monday, April 27, 2009
While comparing the justice system of the state of Swat with the courts established under Sharia Regulation 1994, the supporters of NAR 2009 ignore the fact that Dir and Chitral were separate states and they were not included in the state of Swat. The state of Dir in particular had no proper justice system at all before its merger in Pakistan in 1969. Whereas Swat was being run through Rewajnama Swat, however the justice system was working properly, ignoring the comparison of number of pending cases between the courts of that time with the present courts. After the merger, PATA Regulation 1975 was introduced for the whole of Malakand Division and Kohistan (Hazara). According to which all criminal and civil courts were to be presided over by the executive magistrates. A jirga was required to be constituted in civil cases just after the submission of written statement (jawab daawa) by the defendant. The jirga was required to submit its award before the court for decision. But it usually met with failure due to non-cooperation of the party interested in delay and thus the cases were lingering on. I was told by a judicial officer that he found no award of jirga in any of the case transferred to his court from the PATA Court. But it is very sad to say that no one in the print or electronic media has ever pointed out these two decades of the PATA Regulation while comparing the justice system of state of Swat with the courts established after 1994.
Secondly, the Swat situation has nothing to do with the enforcement of Sharia ? because the people having the same ideas are in full control of all the eight agencies of FATA, but they have never demanded the repeal of FCR 1901, which is perhaps the most un-Islamic and the blackest law of the world. The Swat militants have also ignored the directives of Sufi Mohammad for disarmament and he has little control over them. As far as the TNSM is concerned, it emerged in the 1990s with the support of certain bureaucrats whose powers were to be curtailed with the repeal of the PATA regulation. Regular courts were established but their jurisdiction could not be extended to Malakand division due to the TNSM?s movement and in response to that the Sharia regulation of 1994 was introduced. Sufi Mohammad has again been brought by the same people with the commissioner of Malakand as their leader and this time they have managed to occupy courts of executive magistrates re-established under the Nizam-e-Adl regulation ? they will hear criminal cases with punishments up to three years. This is complete violation of the principle of separation of powers set by the Supreme Court in the Sharaf Faridi case (PLD 1994 SC 105).
M S
Swat
http://www.thenews.com.pk/daily_detail.asp?id=174449
حالات و واقعات کو توڑ موڑ کر پیش کرنے کی اچھی کاوش ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
اصل حقائق کا ادراک آپ کو بھی ہے لیکن اس زاویے سے آپ اسے دیکھنا ہی نہیں چاہتے۔۔۔۔۔۔۔۔
پیپلز پارٹی کے ایک راہنما۔۔۔آج کل وزیر شزیر ہیں۔۔۔۔جنرل ضیا کے دور میں لاہور کے بازار حسن پر پابندی کے بہت خلاف تھے۔۔۔۔۔ان کا کہنا تھا کہ اس طرح یہ برائی ہر محلے تک پہنچ جائے گی ۔۔۔۔۔ بات ان کی سچ نکلی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر آپ اسے برائی سمجھتے ہیں تو اسے اتنا نہ دبائیے کہ۔۔۔۔۔۔۔مندرجہ بالا حشر ہو جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ یاد رکھنا چاہئے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان قبائیلیوں کو کیڑے مکوڑے نہیں بلکہ ۔۔۔۔۔انسان سمجھو گے تو بچو گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔نہیں تو اس آگ میں سب جلیں گے میں بھی ، آپ بھی۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی ترقی پسند اور قدامت پسند سبھی۔۔۔۔۔۔۔۔
بلکہ۔۔۔جل رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
اس لامنتاہی جنگ کو محدود کرنا ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔پاکستان یعنی میں اور آپ۔۔۔۔۔۔۔اور حکومت پاکستان کو۔۔۔۔۔۔۔۔ اب بس کرو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کی پالیسی اپنانی پڑے گی
دنیا کو ان قبائیلیوں کو زندہ رہنے کا حق دینا ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ”تب” ان قبائیلیوں کو بھی یہ ادارک کرنا ہو گا کہ ایک انسان (مسلمان یا غیر مسلم کی تخصیص نہیں )کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کراچی کے لوگ "پاکستان کی اسلامائزیشن” اور طالبانائزیشن کے سخت مخالف ہیں۔
جملے کے پہلے حصے سے تو واقعی لگتا ہے کراچی کے لوگ اسلام کے "سخت” مخالف ہیں۔
2۔ پاکستان کا آئین اس بات کی بھی ضمانت دیتا ہے کہ پاکستان میں ایسی کوئی قانون سازی نہیں کی جاسکتی جو اسلام کے بنیادی اصولوں سے متصادم ہو۔
جب آئین واقعی اس کی ضمانت دیتا ہے تو پارلیمنٹ سے پاس ہونے والا نظام عدل اس کے مخالف کیوں ہوگا؟
یا اسلام مخالف قانون ممکن ہے یا نظام اسلام مخالف نہیں
یہ نظامِ عدل اتنا ہی شرعی ہے جس طرح پچھلی حکومت کا بنایا ہوا قانون تحفظِ حقوقِ نسواں عورتوں کے تحفط کیلئے تھا ۔
آپ کی ساری تاویلیں ایسے مفروضوں پر قائم ہیں جو ایک ڈراؤنے خواب کے علاوہ کچھ نہیں ۔
لکھنے سے پہلے کم از کم قرآن شریف کی متعلقہ آیات اور پاکستان کے آئین کی متعلقہ شِقات کا مطالعہ کر لیا ہوتا تو آپ کو شاید اتنی لمبی تحریر لکھنے کی تکلیف نہ کرنا پڑتی ۔
جن لوگوں کو حکومت سے اختلاف ہے وہ وزاتوں کی کرسیوں سے کیوں چمٹے ہوئے ہیں ؟
جب ساٹھ سال تک یہ قبائلی پاکستان کیلیے خطرہ نہیں بنے تو پھر اچانک اب کیسے بنیں گے۔ جس طرح ساٹھ سال تک ان لوگوں کیساتھ مل کر رہے ہیں اور شمالی علاقوں کی سیریں بھی کی ہیں اب کیوں ایسا نہیں ہو سکتا۔ صرف اسلیے کہ ہم اپنی نہیں غیروں کی مرضی سے طالبنائزیشن کا شوشہ چھوڑ رہے ہیں۔ اگر آج حکومت شمالی علاقوں اور بلوچستان میں کاروائی بند کر دے تو کراچی میں سو کالڈ طالبان کی آمد بھی بند ہو جائے گی۔
ساجد، ہماری فوج وہاں لڑنے کے قابل ہے کیونکہ ہماری فوج کے پاس آئی ایس آئی نامی ایک پرزہ ایسا ہے جو برسہا برس سے قبائلیوں کو افغانستان میں استعمال کرتا رہا ہے۔ آئی ایس آئی کی حقیقی مدد سے آپریشن کامیاب بھی ہوسکتا ہے۔
باسم، پاکستان کا آئین ملک میں اسلامی اصولوں سے متصادم قانون سازی نہ کرنے کا ضامن ہے۔ اسی آئین کو غیر فعال کرکے ایک مخصوص گروہ کے علماء پر مبنی ایسا عدالتی نظام قائم کرنا جس کی بنیاد ہی اس بات پر ہو کہ پاکستان کا آئین غیراسلامی اور عدالتیں کفرگاہ ہیں پاکستان کے آئین سے بغاوت ہے۔ ملک میں اسلامی قوانین کے نفاذ کا ایک طریقہ آئین میں بیان کیا گیا ہے۔ اس پر عملدرآمد ہونا چاہئے اور پاکستان کے تمام شہریوں کو یکساں آئینی حقوق حاصل ہونا چاہیے۔
باسم آپ کی دلیل وزنی ہے مگر آپ شاید اس بات سے آگاہ نہیں کہ نفاذ عدل محض ایک قرار داد ہے جس پر پارلیمنٹ میں بحث بھی نہیں ہوئی اور اس پر قانون سازی بھی نہیں ہوئی۔ اگر یہ معاملہ قانون سازی کے لئے پیش کیا جائے یا اعلی عدالتوں میں لے جایا جائے تو یہ سراسر غیرآئینی ہے۔ اس نظام کے تحت اسلامی نظام قائم ہوگا اس کی کوئی ضمانت نہیں اور عوام کے نمائندوں کو اس میں مداخلت کا کوئی اختیار بھی نہیں۔
شکر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔باسم بھائی کی وزنی دلیل سے نعمان بھائی کچھ قائل تو ہوئے۔۔۔۔۔۔۔اگرچہ۔۔۔۔۔۔۔۔ بال انہوں نے دوبارہ باسم کے کورٹ میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو اس سے معلوم ہوا کہ بلاگنگ کےلئے وسیع مطالعہ بھی ضروری ہےصرف ماحول جذباتی کرنے سے بات نہیں بنتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وزنی دلائل کےلئےکوشش تو کریں گے لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔ کہیں اپنی حکمت ہی نہ بھول جائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟
چلو ۔۔۔۔۔۔۔۔اپنی اوٹ پٹانگ ہی جاری رکھیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن وہ بھی برداشت کرنے تک۔۔۔۔۔
بلاگنگ سیکھنے کےلئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خود کلامی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔جواب نہ بھی ملے تو کوئی بات نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کم از کم میں اس بات کا معترف ہوں کہ آپ نے جو بھی اسٹینڈ لیا ہے آپ نہ صرف اس پر قائم ہیں بلکہ اپنی سوچ کا بغیر لگے لپٹے اظہار بھی کررہے ہیں۔ کیونکہ یہاں کئی لوگ کبھی پاکستانی طالبان کے وجود کے منکر ہوجاتے ہیں، کبھی ان کے جرائم پر پردہ ڈالنے کے لیے بھارتی اور یہودی ایجنٹوں کی حرکت قرارد دیتے ہیں اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ انگریز سرکار بھی اس جگہ قبضہ نہ کرسکی لیکن بھارتی اور یہودی ایجنٹ نہ معلوم کیسے دندناتے پھرتے ہیں جو میری سمجھ سے بالا تر ہے۔۔ اور اب معاہدے کے بعد نہ صرف یہ کہ پاکستانی طالبان موجود ہیں بلکہ طالبان ساختہ اسلامی نظام المعروف نظام عدل وغیرہ کے ساتھ۔ اتنی کنٹراڈکشن جب سامنے رکھ دی جائے تو پھر کافر کافر آخری حربہ جو آپ کے علم میں مجھ سے کچھ زیادہ ہی ہوگا۔
ایم کیو ایم کی سیاست اپنی شخصیت پرستی اور پھر آمریت کی حمایت کے سبب کم از کم میرا اعتماد عرصہ ہوا کھو چکی ہے اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کو میں اسٹینڈ نہیں مانتا۔۔ وجہ ۔۔ اگر آج الطاف حسین کہہ دیں کے طالبان کا ساتھ دو تو شاید ہی پوری جماعت میں کوئی اس کے خلاف آواز بلند کرے بلکہ یہی لوگ انہیں اچھا ثابت کرنے کے لیے حد سے گزر جائیں گے۔۔ یہی رویہ طالبان مذہب کے نام پر اپنا رہے ہیں اس رویے کے آپ بھی مخالف ہیں اور میں بھی۔۔ لیکن میں کم تر برائی کے فلسفہ کا اطلاق یہاں کر نہیں پاتا۔
آئین و قانون کی بات صرف چند سیاستدانوں کے منہ ہی سے اچھی لگتی ہے کیونکہ باقی سب کے ہاتھ آئین کشی کے لہو سے رنگے ہوئے ہیں۔۔ لیکن 73 کا آئین ایک متفقہ چیز ہے جس کے منکر دراصل پاکستان کے وجود ہی کے منکر ہیں۔۔
درخواست میری یہی ہے کہ جس کو جو کرنا ہو کرو لیکن بربریت کو شریعت نہ کہو اس سے دین کی خدمت تو نہیں ہورہی ہاں ان لوگوں کے دعووں کی تصدیق ہورہی ہے جن کا کہنا ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے ہی پھیلا تھا۔۔
راشد دراصل ہمارے ملک کے لوگ انقلاب کے متلاشی ہیں۔ وہ یہ امید کرتے ہیں کہ کوئی سخت گیر گروہ ان کے ملک پر قبضہ کرلے تو ڈنڈے کے زور پر سب طاقتور غاصبوں کو درست کردیں گے۔ چونکہ ہمارے یہاں لوگوں کا مطالعہ کم ہی ہوتا ہے اس لئے وہ اس بات کو سمجھ نہیں پاتا کہ جب نظریاتی انتہاپسندوں کے ہاتھ ڈنڈا آتا ہے تو وہ خود ہی طاقتور غاصب بن جاتے ہیں۔
میں یہاں ایم کیو ایم کی بطور جماعت حمایت نہیں کررہا۔ نہ کسی سے یہ توقع کرتا ہوں کہ وہ ایم کیو ایم کو بطور جماعت اچھا سمجھیں لیکن اس وقت اس مدعے پر ان کا موقف درست ہے۔
مجھے حیرت ان لوگوں پر ہے جو آئین و عدلیہ کی بحالی پر تقاریر کرتے رہے ہیں۔ اور پاکستان کے آئین سے ماواء اقدامات کی پارلیمنٹ میں حمایت کرتے ہیں۔ محض اس لئے کہ وہ ملک کی پس پردہ مقتدر قوتوں کی گڈ بک میں رہیں۔
نظام عدل کے مسودہ کے مطالعہ سے تو کسی قسم کی بربریت سامنے نہیں آتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمام بحث اپنی جگہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فوری انصاف کے اس مسودے پر کیا اعتراضات ہوسکتے ہیں؟؟؟
ماسوائے وکلاء کو۔۔۔۔۔۔۔ جن کی پریکٹس اب اس علاقے میں تو چلنے سے رہی؟؟؟
کیا ہی اچھا ہو کہ پارلیمنٹ ایک ایسا نظام عدل ملک بھر کےلئے وضع کرے جو اسلام سے متصادم بھی نہ ہو۔۔۔۔۔۔۔۔بلکہ قرار داد مقاصد کے مطابق۔۔۔۔۔۔۔۔اور سب کےلئے قابل قبول بھی ہو
نظام عدل تو سوات میں نافذ ہو چکا۔۔۔۔۔۔۔۔اچھا یا برا یہ بحث بھی چلتی رہے گی۔۔۔۔۔لیکن ملک بھر میں جہاں طالبان جیسا ڈنڈا نہیں ہے۔۔۔۔۔ویاں بیسیوں سالوں سے انصاف کےلئے ترسنے والوں کے مداوا کےلئے بھی کچھ ہو سکے گا۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟
اگر نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔تو شاید طالبان جیسے خطرات ملک بھر میں نہیں منڈلانے لگیں گے۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟اور ایسی بحوث و پارٹی پالیسیاں بھی انہیں روکنے میں ناکام رہیں گی
اس کا حل طالبان کا خاتمہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟
یا حکومت کی طرف سے عوام کو ان سے بہتر ریلیف۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟
خالد صاحب آپ یقینا کبھی کسی طالبانی علاقہ میں رہائش پذیر نہیں رہے۔ اس لئے آپ طالبانی طرز انصاف اور حکمرانی کو ان خوبصورت کالموں اور اخباری رپورٹوں کے حوالے سے جانتے ہیں جن میں طالبان کی عظمت کے قصیدے پڑھے جاتے رہے ہیں۔ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔
ہمارے ملک میں ایک طبقہ ایسا ہے جو جب قیام پاکستان کا شوشہ اٹھتا ہے تو مسلم لیگی بن جاتا ہے، بھٹو کا عوامی سوشلزم کا دور ہو تو وہ سوشلسٹ بن جاتے ہیں، ضیاء کا جہادی دور ہو تو وہ مجاہدین کے ہمدرد، مشرف کے دور میں روشن خیال پاکستانی وغیرہ۔
افغانستان میں بھی اور اب پاکستان میں بھی طالبان کو فنڈز کا حصول جرائم پیشہ عناصر سے ہوتا ہے۔ جن میں ہیروئن کے اسمگلر، اسلحے کے اسمگلر، علاقے کے قبائلی عمائدین جو اپنی پگڑ اونچی رکھنا چاہتے ہیں اور بیک وقت حکومت اور طالبان کے ہمدرد ہوتے ہیں۔ انصاف طالبان کے دور میں صرف غریبوں اور بے کسوں پر نافذ کیا جاتا ہے۔ جس کی ایک مثال آپ ایک غریب لڑکی کو سڑک پر لٹا کر درے مارے جاتے ہوئے دیکھ چکے ہیں۔ اس انصاف کی دیگر مثالیں آپ ماضی میں افغانستان اور حال ہی میں سعودی عرب میں دیکھ سکتے ہیں۔ ایسا ہی انصاف متحدہ عرب امارت کے شیوخ کرتے ہیں جس کی ایک ویڈیو آپ یہاں دیکھ سکتے ہیں۔
تشدد انصاف کا ضامن نہیں بلکہ خود ناانصافی ہوتا ہے۔
افتخار صاحب کے تبصرہ جات اسپیم میں چلے جانے کے باعث بروقت شائع نہ ہوسکے جس کے لئے معذرت۔
افتخار آپ نے شاید میری پوری پوسٹ نہیں پڑھی۔ ان میں سے چند اعتراضات میں پھر دہرادیتا ہوں۔
1۔ پاکستان کے تمام شہریوں کو یکساں مساوی حقوق کی ضمانت۔ جو اس نظام کے نفاذ سے ممکن نہیں رہے گی۔
2۔ معاہدے میں اور ریگیولیشن میں صاف لکھا ہے کہ علاقے میں شریعت کے مطابق قوانین نافذ کرے جائیں گے۔
3۔ ان عدالتوں کے فیصلے پاکستان کی کسی اعلی ترین عدالت میں چیلنج نہیں کئے جاسکتے۔
4۔ اگر تحریک نفاذ شریعت محمدی اور طالبان کا ایکدوسرے سے کوئی تعلق نہیں تو صوفی محمد ان سے ہتھیار ڈلوانے کا وعدہ حکومت سے کیوں کرتے ہیں؟
5۔ اگر تحریک اور طالبان کا کوئی آپسی تعلق نہیں تو علاقے کی سڑکوں پر مسلح طالبان کے گشت کا کیا جواز ہے جو وہاں عوام پر اسلام کے نفاذ کو یقینی بنارہے ہیں جیسے انہیں داڑھی نہ بنانے دینا، لڑکیوں کو اسکول نہ جانے دینا، خواتین کو گھروں سے نہ نکلنے دینا۔ وغیرہ
ابھی پرسوں ہی ان لوگوں نے بونیر پر قبضہ کرلیا تھا جس کے بعد وہاں سے بڑے پیمانے پر مقامی آبادی نے نقل مکانی کی۔ طالبان کے خوف سے پشاور سمیت صوبہ سرحد سے لوگ اپنا کاروبار، جائیدادیں گھر بار بیچ کر دوسرے صوبوں کی طرف نقل مکانی کررہے ہیں۔ حالانکہ پشاور اور دوسرے علاقوں میں پاک فوج، یا نیٹو افواج کسی قسم کی کوئی کاروائی نہیں کر رہے۔
نعمان صاحب۔۔۔۔۔۔یہ باتیں میں آپ سے بھی پوچھنا چاہتا تھا لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حد ادب ملحوظ خاطر رہا۔۔۔۔۔۔۔۔آپ کی اطلاع کےلیے عرض ہے کہ ناچیز کو ملا عمر سمیت دیگر سرکردہ طالبان راہنماوں سے نہ صرف ملاقات کا شرف حاصل ہے بلکہ ان علاقوں میں رہنے کی سعادت بھی حاصل ہے اگرچہ یہ اس وقت کی بات ہے جب ہمارے گورنمنٹ آفیشلز انہیں اپنی اولاد سمجھتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور دھڑا دھڑ مجاہدین و طالبان کی فیکٹریاں لگا رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حال ہی میں بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے ایک غیرملکی ادارے کی طرف سے رپورٹنگ کےلیے سوات اور دیگر علاقوں میں گھونے پھرنے کا موقع ملا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کچھ اور احباب حقیقت کے برعکس طالبان کی غلط تصویر پیش کر رہے ہیں جو غیر مناسب ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اصل طالبان اورپلانٹ کردہ دو نمبر طالبان میں فرق نہیں کرتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ڈرون حملوں کے متاثرین جو کچھ کر رہے ہیں بغیر تصدیق کئے مقامی طالبان کاان معاملات سے تعلق جوڑتے ہیں۔ غلط رائے عامہ استوار کرنا بھی ایک اخلاقی جرم ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پراپیگنڈہ کا حصہ بننا مناسب نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غریب لڑکی والی ویڈیو غیر مصدقہ تھی اس قسم کا واقعہ وہاں نہیں ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انکل اجمل بڑی دور کی کوڑی لائے ہیں اور میرے اور مجھ جیسوں کے خیالات کی صحیح ترجمانی کی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ کے جوابات تسلی بخش نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مزید مطالعہ سے معلوم ہوا کہ نظام عدل تو یحیحی خان کےدور سے پہلےبھی وہاں نافذ تھااور پھر بعض ترمیمات کے ساتھ ۱۹۹۴کے بعد بھی اس پر عمل ہوتا رہااب اگر عوام الناس کی آسانی کےلیےبعض مزید ترمیمات کر کے اسے دوبارہ نافذ کر دیا گیا ہےتو اس میں کون سی انہونی بات ہوگئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟
ایم کیو ایم نے بھی اس پر خواہ مخواہ آسمان سر پہ اٹھا لیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جیسے نظام عدل کے نفاذ سے کوئی آسمان ٹوٹ پڑا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گویا حکیم صاحب آپ یہ مانتے ہیں بلکہ گواہی دے رہے ہیں کہ طالبان کسی واقع کی پیداوار نہیں بلکہ سرکاری ایجنسیوں کا لگایا ہوا پودا ہیں؟ اور پاکستانی ایجنسیوں کی امداد سے انکے مفاد کے لیے کام کرنے کے لیے پلانٹکیا گیا اور ان کا کسی بھی قسم کے انقلاب اور شریعت سے کچھ لینا دینا نہیں؟
خالد صاحب یہ جان کر خوشی اور خوشگوار حیرت ہوئی کہ آپ ملاعمر جیسی عظیم ہستیوں سے ملاقات کا "شرف” حاصل کرچکے ہیں۔ امید ہے پھر تو آپ افغانستان میں عورتوں کو سڑکوں پر طالبان کے ہاتھوں زدوکوب ہوتے بھی دیکھ چکے ہونگے۔ اور اس امر سے بھی آگاہ ہونگے کہ طالبان اس وقت اپنی نگرانی میں افغانستان میں پوست کی کاشت کرواتے ہیں جو پھر ان کے پاکستانی قبائلی روابط کے ذریعے اسمگل ہوتے ہیں۔ اور امید ہے کہ آپ اس امر سے بھی آگاہ ہونگے کہ اغوا برائے تاوان اور بینک ڈکیتیوں کے ذریعے طالبان کو پورے پاکستان سے فنڈنگ کی فراہمی جاری و ساری ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ طالبان ایسے انتہاپسند انقلابیوں کا انصاف اور قانون صرف بے کسوں پر ہی نافذ ہوتا ہے۔
آپ کہتے ہیں کہ ان علاقوں میں یہ قوانین پہلے سے نافذ تھے۔ جو کہ غلط ہے، صوفی صاحب کو ان پہلے سے نافذ شدہ نظام عدل پر بھی اعتراض تھا اور وہ اسے شرعی نظام عدل بنانا چاہتے تھے۔ یہ پہلے نافذ کردہ نظام کی نئی شکل ہرگز نہیں ہے۔
ایک اور دلیل کہ یہ ریاستیں پہلے ہی پاکستانی مقننہ کے زیر اثر نہ تھیں اس لئے بے وزن ہے کہ اس علاقے میں رہنے والے لوگ آئینی طور پر پاکستان کے شہری ہیں۔ اس لئے یکساں حصول انصاف کے حق کی آئین انہیں بھی ضمانت دیتا ہے۔ اور صدر پاکستان یا صوبے کے گورنر کو ان علاقوں کے لئے آئین پاکستان کی حدود میں رہتے ہوئے احکامات جاری کرنے کا استحقاق حاصل ہے۔ صدر پاکستان کو پاکستان کی پارلیمان چنتی ہے اور گورنرز صدر کو جوابدہ ہوتے ہیں۔ یوں یہ علاقے پاکستانی آئین کے ہمیشہ سے زیراثر تھے لیکن موجودہ نظام عدل کے نفاذ سے یہ علاقے اس اثر سے آزاد ہوجائیں گے۔ اور پاکستان کا آئین علاقے کے لوگوں کے حقوق کا محافظ نہیں رہے گا۔
معاف کیجئے مگر میں طالبان کی مختلف برانڈز کو نہیں مانتا۔ میرے خیال میں یہ سب ایک ہی غلطی کی پیداوار ہیں جس کا ہم خمیازہ بھگت رہے ہیں۔
ملک کے ایک دوسرے صوبے بلوچستان میں بھی کچھ لوگوں نے ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھا رکھے ہیں ان کے بھی کچھ مطالبات ہیں جن کی منظوری کے لئے پارلیمنٹ میں کوئی قرار داد کبھی پیش نہیں ہوتی۔ اور نہ کوئی ان سے مذاکرات کرتا ہے۔ اگر پاکستانی فوج اور ایجنسیاں طالبان کو چھوٹ دیتی ہیں، اور انتہاپسندوں کے قوانین ان علاقوں میں نافذ کرتی ہیں تو بلوچوں کے ساتھ دوغلا سلوک کیوں؟ انہیں بھی آئین کے اندر رہتے ہوئے صوبائی خودمختاری کیوں نہیں دی جاتی؟
ارے نعمان بھائی!
آپکے ارشادت گرامی پڑھ کر تو یوں لگتا ہے۔ کہ سارے کراچی کا درد محض آپ کے دل میں ہے۔اور کراچی کے سب اگلے پچھلے مسائل کے قصور وار صرف طالبان ہیں (طالبان اس لئیے کہ آپ ہر پٹھان۔ ہر باریش اور پنجابی پشتو بولنے والا آپ کی نظر میں طالبان ہے)۔ جبکہ آپ اپنے بنے بنائے تعصب کو کسی بھی صورت ختم کرنے کو تیار نہیں ۔ آپ کے نزدیک اس قدر دلائل کی کوئی اہمیت نہیں۔ چونکہ آپ ایک خاص اقلیت کا نقطعہ نظر پیش کرتے ہیں لہٰذاہ پیش کرتے ہیں۔اور آپ کا تعلق اور رشتہ بی اس اقلیتی جماعت یا سیاسی پارٹی سے بنتا ہے اور آپ بڑی شدومد کے ساتھ اس پارٹی کی سیاسی پالیسی کا ہر قیمت پہ دفاع کرنا چاہ رہے ہیں۔ جبکہ آپ کے علم میں بھی ہوگا کہ اس سیاسی پارٹی کے سربراہ کو کہاں سے اشارہ ملتا ہے اور وہ صاحب کن ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ اور اتنی گھمبیر اور عالمی سیاست کے پس منظر میں سو کال قائد کا اپنا وجود کوئی معنی نہیں رکھتا جب عالمی شاطروں کو کوئی نیا مہرہ مل گیا تو وہ انھیں ہٹا دور کرین گے۔ اور آپ ہم کس کھیت کی مولی ہیں۔ جو بن جانے ہی اپنی سی ضد میں صحفات پہ صحفات کالے کیے جارہے ہیں۔ آپ جن کی ایماء پہ طالبان کے خلاف اسقدر محنت کر رہے ہیں۔ واللہ انھیں اگر عالمی شاطروں کی طرف سے مہاجر طالبان بھائی بھائی کا اشارہ کردیا جائے تو دن ڈھلنے سے پہلے کراچی میں ٹیلیفونک خطاب سے ھدایت ہوجائے گی کہ ہم مسلمان ہیں اور طالبان بھی لہٰذاہ ہماری آنکھیں ان کے لئیے فراش ہیں ہیں۔ وغیرہ وغیرہ ۔ تو نعمان بھائی جو جان مال اللی کی امانت ہے اور انسان اسی کا دیا کھاتا اور پہنتا ہے اسی کے حکم سے جیتا اور مرتا ہے۔ تو پھر کیوں نہ سر اٹھا کر جیا جائے ۔ دینے والا ہر ایک کو اس کے نصیب کا حصہ ضرور دیتا ہے خواہ وہ جائز رستہ اپنائے یا غلط رستہ اپنائے۔ اور کچھ حقیقتیں جنہوں نے ہو کر رہنا ہوتا ہے ان کا رستہ آپ کے اور ہم جیسوں کے بلاگ یا الفاظ رستہ نہیں روک سکتے۔ تو کیوں پھر مفت میں خدا اور خلق خدا کو ناراض کریں۔؟
بصد احترام عرض ہے کہ اگر آپ ضد کریں گے تو ہم دلائل کے انبار لگا دیں گے مگر آپ پھر بھی قائل نہیں ہونگے۔
اور ایک بات آپ کے علم کے اضافے کے لئیے اور اس کا ثبوت بھی کوئی نہیں مگر یہ ایک سوچ ہے کہ جس دن پاکستانی حکومت اور فوج چاہے گی اس دن سے طالبان کو بھی سنبھال لیا جائے گا۔ کیونکہ ایک خیال یہ بھی ہے کہ امریکہ کو عراق کی طرح افغانستان سے بھی جانے کی تیاری کرنی چاھئیے تھی۔ کہ آخر وہ کونسا سکا مفاد ہے کہ وہ اسقدر نقصان برداشت کر کے اور زمانے بھر کی اقوام عالم کی لعنتیں سننے کے باوجود افغانستان کی سنگلاخ پہ قبضہ مکمل کرنے پہ مصر ہے۔ جبکی اس کی معشیت اور اقتصادی حالت زمین بوس ہو رہی ہے۔ اور امریکن بنیاء فطرت کی بناء پہ ایک ڈالر کے خسارے کا سودا برداشت نہیں کرتے۔؟ اور اس سوال کی وجہ سے پاکستانی اداروں اور فوج میں امریکہ کے لئیے ناپسندیدگی پائی جاتی ہے۔ یہ نیو ورلڈ آڈر کی مہم پاکستان اور مسلمانوں کی قیمت پہ بہت مشکل اور ناممکن ہے۔ آپ نے طالبان طالبان کا صرف شور سن رکھا ہوگا مگر امریکہ کی جمہوریت نواز افواج کے ابو غریب فلوجہ پل چرخی گوانتاناموبے وغیرہ کے بارے میں بھی جان رکھا ہوگا۔ زرا آنکھیں بند کریں اور تصور کریں (خدا نخواستہ)امریکہ کی جمہور نواز فوجیں کراچی اترتی ہیں اور قبضہ کرتی ہیں۔ پاکستان میں بہت اوپر یہ سوچ بہت واضح ہے کہ اگر وقت آیا تو طالبان یا امریکہ بھارت سے کسے منتخب کرنا ہے۔
کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ میں کسی سیاسی جماعت کے کہنے یا اشارے پر بلاگ لکھتا ہوں؟
خیر میں کراچی کے تمام مسائل کا ذمے دار طالبان کو نہیں سمجھتا۔ دوسری بات یہ کہ اگر آپ اوپر میری پوسٹ واقعی پڑھتے تو اس میں طالبان کے لئے لفظ طالبان اور پختونوں کے لئے لفظ پختون استعمال ہوا ہے۔ اور اس تمام پوسٹ میں پنجابی بولنے والوں کا تو کہیں کوئی ذکر بھی نہیں۔
تبصرہ مٹادیا گیا ہے۔ براہ مہربانی تبصرہ پالیسی ملاحظہ فرمائیں
محترم!
آپ نے فرمایتے ہیں کہ ُ ُدوسری بات یہ کہ اگر آپ اوپر میری پوسٹ واقعی پڑھتے،، یہ بھی آپ نے خوب کہی۔ برسبیل تذکرہ آپ ارشاد فرماتے ہیں۔
"ان بیانات کی رو سے متحدہ قومی موومنٹ اور کراچی کی مڈل کلاس سراسر کافروں پر مبنی ہے اور کیونکہ یہ لوگ سیکولر نظریات رکھتے ہیں اس لئے واجب القتل بھی ہیں۔”
نعمان صاحب! ایک بات حلق سے نیچے نہیں اتری اگر یہ بھی سیکولر وہ بھی سیکولر تو اتنی دور بھارت سے اتنی تکلیفیں اٹھا کر لٹ پٹ کر کراچی میں کسمپرسی میں آباد ہونے کی کیا ضرورت تھی۔? یہ تو وہی بات ہوئی کہ میں بھی پٹھان میرا مہمان بھی پٹھان تو پھر پشتو میں کیوں نہ ہم بات کریں۔ ہاں یا تو آُ کے آباء نے اسلام اور پاکستان کی خاطر اسقدر قربانیاں دیں۔ جس کا ہم نصابی کتابوں میں اکثر پڑھتے آئے ہیں۔ یا آپ کے بقول آپ کے نزدیک وہ سیکولر تھے تو پھر پاکستان آمد کا مقصد۔ دوسری صورت یہ بنتی ہے کہ جس مقصد کے لئیے ایم کیو ایم کے بڑوں نے اس قدر قربانیاں دیں آج انکی اولاد دنیاوی فوائد میں سیکولر ہو چکی ہے۔ ہمیں کسے درست سمجھنا چاھئیے۔؟ آپکے آباء جو اسلام پسند مسلمان تھے یا انکی اولادوں کو جو سیکولر ہوچکے ہیں۔
آپ کے تبصرہ جات موضوع سے بالکل کر ہٹ کر ہیں۔ بے فکر رہیں میں ایم کیو ایم کے بارے میں اکثر لکھتا رہتا ہوں۔ آپ اپنی بھڑاس ان پوسٹس میں نکال لیجئے گا۔ اور لبرل سیکولر پاکستانیوں کا بھی ذکر چلتا رہتا ہے۔ مگر فی الحال فوکس شمالی علاقہ جات میں ہونے والے غیرمنصافانہ معاہدے ہیں۔ براہ مہربانی اس حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کریں۔
محترم!
حقیقت بہت تلخ ہوتی ہے۔ تبصرے ڈیلیٹ کرنے سے حقائق چھپائے نہیں جاسکتے۔
جاوید آپ محض ایم کیو ایم دشمنی میں لکھ رہے ہیں اور کیونکہ آپ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ میں شاید ایم کیو ایم کا کارکن ہوں تو اس لئے آپ کافی بے تکے الزامات لگارہے ہیں اور وہ بات زیر بحث نہیں لارہے جو ہمارا موضوع ہے۔ آپ ایم کیو ایم کے خلاف آئندہ پوسٹوں میں لکھئے گا۔ بلکہ آرکائیوز دیکھیں کافی ساری پرانی پوسٹس ہیں جن میں ایم کیو ایم پر لکھا گیا ہے اور کافی لوگوں نے کرخت تبصرہ جات بھی کرے ہیں۔
محترم!
آپ ان معائدوں کو عالمی حالات کے تناظر میں دیکھیں ان کا فوکس غیر ضروری طور پہ کراچی پہ مت کریں۔
اگر آپ پاکستان کے خلاف کھیلی جانے والی گریٹ گیم کو سمجھنے کی کوشش کریں تو آپ کو سوات معائدے کو کراچی سے نہیں جوڑنا چاھئیے۔ اس وقت عالمی سامراج اور اسرائیل و بھارت سب کی کوشش اور خواہش ہے کہ کسی طرح پاکستان کے مختلف طبقات کو آپس میں لڑا دیا جائے۔ ہر جگہ ہر صورت۔ جس کی آخری صورت خانہ جنگی ہوگی۔
میں سمجھتا ہوں یہ کوئی بھی پاکستانی نہیں چاھئیے گا کہ یوں ہو خواہ وہ پنجابی ہو یا پٹھان مہاجر ہو یا غیر مہاجر۔
بس اتنا سا ہی عرض کرنا تھا کہ اس وقت ضرورت ہمیں آپس میں اکھٹا کرنے کی ضرورت ہے نہ انجانے میں پاکستان دشمنوں کی خوہشوں پہ پورا اترتے ہوئے آپس میں گھتم گھتا ہوتے پھریں۔
اتفاق کے لئیے کوئی ایک نکتہ ہی کافی ہوتا ہے۔ اور ناچاقی کے لئیے ھزاروں بہانے مل جاتے ہین
میں ان معاہدوں کا فوکس کراچی کی طرف نہیں کررہا بلکہ پورے پاکستان کی طرف کررہا ہوں۔ لیکن چونکہ میں کراچی میں رہتا ہوں اس لئے میں اس بات کی وضاحت کررہا ہوں کہ ایم کیو ایم کا طالبان مخالف وادیلے کو عوامی حمایت کیوں حاصل ہے۔
معاف کیجئے مگر قوموں کی زندگی میں اختلاف ان کی مضبوطی کو پائیدار بناتا ہے انہیں کمزور نہیں کرتا۔ یہ کوئی دشمنی نہیں، بس احتجاج ہے کہ ملک کے ایک علاقے کے لوگوں کو قومی دھارے سے کاٹ کر دشمن کے حوالے نہ کیا جائے اور کم از کم یہ کام نفاذ شریعت کے نام پر تو ہرگز نہ کیا جائے۔
اللہ آپ کو خوش رکھے۔ اور سدا آباد رہیں۔
اختلاف رائے کے ساتھ ساتھ استحکام کی کوششیں بھی جاری رکھیں۔
دعاؤں کے لئے شکریہ۔ اللہ ہمیں ہمارے ملک کو مضبوط بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین۔ ثم آمین
آپ کی صرف ایک دلیل کا جواب دوں گا کہ سب کے ساتھ مساوی سلوک ہونا چاہیئے ۔
جب ایسا صرف کراچی میں بھی پچھلے کم از کم بیس سال میں نہیں ہوا تو آپ پورے پاکستان کا مسئلہ اُٹھانے میں کس طرح حق بجانب ہیں ۔
آپ کی صدا سوات اور دوسرے قبائلی علاقوں کے خلاف مان لی جائے تو پھر برابری کے اصول پر کراچی میں ہتھیار اُٹھانے والوں پر بھی گولے اور بم برسانے چاہئیں ۔
اگر آپ آئین کا مطالعہ کریں تو شاید آپ کی سمجھ میں آجائے کہ فاٹا اور پاٹا کیلئے بنائے گئے کسی بھی قانون کی منظوری صدر کا اختیار ہے ۔ اسے اسمبلی میں بھیج کر وقت ضائع کرنے کی کوشش کی گئی تھی ۔ اور یہ کہ پاکستان کا آئین ان علاقوں پر لاگو نہیں ہوتا ۔ آئین کے لحاظ سے آپکا ۔ ایم کیو ایم کا اور نام نہاد سیلف نیمڈ سول سوسائٹی کا واویلا بالکل بے بنیاد ہے
انسان کو علم نہ ہو تو بڑی کیا چھوٹی بات بھی نہیں کرنا چاہیئے ۔ آپ نے حکیم خالد صاحب کو بغیر سوچے سمجھے چیلنج کر دیا اور جواب پر شرمندہ ہونے کی بجائے پھر ایک لاعلمی سے بھرپور سوال کر دیا ۔ آپ لوگ کب جوش کی بجائے عقل استعمال کرنا شروع کریں گے ؟ آپ جیسے لوگوں کی مہربانی سے یہ شاندار مملکتِ خدا داد تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی ہے اور آپ لوگ حقائق کی تلاش کی بجائے طوطے کی رَٹ لگائے چلے جا رہے ہیں ۔
راشد بھائی۔۔۔۔۔۔۔۔
واقعہ تو ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔سوویت یونین اور افغانستان کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شریعت کے پابند، انقلابی اوراصل طالبان اسی واقعہ سے منظر عام پر آئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اپنے ملک کا دفاع طالبان کا حق تھا لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ بات تو ہر ذی شعور جانتا ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پاکستان نے کس کی ایماء پر کیوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔پنگا لیا۔۔۔۔۔۔۔۔بات لمبی ہو جائے گی۔۔۔۔۔۔۔۔امریکن۔۔۔۔۔۔۔۔طالبان کی فیکٹریاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔خام مال کی تیاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسے تسلیم کرنے میں تامل نہیں ہونا چاہئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نعمان صاحب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کسی بھی صحافی کے لیے یہ بات باعث حیرت نہیں ہوتی اور نہ ہی ہونی چاہئے۔۔۔۔۔۔۔یہ ملاقاتیں ایک معمول کا حصہ ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کا پراپیگنڈہ سراسر غلط ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہاں۔۔۔۔۔کابل۔۔۔۔۔میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے ایک اسکول دیکھا جہاں پانچ ہزار بچیاں زیر تعلیم تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔ہمیں صرف پرائمری تک کی بچیوں سے ملاقات کی اجازت دی گئی کیونکہ بڑی کلاسز میں وزیر موصوف جو ہمارے ساتھ تھے انہیں بھی جانے کی اجازت نہ تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہمارے ساتھ موجود روزنامہ جنگ کے سینئر صحافی بھی موجود تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔غیرملکی صحافی بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔جن میں سے بعض ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان لوگوں کے طرز معاشرت کو دیکھ کر مسلمان ہو گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور ہم جیسوں کا ایمان تازہ ہوگیا۔۔۔۔۔۔۔۔پیوند لگے لباس میں وزیروں کو دیکھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وزراء کا کھانا نمکین لسی اور روٹی کے باسی ٹکڑے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بان کی چٹائی پر کابینہ بیٹھی ہوئی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔صحابہ کرام رض کے طرز زندگی کی جھلک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہاں پوست کی کا شت ہوتی تھی وہاں گندم لہلہا رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ب
اقی جو باتیں آپ نے لکھی ہیں بعض پاکستانی قبائیلی علاقوں میں ایسا ہوتا رہا اور ہو رہا ہے لیکن ان کا طالبان سے کوئی تعلق نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کے دیگر بچگانہ سوالوں کا جواب تو انکل اجمل خوب دے چکے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شاید میرے دلائل اتنے پختہ نہ ہوتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ نے تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نہ مانوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔کی رٹ لگا رکھی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اپنے ارد گرد کھینچے گئے حصار سے نکلنا نہیں چاہتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن آپ کے بلاگ کے دیگر قارئین کے استفادہ کےلیے حقائق سے آگاہی ضروری سمجھتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کراچی کے ٹھیکے داروں کو تعصب کی عینک اتارنا ہو گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ "اندر "کی بات ہےکہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کراچی کو خود مختار بنانے کی سازش اگر کامیاب ہو گئی تو تصور کیجئے وہ شہر کیسے ہانگ کانگ بن سکے گا۔۔۔۔۔۔۔۔جس میں خونریزی ہوگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جس کی عمارتیں کھنڈر بن چکی ہوں گی۔۔۔۔۔خدانخواستہ۔۔۔۔۔۔۔۔
بلوچ قوم پرستوں کی طرح شاید یہ نادان بھی سمجھ بیٹھے ہیں کہ۔۔۔۔۔۔۔۔کراچی بڑی طاقتوں کی عنایتوں کا مستحق ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور دولت ،عیش و عشرت و کاروبارکا مرکز بن جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن یہ خام خیالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور شیخ چلی کی سوچ ہے یہ پیارے اور نادان دوست اسی شاخ کو کاٹنے کے درپے ہیں جس پر خود بیٹھے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یاد رکھئے اس نظریے کے تکمیل کی خواہش کراچی کی خود کشی ثابت ہو گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کراچی مذکورہ بڑی قوتوں کی کشمکش اور لڑائیوں کااسی طرح میدان کارزار بن جائے گا جس طرح اسوقت افغانستان یا عراق بنا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔تمہاری داستاں بھی نہ ہو گی داستانوں میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن "دل سے” مہاجر کا لفظ ہٹا کر متحدہ کا لفظ اپنا لیا جائے تو وطن عزیز ترقی کی راہ پر نہ صرف گامزن ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔بلکہ دشمن کے ارادے بھی ملیا میٹ ہو سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کاش ایسا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ کرے ایسا ہو جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بحث سے قطع نظر صرف یہ عرض کرنے کے لیے یہاں آیا ہوں کہ درست لفظ "وادیلا” نہیں بلکہ "واویلا” ہے۔
http://crulp.org/oud/ViewWord.aspx?refid=79128
صوبہ سرحد کا عام شہری ہونے کی حیثیت سے امن کے علاوہ میرے پاس کوئی آپشن نہیں۔ میرا اور میرے بچوں کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے۔ اس امن کے لیے میں ہر قسم کی قیمت ادا کرسکتا ہوں۔ سر پر پگڑی باندھ سکتا ہوں داڑھی رکھ سکتا ہوں۔ ایم کیو ایم اور سول سوسایٹی کو میرے متعلق فکر مند ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔
یہی تو سارا مسئلہ ہے وہاب، کہ آپ کو پگڑی اور داڑھی پہنانے کے بعد بھی امن نہ ہوگا بلکہ ان لوگوں کی شرانگیزی جاری رہے گی۔ یہی خدشہ ہماری مخالفت کی وجہ ہے۔
تو ٹھیک ہے اس شر کا ایک ہی علاج ہے۔ پورے سوات پر جیٹ طیاروں کی بمباری۔ 500 طالبان کے لیے لاکھوں لوگوں کا قتل۔ اس لیے کہ سادہ آپریشن کے ذریعے سے ہم دیکھ چکے ہیں۔ کچھ نہیں ہوا۔ آپ صرف مینگورہ شہر دیکھ لیں اگر وہاں پر اس قسم کی کاروائی ہوئی جس طرح کے آج کل کے سو کالڈ دانشور کہہ رہے ہیں تو کتنی تباہی ہوگی۔ بات سمجھنے کی کوشش کریں ان لوگوں کے ساتھ بات کرنے کے علاوہ ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں۔ یا بات کرو یا لاکھوں لوگوں کو جنگ کی آگ میں جھونک دو۔
وہاب اعجاز خان، آبادی پر بمباری کئے بغیر بھی فوجی آپریشن ہوسکتا ہے۔
بات کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ مگر ان لوگوں کے مطالبات کیا ہیں؟ کہ امریکہ افغانستان چھوڑ دے؟ یہ پاکستان کے بس میں نہیں۔ امریکی طیاروں کے ڈرون حملے رکوائے جائیں؟ یہ اس لئے مشکل ہے کیونکہ پاکستان کی بین الاقوامی برادری کے ساتھ کچھ کمٹمنٹس ہیں اگر دہشت گرد افغانستان میں دراندازی جاری رکھیں گے تو ڈرون حملے جاری رہیں گے۔ شریعت کے نفاذ کا ان کا مطالبہ ماننے کا مقصد ہے ان کے نظریات کو ملک یا اس علاقے پر نافذ کرنے دینا۔ جو ایک بڑی نظریاتی شکست ہوگی۔
اس کے علاوہ ان کے ایسے مطالبات تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں جیسے ان کے قیدیوں کی رہائی، انہیں واپسی کے محفوظ راستے دینا، وغیرہ۔
لیکن آپ بھی یہ بات جانتا ہیں کہ ان لوگوں کی سرکشی میں پس پشت کچھ اور کردار ہیں اس لئے ان کے سب مطالبات محض کھوکھلے ہیں اور یہ محض ریاست پاکستان کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔
[…] نعمان صاحب کی بلاگ پر بھی میرے تبصرے پڑھ لیجئے […]