اٹھارہ جولائی کو ہونے والی طوفانی بارش کے دوران کراچی میں تقریبا پچاس کے قریب لوگ ہلاک ہوگئے۔ سینکڑوں زخمی ہوئے۔ تمام شہر پوری رات تاریکی اور سیلابی پانی میں ڈوبا رہا۔ اس دوران شہری حکومت کی کارکردگی پر لوگوں رد عمل ملا جلا رہا۔ اس طوفانی بارش نے کراچی میں بارشوں کا پینتیس سالہ ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ شاید اسلئے لوگ شہری حکومت کو رعایت دینے کو تیار تھے۔ اگلے دن شہر کے کافی علاقوں سے پانی نکال دیا اور سڑکیں اور ٹریفک بحال کردیا گیا۔ مگر کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی نے شہر کے لوگوں کی تین دن تک روح سلب کئے رکھی۔ جس کے خلاف لوگ احتجاجا سڑکوں پر نکل آئے ٹائر جلائے گئے اور کے ای ایس سی کی تنصیبات پر حملے ہوئے۔ سترہ جون کو ہونے والے بریک ڈاوّن کے پورے ایک مہینے بعد کے ای ایس سی کا دوسرا میجر بریک ڈاوّن تھا جس میں تمام شہر پوری رات تاریکی ڈوبا رہا۔
بجلی نہ ہونے کے سبب تین دن سے شہر میں پانی کی شدید قلت ہے۔ مختلف علاقوں میں لوگ بوٹلڈ واٹر ڈھونڈتے پھر رہے ہیں۔ وفاقی حکومت جو کے ای ایس سی سے معاملات کی مجاز ہے اس ضمن میں کسی بھی قسم کے اقدامات سے بدستور گریزاں ہے۔ سندھ حکومت نے کے ای ایس سی حکام کو وزیر اعلی ہاوّس طلب کیا ہے مگر کے ای ایس سی کا ان سے رویہ ایسا ہی جیسا ایسٹ انڈیا کمپنی کا ہندوستانی راجاوّں سے تھا۔ شہری انتہائی کرب اور اذیت میں مبتلا ہیں۔
کارٹون خالق خان روزنامہ جنگ کراچی ایڈیشن مورخہ ۲۱ جولائی ۲۰۰۹۔ (رجسٹریشن درکار ہے)
عوام کے صبر کو داد دینا پڑے گی۔ کہاں چینی مہنگی ہونے پر ایوب خان کیخلاف مظاہرے ہونا اور کہاں اندھیروں اور سیلابوں کو برداشت کرنا۔ اب یہ حکومت پر منحصر ہے کہ وہ کہاں تک عوام کے صبر کا امتحان لیتی ہے۔
میں آپ کو بتا نہیں سکتا کہ گزشتہ 5 دنوں سے اہلیان کراچی کس عذاب میں مبتلا ہیں؟ ابھی ہی کی بات بتا دیتا ہوں۔ کل شام 7 بجے بجلی غائب ہوئی اور ساڑھے 9 بجے آئی۔ شکر کیا کہ "جلدی” آ گئی لیکن صرف ایک گھنٹے بعد پھر گئی ہے تو اب تک نہیں آئی یعنی 11 گھنٹے گزرنے کے باوجود۔ (نوٹ: یہ پیغام میں دفتر سے ٹائپ کر رہا ہوں)۔ ہفتہ کے روز کراچی میں 24 سے 36 گھنٹے طویل بریک ڈاؤن ہوا۔ لوڈ شیڈنگ نے نفسیاتی مریض بنا دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ سب کی مشکلیں آسان کرے۔ پہلے چھوٹے شہروں اور دیہہ کے لوگ ایسے عذاب جھیلتے تھے اب بڑے شہر کی زندگی عذاب بنتی جا رہی ہے۔