عدلیہ اور انصاف کے گڑے مردے

آجکل ہمارے ملک کے پڑھے لکھے عقل مند، مجھ جیسے کم عقل، کم پڑھے لکھے اور غریب پاکستانیوں کو چاروں طرف سے یہ نوید سنا رہے ہیں کہ ہمارے ملک کی عدلیہ اب آزاد ہوگئی ہے۔ عدلیہ اب مضبوط اور بالغ بھی ہوچکی ہے اور آئندہ وہ کسی آمر یا غاصب کو اقتدار پر قبضہ کرنے نہیں دے گی۔ انصاف کا بول بالا ہوگا اور ہر غریب کو انصاف ملے گا۔

ابھی تک قابل ذکر انصاف صرف ایک ہی غریب خاندان شریف برادران کو ملا ہے۔ مگر امید ہے باقی سترہ کروڑ غریبوں پر بھی جلد نظر کرم ہوگی۔ ان پر جاری مظالم جیسے بھیانک لوڈشیڈنگ، قتل و غارت گری اور ناقابل برداشت مہنگائی کا بھی نوٹس لیا جائیگا۔ اور غفلت کے مرتکب ذمے داران کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائیگا۔ مگر شاید عدلیہ یہ ضروری سمجھتی ہے کہ وہ پہلے خود احتسابی کے عمل سے گزر کر خود کو مزید نیک نام کرے۔

ہمارے ملک کا نظام انصاف بھی کچھ عجیب ہے۔ ایک شخص کے دور حکمرانی میں نافذ کردہ ایمرجنسی غیر آئینی قرار دی گئی ہے۔ مگر اسی شخص نے جب پہلے ایک آئینی حکومت کو برطرف کرکے اقتدار پر قبضہ کیا تو اسی سپریم کورٹ نے اسے سند قبولیت بخشی تھی۔ جناب جسٹس چوہدری بھی اس بنچ میں شامل تھے جس نے ان کو تین سال تک حکمرانی کا اختیار دیا تھا۔ اگر ایک پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے جج صاحبان غیر قانونی قرار پائے ہیں تو پہلے والے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے جج صاحبان کیسے قانونی ہیں؟ اگر ایک مارشل لاء غلط ہے تو پہلے والا کیا صحیح تھا؟ اگر ایک پی سی و کے تحت حلف اٹھانے والے جج صاحبان کا مقدمہ سپریم جوڈیشل کونسل سنے گی تو کیا اس جوڈیشل کونسل میں کوئی ایسا جج نہ ہوگا جس نے پہلے پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھایا ہو۔ کیا پہلے والے مارشل لاء کے خلاف بھی شنوائی ہوگی اور اسے بھی غیر قانونی قرار دیا جائیگا؟

اگر ہم نے نظریہ ضرورت دفن کردیا ہے۔ تو اب ایسی کیا مجبوری ہے کہ اعلی عدلیہ کے پرانے فیصلوں پر نظر ثانی نہ کی جائے اور انتقام کو مشرف اور اس کے حواری ججز تک محدود کیوں رکھا جائے؟ اس سے بھی پہلے جائیں سارے گڑے مردے اکھاڑیں اور تاریخ انصاف کو ناانصافیوں سے پاک کریں۔

تبصرے:

  1. دراصل موجودہ عدلیہ کو لوگ صبح کا بھولا شام کو گھر آنے والے سے تشبیہ دے رہے ہیں اور ہم بھی ان میں شامل ہیں۔ اگر آپ کی کسوٹی پر عمل کیا جائے تو پھر اس حمام میں سب ننگے ہوں گے۔ موجودہ عدلیہ نے اگر نواز شریف کو بخشا ہے تو ڈکٹیٹر نے این آر او کے ذریعے پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کو بھی بخشا ہے۔
    اب دعا یہ کرنی چاہیے کہ عدلیہ بھلے کم اچھے کام کرے مگر مزید کوئی غلط کام نہ کرے۔

  2. معلوم نہیں غلط کام کی تعریف کیا ہے۔ لیکن بات یہ ہے کہ دلہن وہی جو پیا من بھائے۔ آجکل چیف جسٹس پر نظر کرم ہے۔ وہ اچھے کام بھلے کم کریں مگر وہ قابل قبول ہیں۔ بالکل غلط تو آج تک کوئ بھی نہیں تھا۔ ایسے اچھے کام تو ہر کسی نے کچھ نہ کچھ کئے ہیں۔ پھر کسی ایک کے لئے یہ تفریق کیوں۔

  3. انیقہ جی وہ مثل مشہور ہے نا اندھا بانٹے ریوڑیاں اپنے اپنوں کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    اور قانون تو پھر ہوتا ہی اندھا ہے!
    دوست نے صحیح کہا ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا آگے آگے دیکھیئے ہوتا ہے کیا!

  4. دوست، مجھے ایسا لگتا ہے جیسے عدلیہ کے وہ جج صاحبان جنہوں نے دوسرے پی سی او کے تحت حلف نہ لیا وہ اس پی سی او کے تحت حلف اٹھالینے والے اپنے ساتھیوں کو سزا سنا رہے ہوں۔ ایسا لگتا ہے جیسے وہ اپنے موقف کے صحیح ہونے اور ان ججز کے موقف کے غلط ہونے کا فیصلہ سنارہے ہوں۔ یعنی پی سی او کے تحت حلف اٹھالینے والے ان لوگوں کو سزا دی گئی جنہوں نے ان ججز کا ساتھ نہ دیا۔ جبکہ اصل ملزم جس نے حلف جاری کیا اور ایمرجنسی کے نفاذ کا فیصلہ جاری کیا اس کے خلاف سپریم کورٹ کسی کاروائی سے قاصر ہے۔

    احتساب اور انصاف کی یہ کونسی کسوٹی ہے؟ کہ ایک پی سی او کے تحت حلف اٹھالینے والے ججز کو سزا اور اس سے پہلے والے کے تحت حلف اٹھالینے والے درست؟ اگر غلط ہیں تو دونوں غلط ہیں دونوں کو سزا ملنی چاہئے۔

  5. کیوں جی کیوں ،واہ جی واہ،62 سال سے جسے ہم نے درست کہا وہ درست تھا اور جسے ہم نے غلط کہا وہ غلط دنیا چاہے کچھ بھی کہے !آج بھی جسے ہم درست مانین گے وہ درست ہوگا اور جسے ہم غلط مانیں گے وہ غلط، دنیا چاہے کچھ بھی کہے ،کیا سمجھے!

Comments are closed.