آج امریکی سلطنت کے پاکستان کے لئے نامزد کردہ وائسرائے جناب عزت ماب رچرڈ ہالبروک صاحب نے ہمارے شہر کراچی کو اپنی آمد سے رونق بخشی۔ ہمارے شہر کے ناظم اعلی جناب مصطفی کمال صاحب کو حضور وائسرائے صاحب کا خاص الخاص قرب حاصل ہے اور جناب ناظم پہلے بھی سلطنت امریکہ کے کئی سنیٹروں اور کانگریس مین سے سند توصیف، اور خلعت فاخرہ پاچکے ہیں۔ ناظم اعلی، عالی مقام وائسرائے صاحب کے ہمراہ شہر کی ایک غریب آبادی ریلوے کالونی پہنچے۔ وہاں انہوں نے وائسرائے صاحب کو ایک اسکول کا معائنہ کرایا۔ جہاں غریب بچے اپنے درمیان وائسرائے صاحب کو دیکھ کر بہت حیران ہوئے مگر انہیں سختی سے ہلنے جلنے سے منع کردیا گیا تھا کیونکہ غریب گنوار بچے تھے درباری آداب سے ناواقف تھے کیا خبر حضور کی شان میں کچھ گستاخی کر بیٹھتے۔ وائسرائے صاحب نے ایک بچے سے پوچھا تم بڑے ہوکر کیا بننا چاہتے ہو۔ تو اس بچے کو کوئی جواب سمجھ میں نہیں آیا۔ وائسرائے صاحب نے پھر کورس کی کتابوں کا جائزہ لیا پھر ایک بچے سے پوچھا تم کیا بننا چاہتے ہو تو وہ بولا ڈاکٹر۔ وائسرائے صاحب خوش ہوئے انہوں نے بچے کو شاباشی دی۔ ان سے زیادہ اس بات کا علم اور کس کو ہوگا کہ جو نظام تعلیم ہمارے ملک میں رائج ہے اس کے زیر تربیت کسی بچے سے پوچھا جائے کہ وہ کیا بننا چاہتا ہے تو اس پاس محض دو یا تین جواب ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر، انجینئر، پائلٹ یا فوجی۔ اور لڑکیوں سے سوال نہیں کیا جاتا کیونکہ سب کو پتہ ہوتا ہے کہ انہیں کیا بننا ہوتا ہے۔ وائسرائے صاحب شہری حکومت کے زیر انتظام چلنے والے اس اسکول کی کارکردگی سے کافی خوش نظر آرہے تھے۔ ان کے ساتھ کئی میم صاب بھی تھیں جو شلوار قمیض اور دوپٹے میں ملبوس پرستان کی شہزادیوں جیسی خوبصورت لگ رہی تھیں۔ موقع بموقع وہ پاکستانی بچوں کو چھو کر شفقت کا اظہار کرتیں اور اپنی شاہی مسکراہٹوں سے ان بچوں کو نوازتیں۔
وائسرائے صاحب نے اس کے بعد ایک غریب کے گھر کا دورہ بھی کیا اور اس کا حال پوچھا۔ انہوں نے اس غریب کو یقین دلایا کہ سلطنت امریکہ اپنی پاکستانی رعایا کے ساتھ ہے اور ہر مشکل وقت میں ان کے ملک کے حکمرانوں کو کی مالی مدد کی جاتی رہے گی تاکہ وہ غریب عوام پر زیادہ کرپشن کا بوجھ نہ ڈالیں بلکہ امریکہ سے حاصل ہونے والے ڈالروں کی بندر بانٹ پر توجہ مرکوز رکھیں۔
اس کے بعد انہوں نے مقامی ہوٹل میں دربار سجایا اور شہر بھر کے امرا، تاجر و سیاستدان وغیرہ کو وہاں مدعو کیا گیا جہاں حضور نے ان سے مختصر خطاب کیا۔ انہوں نے پاکستان میں توانائی کے بحران سے نمٹنے کے لئے امریکی امداد کا اعلان کیا۔ تاجروں کو عالمی منڈیوں میں زیادہ مواقع دلوانے کا وعدہ کیا اور ایک داڑھی والے شخص کی طرف طالبان کہہ کر اشارہ کیا اور اس کا مذاق اڑایا۔ اس کے علاوہ انہوں نے کراچی میں امریکی قونصل خانہ کے دوبارہ فعال کرنے کا اعلان کیا۔ سندھ حکومت سے کوڑیوں کے دام حاصل کی گئی وسیع و عریض قیمتی اراضی پر سفارت خانے کا کام ابھی تک شروع نہیں ہوا ہے اس کا مطلب ہے کہ موجودہ قونصلیٹ ہی عوام کی مشکلات حل کرنے کے لئے کام کرے گا۔ اور روزانہ سو خوش نصیبوں کو سلطنت امریکہ کا دیدار کرنے کے لئے ویزے جاری کرے گا۔ جناب وائسرائے صاحب نے گورنر سندھ عشرت العباد کی تعریف کی کہ انہوں نے صوبہ سندھ کو متحد کررکھا ہے اور ناظم شہر مصطفی کمال کی ایک بار پھر تعریف کی کہ وہ ان کے کام سے بہت خوش ہیں اور کراچی کی ترقی کا کام حیرت انگیز ہے۔
کراچی آمد سے قبل رچرڈ ہالبروک صاحب نے جماعت اسلامی کے امیر منور حسن اور مسلم لیگ نون کے امیر نواز شریف صاحب کو شرف میزبانی بخشا۔ یقینا دونوں حضرات نے اس موقع کا خوب فائدہ اٹھایا ہوگا اور صدر اوبامہ کے دربار تلک پاکستانی رعایا کی دو قطعا مختلف آوازیں پہنچانے کا کام انجام دیا ہوگا۔
حضور کا یہ یادگار دورہ تمام مقامی نیوز چینلز نے براہ راست نشر کیا اور تمام دن ان کے فرمودات کی سلائیڈز ٹی وی پر چلتی رہیں۔ ہماری شہری حکومت سے درخواست ہے کہ حضور کے اس دورے کی یاد میں ایک خصوصی یادگار تعمیر کروائی جائے، اور ان کے نام سے شہر کی کوئی سڑک منسوب کی جائے۔ اس کے علاوہ رعایا کی طرف سے سلطنت امریکہ کے محترم صدر کو ایک بار پھر اصرار کے ساتھ مدعو کیا جائے ہم امید کرتے ہیں کہ کم از کم اپنی زندگی میں ہم صدر محترم کا دربار ہمارے شہر کراچی میں سجا دیکھ سکیں گے۔
اچھی رپورٹنگ کی ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے آپ نے بھی سارا دن وائسرائے کیساتھ ہی گزارا ہے۔
عزت مآب کی آمد و رفت کے سلسلے میں اگر اس طرح یادگاریں تعمیر کی گئیں تو ایک وقت آئیگا کہ ہر جگہ یادگاروں سے پٹی پڑی ہوگی اس لئے انہوں نے سوچا ہے کہ آپکے ملک کو بذات خود ایک یادگار کی صورت دے دی جائے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کو انکا یہ فیصلہ حیرت انگیز لگے۔ لیکن اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔
ٌلگتا ہے کراچی میں امریکی فوجی چھاؤنی کی توسیع کا منصوبہ بھی شروع ہونے جارہا ہے یعنی ایک آدھی سڑک کی مزید قربانی اس بقرعید تک۔
عنیقہ: حضور کا کراچی کا یہ پہلا دورہ تھا۔ کراچی میں انگریز سامراج کے دور کی کئی یادگاریں آج بھی موجود ہیں تو امریکی سلطنت کی حکمرانی کا بھی کوئی نشان ہونا ضروری ہے۔
راشد: جی ہاں امریکی سفارت خانے کو واپس فعال کیا جارہا ہے۔ جنگ اخبار کی رپورٹنگ کے مطابق ہالبروک صاحب نے کراچی کے لئے خاص طور پر توانائی کے منصوبوں میں زیادہ دلچسپی ظاہر کی ہے۔ کیونکہ حکومت سندھ تھر کول پروجیکٹ پر چین کی مدد کی خواہاں ہے عین ممکن ہے ہالبروک صاحب کی ڈپلومیسی کے نتیجے میں کوئی امریکی سرمایہ دار یہ پروجیکٹ لے اڑے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ صوبہ سندھ کے شہری نمائندگان کو دربار میں زیادہ قرب سے نوازا گیا۔ اور گورنر صاحب نے خاص طور پر وائسرائے سے موجودہ مقامی حکومتوں کے نظام کو جاری رکھنے کی درخواست کی ہے۔
سورت 13 الرعد ۔ آیت 11 ۔ اللہ اس کو جو کسی قوم کو حاصل ہے نہیں بدلتا جب تک وہ اپنی حالت کو نہ بدلے
سورت 53 ۔ النّجم ۔ آیت ۔ 39 اور یہ کہ ہر انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی
نعمان وہ لطیفہ ہے نا کہ ایک آدمی سے پوچھا گیا کہ اگر تمھیں بھوکے شیر کے پنجرے میں ڈال دیا جائے تو تم کیا کروگے آدمی نے جواب دیا مینے کیا کرنا ہے کرنا تو سب شیر نے ہے،
تو شیر بہادر جب تک اپنا کام کرتے رہیں گے جب تک کوئی سوا شیر نہ آجائے،اور اس ملک میں ایسی کوئی امید فالحال دیوانے کا خواب ہے ،
اور جناب اجمل صاحب آپکے ہیرو کس چیز کے لیئے کوشش فرمارہے ہیں ذرا اس کی بھی وضاحت فرمادیتے تو لوگوں کو آپ کی بات سمجھنے میں آسانی رہتی ویسے بھی آجکل تو آپ ان کے بہت قریب ہیں ؛)
ویسے صاحب بہادر اپنی حالت تبدیل کرنے کی جان توڑ کوششیں کررہے ہیں آپ کی ہدایت کے مطابق ؛)
کافی جل کر لکھا ہے..
جی مکی بلکل جیسے آپنے کافی سے زیادہ جل کر لکھا:)