پاکستان کی افواج نے تیس ہزار جوانوں کے ساتھ پاکستان کے شمال مغربی قبائلی علاقہ جات میں آپریشن شروع کردیا ہے۔ اس آپریشن میں گن شپ ہیلی کاپٹر، لڑاکا طیارے، بھاری توپخانے اور دیگر اسلحہ استعمال کیا جارہا ہے۔
پاکستان آرمی کے مد مقابل اندزا دس ہزار کے قریب طالبان اور القاعدہ جنگجو ہونگے۔ پاکستانی طالبان کی کمان حکیم اللہ محسود نے سنبھالی ہوئی ہے۔
اطلاعات کے مطابق پاکستان آرمی نے ایک مخصوص علاقے کو گھیرے میں لے رکھا ہے۔ یہ علاقہ دشوار ہے اور بھاری اسلحے کی نقل و حمل یہاں بہت مشکل ہے۔ مگر پاکستان آرمی، صوبہ سرحد کی حکومت اور قبائلیوں کے درمیان مذاکرات کے سبب یہ توقع کی جارہی ہے کہ آپریشن میں دیگر قبائل محسود قبیلے اور محسود طالبان کی مدد کو نہ آئیں گے۔ اس سے آپریشن کے سرعت اور کامیابی کے ساتھ مکمل ہونے کی توقع ہے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق علاقے میں مقامی قبائلی طالبان کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں ازبک اور عرب باشندے بھی لڑائی میں شامل ہیں۔ اب تک چھ جوانوں کی شہادت کی اطلاع ہے۔
یہ لڑائی پاکستان کی حالیہ دہشت گرد مخالف جنگ کی سب سے اہم لڑائی ہے۔ گرچہ اس کا فوری مقصد تو محسود طالبان کی کمر توڑنا ہے۔ مگر آپریشن کے بعد بھی تحریک طالبان پاکستان کا صفایا ممکن نہیں ہے۔ جیسا کہ ان کے ترجمان بتا چکے ہیں کہ وہ پاکستان کے شہروں میں گوریلا وار لڑیں گے۔
گزشتہ دنوں ہونے والے حملے جن میں جی ایچ کیو پر ہونے والا حملہ بھی شامل ہے۔ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی کارکردگی اتنی شاندار نہیں ہے۔ پاکستان کے گنجان آباد شہروں کو نشانہ بنانا طالبان اور القاعدہ کے لئے بہت آسان ہے۔
اگر آپ اس جنگ کی خبروں کو فالو کررہے ہیں تو غیر ملکی اخبارات لڑائی کی پاکستانی میڈیا سے زیادہ بہتر کوریج کررہے ہیں۔ یہ لڑائی پاکستان کی سلامتی کے لئے بے حد اہم ہے۔ تاہم اس لڑائی کا بہت زیادہ فائدہ نیٹو افواج کو نہیں ہوگا۔ تاہم پاکستان کی داخلی صورتحال بہتر ہونے کی توقع ہے۔
ٹیلی گراف پر پاکستان کے طالبان امور کے ماہر احمد راشد کا تجزیہ شائع ہوا ہے۔ احمد راشد کا خیال ہے پاکستان کی جدوجہد کا اختتام قریب نظر نہیں آتا۔
دیکھتے ہیں اس بیکار لڑائی سے کیا حاصل ہوتا ہے۔
یہ لڑائی بیرونی دہشت گردوں کے خلاف ہے
قرین از قیاس یہی ہے کہ فوج نے اپنی پچھلی ناکامیوں سے سیکھا ہے اور ایک نئی تدبیراتی و تزویراتی نظریہ کو اختیار کیا ہے جس کا اثر سوات کے کامیاب آپریشن میں نظر آیا ہے۔ امید ہے کہ انہی خطوط پر وزیرستان میں جاری شورش کا قلع قمع بھی ممکن ہوگا۔ اس سب عمل میں سب سے اہم کردار سول سوسائٹی کا ہی ہوگا کہ ہمیں ہر فورم پر طالبان اور طالبانی سوچ کو رد کرنا ہوگا بلکہ ٹھکرانا ہوگا۔ یہ توقع رکھنی کہ طالبان اس جنگ کا جواب نہ دیں گے حماقت ہوگی لیکن ان کے دھماکوں اور حملوں سے ڈر کر اس آپریشن کی مخالفت کرنا اس بے بھی کئی گنا بڑی حماقت ہوگی جس کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے کہ There is no prize for runner up in Love and War.
مجھے ڈر ہے کہ موسم اس کاروائی کیلیے سازگار نہیں تھا۔ وہاں سردی شروع ہو چکی ہے اور آنے والے دنوں میں شدید تر ہوتی جائیگی۔ تاہم میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے جوانوں کو موسموں کی شدت برداشت کرنے کی تربیت دی گئی ہوگی۔ ان شاء اللہ کامیابی حق کی ہوگی۔
اس لڑائی کو سیاسی سطح پر بھی لڑنے کی شدید ضرورت ہے جس کے بغیر ہم اپنے ملک کے بگڑتے ہوے حالات کو سنبھالنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ جب تک افغان سرحد کی دوسری جانب سے دہشت گردوں کی مدد ختم نہ ہو، جب تک امریکہ کی پاکستان کے حالات کو بگاڑنے کی پالیسیاں، امریکہ کی بھارت کے لیے حمایت اور پاکستانی ایٹمی اساسہ جات پر قبضہ کرنے یا انہیں بیکار کرنے کی کوشش ختم نہ ہو، ہم اس جنگ کو جیت نہیں سکیں گے۔
جب تک سرحد کے دوسری طرف سے انکی امداد نہ رک جائے۔ بھائ صاحب وہ تو نہیں رکنے والی، یہ امداد انہیں دی ہی اس لئے جا رہی ہے کہ وہ ہر وقت آپ کا باجا بجا کر رکھیں۔ شاید آپ اس سلسلے میں سری لنکا کی مثال بھول رہے ہیں جنہیں یہ جنگ دو دہائیوں تک لڑنی پڑی۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان سرحدوں کے اندر جہاں یہ جنگ لڑی جارہی ہے اور جہاں ہم اور آپ موجود ہیں بالکل ان سرحدوں کے اندر تمام لوگوں کو بیک آواز انہیں دہشت گرد اور بیرونی عناصر کے لئے کام کرنے والے دشمن سمجھ کران سے لڑیں۔ لوگوں کو اس خوش گمانی سے باہر نکلنا ہوگا کہ یہ جنگ مذہبی اور غیر مذہبی گروہوں کے درمیان لڑی جا رہی ہے۔
وہ صاحب جو اسے بیکار کی لڑائ قرار دے رہے ہیں۔ ان سے درخواست کرتے ہیں کہ محض ایک جملے سے آپ ہزاروں جانوں کی جن میں سویلین اور فوجی جوان سب شامل ہیں اپنے آپکو دستبردار نہیں کر سکتے ہیں۔ اگر آپ اسے اتنی ہی بیکار کی لڑائ سمجھتے ہیں تو فیس بک پر بہت سارے گیمز دستیاب ہیں ان میں مصروف رہیں اور کوئ بیان نہ دیں یا پھر اسکی تفصیلات دیں کہ یہ جنگ بیکار کی کیوں ہے۔ آخر آپ بھی اس ملک کے ذمہ دار شہری ہیں۔
میری حوصلہ افزائیاں فوج کے ساتھ ہیں۔ یقینی طور پر ہمیں ان تمام عوامل کا بھی مستقل حل تلاش کرنا پڑیگا جو کہ اس صورت حال کا باعث بنے۔ ہماری بد قسمتی کہ ہمارے پاس ملک کے بہتر مفادات اور مستقبل کے لئیے کام کرنے والا تھنک ٹینک نہیں ہے۔ ہمارا سیاسی نظام ناپختگی اور بوسیدگی کا شکار ہے اور ہمارے مستقبل کی امید یعنی ہمارے نوجوان انکی بیشتر تعداد اپنے جغرافئیے اور تاریخ سے واقف نہیں البتہ غیر ضروری موضوعات پہ انکے دل کڑھتے رہتے ہیں۔
اب ان سب چیزوں کو ایک قطار میں باری باری تو صحیح نہیں کیا جا سکتا۔ بہتر یہی ہے کہ سارے محاذوں پہ ایک ساتھ کام شروع کیا جائے تاکہ وہ جو کہتے ہیں کہ بیکار کی لڑائ ہو رہی ہے وہ بھی کچھ کام کا کام کر سکیں۔