ایک بٹن کا فرق

جب کہ ہمارے ملک میں معرکہ خیر و شر بپا ہے، ہر طرف آگ اور خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے۔ کسمپرسی اور افلاس کا دور دورہ ہے۔ ایسے میں ہمارے پڑوسی ملک بھارت کے ٹیلیوژن کے رئیلیٹی سے بے حد دور رئیلیٹی شوز دلوں کا بڑا سہارا ہیں۔ ایک ٹی وی شو جو آجکل ہمارے گھر میں بڑی دلچسپی سے دیکھا جاتا ہے وہ ہے ڈانس پریمئیر لیگ۔

رقص و موسیقی کے اس پروگرام میں بھارت کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے نوجوانوں کو مختلف ٹیموں میں بانٹا گیا ہے۔ ہر ٹیم اپنے علاقے کی نمائندگی کرتی ہے۔ گرچہ ان کا سارا زور مغربی اور بالی ووڈ مسالہ ڈانسز پر ہی ہوتا ہے۔ مگر ہر ٹیم وقتا فوقتا اپنے علاقائی رقص پیش کرتی رہتی ہے۔ جیسے کتھک، جنوبی بھارت کے رقص، مہارشٹرن رقص، وغیرہ۔

ہم چونکہ مسلمان ہیں اور ایک ہی امت سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے ہم نے ساٹھ سال یہی زور لگاتے صرف کردئیے کہ ہم ایک قوم ہیں۔ پورے ملک کو شلوار قمیض پہنا کر اردو کو سب پر تھوپا گیا۔ زبردستی کے قومی فلاسفر بنائے گئے ان کی بے تکی فلاسفی سے ایک قوم کا فلسفہ اخذ کرنے میں محقیقین نے سالوں مختص کردئیے۔ کبھی مذہب کا سہارا لیا، کبھی عظیم دشمن کے ڈراوے کا۔ مگر سچی بات یہ ہے کہ ہم قوم کو متحد رکھنے اور ایک قومی شناخت دینے میں وہ کامیابی نہ پاسکے جس کا ہم نے خواب دیکھا تھا۔ اور ان کوششوں میں ہم نے اپنی علاقائی شناخت کو بری طرح مسخ کرڈالا۔

اتنی کوششوں کے باوجود بھی آج ہم پنجابی، پٹھان، سندھی، بلوچی اور مہاجر ہیں۔ علاقاَئی شناختوں کو کچلنے کے اس عمل نے قوم کے نوجوانوں کو احساس کمتری کے سوا کچھ نہ دیا۔ اس ایک قوم بننے کی لاحاصل سعی نے قوم کے نوجوانوں کو شناخت کے حوالے سے کنفیوژن کا شکار کیا۔ عصبیتوں کو فروغ دیا اور نفرتوں کو ہوا دی۔

اگر ہم ایک قوم بننے کے لئے ایک دستور کا سہارا لیتے، رواداری اور انصاف کو فروغ دیتے۔ عقلیت پسندی کو اپنے فلسفے کی بنیاد بناتے، تو شاید ایک مضبوط قوم بن پاتے۔ ہم نے اپنی جان سے بڑے جوکھم مول لئے۔ ایک قوم جو خود شناخت کی تلاش میں تھی، وہ ایک امت کی تشکلیل کے ذریعے ایک نئے مذہبی ورلڈ آرڈر کی تلاش میں مگن ہوگئی۔ ہزارہا نوجوان اس کوشش میں اپنی جان ہارے اور مزید ہزاروں اس وقت خونی ہتھیاروں سے لیس برسر پیکار ہیں۔

ساٹھ سال میں ہم آج اپنی چوتھی فل اسکیل جنگ لڑ رہے ہیں۔ ساٹھ سال میں ہمارے دریا خشک ہورہے ہیں اور ہمارے دلوں میں نفرتوں کے لاوے ابل رہے ہیں۔ ساٹھ سال میں خوشحالی کا دور کبھی نہ آیا، ساٹھ سال میں ہم کبھی متحد نہ ہوسکے، ساٹھ سال میں ہم ایک ادارہ ایسا نہ بناسکے جس پر قوم کو اعتماد ہو۔ کیا ساٹھ سال کسی نظرئیے کی شکست کو کافی نہیں ہوتے؟

ہمارے ٹیلیوژن میں جیو نیوز اور سونی اینٹرٹینمینٹ برابر لگے ہیں۔ ایک چینل پر خوشی سے تمتماتے چہرے محو رقص ہیں اور دوسرے پر پریشان حال لوگ جنگ بھوک اور مفلسی سے بدحال۔ صرف ایک بٹن کے درمیان کتنا بڑا فرق ہے۔

تبصرے:

  1. شلوار قمیض اور اردو شاید ہماری ضرورت تھی۔ کچھ ایسی ہی ضرورت انڈیا کو بھی رہی ہے اور رہتی ہے۔ باقی آپ کی باتوں سے متفق ہوں کہ ہم قوم نہ بن سکے۔

  2. سوچ رہی ہوں کیا تبصرہ کروں۔ ابھی کوئ اٹھے گا جو ایسی باتیں کرنے والوں کو غدار وطن یا انڈین ایجنٹ کہے گا اور بتائے گا پاکستان نے اتنے برسوں میں کیا کیا حاصل کیا اور اگر کچھ حاصل نہیں کیا تو اسکی وجہ اسلامی نظام حکومت کا قائم نہ ہونا تھا، اسکی وجہ خواتین کا سر سے دوپٹہ نہ اوڑھنا تھا، اسکی وجہ ملک میں ہم جنس پرستی کا عام ہونا اور لوگوں کا بڑی تعداد میں شراب پینا، عورتوں کی جسم فروشی، آبادی کو کنٹرول کرنے کی باتیں، اور پولیو سے بچاءو کے لئے ویکسینیشن ہے۔
    ویسے یہ رقص سے لطف اور اس سے منسلکہ تمتماتے چہرے ہمارے نظریاتی وجود سے میل نہیں کھاتے۔ لاحول ولا قوۃ۔ اس سے بہتر تو بارودی جیکٹ سے خود کو اور دوسروں کو اڑانا ہے۔

  3. محترمہ یہ قوم ہمیشہ سے جذباتی رہی ہے۔ میرے الفاظ پر غور کیجیے گا مذہبی نہیں جذباتی۔ مذہب ان کا عمل نعرے لگانے تک ہی ہے بس۔

  4. جس چیز کو موردِ الزام ٹھہرایا گیا ہے اور ٹھہرایا جاتا رہا ہے يعنی دین ۔ لباس اور زبان ۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے جو قوم بھی تنزل کا شکار ہوتی ہے وہ مکمل تباہی آ پہنچنے تک اپنے کرتُوتوں پر نظر نہیں ڈالتی بلکہ اپنے آباؤ اجداد کے اصولوں کو اپنے تنزل کا سبب گردانتی رہتی ہے ۔ اُن کو ہوش صرف اُس وقت آتا ہے جب اپنی تباہی کو چند قدم پر دیکھ لیتے ہیں مگر جب دودھ اُبل کر گِر جائے تو اسے سنبھالا نہیں جا سکتا ۔ اللہ مجھے اور ہموطنوں کو چشمِ بصیرت عطا فرمائے

  5. ایک بٹن کا فاصلہ بنیادی طور پر ان رویوں کا فاصلہ ہے جو بطور قوم اپنائے جاتے ہیں۔ گوکہ کسی مثالی صورت حال سے موازنہ نہیں ہے لیکن بات سمجھنے کے لیے یہ موازنہ بھی بہت ہے۔

  6. آپ سونی انٹرٹینمینٹ کے ساتھ جیو کا انٹرٹینمینٹ چینل لگا لیجے ایسے میں تقابلی جائزہ ٹھیک رہے گا۔

  7. دوست: یہی میری پوسٹ کا مرکزی خیال ہے کہ ہمیں اردو، شلوار قمیض اور ایک قومی کلچر کو تخلیق نہیں کرنا چاہئے تھا بلکہ ہماری علاقائی شناختوں کے میل ملاپ سے ایک نئے معاشرے کو وجود میں آنے دینا چاہئے تھا۔ اس سے ہمارا قومی تشخص زیادہ مضبوط ہوتا۔

    عنیقہ: مباحثے کی شرط ہی سننے اور برداشت کرنے کی قابلیت ہے۔

    افتخار، یہاں دین، لباس اور زبان کو تنزل کی وجہ قرار نہیں دیا جارہا۔ بلکہ ان کوششوں کو تنزل کی وجہ قرار دیا جارہا ہے جو ان عناصر کے غیر فطری ملاپ سے ایک نئی قوم کو تشخص بخشنے کے لئے کی گئیں اور ناکام رہیں۔ اور یقینا اگر آج ہم بدحال ہیں تو اس کے قصوروار ہمارے آباواجداد بھی ہیں انہیں بری الذمہ قرار کیسے دیا جاسکتا ہے؟ کسی نے تو غلطی کی ہے جو بطور ایک قوم ہم ناکام ہوتے رہے۔

    احمد: تقابل یقینا دو نیوز چینلز میں کیا جانا چاہئے تھا۔ مگر جہاں بھارتی تفریح کے لئے سونی انٹرٹینمینٹ دیکھتے ہیں وہاں پاکستانی تفریح کے لئے ٹاک شوز اور بریکنگ نیوز دیکھتے ہیں۔ اگر پاکستانی انٹرٹینمنٹ چینل بھی دیکھیں تو وہاں بھی یاسیت ہی طاری ہے۔ درد بھرے المیہ ڈرامے، خودکش حملوں کے خلاف نغمے، اور سیاسی مزاح۔ ظاہر ہے ہم حالت جنگ میں ہیں۔ عوامی خوف، ڈپریشن اور انتشار ہمارے ہر میڈیا سے جھلکتا ہے چاہے آپ کوئی ہی چینل، اخبار، میگزین اٹھا لیں۔ یاسیت ہی طاری ہے۔

  8. ہماری حالت بھی خراب ہے اور حالات بھی
    اور سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ اس کو سدھارنے کی کوشش کرنے کی بجائے ہم سب اس کا الزام ایک دوسرے پر دھرنے میں زیادہ دلچسپی دکھا رہے ہیں۔

  9. جعفر الزام تراشی ہمارا قومی کھیل ہے۔ لیکن یہاں ہم الزام تراشی نہیں بلکہ غلطیوں کی نشاندہی کا ذکر کررہے ہیں کہ ہم سے کیا غلطیاں ہوئی ہیں۔ ادراک سے ہی بہتری آسکتی ہے۔

  10. نعمان ساری بات ہے خلوص نیت کی،جب نیتوں میں خلوص نہ ہو تو بڑی سے بڑی اچھائی اور نیکی بھی بے ثمر ہوجاتی ہے،پاکستان میں جو بھی کیا گیاصرف اور صرف چند لوگوں کے ذاتی مفادات کے تحفظ کے لیئے کیا گیااور اس کے لیئے اسلام سے بہترین ہتھیار اور کونسا ہو سکتا تھا ،مولویوں کو بھی اسی لیئے پالا گیا تھا کہ جیسے ہی عوام کے پیٹ میں حقوق کی مروڑ اٹھے انہیں مذہب کی پھنکی کھلا کر سلادیا یا بھڑا دیا جائے!

  11. حالات کی جس خرابی کا رونا رویا جا رہا ہے اس سے فرار اختیار کرتے ہوئے "ریئلٹی سے دور” ریئلٹی شوز کا سہارا لینے والے افراد ہی کا اس صورتحال تک پہنچانے میں بڑا کردار ہے۔ حالات کو سدھارنے کے لیے میدان عمل میں نکلنے کے بجائے اکیلے کمرے میں ریموٹ سنبھال کر ٹی وی پر نظریں جما رکھنے سے حالات درست نہیں ہوا کرتے برادر!

  12. ابوشامل آپ کے الزام سے میں قطعا متفق نہیں۔ رئیلیٹی شوز شروع ہوئے تو جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں۔ جس قومی تشخص کی بے تکی تشکیل کی میں بات کررہا ہوں وہ تو کئی عشروں سے جاری ہے۔

    ریموٹ تھام کر ٹی وی دیکھنے سے حالات خراب نہیں ہوتے۔ بلکہ ریموٹ تھام کر بم اڑانے سے حالات خراب ہوتے ہیں۔

Comments are closed.