سانحہ کراچی چند حقائق

چند دن پہلے میں شعیب بھائی سے چیٹ کے دوران پوچھ رہا تھا کہ کراچی کو دہشت گردوں نے نظر انداز کیوں کررکھا ہے؟ انہوں نے اس کے ڈانڈے بلیک واٹر، ایم کیو ایم، امریکا، بھارت اور اسرائیل سے جا ملائے۔ کہ چونکہ ایم کیو ایم اس معاہدے کا حصہ ہے تو ان کی عمل داری والے علاقے کو فی الحال دہشت گردی سے پناہ ملی ہوئی ہے۔

بی بی سی اردو پر رضا احمد نے بھی اس موضوع پر اپنا اظہار خیال کیا ہے۔

سوال یہ ہے کہ دو سال تک نظر انداز کرے جانے کے بعد اچانک سے دہشت گردوں کو ہماری یاد کیوں آگئی؟

حادثے کے بعد ایک منظم گروہ نے آدھے گھنٹے کے اندر ملک کی سب سے بڑی مارکیٹوں کو آگ لگادی۔ ایک منظم سازش کے تحت ہر تین دکانیں چھوڑ کر ایک دکان جلائی گئی تاکہ سب دکانیں اچھی طرح آگ کی لپیٹ میں آجائیں۔ اربوں روپے مالیت کا نقصان ہوا۔ یہ بات سمجھنے کے لئے آپ کو راکٹ سائنٹسٹ ہونے کی ضرورت نہیں۔ مشتعل مظاہرین ایک مخصوص علاقے کی عمارتوں کو اس طریقے سے آگ کیوں لگائیں گے کہ وہ ایک دوسرے کو لپیٹ میں لے کر پورا علاقہ جلادیں؟ مشتعل عزاداران اتنی جلدی آتشگیر مادے کے کیمیکل کینز کہاں سے لائے؟ دہشت گردی کا منصوبہ صرف خودکش حملہ نہیں تھا بلکہ اس کے بعد افراتفری کا فائدہ اٹھا کر شہر کے تجارتی مراکز کو نذر آتش کرنا بھی منصوبے کا دوسرا حصہ تھا۔ کیونکہ تجارت اس شہر کے طرز زندگی کا ایک اہم جزو ہے۔ اس لئے دشمن کا ٹارگٹ اور اس کی دھمکی دونوں واضح ہیں۔ واقعے کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا جارہا ہے جبکہ وزارت داخلہ نے ایف آئی کے ڈائریکٹر کو انکوائری کا حکم دیا ہے۔

اس موقع پر لوگ ظاہر ہے حکومت کو ہی لعن طعن کریں گےْ لیکن آئیے ایک جائزہ اس بات کا لیتے ہیں کہ کیا واقعی جلوس کی سیکیوریٹی میں کسی قسم کی کمی چھوڑی گئی تھی؟

جلوس نشتر پارک سے نکلتا ہے اور ایم اے جناح روڈ سے گزرتا ہوا کھارادر پر ختم ہوتا ہے۔ یہ ایک طویل راستہ ہے۔ جو شہر کے سب سے زیادہ گنجان آباد علاقوں سے گزرتا ہے۔ سینکڑوں گلیاں اور دسیوں سڑکیں ایم اے جناح روڈ کے دونوں اطراف سے آکر مرکزی شاہراہ پر ملتی ہیں۔ ایم اے جناح روڈ بند ہونے سے شہر دو حصوں میں تقسیم ہوجاتا ہے اور سڑک کے ایک حصے سے دوسرے حصے تک جانے کے لئے آپ کو تقریبا پورے ایم اے جناح روڈ کا چکر کاٹ کر راستہ ملتا ہے۔ لیکن چونکہ سڑک کے دونوں اطراف لاکھوں لوگ رہتے ہیں اس لئے جن علاقوں سے جلوس گزر چکا ہوتا ہے یا جہاں ابھی نہیں پہنچا ہوتا وہاں پیدل چلنے والوں کو سڑک پھلانگنے دی جاتی ہے۔

سندھ پولیس کے جوان ہر اس گلی اور سڑک کے نکڑ پر چوکس کھڑے ہوتے ہیں جو ایم اے جناح روڈ پر کھلتی ہے۔ عمارتوں پر اسنائپرز بٹھائے جاتے ہیں اور جلوس کی ہیلی کاپٹر کے ذریعے فضائی نگرانی کی جاتی ہے۔ رینجرز کے جوان پوری سڑک پر تعینات ہوتے ہیں اور سینکڑوں کی تعداد میں ایمبولینسیز، رینجرز اور پولیس کی گاڑیاں پوری سڑک پر موجود رہتی ہیں۔

سیکیوریٹی کی دوسری تہہ شعیہ تنظیموں کے اسکاؤٹس کی ہوتی ہے جو میٹل ڈیٹکٹر اور دیگر آلات سے لیس تھے اور جلوس کو چاروں طرف سے مکمل گھیرے میں لئے رہتے ہیں۔

خودکش حملہ آور یقینا نشتر پارک سے موقع کی تاک میں ہوگا۔ مگر اسے جلوس کے درمیان پہنچنے کا موقع نہیں مل سکا۔ یہاں تک کے شام ہونے کو آئی اور اس کی گھبراہٹ عروج پر پہنچ گئی کیونکہ چند گھنٹوں میں جلوس اختتام پذیر ہوجانا تھا۔ اس نے لائٹ ہاؤس کے قریب ایک گلی کے نکڑ سے جلوس میں داخل ہونے کی کوشش کری تو اسے اسکاؤٹس نے روک لیا اور اس نے گلی کے نکڑ پر ہی خود کو اڑادیا۔ اگر وہ جلوس کے درمیان خود کو اڑاتا تو جانی نقصان بہت زیادہ ہوتا۔

سیکیوریٹی میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی تھی اور نہ ہی دھماکے کے بعد زخمیوں اور ہلاک ہونے والوں کو ہسپتالوں تک پہنچانے میں کوئی تاخیر کی گئی۔ کراچی کی مقامی انتظامیہ ایمرجنسی ریسپانسز میں ملک کے تمام اداروں سے زیادہ مستعد ہے۔ اور ایسے سانحات پر شہر بھی کی تنظیمیں ایک بہت بڑی مشین کی طرح تیزی سے حرکت کرتی ہیں۔ ہسپتال ریڈ الرٹ پر ہوتے ہیں اور جانی نقصان کو کم سے کم رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔

دھماکے کے آدھے گھنٹے کے اندر ہی چند افراد کے ایک چھوٹے سے گروہ نے بولٹن مارکیٹ کی دکانوں کو جلانا شروع کردیا۔ اس بات کے عینی شاہدین موجود ہیں کہ جلاؤ گھیراؤ کرنے والے منظم طریقے سے اپنا کام کررہے تھے، وہ کسی بھی طرح عزادار نہیں دکھائی دے رہے تھے، اور ان کے حلیوں کے بارے میں اس لئے کچھ نہیں کہونگا کیونکہ یہ لسانی تعصب کا تاثر دیگا۔

کراچی کے شہریوں کا ردعمل ہمیشہ بہت مثبت ہوتا ہے۔ اس شہر نے دہشت گردی کے کئی حملے سہے ہیں اور ایمرجنسی میں اس کے ادارے بہت عمدہ ریسپانس دیتے ہیں۔ تمام ادارے خاص طور پر پولیس اور رینجرز کے جوان، ہمارے فائر فائٹرز، ہمارے ڈاکٹرز اور نرسز، عام شہری جو زخمیوں کی مدد کو فورا آپہنچتے ہیں، ہماری شہری انتظامیہ سب اپنا کام احسن طریقے سے انجام دیتے ہیں۔

پوسکتا ہے آپ کہیں کہ اگر احسن طریقے سے کام کرتے ہیں تو یہ اربوں روپے کی املاک کیسے جلادی گئی؟

کراچی میں فرقہ ورانہ فسادات نہیں ہوتے۔ لیکن کراچی میں ہر علاقے، ہر مذہب اور ہر فرقے کے لوگ رہتے ہیں۔ اس لئے فسادات کو روکنے کے لئے بطور خاص کوششیں کی جاتی ہیں اور اکثر شہر کی سیاسی، سماجی اور مذہبی تنظیمیں ہم آہنگی سے امن کی کوششیں کرتی ہیں۔ آپ ایسی کوششیں تب دیکھ چکے ہیں جب ایم کیو ایم کے کراچی میں قبائلی متاثرین جنگ کی رجسٹریشن کے مطالبے پر شہر میں لسانی کشمکش پیدا ہوگئی تھی۔ لیکن بات چیت سے ٹینشن کو ڈفیوز کیا گیا۔ اس موقع پر بھی ایسا ہی ہوا۔ شہر کی پولیس فورس اور انتظامیہ کی فوری توجہ جلوس کو بہ حفاظت اس کی منزل تک پہنچانے پر تھی۔ دوسرا ایشو زخمیوں اور ہلاک ہونے والوں کا تھا۔ تیسرا مسئلہ جو ایک اور ڈائیورژن تھا وہ یہ تھا کہ شہر کے چند علاقوں میں ہوائی فائرنگ شروع کردی گئی۔ اس موقعے کا فائدہ اٹھا کر دشمن اپنا دوسرا حملہ کرنے میں کامیاب ہوا اور انہوں نے دکانیں اور مارکیٹیں جلادیں۔

ان مارکیٹوں میں اور ملحقہ عمارتوں کے گوداموں میں تمام سامان ایسا تھا جو آسانی سے آگ پکڑنے والا تھا۔ جیسا کہ پرفیوم، اسپرے، ادویات، پلاسٹک، کپڑا، وغیرہ۔ اس کے باوجود اس آگ پر قابو پانے کی جان توڑ کوشش کی گئی۔ یہ آگ کسی ایک عمارت میں نہیں بلکہ کئی عمارتوں پر مشتمل ایک پورے تجارتی علاقے میں لگی ہوئی تھی جس پر اگر آپ شہر میں فائر بریگیڈ کے ریسورسز مدنظر رکھیں تو یہ ایک بڑی کامیاب امدادی کاروائی تھی۔ گرچہ پہنچنے والا نقصان اربوں روپے میں ہے مگر یہ علاقہ اسقدر گنجان ہے کہ آگ اس سے کہیں زیادہ وسیع پیمانے پر پھیلنے کا امکان تھا۔

شہید ہونے والوں میں ایک رینجرز کے جوان اور ایک فائر فائٹر بھی ہیں۔ جو اس شہر کے لوگوں کی جان و مال کی حفاظت میں ہلاک ہوئے۔ مرنے والوں میں معصوم بچے بھی ہیں اور خواتین بھی۔ جو املاک جلائی گئیں ان سے شہر میں سینکڑوں لوگ بے روزگار ہوگئے ہیں، اور کتنوں ہی کے کاروبار ایسے برباد ہوئے ہیں کہ وہ اب کبھی نہ اٹھ سکیں گے۔

اس موقع پر بھی ایسے قلمکار جو شہر کراچی کے بارے میں عجیب سے تعصبات کا شکار ہیں، حماقت افشانی، بھونڈے طنز اور اپنی بے تکی خوشی کو چھپا نہیں پارہے۔ اگر آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہیں تو تعصبات سے دور رہیں اور ایسے قلمکاروں کی حوصلہ افزائی نہ کریں۔ اللہ ہمارے ملک ہمارے شہر اور ہمارے محلوں کو اپنی امان میں رکھے۔

تبصرے:

  1. اللہ ان تمام لوگوں کو غارت کرے جو اس ملک کا برا سوچتے ہیں چاہے ان کا تعلق کسی بھی گروہ، فرقہ، پارٹی سے ہو۔

  2. نجانے آپ نے کیوں انکی شناخت دینے سے گریز کیا۔ جبکہ ہمارے ایک سینئیر کرم فرما اسکا ذمہدار ایم کیو ایم کو سمجھتے ہیں۔ اور انہیں کبھی بھی ان غلط حقاءق کو پیش کرنے میں عار نہیں ہوتا۔
    جیو جو کہ ایم کیو ایم کے خلاف ہے۔ انکے چینل سے کل رات کامران خان کا پروگرام آرہا تھا جس میں انہوں نے بین السطور ان لوگوں کا تذکرہ کیا جو ستائِس دسمبر دو ہزار سات کے فسادات میں شامل تھے۔ ملیر اور اسکے اطراف میں خوف پھیلا دینے والے یہ لوگ ہزارہ گروپ سے تعلق رکھتے تھے۔ مزید تفصیل کے لئے ستائیس دسمبر کے اگلے روز آنیوالی خبروں کا دیکھا جا سکتا ہے۔
    کسی کو یہ بات کھل کر کہنے میں اس لئیے تامل ہے کہ لسانی فسادات کا چکر شروع نہ ہوجائے۔
    لیکن وہ لوگ جو ہر چیز پہ ایم کیو ایم کو پکڑ لیتے ہیں یہ انکا درست رویہ نہیں ہے۔ میرا ایم کیو ایم سے کوئ تعلق نہیں۔ لیکن کہنے والوں کو اپنی بات میں غلط تاثر نہیں دینا چاہئیے۔ اور ایسے موقعوں کی تاک میںنہیں رہنا چاہئیے کہ فوراً مخالف جماعت کی طرف چاہے غلط سہی محاذ بنا لیں۔ میرا خیال ہے کہ ایم کیو ایم کے اس گروپ کا نام نہ لینے پہ انہیں سراہنا چاہئیے کہ انہوں نے اسے ایک کمیونٹی کے خلاف استعمال نہیں کیا۔
    کامران خان کے پروگرام سے ہی پتہ چلا کہ ستائیس دسمبر میں ہنگامہ آرائ کے دوران گرفتار ہونے والوں کو پیپلز پارٹی کی حکومت آنے کے بعد بغیر کسی مقدمہ کے رہا کر دیا گیا تھا۔
    رینجرز اور پولیس والوں کی طرف سے کوئ گولی کیوں نہیں چلائ گئ۔ یہ سوال جواب طلب ہے۔ یہ یاد رہنا چاہئیے کہ ریجرز اور پولیس کے اختیارات صوبائ حکومت کے پاس ہیں۔ اور اس وقت سندھ کے وزیر داخلہ جناب ذوالفقار مرزا ہیں۔

  3. جو بات مجھے سمجھ نہیں آئی یا حلق سے نہیں اترتی کے فوری طور پر اور طویل المدتی اس کا ایم کیو ایم کو کیا فائدہ پہنچے گا؟ بلکہ سراسر نقصان ہی ہے لیکن یہ تو معقول سوچ کی بات ہوئی۔ بلیک واٹر اور سی آئی اے تو خیر اسٹوری بیچنے کے لیے ضروری چیزیں ہیں کراچی کا ذکر چلے تو ایم کیو ایم کے بغیر تذکرہ مکمل نہیں‌ ہوتا یا اسٹوری نہیں بکتی۔۔

    آپ کی پوسٹ عمدہ ہے لیکن ریشنل یا معقول طرز فکر آج کل قابل قبول نہیں ہے۔

  4. جلوس کے انتظامات پر اعتراض کرنا عقل سے بعید ہے ۔
    خود کُش حملہ روکنا جن کا کام ہے اُس کا ذکر میں بعد میں کروں گا ۔ کوئی شہری یا پولیس یا رینجر یا فوجی خود کُش حملہ کو اتفاق سے روک لے خواہ اپنی جان دے کر تو الگ بات ہے ورنہ اسے روکنا اُن کے بس کی بات نہیں ۔
    اس سانحہ کے بعد جو کچھ ہوا وہ جس نے بھی کیا ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کی تمام مشینری کیا صرف جلوس کی حفاظت کر رہی تھی جو نہ ہو سکی ؟ یا سب اپنے گھروں میں استراحت فرما رہے تھے یا پھر شہر کی ابتری کے منظر سے محظوظ ہو رہے تھے ؟
    یہ سب حملے ہونے سے پہلے روکنا خُفیہ والوں کا اور حکومت کا کام ہوتا ہے ۔ کیا خُفیہ والے کام نہیں کر رہے یا اُن کی اطلاعات پر کاروائی نہیں ہو رہی یا خُفیہ والوں کو کام نہیں کرنے دیا جا رہا ؟
    جہاں تک شہر کی تباہی کا تعلق ہے اس میں بہر صورت کراچی اور سندھ کی مرکزی انٹظامیہ قصور وار ہے ۔ غدر مچانے والے لوگ یقینی طور پر کراچی کے باہر سے نہیں آئے ہوں گے

  5. مارکیٹ جلائے جانے کی خبروں کے بعد فائربریگیڈ نے جائے وقوعہ پر پہنچنے کی کوشش کی تو وہاں موجود دہشتگردوں نے اس پر بھی فائرنگ کی۔ اس کے بعد فائربریگیڈ کا عملہ وہاں سے چلا گیا۔ قانون نافظ کرنے والے ادارے اگر تھوڑی سی توجہ فائر فائٹرز کے تحفط پر مرکوز کرتے تو شاید آگ کو قابو کیا جاسکتا تھا۔ اس سے دونوں اداروں میں کمیونیکیشن گیپ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ جس مشینی انداز حکمت عملی کا آپ ے ذکر کیا وہ صرف بم دھماکہ کے فوری بعد نظرآیا جو کہ بعد میں زائل ہوگیا۔ آگ لگنے کے قریباَ سات گھنٹے بعد فائربریگیڈ کا عملہ دوبارہ جائے وقوعہ پر پہنچا۔ تب تک آگ مکمل طور پر بے قابو ہوچکی تھی۔

  6. عنیقہ پورے شہر میں کوئی بھی لسانی فسادات کو ہوا دینے کا ذریعے نہیں بننا چاہتا۔ تاہم یہ بات ضروری ہے کہ ان احمقوں کا منہ دلیل سے بند کیا جائے جو ہر واقعے کی کڑی ایم کیو ایم سے جا ملانے کے عادی ہوتے جارہے ہیں۔ دوسری بات شہریوں کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ اپنی شہر کی اچھی امیج کے لئے فائٹ بیک کریں۔

    کامران، معقول طرز فکر مقبول بھلے ہی نہ ہو مگر استدلال آہستہ اہستہ خود کو منوا ہی لیتا ہے۔ لیکن اگر نامعقولوں کو بڑبڑانے دیا جائے تو اس سے بے جا خوف اور دہشت مزید پھیلتی ہے۔

    اسد سات گھنٹے کی آپ کی اطلاع درست نہیں۔ یہ بات درست ہے کہ فائر بریگیڈ کی تمام گاڑیاں بروقت نہ پہنچ سکیں اس کی فائرنگ کے علاوہ دوسری وجہ وہ کنٹینرز تھے جو جلوس کی سیکیوریٹی کے لئے ہر طرف کھڑے کرے گئے تھے۔ ان کنٹینرز کو ہٹانا آسان کام نہیں ہوتا۔ دوسری بات کے پی ٹی اور نیوی کے فائر ٹرکس نے پولیس موبائلوں کی حفاظت کے بغیر نکلنے سے انکار کردیا جس کی وجہ سے ان کے جائے حادثہ پر پہنچنے میں دیر ہوئی۔

  7. کنٹینر سے مجھے 15 مارچ یاد آ گیا ۔ نواز شریف کے جلوس کو روکنے کیلئے پیپلز پارٹی کے حکمرانوں نے راستہ میں جگہ جگہ کنٹینر کھڑے کئے تھے جن میں سے زیادہ تر مال سے بھرے ہوئے تھے ۔ ہر جگہ نہتے لوگوں نے انہیں دھکیل کر سڑک کھول دی تھی ۔ کالا شاہ کاکو کے پاس سڑک پر چار کنٹینر آڑے کھڑے کئے گئے تھے جنہیں آدھ گھنٹہ میں لوگوں نے دھکیل کر ہٹا دیا تھا

  8. کراچی میں حکومت ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کی ہے اور دونوں جماعتیں حلیف ہیں۔ اگر ذمہ دار صوبائی حکومت ہے تو گورنر سمیت تمام متحدہ کو احتجاجا مستعفی ہوجانا چاہئے تھا۔ لیکن اس حمام میں سب ننگے ہیں ہاں کچھ کے سامنے آنے پر ہم آنکھیں بند کرلیتے ہیں اور باقیوں کا "نظارہ” کرنے کے بعد اوروں کو بھی تفاصیل سے آگاہ کرتے ہیں ؛)

  9. خرم پھر تو سب سے پہلے صوبہ پنجاب کی حکومت کو مستعفی ہونا چاہئے جہاں پورا سال دہشت گردی کی سنگین ترین وارداتیں ہوتی رہیں اور جہاں سے پنجابی طالبان پورے ملک میں بھیجنے کے لئے خود کش ریکروٹ کررہے ہیں۔ اس کے بعد صوبہ سرحد کی حکومت کو مستعفی ہونا چاہئے۔ پھر بلوچستان کی۔ اور پھر وفاقی حکومت کو۔ پھر پاکستان فوج کی اعلی قیادت کو۔

    اسماء آپ کو بھی نیا سال مبارک ہو

  10. مہم چلانی چاہئیے اور وہ آئیوڈین ملے نمک کی فراہمی۔ اسکے بغیر ملک میں نمک استعمال کرنا جرم قرار دیا جائے۔ اس سے شاید ہمارے حالات بہتر ہوں۔
    ۔

    December 29, 2009 9:13 AM
    Abdullah said…
    کراچی میں ہونے والے اس سانحے نے ایک بار پھر اس بات کو واضح کردیا ہے کہ کراچی کی پولس اور قانون نافز کرنے والے ادارے نہ تو پیپلز پارٹی کی حکومت کے کنٹرول میں ہیں اور نہ ہی ایم کیو ایم کی حکومت کے کنٹرول میں تھے، بلکہ ان کی ڈوریاں کسی اور کے ہاتھ میں ہیں اور کہیں اور سے ہلائی جاتی ہیں اس بات کا ثبوت پہلے بھی ملتا رہا ہے خواہ وہ 12 مئی کا واقعہ ہو یا 27 دسمبر کا یا 9اپریل کا ان کی کارکردگی ہمیشہ ایک سوالیہ نشان رہی ہے!اگر ہم کراچی کو آئندہ ایسے ‌کسی‌سانحے سے محفوظ رکہنا چاہتے ہیں تو اس کے لیئے لازم ہے کہ کراچی میں پولس کراچی کے رہنے والوں پر مشتمل ہو اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا مکمل کنٹرول یہاں کی حکومت کے پاس ہو ورنہ ایسے سانحے بار بار ہوتے رہیں گے اور ہم خفیہ ہاتھ تلاش ہی کرتے رہ جائیں گے،
    اب جبکہ سٹی گورنمنٹ کے کیمروں کی فوٹیج منظر عام پر آچکی ہیں ‌اور‌ان‌کی‌بنیاد‌پر‌پولس‌کچھ‌‌‌‌‌‌‌ پکڑ دھکڑ بھی کررہی ہے،اب دیکھنا یہ ہے کہ چور کا بھائی گرہ کٹ کے مترادف اپنے کتنے بھائی بندوں کو پکڑتی ہے ویسے پولس والوں کسی کے بھائی نہیں ہوتے وہ صرف اپنے مفادات کے لیئے مجرموں کو پالتے ہیں ‌اور جب مجرم منظر عام پر آجائے تو کسی پولس مقابلے میں انکا صفایا کردیتے ہیں اسے کہتے ہیں چپڑی اور دو دو اپنا نام اور عزت بھی محفوظ رہتی ہے واہ واہ بھی ہوجاتی ہے اور نئے پلے مجرم خوفزدہ بھی رہتے ہیں ،یہ ہے اصل صورتحال اور حکومت کے اندر چلتی
    ایک اور حکومت

  11. اشد آپکی حلق سے اتریں یا نہ اتریں مگرکانسپریسی پکوڑے بنانے والے پکا بھی رہے ہیں اور کھا بھی رہے ہیں اور اس سے ہونے والی بد ہضمی کی بدبو دور دور تک پھیلا بھی رہے ہیں !

    افتخار اجمل بھوپال — کراچی میں دہشتگردی کا ذمہ دار کون ؟
    کراچی میں عاشورہ کے جلوس میں دھماکہ اور بعد میں ہونے والی دہشتگردی کا ذمہ دار کون ہے ؟
    اس کی نشان دہی لندن پوسٹ میں شائع ہوئی ہے جو لندن پوسٹ پر کلِک کر کے پڑھی جا سکتی ہے
    ان ہوشیاروں سے کوئی یہ پوچھے کے مانا کراچی میں جو بھی ہوا وہ ایم کیو ایم نے کروایا مگر لکی مروت میں جو پچانوے نجوانوں اور بچوں کی جو بلی چڑھائی گئی، کیا وہ بھی ایم کیو ایم نے کیا ہے؟ ویسے اپنے خبث باطن سے مجبور یہ لوگ اس کا اور پاکستان میں ہونے والے آج تک کے تمام سانحات کا الزام بھی ایم کیو ایم پر لگانے سے گریز نہیں کریں گے، ایسے لوگوں کی تو ہدایت کی دعا کرنے کو بھی دل نہیں کرتا،بس اللہ ہی سمجھے ان نا عاقبت اندیشوں کو،

  12. کانسپریسی تھیوریز آجکل بہت مقبول ہیں تو میرا بھی دل چاہ رہا ہے کہ میں بھی ایک کانسپریسی تھیوری پیش کروں بابا جی نے 15 مارچ کو پنجاب کے لوگوں کی طاقت کا ذکر کیا ہے تو اس پرمجھے خیال آیا کہ اس دن بھی تو کوئی خودکش حملہ آور موقع کا فائدہ اٹھا کردھماکہ کرسکتا تھا مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نہیں کیا، تو کیوں نہیں کیا؟ ہے نا غور طلب بات!

Comments are closed.