ناموس رسول کی خاطر

ایک کے بعد ایک کرکے تیزی سے انٹرنیٹ پر ویب سائٹ بند ہورہے ہیں۔ آسان طریقہ تو یہ ہے کہ انٹرنیٹ کو ہی بند کردیا جائے۔ انٹرنیٹ سے پہلے بھی تو ہم زندہ تھے۔ اور یاد کریں اسلام کے سنہرے دور کو تب کونسا ٹوئٹر یا فیس بک ہوا کرتا تھا مگر ساری دنیا میں مسلمانوں کا طوطی بولتا تھا۔

پاکستان کی عوام آٹے، بجلی اور پانی کے بغیر جی سکتی ہے تو انٹرنیٹ بہت معمولی چیز ہے۔ اور پھر ناموس رسول کی خاظر یہ قربانی تو کچھ بھی نہیں۔

اور رہ گئی بین الاقوامی برادری، تو انہیں بولنے دو ہمارا ملک ہے۔ ہماری مرضی ہم انٹرنیٹ چلائیں کہ نہ چلائیں، بجلی دیں کہ نہ دیں، اور جو جی چاہے کریں۔ کسی کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ ہمارے معاملات میں دخل اندازی کرے۔

بلکہ گستاخ مغرب کو سزا دینے کا ایک اور طریقہ بھی ہے۔ ایسا کرتے ہیں ہم دو چار لاکھ پاکستانیوں کو احتجاجا ہلاک کردیتے ہیں۔ اس سے شاید گستاخوں کو کچھ شرم آئے۔ یا پھر اپنے سر پر مٹی ڈال کر سڑکوں پر سینہ کوبی کرتے ہیں۔ کہ اس سے تو یقینا ان کو اپنے دوغلے پن پر شرم آئے گی۔ یا پھر ایک دوسرے کے گھروں پر پتھر پھینکتے ہیں۔ اور اپنے ہی گھر کو آگ لگاتے ہیں اس سے تو ضرور بدتہذیب مغربیوں کو اپنی اوقات پتہ چلے گی۔

تبصرے:

  1. راشد کامران صاحب نے بھی ایک پہلو پر تنقید کی لیکن کوئی بہتر حل نہیں بتایا۔ اب آپ نے بھی یہی کیا۔

    ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ صرف متعلقہ صفحات اور کی ورڈز بلاک کیے کرنے کی تو اس بار بھی ناموس رسالت کی تحریک کو ہائی جیک کرکے وہ کام بھی کرلیے گئے جن کے لیے پاپڑ بیلنے پڑتے۔

  2. کاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حسب سابق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چٹا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    رائے کا احترام لازم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تاہم جو بھی ہو اس سلسلے میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔احتجاج ضرور ریکارڈ کروانا چاہئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    بار بار ان گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے نفسیاتی حربوں اور مذموم حرکتوں سے کفار سمجھتے ہیں کہ مسلمان توہین رسالت کے عادی ہوکر بے حس ہو جائیں گے اور اس حوالے سے آہستہ آہستہ ٹھوس رد عمل کم ہوتا ہوا بالکل ختم ہو جائے گاتو یہ ان کی سب سے بڑی بھول ہے۔محبت رسول ۖ ادنیٰ سے ادنیٰ مسلمان میں بھی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے اور اس کے تحفظ کیلئے وہ کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کرتااور ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔ گستاخی رسول پر مجرمانہ خاموشی اختیار کرنے والے کسی طور مسلمان نہیں کہلا سکتے۔تمام اہل اسلام خصوصاً ینگ مسلمز اپنابھرپور رد عمل ظاہر کر کے فریضہ ایمانی سر انجام دیں۔

  3. جو کچھ آپ نے لکھا وہ بھی فرسٹریشن نکالنے کا ہی ایک انداز ہے اور جو باقی لوگ کر رہے ہیں وہ بھی یہی کر رہے ہیں ۔ آپ کی فرسٹریشن کچھ ویبز کی بندش کے خلاف ہے باقی لوگوں کی ناموسِ رسالت کے حق میں ۔ اس فرسٹریشن کی کیفیت سے کیسے نکلا جائے بات اس پر ہونی چاہیے۔

  4. میں بھی اس پہ لکھنا چاہ رہی ہوں۔ مگر جب میں نے ہولوکاسٹ کا ڈیٹا دیکھنے کے لئے ویکی پیڈیا کو دیکھنا چاہا تو یہ سائٹ بند تھی۔ بالکل سمجھ نہیں آیا کہ کہ ایسا کیوں کیا۔ فیس بک بند کر دیا۔ اس بہانے سے کہ اس پہ کارٹون کی مہم چل رہی ہے۔ میں اسے بہانہ ہی کہونگی کہ پاکستان کے کرپٹ حکمرانوں کو اپنے کرتوت چھپانے کا ایک نادر موقع ہاتھ آیا۔ اور صورت حال پھر وہی کہ رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئ۔
    دنیا کے کسی بھی اسلامی ملک میں ابھی تک فیس بک اور یو ٹیوب سمیت کسی سائٹ پہ میرے علم میں کوئ پابندی نہیں ہے۔ حتی کہ امام کعبہ تک نے اسے مسلمانوں کے خلاف سازش قرار دیا ہے۔ لیکن پاکستانی مسلمانوں کا جذبہ ء غیرت انہی باتوں پہ جوش میں آتا ہے۔ جب یہی لوگ کشکول لئے انہی ہیودی اور مغربی ایجنٹوں کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں تو یہ جذبہ ء غیرت اس کشکول کے نیچے ہوتا ہے۔
    حکومت کی طرف سے کسی بھی وقت بجلی کی قیمتوں میں چھ فی صد اضافہ متوقع ہے۔ آئ ایم ایف نے اپنی شرائط منوائے بغیر مزید قرضے دینے سے انکار کر دیا ہے۔ اور اسکے اصرار پہ کسی بھی وقت تمام اقسام کی اشیاء کی خریداری پہ پندرہ فی صد ویلیو ایڈڈ ٹیکس نافذ کر دیا جائے گا۔ یعنی ہزار روپے کی چیز گیارہ سو پچاس کی ملے گی۔
    ادھر ہمارے مذہبی رہ نما ٹی وی پہ بیان دیتے ہیں کہ شاتم رسول کو قتل کر دینا چاہئیے ساتھ ہی یہ انکشاف بھی کرتے ہیں کہ انکے بچے انٹر نیٹ سمیت نئ ٹیکنالوجی کی ہر چیز استعمال کتے ہیں۔
    گستاخی ء رسول پہ خاموش رہنے والے کسی طور مسلمان نہیں کہلا سکتے لیکن اسلام کے ماننے والوں کو دنیا سے مٹا دینے والے مسلمان ضرور بالضرور مسلمان ہیں۔
    جیسا کہ قرائن کہہ رہے ہیں کہ آئندہ چند مہینے مملکت پہ سخت ہیں۔ اسلئے انہوں نے اپنے طور پہ یہ چنگاری بھس میں ڈال دی ہے۔
    انتظار کریں یہودیوں اور کفار کے ٹکڑوں پہ پلنے والے مسلمان کو کب ہوش آتا ہے۔

  5. یاد کریں اسلام کے سنہرے دور کو تب کونسا ٹوئٹر یا فیس بک ہوا کرتا تھا مگر ساری دنیا میں مسلمانوں کا طوطی بولتا تھا۔

    آپ کہنا کيا چاہ رہے ہيں ؟
    جو حکومت نے کيا وہ درست طريقہ نہيں مگر آپ کو کچھ ويب سائٹس بند ہونے سے اتنا دُکھ ہوا ہے کہ بات کرنے کا سليقہ ہی نہيں رہا

  6. محمد احمد، آپ نے حل کا کہا ہے۔ اسکا بالکل سیدھا سا حل یہ تھا کہ عدالت عالیہ کے فیصلے کے مطابق فیس بک پہ کی اس سائت کو بند کر دیا جاتا جو کسی موقعہ کو منانا چاہ رہی تھی۔ باقی لوگوں کو اگر آپ چاہتے ہیں کہ وہ نہ استعمال کریں، انہیں آپشن دیں۔ اپنی مہم چلائیں کہ ہم سمجھتے ہیں کہ آپ کو ایسا کرنا چاہئیے۔ اس مہم کے نتیجے میں جتنے لوگ بھی آپکے ساتھ ہونگے اپنی مرضی اور جذبے سے ہونگے اور اصل قوت یہی ہے۔
    پھر یہ کہ شاید آپکو معلوم ہو کہ فیس بک کے پرائیویسی لاء سے نالاں لوگوں نے امریکہ میں اپنے طور پہ اسی طرح کی سائٹ بنانے کا اعلان کیا اور فنڈ جمع کئے۔ اسکے نتیجے میں آخری خبر جو میں نے پڑھی وہ اٹھاون ہزار ڈالر جمع کر چکے تھے۔
    عدالت کے فیصلے کے بر خلاف حکومت نے ساڑھے تین سو کے قریب سائٹس کو بین کرنے کا فیصلہ کیا۔ کیوں؟ یو ٹیوب کو کیوں بند کیا، کیوں؟ گوگل پہ کافی ساری سائٹس بند رہیں کیوں؟ ویکیپیڈیا بند رہا کیوں؟
    آپ انکے علم کا مقابلہ مزید جہالت پھیلا کر کیوں کرنا چاہتے ہیں۔ عوام کو اصل حقائق سے دور کیوں کرنا چاہتے ہیں؟

  7. عنیقہ صاحبہ،

    آپ کے تحریر کردہ حل سے مجھے اتفاق ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ صرف متعلقہ لنک بند کردینا کافی نہیں تھا بلکہ پوری فیس بک کومذکورہ سرگرمی کے دنوں میں بند کردینا چاہیے تھا اور یہ بندش چونکہ احتجاج کے طور پر ہے اس لیے یہ علامتی بندش ہونی چاہیے نہ کہ کل وقتی ۔

    رہی بات خاکوں تک رسائی کی تو آج کے دور میں انفارمیشن کے بہاؤ کو بذریعہ طاقت نہیں روکا جا سکتا ۔ بہتر طریقہ یہ ہے کہ ہر ہر پلیٹ فارم پر احتجاج کیا جائے اور لوگوں میں آگہی کے فروغ کے لئے کام کیا جائے۔

  8. Ajh k dor main hum internet koband to ni kar sakty pr eyesy maamlaat py humein apna ehtijaj zaror karna chahiy..

    Or rahi baat facebook ki to is main itni koi ahum baat ni k is pr pabandi phr sy uthai jay 

Comments are closed.