ہمارے گھرانے کے بزرگ کہتے تھے کہ امیر ہونے کے لئیے عقلمند ہونا شرط نہیں۔
بطور نوجوان مجھے یہ مثال عجیب لگتی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اکثر امیر لوگوں کو یہ زعم ہوتا کہ وہ کسی نہ کسی طرح دوسرے لوگوں سے مختلف ہیں۔ شاید وہ زیادہ عقلمند، سمجھدار، محنتی، اور قابل ہیں۔
ان کے انداز و اطوار سے بھی وہ دوسروں کو یہ تاثر دیتے کہ وہ کسی نہ کسی طرح بہتر ہیں۔
اور شاید یہ کسی حد تک صحیح بھی ہو۔ ظاہر ہے کہ اگر کسی کے پاس کوئی ایسا ہنر یا تعلیم ہے جو دوسروں کے پاس نہیں تو اس سے انہیں مسابقت میں فائدہ حاصل ہوتا ہے۔
مگر ہر کسی پر یہ بات پوری نہیں اترتی۔
امیر ہونے میں حالات، واقعات، اور حادثات کا کردار محنت، ذہانت، اور صلاحیت کے مقابلے میں کافی کم ہوتا۔
ایک خاص ماحول میں پڑھے ہوئے بچے، جنہیں ہر طرح کا تعلیمی فائدہ حاصل ہو، اور تعلیم کے ساتھ دوسری سب چیزیں سیکھنے کے مواقع ملے ہوں۔ وہ ظاہر ہے ان بچوں سے آگے جاسکتے جنہیں ایسا ماحول نہ ملا ہو۔
یا ایسے نوجوان جنہیں ان کے ماں باپ کاروبار شروع کرنے کے لئے سرمایہ فراہم کریں تو ان کے کامیاب ہونے کا امکانات ان نوجوانوں سے کہیں بہتر ہوتے جن کے پاس یہ سرمایہ نہیں ہوتا۔
خیر یہ تو عام لوگوں کی باتیں ہیں۔ اب آپ دنیا کے امیر ترین لوگوں کو ہی دیکھ لیں۔
یہ امیر ترین لوگ خوب پروپگینڈہ کرتے کے وہ غریبی سے ارب پتی ہوئے ہیں۔ مگر ایسا ہرگز نہیں۔ ان میں سے زیادہ تر پہلے سے ہی مالی طور پر خوشحال گھرانوں سے تعلق رکھتے۔
دوسرا پروپگینڈہ یہ کرتے کہ ان کا کوئی خاص تعلیمی بیک گراونڈ نہیں۔ یہ بھی غلط ہے کیونکہ ان میں سے اکثر کو بچپن سے ہی بہترین تعلیم تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ جب وہ ارب پتی ہونے لگتے تو اعلی تعلیم ادھوری چھوڑ دیتے۔
پھر ایک پروپگینڈہ وہ یہ کرتے کہ وہ اپنی فیلڈ کے ماہر ترین لوگ ہیں۔ یہ بتاتے ہوئے وہ یہ چھپالیتے کہ دسیوں انتہائی تعلیم یافتہ، محنتی، اور قابل لوگ ان کے ملازم ہوتے جو ان کے کاروبار کی کامیابی کے لئے رات دن کام کرتے۔ ان کی قابلییت، محنت، صلاحیت کا سب کریڈٹ ارب پتی سیٹھ اپنے نام کرلیتے۔
اب آپ کہیں گے کہ تم حسد میں مبتلا ہو۔ اسقدر دولت جمع کرنے کے لئے ان میں کچھ نہ کچھ تو صلاحیت ہوگی؟
اور آپ ٹھیک کہہ رہے، صلاحیت ضرور ہوتی مگر ایسی صلاحیتیں جو غیر اخلاقی، غیر انسانی، اور غیر رومانوی ہوتیں۔
اگر وہ اپنی اصل صلاحیتوں کی تشہیر کریں تو آپ لوگ ان کے فین نہیں بنیں گے۔ بلکہ وہ تشہیر اعتراف جرم کے برابر ہوگی۔
زیادہ تر ارب پتی افراد جھوٹ، لوٹ مار، عیاری، مکر و فریب، دھوکہ دہی، استحصال، ظلم اور زیادتی سے دولت جمع کرتے۔
زیادہ تر ارب پتی نرگیسیتی سائیکوپیتھ ہوتے جو انتہائی سنگدلی کے ساتھ کاروبار کرتے۔ لاشوں پر پیر رکھ کر اوپر چڑھنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔
لیکن معاشرے میں جیسے جیسے دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم اور امیر غریب کے درمیان دولت کی خلیج بڑھ رہی ویسے ویسے لوگوں کو اب سمجھ آتا جارہا ہے۔
مثال کے طور پر بدنام زمانہ ایلون مسک نے حال ہی میں ٹوئٹر خریدی۔ موصوف خود کو بہت بڑے بیوپاری جینیس کے طور پر پیش کرتے تھے۔ مگر ٹوئٹر کی جس طرح اس نے چند ہی دنوں میں کشتی ڈبوئی اس سے سارا پول کھول گیا۔
ان ہی دنوں میں کرپٹو کی دنیا کے کھرب پتی سیم بنکمن فرائیڈ کی کمپنی ایف ٹی ایکس بھی دیوالیہ ہوگئی۔ لیکن اگر آپ یہ دیکھیں کہ وہ کسطرح یہ کمپنی چلارہا تھا تو حیران ہوجائیں گے۔ یہ کمپنی کھلم کھلا فراڈ کررہی تھی۔ سیم بنکمین کو کچھ آتا ہی نہیں تھا اور اس کی وجہ سے ہزاروں سرمایہ کار اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
سرمایہ داری نظام دولت کے جمع ہونے کو کامیابی مانتا ہے۔ جس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ جو لوگ دولت جمع کرپاتے ہیں وہ کامیاب ہیں اور ایسی صلاحیتوں کے حامل ہیں جنہیں دوسروں کو بھی اپنانا چاہئے۔
یہ کونسی صلاحیتیں ہیں؟ ان کی معلومات، تحقیق، ترقی اور ترویج بطور خود ایک منافع بخش صنعت بن گئی ہے۔
یہ صنعت ارب پتیوں کو بھگوان بنا کر ان کی پوجا کرتی ہے اور اپنے ماننے والوں سے تقاضا کرتی ہے کہ وہ بھی ایسا ہی کریں۔ کامیابی کی اس پرستش کے پیچھے اخلاقی، مالی، اور سماجی جرائم پر پردہ ڈال دیا جاتا ہے۔
اس پرستش سے ارب پتی اپنے لئے مدح سراوں کا ایک حلقہ بنالیتے۔ چاہے وہ بل گیٹس ہو، جیف بیزوس، ایلون مسک، یا مارک زکربرگ۔
ان کی محنت، اعلی تخلیقی اور تخیلاتی طاقت، کرشماتی شخصیت، اور اعلی ذہانت پر کتابیں، فلمیں، یوٹیوب ویڈیوز، سیمینارز، پوڈکاسٹس، ٹی وی پروگرام تخلیق کیے جاتے، اور ان کی مقبولیت اور صلاحیتوں کا مزید پرچار ہوتا۔
لیکن اگر آپ غور سے دیکھیں تو دراصل ان میں کوئی ایسی انوکھی صلاحیتیں نہیں۔ مثال کے طور پر، ان کی تشہیر کرنے والے لوگ کہتے کہ سب ارب پتی صبح چار بجے اٹھتے اور اس سے وہ زیادہ پروڈکٹو ہوتے۔
ریاضی کے حساب سے دیکھیں تو چاہے آپ صبح چار بجے اٹھیں یا نو بجے۔ اگر آپ یکسو ہو کر کام کریں تو نو بجے اٹھنے میں بھی آپ دئیے گئے وقت میں اتنا ہی کام کرسکتے جتنا صبح چار بجے اٹھ کر۔
کچھ صحافیوں نے جب تحقیق کی تو پتہ چلا کہ یہ بات سچ نہیں کہ ارب پتی لوگ زیادہ تر صبح چار بجے جاگتے۔
ایک اور چیز جس کا پرچار ہوتا کہ ارب پتی افراد زیادہ محنت کرتے۔ تحقیق سے پتہ چلا کہ یہ بھی درست نہیں۔ زیادہ تر امیر افراد اپنے وقت کا ایک بڑا حصہ آسائشات سے محظوظ ہونے میں ضائع کرتے۔
جائیدادوں کی تعمیرات، کشتیوں کی خریداری، خاندانی، رومانوی، اور جنسی تعلقات، ہم پلہ بااثر لوگوں کے ساتھ سماجی رسوم و تقریبات میں شرکت یہ ان کے وہ اوقات ہیں جو گنے نہیں جاتے اور یہیں وہ زیادہ پائے جاتے ہیں۔
ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ امیر ارب پتی افراد محنت نہیں کرتے۔ ہم یہ کہہ رہے کہ وہ دوسرے لوگوں سے کچھ خاص زیادہ محنت نہیں کرتے۔
امیروں کے فین بوائیز کہیں گے کہ وہ ذہین فیصلے بروقت کرتے جس سے وہ اپنی اسی محنت میں کئی گنا زیادہ دولت کما پاتے۔
یہ سراسر بکواس ہے۔
امیر لوگ ذہین فیصلے نہیں کرتے بلکہ اپنی دولت سے ایسے مواقع پیدا کرتے جہاں وہ بغیر مقابلے کے دولت بنا سکتے۔
جیسے بڑے پیمانے پر اسٹاکس کی خرید و فروخت سے مارکیٹ پر اثر انداز ہونا اور اپنے لئے منافع تخلیق کرنا۔ کم قوت خرید رکھنے والے مقابل کاروباری اداروں کو مقابلے سے باہر کرنا۔ کسی صنعت میں اجارہ داری بنالینا۔ یہ ایک طویل فہرست ہے مگر ان میں سے کوئی بھی کاروباری فیصلے نہ تو انوکھے ہوتے، نہ نئے ہوتے، اور نہ انقلابی ہوتے۔
مثال کے طور پر جیف بیزوز نے اپنی سابقہ بیوی کو طلاق کے بعد اربوں ڈالر بطور تصفیہ دئیے۔ اس کی سابقہ بیوی اب یہ بیش بہا دولت خیرات پر خرچ کررہی۔ دولت کی اس انتہائی غیر منصفانہ منتقلی سے نہ روزگار پیدا ہورہے، نہ سماجی ترقی ہورہی، نہ ہی کوئی انڈسٹری وجود میں آرہی۔ ہاں ان کی مطلعقہ کے خیراتی کاموں پر چاپلوس صحافی اور میڈیا کمپنیاں خوب واہ واہ کر رہیں۔
قصہ مختصر، تمام کھرب پتی اور ارب پتی افراد کسی غیر معمولی ذہانت یا صلاحیت کے حامل نہیں ہوتے۔ بس صحیح حالات و واقعات، بہت سا مکر و فریب، اور مواقع انہیں امیر بناتے۔
جس قدر تحقیق ارب پتیوں کی پرستش اور ستائش کے لئے کی جاتی، تھوڑی سی تحقیق ایمانداری سے ان کی اصل شخصی اور ذہنی صلاحیتوں پر کی جانی چاہئے۔
زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ ہم ان ارب اور کھرب پتیوں کا تقابل آئن اسٹائن سے نہیں بلکہ گلی کے غنڈوں سے کریں گے۔ ہمیں ان کی شخصیت کے انتہائی برے اور نقصان دہ پہلو پتہ چلیں گے۔
اور ہمیں یہ بھی پتہ چل جائے گا کہ ان میں سے زیادہ تر ارب پتی کافی بیوقوف ہوتے۔