کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن والوں کو نامعلوم مجھ سے کیا بیر ہے کہ میں جہاں جاتا ہوں وہ وہاں کی بجلی منقطع کردیتے ہیں۔ تین روز پہلے میں دکان جانے سے پہلے گھر پر شام کی چائے پینے کو تیار بیٹھا تھا کہ بجلی چلی گئی۔ اندھیرے اور گرمی میں گرما گرم چائے پی۔ منہ پر پانی کے چھپکے مار کر دکان جانے کو نکل پڑا۔ کراچی میں ٹریفک ایک اہم مسئلہ ہے۔ گرچہ میں دکان پیدل جاتا ہوں مگر گاڑیوں کی قطاروں، تشدد پر مائل ڈرائیوروں اور فٹ پاتھوں پر قابض پتھارے داروں سے بچ نکلنا ایک الگ جنگ ہے۔ دکان پہنچتے پہنچتے پسینوں سے میری ٹی شرٹ بھیگ گئی۔ اوپر سے دکان پر اندھیرا میرا منہ چڑا رہا تھا۔
پسینوں کی لڑیاں ماتھے سے ہوتی ہوئی میری ناک سے ٹپاٹپ بہہ رہی تھیں اور ساتھ ہی گاہگوں کا رش۔ اس وقت ہماری دکان پر دہی کے لئیے دودھ گرم کیا جاتا ہے۔ ساتھ ہی کڑاہی کا گرم دودھ بھی چولہے پر رکھا ہوتا ہے۔ بجلی نہ ہو تو دکان کسی تنور کی طرح دہکنے لگتی ہے۔ باہر ٹریفک کا چنگھاڑتا شور اور بے چین و بے صبر گاہگ۔
اس سے پہلے کہ صورتحال میری برداشت سے باہر ہوجاتی۔ محکمہ بجلی کے کسی افسر کی غلطی سے دکان کی بجلی بحال ہوگئی۔ کچھ دیر جو ہوا کے جھونکے ملے تو پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگی۔ دکان پر کھڑا ہونا محال ہوگیا۔ میں طبعا تھوڑا نفاست پسند واقع ہوا ہوں۔ عوامی بیت الخلاء استعمال کرنا میری نفیس طبیعیت پر گراں گزرتا ہے مگر جو گھمسان کی جنگ میرے پیٹ میں اٹھ رہی تھی اس کے لئیے مجبورا قریبی مسجد کے بیت الخلاء میں پناہ لینے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ دکان بند ہونے تک کوئی چار چھ پھیرے وہاں کے لگائے۔ رات کو دوا لی اور گھر آگیا۔
گھر آکر اے سی کی ٹھنڈی ہواؤں کے پرلطف جھونکوں نے مدہوش کردیا اور میں چین کی نیند سوگیا۔ مگر میرا چین اور آرام کے ای ایس سی کو ایک آنکھ نہ بھایا۔ انہوں نے علی الصبح آٹھ بجے پھر بجلی بند کردی۔ غصے سے مجبور ہوکر میں نے محکمہ بجلی کے شکایتی نمبر پر فون کیا جہاں شکایت سننے والے کو میری شکایت سے زیادہ دلچسپی اس بات میں تھی کہ میری بلڈنگ کا پلاٹ نمبر کیا ہے۔ جھلا کر میں نے ٹیلیفون بند کردیا اور کے ای ایس سی کے زونل دفتر کے شکایتی مرکز پر فون کیا۔ جہاں ایک صاحب نے نہایت خوش خلقی سے مجھے مطلع کیا کہ کے ای ایس سی کے کئی فیڈر ٹرپ کرگئے ہیں اور وہ بہت مشکل سے صورتحال سنبھال پارہے ہیں۔ میرے استسفار پر کہ بجلی بحال ہونے کی امید کب تک ہے انہوں نے صاف کہہ دیا کہ وہ کسی قسم کی یقین دہانی کرانے سے قاصر ہیں۔
دوپہر ایک بجے بجلی آئی، مگر ساتھ ہی میرے پیٹ کی مروڑ بھی اپنے عروج پر تھی۔ چکر متلی اور گھبراہٹ کو کسی کل قرار نہ آتا تھا۔ بالآخر شام سات بجے اپنے فیملی ڈاکٹر کے کلینک پر اپنی والدہ کے ہمراہ پہنچا۔ انہوں نے جھٹ مجھے اسٹریچر پر لٹا ایک ڈرپ اور دو انجکشن ٹھونک دئیے۔ اے سی کی ٹھنڈی ہوا اور انجکشن کی غنودگی سے میری آنکھ لگ گئی۔ امی میرے سرہانے بیٹھی رہیں اور میرے ہاتھ سہلاتی رہیں۔ ماں کی ممتا کے لمس سے جو طمانیت ملتی ہے کوئی دوا اس کا متبادل نہیں ہوسکتی۔ دل کو بڑا قرار آیا لیکن محکمہ بجلی والوں کو کسی مخبر نے اطلاع کردی کہ نعمان فلاں ڈاکٹر کے کلینک میں چین کی نیند سورہا ہے۔ بس پھر کیا تھا انہوں نے فورا وہاں کی بجلی بھی بند کردی۔ مگر میں تھکن سے اتنا چور تھا کہ اب کڑھنے کی بھی ہمت نہ رہی تھی۔
رات بارہ بجے گھر پہنچا اور ایک بجے تک دواؤں کے زیر اثر بستر پر گر بے ہوش گیا۔ اگلے دن دوپہر ایک بجے جاگا۔ اب گھر میں چھپا بیٹھا ہوں ڈر رہا ہوں کہ کہیں کوئی میرا بلاگ پڑھ کر کے ای ایس سی کو میرے جائے وقوع کی اطلاع نہ کردے۔
اگر اسي انداز ميں آپ پاکستان کے بڑے بڑے مسائل کا احاطہ کريں تو اچھي تحريريں پڑھنے کو مل سکيں گي۔
Khob tahreer ki bay sakhtagi Qabile daad hay,yon mahsos howa hum bhi likhnay walay kay sath sath in mushkilon ko jhelrahay hoon
Waisay sahi misra roshan o rakhshan nayar o taban hay,kaheen hamara naam aap kay asaab per to sawaar naheen ho gya:)
Blogspot is UNBLOCKED,
And your blog site is opening too.
Good post.
نیر و تا با ن تو ھے ا و ر رھے مگر روشن کے سا تھ “رھے“ نھین “ھو جاے“ گانا چا ھے۔