کراچی ان دنوں دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کررہا ہے۔ دن میں کراچی کی عوام پیٹرول مہنگا ہونے، گیس کی عدم دستیابی، اور ٹریفک کے مسائل کی وجہ سے پیدل سفر کرنے پر مجبور ہے۔ اور رات، فلیٹوں میں رہنے والے لوگ لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے سڑکوں پر جاگ کر گزار رہے ہیں۔
کے ای ایس سی کی نئی انتظامیہ بڑی صاف گو اور دیدہ دلیر واقع ہوئی ہے۔ حکومت پاکستان نے ان سے طے پانے والے معاہدے کی صریحا خلاف ورزی کی۔ جس کا نتیجا کراچی کی عوام بھگت رہے ہیں۔ معاہدے کے تحت کے ای ایس سی کو سپلائی کی جانیوالی بجلی میں کئی گنا کمی کردی گئی ہے۔ کے ای ایس سی کے ترجمان کے مطابق کراچی میں بجلی کی ضرورت اکیس سو میگاواٹ ہے۔ جب کہ ان کے پاس صرف گیارہ سو میگاواٹ بجلی کی سپلائی ہے۔ گرچہ بجلی کی سپلائی میں کمی گرمیوں میں متوقع تھی لیکن صورتحال سنگین ہونے کی ذمہ دار واپڈا ہے جس نے نامعلوم وجوہات کی بناء پر بجلی کی ترسیل میں اچانک کوئی وجہ بتائے بغیر تین سو میگا واٹ کمی کردی۔ کراچی کا ایٹمی بجلی گھر بھی نامعلوم وجوہات کی بناء پر بند پڑا ہے۔ کے ای ایس سی کے ترجمان کے مطابق انہیں اس بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کی جارہی کہ سپلائی کی کمی کب تک پوری کردی جائیگی۔
ادھر کراچی کی بپھری ہوئی عوام کے ای ایس سی کے کئی شکایتی مراکز پر پتھراؤ کرچکی ہے۔ کئی جگہوں پر شکایتی عملے کو تشدد کو نشانہ بنایا گیا ہے اور ایک دو علاقوں میں زبردست توڑ پھوڑ بھی کی گئی ہے۔ جس کے بعد کے ای ایس سی کے عملے کو خصوصی تحفظ فراہم کیا جارہا ہے اور شکایتی مراکز کے باہر پولیس کی موبائلز تعینات کردی گئی ہیں۔ شہر بھر میں لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ ہنوز جاری ہے اور کئی علاقوں میں بارہ بارہ گھنٹے بجلی غائب رہنا معمول ہوگیا ہے۔ میں بھی یہ پوسٹ لکھتے وقت دو تین بار محفوظ کرچکا ہوں کہ بجلی کا کیا بھروسہ۔
کاروبار کو ہونے والے نقصانات کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔ لوگوں کو پہنچنے والی ذہنی اذیت کا اندازہ لگانا اس سے بھی دشوار۔ اسی شور و غوغا میں کسی شر پسند یہودی رسالے نے پاکستان کو دنیا کی نویں ناکام ترین ریاست قرار دے دیا ہے۔ جو یقینا سراسر پروپگینڈہ ہے۔ پاکستان کے خزانے میں اربوں روپے پڑے ہیں اور ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف پاکستان کی تعریف کررہے ہیں۔ کیا ہوا اگر پاکستان کے لوگ اکیسویں صدی میں بجلی سے محروم ہیں۔ یہ تو کوئی ثبوت نہیں کہ پاکستان ایک ناکام ریاست ہے۔ پاکستان کی ضروریات کا یہودی لابی کو کیا ادراک؟ پاکستان کی اصل ضروریات کا ادراک تو جنرل مشرف کو ہے۔ پاکستان کے لئیے بجلی، گیس، پانی، پیٹرول، بنیادی انسانی حقوق انتہائی غیرضروری ہیں۔ ہاں جنرل مشرف کی میلی وردی پاکستان کے لئیے بہت ضروری ہے۔
کئی لوگ ہزار بار جرنیل صاحب سے گزارش کرچکے ہیں کہ عالیجاہ آپ اتنے سالوں سے یہ وردی پہنے ہیں۔ پاکستان کے غریب عوام بھی پانی کی تنگی کے باوجود کپڑے بدل لیتے ہیں۔ آپ بھی وردی اتار دیں تاکہ اسے دھویا جاسکے اس پر لگے داغ چھڑائے جاسکیں۔ لیکن جرنیل صاحب کو غالبا دھڑکا ہے کہ فوج کا کوئی دھوبی ان کے خلاف سازش نہ کردے اور نئی دھلی ہوئی وردی کسی اور جرنیل کو نہ پہنادے۔ پاکستان کے جرنیل ہوں یا عوام سب بہت مجبور اور بے کس ہیں۔ لیکن نویں ناکام ترین ریاست۔ یہ تو سراسر بکواس ہے۔
Bijli ki kami ka masala bohat purana hay or her guzartay din kay sath sangeen say sangeen ter hota ja raha hay,or in sab maslon kay bawajood bay shumaar log or idaray bijli ka najaaiz istimaal ke rahay hain or koi pochnay wala naheen,hamaray yahan foj,fire offices or bijli kay muhakmon main kaam kernay walon ko bijli free mohaya ki jati hay zati istimaal kay liay bhi, jis ka nateeja yeh hay kay woh bay dardi say bijli ka istimaal kertay hain aik aik gher main kaai kaai TV or fridge AC wagaira hotay hain or kamray main koi ho ya na ho woh dharadher chal rahay hotay hain yeh hamari aankhon dekhi baat hay ,hamara khayal yeh hay kay ager free dena itna hi zarori hay to kam say kam un ko aik limit day di jaay kay aik osat gher ki ashad zarorat jitni bijli hoti hay woh free hay baqi us say jo zaaid istimaal ki jaay gi us ka in ko bill pay kerna peray ga,or jo under kay log sanatkaron kay sath saaz baaz kerkay bijli kay bilon main ghapla kertay hain us ki sakhti say rok thaam ho to bohat ferq per sakta hay mager sawaal phir wahi hay kay billi kay galay main ghanti bandhay ga kon?