میثاق جمہوریت کے نام سے ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان ہونے والے معاہدے کا آجکل بہت چرچا ہے۔ دونوں سیاسی جماعتوں کے سربراہان پر بدعنوانیوں کے سینکڑوں الزامات ہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ بجائے اس کے کہ یہ دیکھا جائے کہ کون کہہ رہا ہے ، پہلے اس پر غور کیا جانا چاہئیے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ دونوں سیاسی جماعتیں ملٹری ڈکٹیٹرشپ کیخلاف ایک معاہدے کرنے میں کامیاب ہوگئی ہیں۔ اس معاہدے پر عمل درآمد ہوتا ہے یا نہیں لیکن معاہدے کا طے پاجانا ہے ملٹری ڈکٹیٹرشپ کے لئیے بڑا دھچکا ہے۔
پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لئیے ضروری ہے کہ عنان اقتدار ایسے لوگوں کے ہاتھ میں ہو جو پاکستان کے عوام کو جوابدہ ہوں۔ پاکستان میں عدلیہ اور پریس آزاد ہو اور اختیارات کی نچلی سطح تک تقسیم ہو۔ ملٹری ڈکٹیٹرشپ چاہے اس کی نیت کتنی ہی صاف ہو، پاکستان کی عوام کو جوابدہ نہیں، لوٹوں کی ایک کھیپ کو اسمبلی میں بٹھا دیا گیا ہے اور ربراسٹیمپ بنے رہنے کے عوض کبھی آٹے کے بحران، کبھی چینی کے بحران اور کبھی نجکاریوں کے کمیشنز کے ذریعے انہیں نوازا جارہا ہے۔
عدلیہ کی بے بسی سے ملک کا بچہ بچہ آگاہ ہے۔ جب جی چاہا عدالت عظمی سے حکمرانی کا سرٹیفیکیٹ لے لیا۔ بیچارے جج صاحبان اپنا وقت پتنگ بازی، سات سمندر پار چھپنے والے کارٹونوں اور ولیموں میں کھلائے جانے والے کھانوں کے از خود نوٹس لے کر گزارتے ہیں۔
ملک میں تقریبا ہر اہم غیر فوجی ادارے میں ریٹائرڈ اور حاضر سروس فوجیوں کو بھر لیا گیا ہے۔ کرکٹ کے میچ ہوں، یا پانی کی تقسیم، ہاکی کی ترویج ہو یا بجلی کی سپلائی ہر محکمے پر فوج نے اپنا قبضہ جما رکھا ہے۔
پریس کی آزادی کو ویج ایوارڈز، اشتہارات، اور حقوق نشر و اشاعت کے ذریعے کنٹرول کرلیا گیا ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ایک نیوز چینل آثار قیامت پر معلومات افزاء پروگرام پیش کرتا رہتا ہے تو دوسرا چینل لوگوں کو "ذرا سوچئیے” کے نام سے نان ایشوز پر سوچنے کی دعوت دیتا رہتا ہے۔ ان پروگراموں کے بعد جو وقت بچ جاتا ہے اس میں ہر پندرہ منٹ بعد ٹائم چیک کے ذریعے عوام کو صحیح وقت سے مطلع کیا جاتا رہتا ہے۔
ایسی صورتحال میں ضروری ہے کہ پاکستانی ایسے لوگوں کے ہاتھ مضبوط کریں جو طاقت کے مرکز کو جی ایچ کیو سے نکال کر پارلیمنٹ میں منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ہمارا ملک ہے اس ملک پر کون حکومت کرے گا اور اس کے ادارے کون چلائے گا اس فیصلے کا اختیار ہمارے پاس ہونا چاہئیے۔ جس شخص کو ہم ووٹ دے کر منتخب کریں گے وہ کم از کم کل کلاں کو ہمارے گلی محلوں میں ووٹ لینے تو آئے گا۔ پارلیمینٹ کی بالادستی سے آئین کی بالادستی قائم ہونے کی امید تو باقی رہے گی۔
دیگر احوال یہ ہے کہ گذشتہ شب کراچی کی تاریخ کا غالبا سب سے بھیانک ٹریفک جام تھا۔ میلوں دور تک گاڑیوں کا بمپر سے بمپر جڑا تھا۔ جو لوگ شام کو دفتروں سے نکلے تھے وہ آدھی رات تک گھر نہ پہنچ سکے تھے۔ شہر میں مسلسل لوڈ شیڈنگ جاری ہے۔ کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن چار سو میگاواٹ کی بجلی کی کمی کو کسی بھی طرح پوری کرنے سے قاصر ہے اوپر سے ان کی تنصیبات کو تخریب کاری کی کاروائیوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ حکومت اور کے ای ایس سی عوام کو کسی بھی قسم کی امید دلانے سے معذور ہیں۔ اب گرمیوں کے خاتمے پر ہی اس بحران کے خاتمے کی امید ہے۔
۔۔۔اور اسی امید پر ہماری دنیا قائم ہے۔
کاش ہمارے حکمران محبِ وطن بن جائيں اور غداري کا چلن چھوڑ ديں۔
جو لوح ازل پہ لکھا ہے آس کا حال تو رب کی ذات ہی جانتی ہے ، میثاِق جمہوریت کو میں مذاقِ جمہوریت کہتا ہوں یہ اس قدر انصاف پسند ہوتے تو یہ حال ہی نہ ہوتا ملک کا! جو پارٹی پر اپنی ڈکٹیٹرشپ کو نہیں چھوڑتے وہ ملک سے کیا ڈکٹیٹرشپ ختم کریں گے۔
سول محکموں اور معاملات میں فوج کی دخل اندازی،حکومت کی پریس کو پریس کرنے کی عادت، میڈیا کی غلط رخ پر پرواز، سیاستدانوں کا ملک کے بجائے اپنے مفاد کے واسطے جدوجہد، عوام کا بہتری کے لئے کچھ کرنے کے بجائے کسی معجزے کا انتظار کرنا جیسے مسائل واقعی اہم ہیں۔