اہرام کی عمارات بہت سی قدیم تہذیبوں نے بنائیں۔ ان میں سے زیادہ شھرت مصر کے اہراموں کو ملی ہے اور یہ اہرام زیادہ بہتر حالت میں بھی ہیں۔ان اہراموں میں سب سے بڑا اھرام غزہ (مصر) میں ہے جسے عالمی شھرت حاصل ھے۔ یہ اہرام دنیا کے سات عجوبوں میں بھی شامل کیا جاتا ہے۔ مکسیکو کے جنگلات میں بھی اہرام ھیں جو مایا قوم نے تعمیر کئیے۔ ان لوگوں نے اپنا طرز تحریر بنایا ھوا تھا اور ان لوگوں کو ریاضی میں بھی عبور حاصل تھا تاریخدانوں کے مطابق ان اھراموں میں بھت سے راز پوشیدہ ہیں۔ اکثر قدیم اقوام میں اھرام کو بطور عبادت گاہ استعمال کیا جاتا تھا۔
سب سے بڑا اہرام خوفو یا چیوپس نامی فرعون نے تعمیر کرایا۔ غزہ کہ یہ اہرام قاہرہ سے دس میل دور ہیں۔ نپولین کے ماہرین نے کہا تھا کہ ان تینوں اہراموں کے پتھروں کو استعمال کرکے پورے فرانس کے گرد دس فٹ اونچی اور ایک فٹ چوڑی دیوار تعمیر کی جاسکتی ہے۔ اس سے تعمیر میں استعمال ہونے والے پتھروں کی جسامت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
خوفو ۴۷۰۰ ق م کا واحد مصری حکمران تھا جس نے پچاس برس حکومت کی۔ اس کہ ہرم کی خاص بات یہ ہے کہ یہ مکمل طور پر ٹھوس ہے۔ چھہ ھزار چھہ سو برس پرانی اس ساخت کی اتنی پائیدار اور مکمل نقل موجودہ دور میں بھی بنانا مشکل تصور کیا جاتا ہے۔ اوپر جاتے ہوئے پتھروں کا حجم کم ھوتا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ۴۸۱ فٹ کی بلندی پر صرف ایک سل دھرنے کی جگہ رہ جاتی ہے اہرام کی بیرونی طرف ایک زمانے تک ہموار اور چکنی تھی۔ لیکن بعد میں مکانوں کی تعمیر کے لیے ان خوبصورت پتھروں کو نکال لیا گیا۔یہ چونے کے پتھر تھے جو سورج کی روشنی میں خوب چمکتے تھے۔
اہرام میں جو پتھر استعمال ہوئے ان میں سے بعض تیس ٹن وزنی ہیں۔ اہرام کا مجموعی وزن 7 کڑوڑ ٹن ہے۔ ان وزنی سلوں کو جوڑنے کے لئے استعمال ھونے والا مسالہ اب تک نہیں بنایا جاسکا۔ کاریگروں نے اس خوبی سےسلوں کو جوڑا ہے کہ جوڑ دکہائی نہیں دیتا۔ اس اہرام کی کئی گز موٹی دیواروں میں بمشکل 0.0008 فیصد فرق پایا گیا ہے۔
کرینوں کے بغیر اتنی عمدہ تعمیر کیوں کرممکن ھوئی؟ھر پتھرکوسیٹ کرنےکےلیےاٹھانارکھنا باربار کس طرح ممکن ہوا؟
ہیروڈوٹس کا بیان تھا کہ ایک لاکھہ افراد ۲۰ برس تک مشقت کرتے رہے تب کہیں جاکر اہرام مکمل ہوا تھا۔ اتنے لوگ صحرا میں کھانا پینا کھاں سے حاصل کرتے تھے؟ ملکی معیشیت ایسا شاہی خرچ کس طرح برداشت کرتی تھی؟ کیا یہ لوگ غلام تھے
معلوم ھوا ہے کہ اہرام کی تعمیر غلاموں نے نہیں کی بلکہ وہ لوگ مزدور تھے، جنہیں گندم،لہسن اور دوسری اشیائے خوردنی کی شکل میں مزدوری دی جاتی تھی۔ جنانچہ ۱۹۷۱ میں آکسفورڈ کے ڈاکٹر کرٹ نے نظریہ پیش کیا کہ در حقیقت سیلاب کے زمانے میں بے روزگار مصریوں کو مصروف رکھنے کی خاطر یہ عمارت تعمیر کرائی گئی تاکہ انہیں مفت خوری کی عادت نا پڑے اور یہ عوامی بہبود کا ایک ذریعہ بنا رہے۔
جدید دور میں انسان معلومات اور یادگار اشیأ کو دھاتی بکسوں میں بند کرکے زمین میں دفن کردیتے ہیں تاکہ اگلی نسلیں انہیں کھود کر دریافت کرلیں اور اپنے اجداد کی ترقی سے اگاہ رہیں۔ ایسے بکسوں کو ٹائم کیپسول کہا جاتا ہے۔ بعض ماہرین غزہ کے اہرام کو بھی ایک ٹائم کیپسول کہتے رہے ہیں۔ جو قدیم تہذیبوں کے سنگم پر کھڑا آنے والے لوگوں کو ماضی کے مالکوں کی حیرت انگیز بصیرت کا احوال سناتا ہے۔
کیا قدیم انسانوں کے ذہن میں اجتماعی طور پر اہرام کی پراسرار شکل میں کوئی خاص اہمیت تھی؟