شہر میں طوفانی بارش کے بعد ہر طرف پانی ہی پانی نظر آرہا ہے۔ ہزاروں گاڑیاں سڑکوں پر بند کھڑی ہیں اور لاکھوں لوگ کام سے گھر واپسی پر ٹریفک میں پھنسے ہیں۔ میں ایم اے جناح روڈ سے ہوتا پیدل دکان پہنچا اور کس طرح پہنچا یہ بیان سے باہر ہے۔ ہر طرف افراتفری کا عالم تھا گرچہ بارش تھم چکی تھی مگر اسقدر پانی سڑکوں پر کھڑا ہوگیا ہے کہ زیادہ تر گاڑیاں بند ہوجاتی ہیں اور یوں ٹریفک اور جام ہوجاتا ہے۔ سینکڑوں لوگ پیدل اپنی اپنی منزلوں پر جارہے تھے۔ ہماری دکان کے اردگرد اتنا پانی کھڑا ہے کہ لگتا ہے کوئی دریا ہے۔ لہریں اچھل اچھل کر دکان کے اندر تک آرہی ہیں۔ دکان ہم نے بند کردی اور کامران کی موٹرسائیکل اور ہمارے پڑوسی دکاندار کی موٹرسائیکل دکان کے اندر کھڑی کرکے گھر روانہ ہوئے۔ دونوں بھائی پیدل پیدل ہزاروں مصیبت زدہ لوگوں میں ہم دو اور۔
سڑکوں پر لوگ موبائل فون لئیے اپنے اپنے گھروں پر صورتحال کی اطلاع دے رہے ہیں۔ ہماری دکان سے آگے موڑ پر ٹوٹل کا بڑا پٹرول پمپ ہے جس کے وسیع عریض احاطے میں گاڑیاں ہی گاڑیاں۔ جس کسی کو جہاں کہیں پانی کم نظر آرہا ہے وہ وہیں اپنی گاڑی کھڑی کرکے گھر جانے کی فکر کررہے ہیں۔صورتحال بہت سنگین ہے۔ گرچہ شہر میں پہلے سے ہی ایمرجنسی نافذ ہے اور ہمارے واپسی کے سفر پر شہری حکومت کا عملہ ایم اے جناح روڈ پر مستعد بھی نظر آیا مگر اس صورتحال کی شاید انہیں امید نہیں تھی۔ گھر پر ہمارے انٹرنیٹ اور ٹی وی کے کیبل دونوں بند پڑے ہیں اور اس وقت موڈیم سے انٹرنیٹ استعمال کررہا ہوں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اتنے طوفان کے بعد بھی آج نہ ہمارے گھر کی بجلی گئی اور نہ دکان کی۔ ہوسکتا ہے تھوڑی دیر بعد چلی جائے۔