ایک دن کا شو

متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے تحریک کی قیادت سے دستبرداری کا اعلان کرکے واپس لے لیا ہے۔ الطاف حسین شاید اسٹار پلس کے ڈراموں سے بہت متاثر ہیں۔ ان ڈراموں میں جب کہانی انتہائی گھسے پٹے موڑ پر آجاتی ہے تو ناظرین کی دلچسپی کی خاطر اس میں کوئی غیر متوقع مسالہ ڈالا جاتا ہے۔ مگر ظاہر ہے الطاف حسین کوئی ایکتا کپور تو ہیں نہیں، اسلئے ان کی اس کوشش سے شائقین کوئی خاص لطف اندوز نہ ہوسکے۔ ایک تو یہ اعلان قاضی کے ایم ایم اے کی قیادت سے دستبرداری کے اشارے کے فورا بعد نہیں کیا جانا چاہئے تھا دوسرا یہ الطاف حسین کو اعلان واپس لینے میں کوئی دو چار دن کا وقت تو لگانا چاہئے تھا۔ الطاف بھائی کو چاہئے کہ وہ اس سلسلے میں مجھے اپنا مشیر مقرر کرلیں۔ سننے میں آیا ہے کہ نائن زیرو پر موجود کارکنان الطاف حسین کے خطاب سے پہلے ایک دوسرے سے گلے مل مل کر روتے بھی رہے۔ یہ مناظر اور کارکنوں کا "نہیں! نہیں!” بھی ٹی وی پر ضرور نشر ہونا چاہئے تھا۔ اس سے ایک کمزور پلاٹ کو اچھا اینٹی کلائمکس مل جاتا۔

مخالفین کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم کو ڈر ہے کہ اس کی خراب کارکردگی کے سبب کراچی میں اس کے ووٹ بینک پر بہت برا اثر پڑا ہے، اس لئے الطاف حسین حکومت سے علیحدگی چاہتے ہیں تاکہ اپوزیشن کی سیاست کرکے مڈل کلاس ووٹر کا دل جیتا جا سکے، مگر پارٹی کے سرکردہ وزراء اور ارکان اس کے خلاف ہیں۔ کرپشن کے حوالے سے بھی شکایت بڑھتی جارہی ہیں اور ایم کیو ایم کے ذمہ داران ووٹر سے دور تر ہوتے چلے جارہے ہیں۔ الطاف کا یہ شکوہ بھی درست ہے کہ یہ سرکردہ اراکین جاگیردارانہ اور وڈیرانہ رویہ اختیار کرتے جارہے ہیں۔ اختیارات کے ناجائز استعمال، خراب کارکردگی سے ایم کیو ایم کا ووٹ بینک ٹوٹ رہا ہے۔ متحدہ کے سیکٹر انچارج، تنظیمی ذمہ داران، شہری حکومت کے نمائندے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کام میں دخل اندازی کررہے ہیں، تنظیمی نظم و ضبط انتشار کا شکار ہے۔ قربانیاں دینے والے کارکنان کو سرکاری ملازمتوں کے ذریعے نوازا نہیں جارہا۔ صرف وزراء اور مشیران مال بٹور رہے ہیں۔ یہ تو واقعی افسوس کی بات ہے، آخر کب تک یہ کارکن گلی محلوں میں اسلحے کی نمائش کرتے اور بھرم بازی کرتے جی بہلاتے رہیں گے، ان کے بھی تو پیچھے کھانے والے بیٹھے ہیں۔

لیکن سوال یہ ہے کہ اگر مڈل کلاس اردو بولنے والا طبقہ ایم کیو ایم کو ووٹ نہیں دے گا تو کس کو دے گا؟ جماعت اسلامی اس ٹوٹے ہوئے ووٹ کی مضبوط ترین دعویدار ہے۔ اور آرمی کی حمایت یافتہ ہونے کے سبب جماعت اسلامی کو یہ ووٹ حاصل کرلینے میں زیادہ دشواری بھی نہیں ہوگی۔ حالانکہ پیپلز پارٹی کا سیکولر لبادہ بھی پرکشش ہے، مگر مجھے نہیں لگتا کہ لوگ انہیں ووٹ دیں گے۔ اسلام آباد سے تو ایسے صاف اشارے مل رہے ہیں کہ اگلے الیکشن میں کم از کم سندھ کی حد تک تو پیپلز پارٹی کو حکومت بنانے دی جائیگی اور اگر کراچی میں متحدہ کی نشستیں جماعت توڑ دیتی ہے تو وفاق اور سندھ میں متحدہ کی بارگیننگ پوزیشن کافی کمزور ہوجائیگی۔ اسی بات کی طرف اشارہ پیر پگارا نے بھی کیا ہے۔

متحدہ کے پاس وقت بہت کم، اور جوڑ توڑ کے مواقع اس سے بھی کم ہوتے جارہے ہیں۔ انہیں سوچنا ہوگا کہ وہ کس طرف جانا چاہتے ہیں۔ اگر وہ اقتدار کی راہ لیتے ہیں تو وہ ان کو نہ دینے کا فیصلہ ہوچکا ہے، اور اگر اپوزیشن کی راہ لیتے ہیں تو رہے سہے ووٹ بھی کھودیں گے۔ کیونکہ عوام استحکام اور معاشی ترقی کے حق میں ہیں۔