پاکستان کا عالمی آؤٹ سورسنگ میں حصہ۔ جناب مرزا اختیار بیگ کا مضمون نہایت عمدہ ہے اور تجاویز پرخلوص ہیں۔ مگر میں جب اپنے ذہن میں ان تجاویز کو عملی جامہ پہنانے کو کی جانیوالی کوششوں کو دیکھتا ہوں تو لگتا ہے کہ یہ پاکستان میں قابل عمل نہیں اور ہوسکتا ہے ان کے کچھ الٹے منفی اثرات بھی ہوں۔
چین اور بھارت کی تیزی سے ابھرتی معیشت کو دیکھ کر آجکل ہمارے دانشور، ارباب اختیار کو یہ مشورے دیتے نہیں تھکتے کہ ہمیں بھی خدمات کی آؤٹ سورسنگ پر خصوصی توجہ دینی چاہئے۔ اس بات کو تسلیم کرنے میں انکار نہیں کہ یورپی اور شمالی امریکی منڈیوں کے مقابلے میں ہمارے پاس سستی لیبر موجود ہے۔ مگر یہ بات تسلیم کرنے میں مجھے عار محسوس ہوتا ہے کہ اس کام کو انجام دینے کے لئے ہمارے پاس ہنرمند افرادی قوت بھی موجود ہے۔
متذکرہ بالا مضمون میں جناب اختیار بیگ خیال ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان کو امریکی میڈیکل شعبے کے آؤٹ سورس کرے جانے سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ لیکن میرا خیال ہے کہ ہمیں اس کو بالکل نظرانداز کردینا چاہئے۔ کیونکہ ایک تو پاکستان میں میڈیکل کے شعبے میں افرادی قوت نہ تو اتنی ہنرمند ہے اور نہ ہی اتنی بڑی تعداد میں دستیاب ہے کہ ہم مقامی طور پر فراہم کی جانیوالی خدمات کے ساتھ ساتھ اپنی خدمات باہر بھی بیچ سکیں۔ تعلیم کی حالت ہمارے ملک میں دگرگوں ہے یہ پالیسی انتہائی غلط ہوگی کہ ہم اپنے نوجوانوں کو چھ چھ مہینے کی ٹریننگ فراہم کرکے انہیں میڈیکل ٹرانسکرپشن، تشخیص، ریکارڈ کیپنگ اور کال سینٹرز جیسے کام میں لگادیں، بجائے اس کے کہ ہم اعلی تحقیقی دماغ رکھنے والے طالبعلم تیار کریں۔ یقینا چھ مہینے کی ٹریننگ کے عوض پاکستان میں غیر ملکی زرمبادلہ بھی آئے گا لیکن کیا غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر حاصل کرنے کے لئے ہم اپنے ملک کی افرادی قوت کو مشینی کام انجام دینے پر لگادیں۔
اس کے بجائے پاکستان میں کمپیوٹر اور انجینئرنگ کی اعلی تعلیم کو عام کرنا زیادہ مفید ثابت ہوگا۔ بھارت اور چین کی ترقی کے پیچھے کمپیوٹر اور اطلاعاتی ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور بزنس مینیجمنٹ میں بڑی تعداد میں اعلی تعلیم یافتہ ورک فورس کا موجود ہونا ایک انتہائی اہم عامل ہے جسے ہمارے پاکستانی معیشت دان بالکل نظرانداز کردیتے ہیں۔ اطلاعاتی ٹیکنالوجی یا آؤٹ سورسنگ کے کسی اور شعبے میں چھ مہینے یا سال بھر کے کورس کروا کر ہم درحقیقت اپنی افرادی قوت کو ضائع کردیں گے کیونکہ ایک تو ہم یہ کام بھارت اور چین سے کم نرخ اور بہتر کوالٹی پر انجام دینے سے قاصر ہونگے دوسرا یہ کہ ہم مقامی طور پر ٹیکنالوجی کو ترقی دینے کے بجائے اس کو صرف استعمال کرنے والوں کی کھیپ تیار کردیں گے۔ اس ٹیکنالوجی کا استعمال جیسے ہی زیادہ سے زیادہ ہوگا ویسے ہی ہم لائسنس، سرٹیفیکیشن اور دیگر مدوں میں قیمتی ملکی زرمبادلہ انہی ملکوں کو واپس بھیجنے لگیں گے جنہیں ہم خدمات فراہم کررہے ہیں۔
اطلاعاتی ٹیکنالوجی سمیت کسی بھی شعبے میں اعلی تعلیم یافتہ افرادی قوت تیار کرنا پاکستان کا اصل مقصد ہونا چاہئے۔ آؤٹ سورسنگ کی دنیا میں آب تب ہی بھارت یا چین کے نقش قدم پر چل سکتے ہیں۔ ورنہ کوا ہنس کی چال چلنے میں اپنی سے بھی جائے گا۔