آپ نے بی بی سی اردو پر بےنظیر بھٹو کی کتاب دختر مشرق کے نئے ایڈیشن کی بابت تو پڑھ ہی لیا ہوگا۔ اس نئے باب میں محترمہ دنیا کے موجودہ حالات، دہشت گردی اور پاکستان میں آمریت پر بات کرتی ہیں۔ مگر بدقسمتی سے پاکستانی عوام کو ان ایشوز سے زیادہ دلچسپی ایم کیو ایم نامی سیاسی جماعت میں ہے۔ آجکل ہر ہیڈلائن جو ایم کیو ایم کے خونی ماضی سے متعلق ہو وہ ایڈیٹرز کی پسندیدہ ہوتی ہے۔ اس لئے ندیم سعید کے ریویو کا کیپشن اور سرخی اسطرح بنائی گئی ہے۔ میں سوچ رہا ہوں کہ اپنے بلاگ کو غیر معمولی مقبولیت اور تبصرہ جات کو دوام دینے کے لئے ایم کیو ایم پر کوئی چار چھ پوسٹس لکھ ڈالوں۔ مجھے امید ہے اس سے جذبات کا ایک طوفان میرے بلاگ کی سمت دوڑا چلا آئے گا۔
لسانیت، چھوٹے صوبوں کا احساس محرومی، لسانی اور قوم پرست تحریکیں۔ یہ سب میڈیا کے لئے بڑی قابل منافع چیزیں ہیں کیونکہ یہ پاکستانی عوام کو بہت متاثر کرتی ہیں۔ لسانیت اور قوم پرستی کا ذکر چھیڑیں تو ہر کوئی سقراط بقراط بنا آدھمکتا ہے۔ پاکستانیوں کو اس بات کی بہت فکر رہتی ہے کہ کہیں کسی لسانی تنظیم یا قوم پرست تنظیم کے ہاتھوں اسی تنظیم کی زبان اور قوم کے لوگوں کا خون ناحق نہ بہہ پائے۔ تاہم اس فکر کے علاوہ باقی ماندہ پاکستان کی انہیں ایسی کوئی خاص تشویش نہیں ہوتی۔ ہر کوئی اپنی ہی مستی میں مست اور دوسروں کی مستی سے شاکی ہے۔
خون ناحق بہا افسوس صد افسوس۔ مگر اس کے بعد جو ایم کیو ایم کی ہا ہا کار مچی ہے تو سارے پرانے رجسٹر کھل گئے ہیں اور ہمارے دوست ڈرامہ کنگ اظہر الحق صاحب نے اسکا خوب بیان کیا۔ ویسے اظہر کے ڈائیلاگ اگر آپ پڑھیں تو افسوس ہوتا ہے کہ کیسے کیسے آغا حشر تلاش معاش میں صحرائے بے رونق کا شکار ہوگئے۔
ایسی ہی ہماری محترمہ بی بی بینظیر ہیں۔ اگر سیاست کی دشت نوردی اور پاکستان کی مجبور اور لاچار بھوکی ننگی عوام کا درد دل میں نہ ہوتا تو محترمہ کیمبرج میں پروفیسر ہوتیں۔ میں سوچ رہا ہوں دختر مشرق کی سوانح پڑھ ہی لوں۔ ہم پاکستانی بھلے اچھے انسان نہ ہوں مگر کوئی بھی اسٹیج ہو، کبھی بھی ہمیں کال کریں ہم ہر کردار اچھی طرح ادا کرسکتے ہیں۔ سیاستدان کا کردار، عوام کا کردار، جج کا کردار، وکیل کا کردار، فوجی کا کردار یا لبرل سیکولر جمہوریت پسند آدرشی کا کردار۔ ڈائیلاگ ڈیلیوری میں ہمارا جواب نہیں، اداکاری میں ہمارا کوئی ثانی نہیں اور ہر صورتحال میں موقع دیکھ کر رنگ بدلنے میں ہم بےنظیر ہیں۔