آسمان ابھی بھی بادلوں سے ڈھکا ہے اور کسی بھی لمحے برسنے کو ہے۔ ہر طرف سیلاب اور طوفان کے چرچے ہیں اور استغفار کی استدعائیں ہیں۔ کوئی بڑے بڑے سائن بورڈز پر ٹنگی حسینوں کی تصاویر کو قہر الہی کا موجب بتا رہا ہے، تو کوئی حکمرانوں کے اعمال بد کو۔ شہر میں بڑے پیمانے پر فوج اور رینجرز کی گاڑیاں نظر آرہی ہیں۔ جیسے کچھ اور برا، کچھ بہت ہی برا ہونے والا ہو۔
ڈیم، نالے، ندیاں اور جھیلیں خطرے کی حدوں کو پھلانگ چکی ہیں۔ ادارے عوام کو تنبیہہ کرچکے ہیں، کہ گھروں میں رہیں بلاضرورت باہر نہ نکلیں۔ کیچڑ، اندھیرے، تعفن اور وبائی امراض میں گھرا یہ شہر افراتفری کا شکار ہونا چاہئے تھا۔ لوگوں کو خوفزدہ اور بے چین ہونا چاہئے اور انہیں خود سے یہ سوال کرنا چاہئے کہ وہ بھاگ کر کہاں جائیں گے۔ لیکن اس کے بجائے وہ ساحل پر بپھری موجوں کا نظارہ کرنے پہنچ رہے ہیں۔ کاروباری ادارے کھلے ہیں، گرچہ کام پر پہنچنا اور گھر لوٹنا ایک عذاب ہے مگر سڑکوں پر بدستور ٹریفک جام ہے۔ ہر کسی کو معلوم ہے کہ اس سے بھی برے حالات آسکتے ہیں۔ مگر کوئی زندگی کا معمول ذرا بھی بدلنے کو تیار نہیں۔ ناامیدی، خوف، شکایتیں اور بے بسی اپنی جگہ پر زندگی کا پہیہ تو چلتا رہتا ہے۔