کراچی میں اب تک پانچ مبینہ ڈاکوؤں کو زندہ جلایا جاچکا ہے جن میں سےچار ہلاک ہوچکے ہیں۔ کسی نے اسے معاشرے میں بڑھتے ہوئے تشدد کے رجحان کا اشارہ بتایا، کسی نے اسے عوام کی انتقامی کاروائی قرار دے دیا۔ جتنے لوگ اتنی باتیں۔ لیکن اس فعل کی حوصلہ افزائی کرنے والوں نے کیا یہ سوچا ہے کہ اسطرح جرائم کم ہونگے؟ نہیں، بلکہ اس سے ڈاکو خوفزدہ تو ضرور ہوجائیں گے اور ایک خوفزدہ ڈاکو جس کے ہاتھ میں گن ہو اور جسے یہ ڈر ہو کہ اگر پکڑا گیا تو زندہ نہیں بچے گا وہ کس قدر خطرناک ہوگا؟ یہاں تو موبائل چھیننے میں ذرا سی مزاحمت پر دھائیں سے گولی داغ دیتے ہیں۔
اس المیے کا ایک اور المناک پہلو اخبارات اور ٹیلیوژن کا اس کو کوریج دینا بھی تھا۔ دنیا کے اکثر مہذب ممالک میں ٹیلیوژن پر سوختہ لاشیں نہیں دکھائی جاتیں۔ یہاں ہمارا میڈیا لاشیں بھی دکھا رہا ہے، ان سے اٹھنے والے شعلے بھی اور ان کے گرد کھڑا ہوا مجمع بھی۔ دردناک امر یہ ہے کہ اس مجمعے میں آٹھ سے دس سال کے بچے بھی کھڑے ہیں۔ جو خوش ہیں اور تالیاں بجارہے ہیں۔ واقعی ہم لوگ غاروں کے دور کے وحشی انسان سے بھی بدتر ہوگئے ہیں جہالت اور بربریت میں دنیا اگر ہماری مثال دے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔
لیکن اس واقعے کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ جو اکثر اخبارات اپنی کاروباری اور سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے نظر انداز کردیتے ہیں۔ وہ ہے لیاری گینگ وار۔ پاکستان کے دیگر علاقوں میں رہنے والے شاید اس گینگ وار کے پس منظر سے اتنی اچھی طرح آگاہ نہ ہوں۔ خود مجھے بھی اس کا اتنا زیادہ علم نہیں ہے اس لئے کراچی کے بلاگرز سے درخواست ہے کہ وہ اس مسئلے کو انوسٹیگیٹ کریں اور اسے اپنے بلاگز پر نمایاں کریں۔
لیاری ایک بہت بڑا علاقہ ہے اور یہ کراچی کی قدیم ترین بستیوں پر مشتمل ہے۔ انگریزوں کے آنے سے پہلے یہاں وہ مکرانی لوگ رہتے تھے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ افریقہ کے غلاموں کی نسل ہیں جو کبھی بھاگ کر مکران کے ساحلوں پر پناہ گزیں ہوئی۔ بعد ازاں کچھی، سندھی، میمن قومیتوں نے بھی یہاں آبادیاں بنائیں۔ بلوچ بھی ایک بڑی تعداد میں یہاں رہتے ہیں۔ یہ علاقہ شہر کے پسماندہ ترین علاقوں میں سے ایک ہے۔ گرچہ ہر حکومت نے عموما اور پیپلز پارٹی کے ادوار میں خصوصا اس علاقے میں تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بڑی رقوم خرچ کی گئی ہیں لیکن یہاں کے لوگوں کی قسمت نہ بدلی۔ اسی کی دہائی میں جب پاکستان میں کلاشنکوف اور ہیروئن کلچر عام ہوا تو لیاری ہی وہ علاقہ تھا جو اسمگلنگ کا گڑھ بنا۔ آج بھی یہاں شراب چرس ہیروئن اور اسلحہ فروخت بھی ہوتا ہے بلکہ پورے پاکستان کو سپلائی بھی کیا جاتا ہے۔ پچھلی حکومت کے دور میں اس گینگ وار کا آغاز ہوا جب لیاری کے دو گینگ ایک دوسرے سے برسرپیکار ہوگئے۔ کہا جاتا ہے کہ پچھلی حکومت نے جرائم سے نمٹنے کے لئے ہندوستان کے شہر بمبئی کا آزمودہ نسخہ اپنایا۔ یعنی جرائم پیشہ افراد کو آپس میں لڑا کر انہیں ایک علاقے تک محدود کردیا جائے جہاں وہ ایک دوسرے سے لڑ بھڑ کر کمزور ہوجائیں۔
جب ان جرائم پیشہ افراد کا کاروبار آپسی لڑائی اور حکومت کی سختی کی وجہ سے کم ہوا تو ان کے معمولی کارندوں نے پورے شہر میں ڈکیتیوں، موبائل چھیننے اور کاریں و موٹر سائیکلیں چھیننے کو کاروبار بنالیا اور پورے شہر میں اسٹریٹ کرائم پھیل گئے۔ کہا جاتا ہے کہ ان میں سے ایک گروہ کو پچھلی حکومت کی سرپرستی حاصل تھی اور دوسرے گروہ کو موجودہ حکومت کے عناصر کی پشت پناہی حاصل ہے۔ اگر ایسا ہے تو گینگ وار مزید سنگین ہوجائیگی۔ جس سے شہر میں ڈکیتیوں اور سڑکوں پر ہونے والے جرائم میں مزید اضافہ ہوگا۔
چودہ مئی کو ڈاکوؤں کو جس علاقے میں جلایا گیا ہے وہ لیاری ہی میں لگتا ہے۔ لیاری کے جرائم پیشہ عناصر کے ٹھکانے لیاری سے باہر عثمان آباد اور رنچھوڑلائن تک پھیل چکے ہیں۔ ان علاقوں میں بھی منشیات کا کام عروج پر ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتا کہ شعیب سڈل ان مسائل سے کیسے نمٹیں گے۔ ان کے کیرئر پر نظر ڈالیں تو وہ جہاں گئے ہیں وہاں تشدد کی چنگاریوں نے مزید شعلے ہی بھڑکائے ہیں۔ کراچی اور بلوچستان اس کی دو مثالیں ہیں۔ جرائم سے بذریعہ سختی و تشدد نمٹنا اب ایک قدیم اور دنیا بھر میں متروک طریقہ سمجھا جاتا ہے۔ ان سے نمٹنے کے لئے ڈسپلن، ٹیکنالوجی اور عوامی بیداری ہی صحیح ہتھیار ہیں۔ میرے ایک دوست جو کراچی پولیس کے بڑے مداح ہیں وہ کہتے ہیں کہ کراچی کی پولیس پاکستان بھر میں کارکردگی کے لحاظ سے سب سے بہتر ہے۔ اور میں ہمیشہ ان کا مذاق اڑاتا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ کراچی پولیس کا طریقہ کار ابھی بھی وہی انگریز راج کا ہے جسے بدلنے کی ضرورت ہے، ٹیکنالوجی اور تنخواہوں میں دو سو فیصد اضافہ کرے بغیر ان کی کارکردگی میں مزید بہتری کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔